بر صغیر کا ایک قدیم اردو اخبار”پندرہ روزہ امارت / ہفت روزہ نقیب“
عہد بہ عہد تاریخی جائزہ
پوری دنیا کے اندر مختلف زبانوں میں اخبارات ورسائل شائع ہوتے ہیں،اپنے اپنے حلقہ میں سب مقبول ہیں اور اس زبان کے رشیا اسے پڑھتے بھی ہیں،برصغیر میں ایک کثیر تعداد ان لوگوں کی ہے جو اردو صحافت سے منسلک ہیں اور اس زبان میں ان کی تحریریں حالات حاضرہ،تاریخ،طب وسائنس اور اخبار زمانہ پر مشتمل اردو طبقہ تک پہونچتی ہے،لوگ اس زبان کو بھی پڑھتے ہیں اور اس میں موجود تہذیب اور شائستگی سے ہمکنار بھی ہوتے ہیں،اردواخبارات کی تاریخ بہت طویل تو نہیں؛لیکن جب سے اس زبان نے ہو ش سنبھالا ہے اس وقت سے اس نے اپنے حلقہ میں اپنی ایک الگ پہچان بنا لی ہے،اس زبان میں سب سے پہلے شائع اخبار کی تاریخ اگر تلاش کی جائے توپتہ یہ چلتا ہے کہ سب سے پہلے کولکاتا سے 1822ء میں ”جام جہاں نما“لالہ سدا سکھ کی ادارت میں شائع ہو ا،جس کے بانی ہری بردت تھے،اور یہ انگریزی تجارتی کوٹھی کی ملکیت تھی، ہاں!اس کے تمام صفحات اردو میں نہیں تھے بلکہ کچھ اردو اور کچھ فارسی زبان تھی،مکمل اردو زبان و تحریر میں اردو اخبار سب سے پہلے مولوی باقر نے دہلی سے ”اخبار دہلی“ کے نام سے شائع کیا،اس اخبار نے 1857ء کی جنگ میں بھی بڑا اہم کردار ادا کیا۔
صوبہ بہار میں اردو اخبار کی تاریخ 1853ء سے شروع ہوتی ہے،سب سے پہلے پٹنہ سے تقریباًترپن (53)کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع شہر”آرا“ سے سید خورشید احمد کی ادارت میں جولائی 1853 ء میں ایک اردو اخبار ”نورالانوار“کے نام سے شائع ہوا جس کے مالک سید محمد ہاشم بلگرامی تھے،اس کے بعد 1855ء میں ”پٹنہ ہرکارا“ اردو کاا خبار شائع ہوا،جس کے مالک شاہ ابو تراب تھے اور غالباً ایڈیٹر بھی اس اخبار کے شاہ ابو تراب ہی تھے:کیونکہ اخبار میں کہیں ایڈیٹر کا نام الگ سے درج نہیں ہے،اس کے بعد آزادی سے قبل تک اس زبان میں کئی اور اخبار شائع ہوئے،لیکن اب وہ سب نظروں سے غائب ہیں اور لائبریریوں کی زینت ہیں۔
بہار میں جب 26 /جون 1921ء میں مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد رحمۃ اللہ علیہ نے امارت شرعیہ کی بنیاد رکھی تو انہوں نے امارت کے مقاصد کو لوگوں تک پہونچانے کے لئے امارت شرعیہ کے قیام کے تین سال کے بعد ”جریدہ امارت“ کے نام سے ایک اخبار شائع کرنے کا فیصلہ کیا؛چنانچہ یکم محرم الحرام1343ھمطابق 3/اگست1924ء روز یکشنبہ کو اس کا پہلا شمارہ منظر عام پر آیا،اس کے سب سے پہلے مدیر نامور عالم دین اور صاحب قلم سید محمد عثمان غنی صاحب رحمۃ اللہ علیہتھے،اور پرنٹر پبلشر بھی وہی تھے، اس کی سالانہ قیمت (۔۔۔)اور ششماہی 12/آنہ طے کی گئی،فی شمارہ قیمت اس پر درج نہیں ہے،اس کے اول صفحہ پر اس اخبار کی اشاعت کا مقصد مدیر نے اس طرح لکھا ہے کہ”اس جریدہ کے اجراء کا مقصد وحید اسلامی خدمت ہے،اور حالات وضروریات وقت کے لحاط سے جن امور کی اشاعت ضروری ہوگی اور جن تعلیمات اسلامیہ کی تلقین وتعلیم عوام الناس کے لئے لابدی ہوگی وہ سب باتیں اس کے ذریعہ شائع ہوتی رہیں گی؛مگر ہمارے سامنے صرف شہری آبادی نہیں ہے؛بلکہ اسلامی آبادی کا وہ حصہ زیادہ تر ملحوظ ہے جو دیہاتوں میں آباد ہے اور نہایت کسمپرسی کی حالت میں تمام اسلامی تعلیمات سے بے بہرہ ہے۔۔الخ“۔ابتداء میں یہ اخبار پندرہ روزہ رہا اور اشاعت کی تاریخ ہر عربی مہینہ کی پہلی اور پندرہویں ہوتی تھی،آٹھ صفحہ پر مشتمل اس اخبار کو سید منظر علی ندوی کے اہتمام کے ساتھ برقی پریس،مرادپور،بانکی پور(پٹنہ) سے چھپواکر دفتر جریدہ ”امارت“ پھلواری شریف پٹنہ سے شائع کیا جاتا رہا۔
سید محمد عثمان غنی رحمۃ اللہ علیہ امارت شرعیہ میں بحیثیت مفتی کام کرنے کے ساتھ ساتھ صحافت کی اعلی صلاحیت کی بناء پر جریدہ ”امارت“ کی ادارت کی بھی مستقل ذمہ داری سنبھالتے تھے،یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان میں نت نئے انداز سے ہندوستانی انگریزوں سے نبر د آزما تھے، اور ان کے ظلم و ستم کے خلاف مسلسل اپنی تحریک چلا رہے تھے،جن کو جس زاویہ سے آزادی وطن کے لئے کام کرنے کا موقع ملا اس سے وہ پیچھے نہیں ہٹے،کسی نے ادارہ قائم کر کے نئی نسل تیار کرنے کی فکر کی،کسی نے قلم کو ہتھیار بنایا تو کسی نے انگریزوں کے خلاف میدان میں اتر کر سامنا کیا، کسی نے زبان کا سہارا لیا اور مجاہدین آزادی کے رگوں میں خون گرمانے کے لئے طرح طرح کے نعرے بلند کئے، سید محمد عثمان غنی ؒ نے قلم کے ذریعہ انگریزی سازشوں کے خلاف تحریریں لکھیں،چنانچہ انہوں نے 5/ذیقعدہ 1344ھ مطابق 18/مئی 1926ء کو جریدہ ”امارت“میں ایک اداریہ لکھا،جس کا عنوان ”حکومت اور مسلمان،نزلہ بر عضو ضعیف ریزد“تھا،اس تحریر کی بنیاد پر برطانوی حکومت نے مدیر کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کر لیا، جس میں ایک سال قید محض اورپانچ سو روپئے جرمانہ کی سزا سنائی گئی تھی،اس کے خلاف جب عدالت میں اپیل کی گئی تو جج نے پانچ سو روئپے جرمانہ برقرا رکھتے ہوئے گیارہویں دن جیل سے آپ کو رہا کردیا،بعد میں وہ جرمانہ بھی ادا کر دیا گیا؛لیکن حکومت نے اس شمارے کو ضبط کر لیا۔
دوسری مرتبہ اگست 1927 ء کو بتیا،مشرقی چمپارن(بہار)میں جب فساد برپا ہوا تو سید عثمان غنی صاحب ؒ نے اس موقع سے 20 / صفر 1346 ھ مطابق 19 / اگست 1927 ء کوجریدہ ”امارت“ میں ایک سخت اداریہ لکھاجس کے نتیجہ میں برطانوی حکومت نے مدیر کے خلاف دفعہ 153(الف) کے تحت مقدمہ درج کر لیا جس میں ایک ہزار روپئے جرمانہ اور ایک سال کی سزاتھی،حکومت نے اُس شمارے کوبھی ضبط کرلیا، بعد میں اس کیس کے خلاف اپیل کی گئی تو ایک انگریز ڈسٹرکٹ جج نے اپنے فیصلہ میں مدیر ”امارت“ کے شائع شدہ مضمون کو قانون کے مطابق اور اُس پر سزا دینے والے مجسٹریٹ کو جاہل اور ناسمجھ قرار دیتے ہوئے انہیں رہا کر دیا۔
تیسری مرتبہ 3/ جولائی 1933ء مطابق 9/ ربیع الاول 1352ھ روز سموارکو ”دینداری اور بے دینی“ کے عنوان سے ایک مقالہ افتتاحیہ لکھا جس کے نتیجہ میں گورنمنٹ بہار اڈیشہ نے پرنٹر پبلشر جریدہ”امارت“سے ایک ہزار کی گرانقدر ضمانت طلب کی جس کی عدم ادائیگی کی صورت میں جریدہ ”امارت“ بند ہو گیا۔
جریدہ ”امارت“چونکہ امارت شرعیہ کا ترجمان اخبار تھا جس کے ذریعہ ادارہ کی کارکردگی،ملک و ملت کی خبریں مسلمانوں تک پہونچتی تھیں،اس کے بند ہونے سے لوگوں میں بے چینی کی کیفیت پیدا ہوگئی؛چنانچہ اکابر امارت شرعیہ کے مشورہ سے 5/ ربیع الثانی1352ھ مطابق 29/ جولائی 1933ء کو دوبارہ اس اخبار کی اشاعت شروع کی گئی؛ لیکن اس کا نام جریدہ”امارت“ کے بجائے جریدہ ”نقیب“ رکھا گیا،اخبار پر مدیراور پرنٹر پبلشر کی حیثیت سے نام صفیرالحق ناصری کا چھپنے لگا؛لیکن عملاً مدیر اور پرنٹر پبلشر اب بھی سید عثمان غنی ؒ ہی تھے،اخبار آٹھ صفحات پر مشتمل تھا،اور تاریخ اشاعت ہر عربی ماہ کی پانچ اور بیس تاریخ ہوا کرتی تھی۔
ملک آزاد ہونے اور حالات میں تبدیلی آنے کے بعد جریدہ ”نقیب“ میں ایڈیٹر کی حیثیت سے محمد عثمانی آپ کا نام دوبارہ لکھا جانے لگا،5/ محرم الحرام 1371ھ مطابق 7/اکتوبر 1951ء کے شمارہ نمبر 1،جلد نمبر 20سے آپ کا نام مدیر مسؤل محمد عثمان غنیؒ،اور 5/محرم الحرام 1376ھ مطابق 13/اگست 1956ء کے شمارہ سے نقیب کے اول صفحہ پر آپ کا نام نگراں کی حیثیت سے درج ہے اور مدیر میں محمد عثمانی کا نام ہے؛5/ذیقعدہ 1376ھ مطابق 5/جون 1957 ء شمارہ نمبر 21، جلدنمبر 52 سے نگراں کا نام ہٹا دیا گیا،اور مدیر کی جگہ پر محمد عثمانی کا نام 25/جمادی الثانی1382ھ مطابق 24/نومبر 1962ء تک لکھا جاتا رہا۔24/مارچ 1957ء میں جب حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ صاحب رحمانی رحمۃ اللہ علیہ امیر شریعت منتخب ہوئے تو امارت شرعیہ کے بہت سارے شعبے اور کام میں توسیع ہوئی اور کام کا پھیلاؤ بھی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں بہت ہوا، اس جریدہ میں بھی کئی طرح کی تبدیلیاں ہوئیں،5/ جمادی الاولیٰ 1381ھ مطابق 16/ اکتوبر 1961ء جلد نمبر 2،شمارہ نمبر 8 سے پہلی مرتبہ جریدہ ”نقیب“ پندرہ روزہ کے بجائے ہفت روزہ ہوا،پھر درمیان میں کئی مرتبہ پندرہ روزہ اور ہفت روزہ چلتا رہا؛لیکن 16/جمادی الاولیٰ 1383ھ مطابق 5/ اکتوبر 1963 ء سے مستقل جریدہ ”نقیب‘‘ہفت روزہ ہوگیا اور وہ سلسلہ اب تک جاری ہے،اسی طرح 17/ رجب المرجب 1382 ھ مطابق15/ دسمبر 1942ء جلد نمبر 3،شمارہ نمبر 13 سے جریدہ”نقیب“ کے ایڈیٹرمولانا اصغر امام فلسفی صاحب مقرر ہوئے، ان کا تعلق ہندوستان کی جد وجہد آزادی اور تحریک علماء صادق پور سے تھا،ان کی فکرو نظر میں بڑی پختگی تھی،سیاسی وسماجی مسائل پر ان کی گہری نگاہ تھی،ملک کی آزادی میں بھی ان کا بڑا رول تھا اور اس سلسلہ میں انہیں قیدو بندکی صعوبتیں بھی جھیلنی پڑیں،ان کی ادارت کا سلسلہ 23/رجب المرجب 1378ھ مطابق 28/اکتوبر 1967ء تک رہا،جب اصغر امام فلسفی عظیم آبادی صاحب ہفت روزہ ”نقیب“کے مدیر تھے تو اس درمیان موجودہ امیر شریعت مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب دامت برکاتہم بھی اس جریدے کی ادارت کاکام سنبھالتے رہے،حضرت والا کی حق گوئی اور بے باکی جو ان کو ورثہ میں ملی ہے، اس کا اثر ان کی تحریروں میں صاف جھلکتی رہی اور انگریزی دور میں جس طرح مولانا عثمان غنی ؒ نے قیدو بند اور انگریزی حکومت کی سزا کی پرواہ کئے بغیر ڈٹ کر ان کی نا انصافیوں کو اجاگر کرنے کے لئے مضبوط طریقہ پر قلم اُٹھایا،اسی طرح ملک آزاد ہونے کے بعد جب برادران وطن نے ہندو احیاء پرستی کے زعم میں مختلف ہتکھنڈے اپنا کر مسلمانوں کا گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی اور جگہ جگہ فسادات کا سلسلہ شروع کیا تو امیر شریعت دامت برکاتہم نے ان کے خلاف سخت تحریریں لکھیں،اور وہ اس زمانے میں اپنے ہم عصروں کو بھی ان مظالم کے خلاف لکھنے پر آمادہ کرتے رہے،چنانچہ22/ اگست 1967ء کواردو زبان کی مخالفت کرتے ہوئے رانچی اور اس کے گردو نواح میں فساد کا سلسلہ شروع ہوااور اس میں کئی قیمتی جانیں گئیں،اس فساد کے بعد مسٹر جے پرکا ش نارائن نے کولکاتا میں ایک طویل بیان جاری کرتے ہوئے اس دل دہلانے والے فساد کی شدت کو کم کرنے کے لئے اسے محض لسانی فساد قرار دیا تھا،اس پر لوگوں نے سخت اعتراض جتلایاتھا،حضرت دامت برکاتہم نے دارالعلوم دیوبند کے استاذ حضرت مولانا انظر شاہ کشمیری ؒ کو اس کے متعلق ایک مضمون لکھنے کو کہا،انہوں نے سرودیہ لیڈر شری جے پرکاش نارائن کے اس بیان کے خلاف ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا”پوچھا جا سکتا ہے شری جے پرکاش نارائن سے“ یہ مضمون21 / اکتوبر 1967ء کے جریدہ”نقیب“ میں شائع ہوا،ایڈیٹر اصغر امام فلسفی صاحب کو حضرت والا کی ان تحریروں سے اور نقیب میں اس طرح کے سخت مضامین شائع ہونے سے خوف ہونے لگا؛کیونکہ بحیثیت ایڈیٹر اخبار پر انہیں کا نام تھا،انہوں نے حضرت امیر شریعت رابعؒ سے اس کا تذکرہ کیا کہ محمد ولی رحمانیؔ صاحب کی ان تحریر وں سے مجھے ڈرلگ رہا ہے،میں صاحب اولاد آدمی ہوں اس لئے یا تو انہیں اس سے روکیں یا پھر میں اس کام سے دستبردار ہوتا ہوں،امیر شریعت رابع ؒ نے حضرت دامت برکاتہم کو اس کام سے الگ کر کے جامعہ رحمانی مونگیر میں درس وتدریس کے لئے بھیج دیا،ساتھ ہی انہیں ہر ہفتہ نقیب کے لئے تحریریں بھیجنے کا بھی حکم فرمایا،حضرت دامت برکاتہم تحریریں تو بھیجتے رہے؛لیکن حالات کے اعتبار سے ان کا دل اس پر مطمئن نہیں ہوا کہ سنگھیوں کی ان حرکتوں پر خاموشی اور نرم گفتگو سے کام لیا جائے؛چنانچہ والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے انہوں نے اس کا تذکرہ کیا تو والد صاحبؒ نے حضرت دامت برکاتہم کو حکم دیا کہ اس کام کے لئے وہ کسی اچھے لکھنے والے کو تلاش کریں،حضرت والا نے والد محترم کے سامنے شاہد رام نگری صاحب کا نام پیش کیا،اور ان کی تحریریں انہیں دکھلائیں تو حضرت امیر شریعت رابع ؒ نے انہیں بلانے کا حکم دیا،اور 30/رجب المرجب 1387ھ مطابق 4/نومبر 1967ء سے جناب شاہد رام نگری جریدہ”نقیب“کے ایڈیٹربنائے گئے،شاہد رام نگری کا اصل نام سراج الدین تھا،رام نگر بنارس کے علمی خانوادہ سے ان کا تعلق تھا،اردو صحافت کے ایک مضبوط ستون تھے،انہوں نے ۲۵۹۱ ء میں روز نامہ ”ساتھی“ کی ادارت سے اپنی صحافت کا آغا ز کیا اور آخری دم تک ا ردو صحافت کی خدمت کرتے رہے،ان کی وفات 30/اکتوبر 1991ء کو ہوئی،ان کے انتقال کے بعد نقیب کی ادارت کی ذمہ داری اعزازی طور پر جناب محمود عالم صاحب کو دی گئی اور ان کے معاون خالد حسین صدیقی ہوا کرتے تھے،یہ سلسلہ تقریباً ایک سال تک رہا پھر 12/دسمبر 1992ء سے جناب سید عبدالرافع صاحب نے باضاباطہ طور پر اس کی ادارت کی ذمہ داری سنبھالی،سید عبدالرافع صاحب ریاست بہار کے ممتاز صحافی اور اردو کے منفرد اداریہ نگار تھے،ان کا مطالعہ بڑا وسیع تھا،اردو اور انگریزی کے قدیم وجدید فکری تاریخی اور ادبی کتا بوں پر ان کی بڑی گہری نگاہ تھی،انہوں نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز 1961ء میں کولکاتا کے مشہور روز نامہ ”آزاد ہند“ سے کیا،،ہفت روزہ”نقیب“امارت شرعیہ سے تقریباً24/ سالوں تک منسلک رہے،اس درمیان وہ دوسرے اخبارات کے لئے بھی لکھتے رہے،ان کا انتقال 12/ دسمبر 2015ء کو کھجور بنا،سلطان گنج پٹنہ میں واقع ان کی رہائش گاہ پر ہوا۔
30/ نومبر 1998 ء سے مولانا رضوان احمد ندوی صاحب کو سید عبدالرافع صاحب کے معاون کے طور پر کام کی ذمہ داری سونپی گئی اور ماشاء اللہ وہ اب بھی اس جریدہ کے لئے اپنی خدمات پو ری تندہی کے ساتھ انجام دے رہے ہیں،جب 2015ء میں سید عبدالر افع صاحب کا انتقال ہوا تو حضرت امیر شریعت مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی صاحب رحمانی دامت برکاتہم کے حکم سے نامور صاحب قلم اور کئی کتابوں کے مصنف امارت شرعیہ کے نائب ناظم مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب کو اس کی ادارت کی ذمہ داری سونپی گئی،28/ دسمبر 2015ء سے تا ہنوز اس کام کی ذمہ داری مفتی صاحب بحسن خوبی انجام دے رہے ہیں اور ان کو اس کام میں مولانا رضوان احمد ندوی صاحب کی معاونت حاصل ہے،اس جریدہ میں اب ظاہری و باطنی اعتبارسے بہت ساری تبدیلیاں ہوگئی ہیں، مثلاً اس کا کاغذ دیگر اخبارت کے مقابلہ بہت ہی عمدہ ہوتا ہے،اول وآخری صفحہ چار (Multi-Color)کلرمیں ہوتاہے،موقع بموقع اس کے صفحات کے ڈیزائن میں تبدیلیاں بھی ہوتی رہتی ہیں،حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم کی خصوصی توجہ اس جریدہ پر ہوتی ہے،وہ اس کے نوک وپلک کو درست کرنے، مضامین میں تنوع پیدا کرنے،اس کے معیار کو بلند کرنے اور اس کے ظاہر وباطن کو عمدہ سے عمدہ بنانے کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں۔
حضرت امیر شریعت رابع ؒ کے زمانہ میں دوسرا کام یہ ہوا کہ نقیب کے صفحات میں اضافہ کیا گیا،پہلے 3/جمادی الآخری 1387ھ مطابق 9/ ستمبر 1967ء سے نقیب کے صفحات میں اضافہ کر کے آٹھ کے بجائے 16/ صفحات کر دیئے گئے،اس وقت نقیب کا سالانہ زر تعاون چھ روپئے،اور فی پرچہ 12/ پیسہ تھا،اس وقت اس اضافہ کا اعلان نہیں کیا گیا تھا؛بلکہ ضرورتاً بڑھایا گیا تھا؛لیکن بعد میں ان صفحات کا بڑھانا ناگزیر سمجھا گیا اور 8/شعبان المعظم 1387ھ مطابق 11/نومبر1967ء سے نقیب کے صفحات میں اضافہ کر کے سولہ(16)کر دیا گیا،جس کا اعلان 28/ اکتوبر 1967 ء کے شمارہ میں دیا گیا تھا،جب صفحات میں اضافہ کیا گیا تو نقیب کے سالانہ زر تعاون میں بھی چھ روپئے کا اضافہ کرکے بارہ (12)روپئے،اور فی پرچہ بارہ پیسے کے بجائے پچیس (25)پیسے کر دیا گیا،61/صفحات کا سلسلہ 11 /جمادی لاولیٰ 1393ھ مطابق 3/جون 1974 ء تک رہا اس کے بعد نقیب کے صفحات بارہ کر دئے گئے اور بارہ (12)صفحات کا سلسلہ 2/رجب المرجب 1442ھ مطابق 15/ فروری 2012ء تک رہا،اور اب حضرت امیر شریعت مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی دامت برکاتہم کے حکم سے دوبارہ نقیب کے صفحات میں اضافہ کر کے سولہ (16)کر دیا گیا ہے جس کا پہلا شمارہ 9/ رجب المرجب 1442ھ مطابق 22/ فروری 2012ء کو منظر عام پر آیا۔تیسرا کام حضرت رحمۃاللہ علیہ کے زمانہ میں یہ ہوا کہ نقیب کو حکومت ہند سے باضابطہ طور پر رجسٹرڈ کرا یاگیا، جس کا نمبر(BIHURD-4136/61) ہے،جو کہ نقیب
کے آخری صفحہ پر دفتر کے پتہ کے ساتھ درج ہے،محفوظ شدہ کاغذات کے مطابق”نقیب“کا آر این آئی (RNI) نئی دہلی سے رجسٹریشن 1961 ء میں ہوا؛لیکن یہ نمبر”نقیب“پرنہیں لکھا جاتا تھا،یہ نمبر نقیب پر 5/اپریل 1982ء سے لکھا جانے لگا اوروہ سلسلہ آج تک قائم ہے۔
مولانا محمد عثمان غنی ؒ کے بعد پرنٹر پبلشر کی حیثیت سے محمد عارف صاحب طویل مدت تک رہے،ان کا نام بحیثیت پرنٹر پبلشر 20/ذیقعدہ 1376ھ مطابق 20/جون 1975ء سے 28/صفر 1417ھ مطابق 15/جولائی 1996ء تک رہا،اس درمیان وہ اس جریدہ کو مختلف پریسوں سے چھپوا کر دفتر امارت شرعیہ سے شائع کرتے رہے،10/ربیع الثانی 1417ھ مطابق 26/اگست 1996ء تا25/جولائی 2023ء مطابق6/محرم 1445ھ اس اہم کام کی ذمہ داری مولانا سہیل احمد ندوی ؒ کے ذمہ رہی اور اب اس کام کی ذمہ داری مولانا رضوان احمد ندوی معاون ایڈیٹر ہفت روزہ نقیب امارت شرعیہ کے ذمہ ہے،پرنٹر پبلشر کی حیثیت سے وہ بحسن و خوبی اس کام کو انجام دے رہے ہیں۔
مختلف ادوار اور زمانہ کے پیچ وخم کے ساتھ سفر طے کرتا ہوا یہ اخبار آج ہندوستان کے مشہور جریدوں میں شمار ہونے لگا ہے،ملک و بیرون ملک میں اس کے قارئین کی آج ایک بڑی تعداد ہے، جو ہر ہفتہ اسے پابندی سے پڑھتی ہے،موجودہ زمانہ میں مختلف سوشل سائٹ پر ہر ہفتہ پابندی سے اسے شئیر بھی کیا جاتاہے،لوگ اس کے منتظر رہتے ہیں،قارئین نقیب کی دلچسپی اور آسانی کے لئے امارت شرعیہ کے ویب سائٹ www.imaratshariah.com پر ہر ہفتہ اسے پابندی سے اپلوڈ بھی کیا جاتا ہے،محرم الحرام 1439ھ سے اب تک کے تمام شمارے پی ڈی ایف فائل میں بالترتیب اس سائٹ پر موجودہیں۔