أساتذة دار العلوم و أسانيدهم في الحديث (اشاعت دوم)

محمد معاذ لاہوری عفی عنہ جامعہ مدنیہ کریم پارک لاہور

برصغیر پاک و ہند میں کتب حدیث کے نصاب میں نشاءۃ ثانیہ کا سہرا حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کے سر جاتا ہے، حضرت شاہ صاحب حرمین شریفین سے صحاح ستہ، موطا امام مالک، موطا امام محمد، مشکوۃ شریف اور دیگر کتب حدیث کا سماع اسناد متصلہ کے ساتھ حاصل کرکے تشریف لائے، آپ نے کتب حدیث کو اسناد متصلہ ہی کے انداز میں رائج کیا، شاہ صاحب کے عطا فرمودہ دریافت اجازت ناموں کے مطابق طالب علم نے کتب حدیث میں سے جن کتب کا سماع یا قراءت کی ہوتی اس کی وضاحت کے ساتھ دیگر کتب کی اجازت مرحمت فرمادی جاتی تھی، حضرت شاہ صاحب کے درس کا یہ سلسلہ شخصی تھا؛ یعنی ایک ہی استاذ مکمل کتب حدیث پڑھاتا تھا، درس حدیث کی شخصی درس گاہوں میں مدرسہ رحیمیہ کے بعد ان حضرات کا عمومی تذکرہ ملتا ہے؛
حضرت شاہ عبدالغنی مجددی (خانقاہ مظہریہ دہلی)
حضرت مولانا قاری عبدالرحمٰن پانی پتی
حضرت مولانا نواب قطب الدین دہلوی
حضرت مولانا احمد علی محدث سہارنپوری
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی
حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی
حضرت مولانا نذیر حسین دہلوی
وغیرہم
درس حدیث کے یہ شخصی سلسلے مدارس کے مروجہ نظام کے بعد بھی قائم رہے، دارالعلوم دیوبند اور مظاہر علوم سہارنپور کی بنا 1283 ہجری میں ہوئی، ان اداروں کی ابتدا ہی سے کتب حدیث پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ جاری ہوا، مگر اتنی تبدیلی کے ساتھ کہ کتب حدیث کا درس ایک استاذ کے بجائے متعدد اساتذہ کے سپرد کیا جاتا، دارالعلوم دیوبند میں حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی اور حضرت مولانا ملا محمود دیوبندی اولین مدرس حدیث تھے، فراغت کے بعد شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی 1292 میں مدرس مقرر ہوئے، تو تدریس کے اگلے ہی سال 94-1293 میں آپ کو بھی درس حدیث میں شامل کرلیا گیا، چنانچہ اس سال آپ نے ترمذی شریف اور مشکوۃ شریف پڑھائیں، اساتذہ میں اضافہ ہوا تو مولانا عبدالعلی میرٹھی کو بھی درس حدیث میں شامل کیا گیا، الخ۔۔۔۔۔۔
اس تفصیل کے ذکر کرنے کی غرض ایک محاورہ (دیوبندی محاورہ) کی وضاحت ہے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ فضلاء دارالعلوم دیوبند میں یہ رواج رہا ہے کہ سند جس مرضی کتاب کی ذکر کی جارہی ہو اس میں اپنے استاذ کے بجائے اپنے زمانے کے صدر مدرس کا نام ذکر کیا جاتا تھا، بعد کے ادوار میں اتنی تبدیلی ہوئی کہ اپنے اس کتاب کے استاذ کا نام تو بیان کیا جانے لگا مگر اس سے اوپر صدر مدرس ہی کا تذکرہ ہوتا، چنانچہ دارالعلوم کی اسناد میں عموما شیخ الہند ہی کا تذکرہ پایا جاتا ہے، سند حدیث کا یہ انداز اجازتا تو یقینا درست ہے مگر قراءتا درست نہیں، کیونکہ دارالعلوم میں کتب حدیث کے اساتذہ متعدد رہے ہیں، راقم کے خیال میں صرف صدر مدرس ہی کا نام ذکر کرنا اس استاذ کے ساتھ نا انصافی ہے جس نے سارا سال محنت کرکے حدیث کی کتاب پڑھائی، مگر جب اس کتاب کی سند کے ذکر کے ساتھ نیک نامی کا وقت آیا تو یہ سعادت کسی اور کو سونپ دی گئی، اس کی سب سے بڑی مثال مولانا محمد ابراہیم بلیاوی کی سند مسلم ہے، علامہ بلیاوی نے دارالعلوم دیوبند میں مسلم شریف قریبا 35 سال پڑھائی، اس سند کو یوں بیان کیا جاتا ہے؛
"العلامة محمد ابراهيم البلياوي عن شيخ الهند…………الخ”
حالانکہ درست سند یہ ہے؛
"العلامة محمد ابراهيم البلياوي عن الشيخ حكيم محمد حسن الديوبندي شقيق شيخ الهند قراءة وهو عن الامام الرباني الشيخ رشيد احمد الكنكوهي”
یہ ایک حقیقت ہے کہ دیوبند میں صدر مدرس کبھی تمام کتب نہیں پڑھاتا تھا، بلکہ کتب حدیث تقسیم ہوتی تھیں، ایسا تو ہوا ہے کہ تین یا چار کتب صدر مدرس کے پاس ہوئی ہوں مگر مکمل کتب حدیث ہوئی ہوں اس کی مثال ابھی تک تو ملی نہیں، مزید کچھ کہ نہیں سکتے۔
دارالعلوم دیوبند میں سند حدیث اس انداز سے بیان کرنے کا یہ جمود اب تک رہا ہے، مگر دیر آید درست آید کے تحت اب وہاں بھی ذکر سند میں قراءت کا التزام ہونے لگا ہے۔
ہمارے کرم فرما اور دارالعلوم دیوبند کے فضلاء مولانا عبداللہ شیر خان اسلمی سہارنپوری اور مولانا محمد تسلیم مظفر نگری ہمارے شکریہ کے خصوصی طور پر مستحق ہیں، کیونکہ وہ دارالعلوم دیوبند کے اس جمود کو توڑنے کا سبب بنے۔
عزیزان نے سال گزشتہ اپنے دورۂ حدیث کے سال 44-1443 ہجری میں اس کام کا بیڑا اٹھایا اور حتی المقدور اپنے اساتذہ کرام کی معلومات کو شخصا شخصا جمع کیا، پھر اس کا دارالعلوم کے ریکارڈ سے موازنہ کرکے پیش آمدہ تعارض کو رفع کیا، اس سے اوپر کی اسناد کو جہاں تک انھیں محافظ خانہ دارالعلوم دیوبند سے معلومات مہیا ہوسکیں انھیں قراءتا درج کیا، مگر مشکل یہ درپیش تھی کہ محافظ خانہ میں مکمل ریکارڈ محفوظ نہیں تھا۔
کتاب اپنی مفید معلومات کے ساتھ سال گزشتہ کے آخر میں "اساتذة دارالعلوم و اسانيدهم فى الحديث” کے نام سے دارالعلوم دیوبند ہی سے طبع ہوئی اور قبول عالم حاصل کرگئی، طباعت پر مطلع ہوتے ہی راقم کتاب کی جستجو میں سرگرداں ہوا، الحمد للہ مرتب محترم مولانا عبداللہ شیر خان زید مجدہم کے توسط سے کتاب مہیا ہوگئی۔
ملاحظہ کے بعد اپنی معلومات کی حد تک کچھ عرض معروض کی جسے دونوں عزیزوں نے حوالوں کی جانچ پڑتال کے بعد قبول کیا، جن سالوں میں معلومات مہیا نہ ہوسکنے پر قیاس کیا گیا تھا، اس کی وجوہ ترجیح بھی ذکر کیں، عزیزان نے ان کو بھی جانچ کے بعد قبول کیا، یوں مخمل میں ٹاٹ کا پیوند لگا کر راقم کو بھی اس کتاب کی نشاءۃ ثانیہ میں شریک ہونے کا شرف حاصل ہوا۔
نقش ثانی میں عزیزان کو پہلے سے بھی زیادہ محنت کرنی پڑی جس کا ثمرۃ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کی اشاعت ثانی کی صورت میں دیا۔
دارالعلوم کے منتسبین کو چاہیے کہ وہ اس کتاب کو عام کرنے میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ اسناد حدیث بیان کرنے میں حق دار کو اس کا حق مل سکے۔

یہ بھی پڑھیں