تفتیشی ایجنسی ای ڈی پر حملہ- افسوسناک وشرمناک

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

انفورسمیٹ ڈائرکٹوریٹ (ED)پر مشتعل ہجوم کے ذریعہ حملہ کی خبریں ان دنوںموضوع بحث بنی ہوئی ہیں، یہ حملے 4؍ اور 6؍ جنوری 2024ء کو مغربی بنگال میں ای ڈی کی ٹیم پر ہوئے، یہ حملے چوبیس پرگنہ ضلع کے سندیش کھالی اور بن گاؤں کے نیمول ٹولہ میں کیے گیے، موقع راشن گھوٹالے معاملہ میں شاہ جہاں شیخ اور آدھا شنکر کی گرفتاری کا تھا، ای ڈی ٹیم جب ان جگہوں پر گرفتاری کے لیے پہونچی تو سندیش کھالی میں مشتعل ہجوم نے حملہ کرکے جانچ ایجنسی کی گاڑی میں توڑ پھوڑ کیا اور تین افسران کو خطرناک چوٹیں آئیں، شاہ جہاں شیخ اور آدھا شنکر کا تعلق ترنمول کانگریس سے ہے، اس لیے بھاجپا کی طرف سے اس پر سیاست گرما گئی ہے، اور اسے لا اینڈ آرڈر کی بدحالی قرار دیا جا رہا ہے، خبر یہ بھی ہے کہ ای ڈی کے ارکان کوگاؤں والوں نے دوڑا دوڑا کر مارا اور انہیں کھدیڑ دیا، با خبر ذرائع کے مطابق حملہ آوروں نے ایک لیپ ٹوپ ، چار موبائل فون اور دستاویزوں سے بھرے بیگ چھین لیے گیے۔دوسری طرف مشتعل ہجوم کا کہنا ہے کہ ای ڈی والے شاہ جہاں شیخ کے بند مکان کا تالا توڑ رہے تھے اور ان کے پاس تلاشی وارنٹ نہیں تھا، اس لیے ان پر حملہ کیا گیا، ایف آئی آر ای ڈی کے ذمہ داران اور حملہ آوروں کی جانب سے بھی درج کرائے گیے ہیں، قانونی کاروائی کا مرحلہ طویل ہوتا ہے اور وہ جاری رہے گا۔
یہ حملے یقینا قابل ا فسوس اور لائق مذمت ہیں ، قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا حق کسی کو نہیں دیا جا سکتا، خواہ وہ کس قدر بھی با اثر ہو، ظلم اور زیادتی بھی اگر ہو رہی ہے تو اس کے دور کرنے کا یہ طریقہ انتہائی غلط ہے کہ خود سے حملہ آور ہوجایا جائے، قانون کو اپنا کام کرنے دینا چاہیے اور قانون کی لڑائی قانون سے ہی لڑی جانی چاہیے، اس کے باوجود اس حقیقت سے انکارنہیں کیا جا سکتا کہ ای ڈی کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ حکمراں طبقے کے اشارے پر بھاجپا مخالف لیڈران اور کارکنان کو ہراساں کرنے انہیں ذلیل کرنے اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالنے کا کام کر رہی ہے، اگر اس کی جانچ میں شفافیت ہے تو وہ حکمراں طبقے کے کسی لیڈر پر کیوں ہاتھ نہیں ڈالتی، کیا وہاں سارے لوگ دودھ کے دھلے ہوئے ہیں، ظاہر ہے ایسا بالکل نہیں ہے، اس کو تقویت بعض ایسے معاملات سے ملتی ہے، جس میں واضح طور پر ای ڈی کی غلطی سامنے آگئی ہے، پہلی خبر تامل ناڈو کی ہے، جہاں ای ڈی نے دو غریب کسانوں کے خلاف مالی بد عنوانی کا معاملہ درج کیا اور ان کے خلاف نوٹس بھی جاری کر دیا