بلند تخیل کی شاعرہ : نور جمشیدپوری
اسلم رحمانی
نور جمشیدپوری کا تعلق ہندوستان کے صوبہ جھارکھنڈ کے شہر آہن جمشیدپور سے ہے۔ نور جمشیدپوری کا اصل نام نور جہاں ہے۔ لیکن ادبی دنیا ان کو نور جمشیدپوری کے نام سے جانتی ہے۔ ان کی پیدائش 25/ ستمبر 1969ء کو جمشیدپور میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام محمد اشتیاق خان والدہ کا نام سیدہ علیم النساء اور شوہر کا نام عبد الغفار ہے۔نور جمشیدپوری ان دنوں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں مقیم ہیں۔اور انٹرنیشنل انڈین پبلک اسکول میں درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔
شعر و سخن
شاعری کا شوق نور جمشیدپوری کو بچپن ہی سے تھا لیکن باضابطہ طور پر انہوں نے شاعری کا آغاز سعودی عرب جانے کے بعد کیا۔تدریسی فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ گزشتہ کئی سالوں سے تسلسل کے ساتھ آن لائن مشاعروں میں آپ کی شرکت ہوتی رہتی ہے۔ آپ نے حمد، نعت، منقبت، نظم، غزل، اور سہرا وغیرہ میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ ابھی حال ہی میں ان کا پہلا شعری مجموعہ ” خاموش لمحوں کا سفر” شائع ہوکر منظر عام پر آیا ہے۔
آمد و بر جستگی کا احساس
نور جمشید پوری کے کلام کے مطالعے سے یہ بات پوری طرح صاف ہوجاتی ہے کہ ان کو اپنے خیالات کو بہترین انداز میں پیش کرنے کا ہنر آتا ہے اور انہوں نے اپنے اظہار و ابلاغ کے لئے جو اسلوب اپنایا ہے وہ اپنے موضوع اور مواد کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ ان کی شاعری تکلف و تصنع سے پاک، سادگی، خلوص اور صداقت سے مزین ہے۔ان کی یہی سادگی ان کی شاعری کو بے جا تزئین و آرائش سے بے نیاز کرکے ہمیں ان کی شاعری میں آمد و بر جستگی کا احساس دلاتی ہے۔ بطور مثال چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
گر خوف خدا تھوڑا بھی ہوتا پسر میں
تنہا نہ کبھی چھوڑتا ماں باپ کو گھر میں
اعلی رکھیں کردار ہر حال میں ورنہ
آتا ہے ہنر باپ کا کچھ بڑھ کے پسر میں
جلتی ہوئی ، لٹتی ہوئی ، بے یار و مددگار
آتی ہے نظر قوم کی بیٹی ہی خبر میں
بخشی تھی ہمیں رب نے جو اسلام کی دولت
کیا ہم نے بنا ڈالا ہے دنیا کی نظر میں
سسرال میں حالت ہے کنیزوں سے بھی بدتر
ملکہ جو بنی رہتی تھی ماں باپ کے گھر میں
دیتا وه دیا ہم کو بھلا نوؔر بھی کیسے
شب جس نے گزاری گھرے طوفان کے ڈر میں
اسلامی افکار
ان اشعار پر مذہبی زاویے سے غور کرنے پر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ نور جمشیدپوری کی شاعری اسلامی تعلیمات سے متاثر ہے۔ درج بالا اشعار کے پہلے شعر میں والدین کی خدمت نہ کرنے والے پسر یعنی بیٹے کی بےحسی کی عکاسی کی گئی ہے۔ جب ہم اسلامی نقطہ نظر سے والدین کے حقوق کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ بلا شبہ والدین ہی کائنات میں ایسی عظیم ہستیاں ہیں کہ جن کے اولاد پر بے شمار احسانات ہیں۔ اگر کوئی شخص ساری زندگی اپنے والدین کی خدمت کرکے اُن احسانات کا بدلہ چکاناچاہے، تب بھی وہ والدین کا حق ادا نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم میں جہاں اﷲ نے اپنی عبادت کا حکم دیا، تو والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آنے کی تاکید بھی فرمائی ہے۔ ارشادِ ربّانی ہے:
’’اور آپ کے ربّ نے حکم دیا کہ اس کی ہی عبادت کرو اور والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آؤ۔‘‘
محسنِ انسانیت حضرت محمد ﷺ نے والدین کی عظمت و اہمیت کو احادیث مبارکہ میں بیان کیا ہے۔ سرورِ دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’جو نیک اولاد اپنے والدین کو محبّت کی نگاہ سے دیکھے، تو اﷲ پاک ہر نظرِ محبّت پر اُس کے لیے ایک مقبول حج کا ثواب لکھ دیتا ہے۔‘‘
لیکن افسوس، آج کل ہمارے معاشرے میں والدین سے بدسلوکی کے واقعات بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔نور جمشیدپوری اپنی شاعری میں اولاد کی اسی گستاخی اور نازیبا رویے کو صاف گوئی کے ساتھ بیان کرتی نظر آتی ہیں۔
اسی طرح محتاجوں، غریبوں، یتیموں اور ضرورت مندوں کی مدد، معاونت،حاجت روائی اور دلجوئی کرنا دین اسلام کا بنیادی درس ہے ۔ دوسروں کی مدد کرنے،ان کے ساتھ تعاون کرنے، ان کے لیے روزمرہ کی ضرورت کی اشیاءفراہم کرنے کو دین اسلام نے کار ثواب اور اپنے ربّ کو راضی کرنے کانسخہ بتایاہے ۔خالق کائنات اللہ ربّ العزت نے امیروں کو اپنے مال میں سے غریبوں کو دینے کا حکم دیا ہے ، صاحب استطاعت پر واجب ہے کہ وہ مستحقین کی مقدور بھر مددکرے۔ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
” نیکی صرف یہی نہیں کہ آپ لوگ اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لیں بلکہ اصل نیکی تو اس شخص کی ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (آسمانی) کتابوں پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے،اور مال سے محبت کے باوجود اسے قرابت داروں ،یتیموں،محتاجوں، مسافروں، سوال کرنے والوں، اور غلاموں کی آزادی پر خرچ کرے۔یہ وہ لوگ ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰة دیتے ہیں اور جب کوئی وعدہ کریں تو اسے پورا کرتے ہیں۔ سختی، مصیبت اور جہاد کے وقت صبر کرتے ہیں۔ یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔(سورة البقرةآیت177)،
قرآن حکیم کی سورة البقرہ ہی میں ارشاد ہے:
” (لوگ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھتے ہیں کہ (اللہ کی راہ میں) کیا خرچ کریں۔ فرما دیجئے کہ جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست ہے) مگر اس کے حق دار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتے دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج ہیں اور مسافر ہیں اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو، بے شک اللہ اسے خوب جاننے والا ہے۔“ ( سورة البقرہ آیت 215)
سماجی بہبود کا بنیادی مقصد معاشرے کے محتاجوں، بے کسوں، معذوروں، بیماروں، بیواوں، یتیموں اور بے سہارا افراد کی دیکھ بھال اور ان کی فلاح وبہبود ہے۔ نور جمشیدپوری اپنے اشعار کے ذریعے درج بالا احکامات ربانی کی ترجمانی کرتے ہوئے عرض کرتی ہیں کہ:
رحم و کرم اب کون کرے ہے مفلس اور ناداروں پر
غم کے بادل برسے ہر دم مجبوروں لاچاروں پر
غربت اور افلاس کے مارے، بچے ہم سے آس لگائیں
آؤ دست شفقت رکھیں ہم تم ان بے چاروں پر
دولت شہرت کے پردوں میں چھپ جاتے ہیں عیب سبھی
انگلی اٹھتی آئی ہر دم مفلس کے کرداروں پر
قوم کی خستہ حالی کے ہم میں ذمہ دار مگر
رکھتے ہیں الزام ہمیشہ موجودہ سرکاروں پر
بدلا بدلا ہر موسم ہے اپنے جب سے دور ہوئے
لطف نہیں اب آتا ہم کو پہلے سا تہواروں پر
قدریں اب اسلاف کی اپنی نظروں میں ہیں پچھڑا پن
ایسا رنگ چڑھا مغرب کا فیشن کے بازاروں پر
نور کو کوئی خوف نہیں ہے ان تپتے صحراؤں کا
اس نے چل کر منزل اپنی پائی ہے انگاروں پر
افکار و نظریات
زیر نظر اشعار کے سیاق وسباق سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ نور جمشیدپوری کی شاعری اسلامی تعلیمات سے عبارت ہے یہ سلسلہ آگے بھی جاری ہے۔ اسلام میں اتحاد و اتفاق کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ اسلام مسلمانوں کو نظم واتحاد کے ساتھ جماعتی زندگی گذارنے کی تعلیم دیتا ہے وہ انتشار اور خودسرائی کو قطعاً برداشت نہیں کرتا، اس لئے اس نے نظام عبادت کی روح اجتماعیت وشیرازہ بندی پر رکھا تاکہ مسلمان ایک مرکز سے وابستہ رہیں۔ اسلام کے اسی افکار و نظریات کی روشنی میں نور جمشیدپوری بھی اپنے کلام کے ذریعے بیان کرتی ہیں کہ:
اک دین کی شمع کی اب لو کو بڑھانا ہے
فرقوں میں بٹے شعلے اب مل کے بجھانا ہے
اب بغض وحید کینہ کے ان خاروں سے
بچنے کو اخلاص کی خوشبو کو ہر دل میں بسانا ہے
نہ بھولو عمل پیارے اللہ کے بندوں کا
الفت میں محمد سی ایم کی جان اپنی لٹانا ہے
پڑھ لوں گی نمازیں بھی میں اس سے مگر پہلے
مفلس کا مجھے روتا اک بچہ ہنسانا ہے
رکھ یاد عمل تیرے اعمال میں اک افضل
اللہ کے بندوں کے عیبوں کو چھپانا ہے
احکام نبی پر تم ہو جاؤ عمل پیرا
ہر گوشے سے دنیا کے گر کفر مٹانا ہے
اس ماں کے کلیجے کو پتھر کا بنا یارب
پھر آج اسے بھوکے بچوں کو سلانا ہے
یہ رنگ و نسل مذہب تفریق کے ساماں سب
اس رب کی نظر میں تو ہر بندہ یگانہ ہے
رشتوں میں بڑھی نفرت کی خاک اڑانے کو
ہر در پہ محبت کا اک دیپ جلانا ہے
محروم کرم اس کو رکھیے نہ سر محشر
رب، نور کا پہلے ہی دشمن یہ زمانہ ہے
جذبات کی ترجمان
نور جمشیدپوری کے درج بالا اشعار میں عشقِ قرآن اور عشقِ رسول جابجا نمایاں نظر آتا ہے۔ نور جمشیدپوری اردو شاعری اور اردو ادب کی سنہری تاریخ لکھنے کے نزدیک پہنچ چکی ہیں اور تہذیب کے اعتبار سے مہذب اور پرمغز شاعری کی ضامن نور جمشیدپوری چھوٹے بڑے کئی ایوارڈز بھی حاصل کر چکی ہیں اردو شاعری کی مضبوط ستون نور جمشیدپوری آج بلندی پر قائم رہتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کو شاعری کی شکل میں پیش کر رہی ہیں۔ بطور مثال مزید ان کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
زمانے بھر کی دیکھو شادمانی لے کے آئی ہوں
دعائیں میں تو ماں سے آسمانی لے کے آئی ہوں
بھلی ہوں نہ جھکوں میں در پہ اوروں کے ابد تک ، کہ
ازل سے میں خدا کی حکمر انی لے کے آئی ہوں
عطا کی جس نے اس سے التجا ہے بس میری اتنی
رہے بے داغ میں جو زندگانی نے کے آئی ہوں
ستوں اس کا بلا پائیں گے کیا یہ کفر کے جو کے جھونکے
میں ایمان کی جب اپنے جاودانی لے کے آئی ہوں
رہوں ممنون کیوں نہ جب عزیز و اقربا کی میں
یہاں تک ہے ہر قدم پر مہربانی ہے۔ کے آئی ہوں
نہیں ممکن سفینے کو مربے بھڑکائیں یہ موجیں
میں کشتی میں خدا را کی بادبانی لے کے آئی ہوں
تبسم لب پہ ہوتا ہے کبھی اشکوں سے آنکھیں
نم طبیعت دیکھ لو لو میں درمیانی لے کے آئی ہوں
ڈھلے جذبات لفظوں میں غزل اس کونہ تم سمجھو
عقیدت کی میں اپنے ، ترجمانی لے کے آئی ہوں
ان اشعار پر غور کرنے پر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نور جمشیدپوری کی شاعری میں فکر و فن کی رنگارنگی اور تنوع پایا جاتا ہے۔ان کے انداز بیان میں تازگی ، ندرت ، جدت پائی جاتی ہے۔شاعری محض لفظوں کو سلیقے سے برتنے کا نام نہیں ہے بلکہ اس میں نادیدہ جذبات و احساسات کی پیش کش بھی ہوتی ہے۔نور جمشیدپوری کی شاعری بھی عصر حاضر کے حالات و واقعات میں ڈھلے جذبات کی ترجمان ہے اور اُس معاشرے اور ماحول کی عکاس ہے جس سے براہ ِراست و ہ نبر د آزما ہیں۔آپ کے اشعار ایسے ہی معانی کے حامل ہیں۔ بطور مثال چند اشعار دیکھیں:
ہے سیاست میں کثافت کی حکومت کیا کروں
رائگال اب جا رہی ہے ہر شہادت کیا کروں
دیکھ حالت ملک کی اب خون کے آنسو بہے
مل گئی ہے بے ضمیروں کی قیادت کیا کروں
راستہ تھا تھا کون سا ؟ کس راہ پر یہ چل پڑی
بڑھ رہی اب قوم میں، اپنی ضلالت کیا کروں
حادثے کچھ دیکھ عبرت سے بھرے،
آنکھیں کھلیں ہاتھ کا یہ میل لگتی ہے بضاعت کیا کروں
لغزشوں سے دور ہوتے، جو دلوں کو جوڑ دے
ایسا کوئی بھی ملے نہ اب وساطت کیا کروں
نذر آتش کر دیا ہے ہر سخاوت کا حساب
وقت رخصت آ گیا ہے اب اشاعت کیا کروں
چین پایا دن میں، نہ ہی رات دیکھی نوؔر نے
اس سے بڑھ کر اب بتاؤ میں ریاضت کیا کروں
عظمتِ خیال
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب شدید جذبات عظیم خیالات کے سائے میں پر تاثیر زبان کی مدد سے وجود میں آتے ہیں تو معتبر شاعری ظہور میں آتی ہے۔ نور جمشیدپوری کے ادبی شہ پاروں کو فطری اور طبعی قوانین ،انسانی سیرت و کردار کی عظمت کے اصولوں ،حکمت و دانش سے بھرپور فلسفیانہ اور نفسیاتی حقیقتوں اور صداقتوں کے زیر اثر جانچیں تو یہ امر اظہر من الشمس ہو جاتا ہے کہ آپ کا شہ پارہ ایسی عظمت سے ہم کنار ہے جو ارفعیت سے مالا مال ہے۔کیوں کہ آپ کے نزدیک عظمتِ خیال ،شدید اور قوی جذباتی تاثر اور پر وقار زبان ارفعیت کے بنیادی منابع ہیں۔آپ اپنے جذبات کی پیش کش میں اتنی مہارت کا ثبوت فراہم کرتی ہیں کہ ذاتی جذبات کو آفاقی قدروں کے ساتھ ملا کر اُسے ارفع و اعلیٰ بنا دیتی ہیں۔آپ کے اس بلند تخیل پر علامہ اقبال کا یہ شعر صادق آتا ہے:
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
٭٭٭