مولانا عبد القادر فیضؒ

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

مولانا سید عبد القدر فیض شمسی عرف اچھے میاں اب اس دنیا میں نہیں رہے، انہوں نے21/ دسمبر 2023ء برو زجمعرات بوقت صبح صادق تقریبا پینسٹھ سال کی عمر میں ہریش چند پور ضلع مالدہ مغربی بنگال میں اس دارفانی کو الوداع کیا، یہاں وہ حلقہ مریداں کی تربیت کے لیے گاہے گاہے فروکش ہوا کرتے تھے، جنازہ کدوا بلاک کٹیہار نستہ لایا گیا، وہاں بگھوا چوک مدرسہ کے احاطہ میں جنازہ کی نماز ان کے صاحب زادہ مولانا سید احمد مظاہری امام وخطیب جامع مسجد گورگاواں ضلع گڈا نے پڑھائی اور بگھوا باری قبرستان پوسٹ بارسوئی ضلع کٹیہار میں تدفین عمل میں آئی، یہاں مولانا کے والدین پہلے سے مدفون ہیں اور ان کے مریدوں کا خاندانی قبرستان ہے، یہ جگہ امارت شرعیہ کے کلداس پور دارالقضاء سے قریب ہے، اس گاؤں میں بھی مرحوم کے اہل خاندان اور رشتہ دار قبل سے آباد ہیں، اہلیہ سیدہ فیروزہ خاتون کا انتقال پہلے ہی ہوچکا تھا، پس ماندگان میں پانچ لڑکے سید محمد، مولانا سید احمد مظاہری، سید محمود، مولانا سید حامد، سید شاہد۔

مولانا سید عبد القادر فیض بن مولانا حفیظ الدین ندوی بن مولانا نجم الدین (م 17/ رمضان 1342ھ مطابق 1945ء) بن مرشد کامل حضرت مولانا سید شمس الدین صاحب لکھنوی (آمد۹۳۸۱، رخت ۷۹۸۱ء) گورگاواں ضلع گڈا میں پیدا ہوئے، سلسلہئ نسب چھبیسویں (26) پشت میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جاملتا ہے، اس طرح وہ ثابت النسب سید تھے، ابتدائی تعلیم اپنے والد مولانا قاری حکیم سید حفیظ الدین ندوی سے حاصل کرنے کے بعد مدرسہ شمسیہ گورگاواں میں داخلہ لیا اعلیٰ تعلیم کے لیے ندوۃ العلماء کا رخ کیا اورکئی سال یہاں رہ کر عا لمیت تک تعلیم پائی، البتہ فراغت کی نوبت نہیں آئی، ندوہ چھوڑ نے کے بعد انہوں نے مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ میں داخلہ لیا اور یہیں سے عالم فاضل کیا، میری معلومات کے مطابق انہوں نے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا ؒ پر تحقیقی مقالہ لکھا، اور ادارہ تحقیقات عربی فارسی پٹنہ میں کامل کی سند کے لیے پیش کیا، عصری تعلیم کی متوجہ ہوئے، پٹنہ یورنیورسٹی سے بی اے تک تعلیم پائی، ملازمتیں بہت ملیں؛ لیکن اس پابندی کے وہ متحمل نہیں رہے، مدرسہ شمسیہ گورگاواں کے ذمہ داروں نے بھی دباؤ بنایا، لیکن وہ قید وبند کی زندگی پسند نہیں کرتے تھے، مزاج صوفیانہ جو خاندانی طور پر ورثہ میں انہیں ملا تھا، اس لیے ایک جگہ قرار نہیں تھا، سلسلہ قادریہ عزیزیہ تھا، مولانا عبدالقادر اپنے والد سید شاہ حفیظ الدین سے بیعت تھے اور ان کے پیر سید شاہ عبد العزیزؒ شاہی مسجد مشائخ چک بھاگل پور (م 1279ھ) تھے، سلسلہ قادریہ عزیزیہ تھا، اس سلسلہ کی جو تعلیمات مولانا کے شجرہ نسب اور شجرہ طریقت پر مرقوم ہے اس میں فجر سے پہلے دو سو مرتبہ استغفر اللہ الذی لاالٰہ الا ھو الحی القیوم واتوب علیہ، بعد نماز فجر تین سو مرتبہ کلمہ طیب اور بعد نماز عشاء پانچ سو مرتبہ درود شریف ”اللّٰھم صلی علی محمد النبی الامي واٰلہ واصحابہ وسلم“ شامل ہیں، اس سلسلہ میں خصوصی طورپر ارکان اربعہ کی پابندی اور عقائد موافق اہل سنت والجماعت (شیعہ نہیں) رکھنے کے ساتھ شریعت پر عامل رہنے کے لیے توفیق کی دعا پر بھی زور دیا گیا ہے، مریدوں کی تربیت کے لیے مستقل سفر کرتے، کچھ دنوں اپنے والد کی خانقاہ سے منسلک رہے، پھر اپنے خالو ڈاکٹر شرف الدین صاحب کے مدرسہ نستہ کدوا کٹیہار کو اپنا مستقر بنایا، شادی مولانا خصال الدین استاذ معہد ندوۃ العلماء بن سید شاہ مولانا جلال الدین کی صاحب زادی سے ہوئی تھی۔

مولانا عبد القادر انتہائی خوب رو اور عربی فارسی اور اردو زبان وادب پر گہری اور غیر معمولی نظر رکھنے والے عالم تھے، دوسرے صوفیاء سے ان کا مزاج اس اعتبار سے الگ تھا کہ وہ گفتگو طویل کرتے اور اس حد تک کہ اگر عقیدت مند نہ ہو تو فون کاٹ دے۔
مولانا سے میری ملاقات ان کے شمس الہدیٰ قیام کے زمانہ سے تھی، جب کبھی مدرسہ شمس الہدیٰ جانا ہوتا تو ان سے ملاقات ضرور ہوتی اور وہ اپنے خیالات ونظریات اور علمی انکشافات سے میرے علم میں اضافہ کرتے، بعد کے دنوں میں بھی گاہے گاہے کسی کا فون نمبر لینے یا اپنے مریدوں سے متعلق کسی کام میں میری معاونت کی ضرورت ہوتی تو بھی فون کرتے اور دیر تک مختلف مسائل پر ان کی گل افشانی
گفتار سے مستفیض ہونے کا موقع ملتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں