اتراکھنڈ میں یو سی سی
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
7 فروری کو اتراکھنڈ اسمبلی میں بھاجپا نے یونی فارم سول کوڈ کو صوتی ووٹ سے پاس کرالیا، اس طرح آزادی کے بعد یو سی سی پر قانون بنانے والی وہ ہندوستان کی پہلی ریاست بن گئی ہے، گو اسے صرف اسمبلی سے پاس کروا نا کافی نہیں ہے کیوں کہ اس قسم کی قانون سازی کا حق مرکز کو ہے ریاستیں ان کے تابع ہیں، اس لیے اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ دھامی نے اسے صدر جمہوریہ کو بھیجنے اور ان کی منظوری کے بعد اسے نافذ کرنے کی بات کہی ہے، چونکہ اتراکھنڈ اور مرکز میں ایک ہی پارٹی کی حکومت ہے اس لیے توقع یہی ہے کہ اسے وہاں سے بھی ہری جھنڈی مل جائے گی۔
جیسا کہ میں پہلے بھی لکھتا رہا ہوں کہ اس قانون کی زد میں صرف اور صرف مسلمان ہیں، کیوں کہ دوسرے مذاہب کے پاس احکام الٰہی نہیں ہے، اس لیے وہ رسم ورواج، کسٹم، قبائلی روایات اور دیومالائی قصے کہانیوں کو دین کے طور پر تسلیم کرتے ہیں اور انہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا، کیوں کہ ان کی بنیادیں اللہ کے دین میں پیوست نہیں ہیں، اس قانون کی رو سے مرد وعورت دوسری شادی نہیں کر سکیں گے، شادی کا رجسٹریشن ضروری ہوگا، طلاق صرف عدالت کے ذریعہ ہی ممکن ہوگا، وہ بھی جب شادی کو ایک سال ہو چکے ہوں گے، لڑکے لڑکی کو ترکہ میں برابر حصہ ملے گا، منہہ بولے بیٹے بیٹی بھی ترکہ میں حقیقی اور نسبتی اولاد کی طرح حصہ پائیں گے، طلاق یا شوہر کے انتقال کے بعد عدت نہیں گذارنی ہوگی، رضامندی کے ساتھ لڑکے لڑکی ایک کمرے میں رہ سکیں گے، جسے اصطلاح میں ’’لیو ان ریلیشن شپ‘‘ کہا جاتا ہے، البتہ اس کا بھی رجسٹریشن ہوگا، بغیر رجسٹریشن کے رہنے پر چھ ماہ کی سزا ہوگی، ریلیشن شپ کے دوران جو بچے پیدا ہوں گے وہ بھی ترکہ کے مستحق ہوں گے، شادی سے متعلق تمام معاملات میں اگر خلاف ورزی کی جاتی ہے تو چھ ماہ کی سزا اور پچاس ہزار روپے تک جرمانہ ادا کرنا ہوگا، یہ اور اس قسم کے دوسرے دفعات شریعت اپلی کیشن ایکٹ 1937 کے خلاف ہیں، ان قوانین کو بناتے وقت دفعہ 25،/26 کے تحت دی گئی مذہبی آزادی کا بھی خیال نہیں رکھا گیا ہے، جب کہ اس قانون سے درج فہرست قبائل کو آئین کی دفعہ 366 کے باب 25 کی ذیلی دفعہ 342 کے تحت مستثنیٰ رکھا گیا ہے یعنی یہ قوانین اس پر لاگو نہیں ہوں گے، اس کا سیدھا مطلب ہے کہ یہ ہندو کوڈ ہے یونی فارم سول کوڈ نہیں، کیوں کہ اسے سب پر لاگو کرنے کے بجائے ایک خاص طبقہ کو اس سے الگ رکھا گیا ہے۔
مسلم پرنسل لا بورڈ نے اس قانون کو غیر مناسب اور نا قابل عمل قرار دیا ہے، یہی موقف ساری تنظیموں کا ہونا چاہیے اورمختلف مذہبی اکائیوں کو ساتھ لے کر اس قانون کے بے اثر اور غیر نافذ ہونے کے طریقہ کار پر غور کرنا چاہیے خصوصا حال میں سکھوں کے ذریعہ تشکیل نئی تنظیم سکھ پرسنل لا بورڈ کو ضرور ساتھ لینا چاہیے، یہ پہلا پتھر ہے جسے بھاجپا نے مذہبی اکائی کی درجہ حرارت ناپنے کے لیے پھینکا ہے، مرکزی حکومت یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ اس سے کتنا مد وجزر پیدا ہوتا ہے، اگر ہم نے اسے خاموشی سے برداشت کرلیا تو مرکزی حکومت کو اس سے حوصلہ ملے گا اور وہ پورے ملک میں اس کو نافذ کرنے کی کوشش کرے گی، جو یقینی طور پر کسی بھی حال میں ہمارے لیے قابل بر داشت نہیں ہوگا، ہم اس ملک کے اچھے شہری ہیں، امن وامان سے رہنا چاہتی ہیں اور دوسروں سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں، لیکن ہم اپنے اس عہد پر بھی قائم ہیں کہ ہم پہلے مسلمان ہیں بعد میں ہندوستانی، ہمارا ہندوستانی ہونا مذہب پر عمل کرنے سے نہیں روکتا، اس لیے ہم اس ملک میں فرائض واجبات، حلال تو بڑی چیز ہے، ہم یہاں اپنی چھوٹی چھوٹی سنتوں اورنوافل میں بھی رکاوٹ کو پسند نہیں کرتے، ہماری توانائی اس ملک کی ترقی، یک جہتی اور سالمیت کے لیے وقف ہے، لیکن ہمارا دل ودماغ اسلام کی تعلیمات سے کبھی بھی الگ نہیں ہو سکتا، کیوں کہ ہم اس ملک کے اچھے شہری ہونے کے ساتھ اچھے مسلمان بھی ہیں اورہم اپنے عقائد، قرآنی احکام اور نبوی ہدایات پر عمل کرنے سے روکنے کو ہندوستانی قانون اور دستور کے منافی سمجھتے ہیں۔