ایک ایسے معاملہ میں جس میں عدالت کا فیصلہ بھی ان دونوں بھائیوں کے حق میں آچکا تھا، گو یہ معاملہ چھ ماہ قبل کا ہے، لیکن سوشل میڈیا پر یہ وائرل ہوا تو ہنگامہ کھڑا ہو گیا، بعد میں ای ڈی نے اپنی غلطی مان کر معاملہ واپس لے لیا، اس سے یہ بات صاف ہو گئی کہ ای ڈی نے سیاسی طور پر ہی ان دونوں بھائیوں کو پھنسانے کا کام کیا تھا، تامل ناڈو میں ریاستی پولیس نے ایک ای ڈی افسر کو رشوت لینے کے الزام میں گرفتار بھی کیا تھا،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ای ڈی بھی بدعنوانوں سے پاک نہیں ہے، اس افسر کی گرفتاری کے بعد تامل ناڈو پولیس ای ڈی کے دفتر پر چھاپہ ماری کے لیے بھی پہونچ گئی تھی ، مرکزی حکومت کو جھارکھنڈ میں بھی ایک ای ڈی افسر کو تحفظ فراہم کرانا پڑا تھا۔
پولیس والوں کے بارے میں اس قسم کے قصے عام ہیں اور ان کا رعب ودبدبہ کچھ تو اس وجہ سے اور کچھ معمولی رقم لے کر ملزمین کو چھوڑ نے اور رشوت کی گرم بازاری کی وجہ سے ختم ہو گیا ہے، اب پولیس سے بچے بھی نہیں ڈرتے ، ہمارے بچپن میں کسی کے گھر پولیس پہونچ جاتی تو پورا گاؤں خوف زدہ ہوجاتا تھا اور بچے گھر کے کسی گوشے میں دبک جاتے تھے، اب بے خوفی کا یہ عالم ہے کہ پولیس آتی ہے تو پورے گاؤں اور محلہ کے لوگ اس کے گرد جمع ہوجاتے یں اور بحث ومباحثہ بلکہ گالی گلوج تک کی نوبت آجاتی ہے، اس سے زیادہ بات بڑھی تو پولیس کو کھدیڑ نے سے بھی لوگ باز نہیں آتے اور پولیس اپنے دفاع میں آنسوگیس کے گولے، لاٹھی چارج اور کبھی کبھی گولیاں چلانے سے بھی باز نہیں آتی۔
لیکن ای ڈی کے ساتھ ایسا نہیں ہوا تھا، وہ جس کو چاہتی تھی کئی کئی دن اور گھنٹوں پوچھ تاچھ کرتی اور پھر دفعات لگا کر گرفتار کر لیا کرتی تھی، کسی طرف سے کوئی مخالفت عملاً نہیں ہوتی تھی، پھر ہوا یہ کہ ای ڈی کی نوٹس اور سمن کی سیاسی قائدین نے ان دیکھی شروع کردی، بار بار سمن کے باوجود وہ اس کی طلبی پر حاضرنہیں ہو رہے ہیں، چوبیس پرگنہ کے ان دو واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ اب سیاسی بنیادوں پر اس کے غیر ضروری مداخلت اور ہراسانی کی وجہ سے لوگوں کے دلوں سے اس کا خوف نکل سا گیا ہے، چنانچہ ای ڈی کے ارکان کے ساتھ ایسا شرم ناک واقعہ پیش آیا ، اس لیے ای ڈی کو اپنے طریقہ کار پر غور کرنا چاہیے اور اسے سیاسی ہتھکنڈوں کا ذریعہ نہیں بننا چاہیے ، تبھی اس کا وقار ، اعتبار اور اعتماد قائم ہوگا، جو تیزی سے ختم ہوتا جا رہا ہے ۔
یہ بات ہم نہیں کہہ رہے ہیں، اس کے قبل عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) نے بھی ای ڈی کے کام کرنے کے طریقے پر سخت تبصرہ کیا تھا، واقعہ یہ ہے کہ ای ڈی کو اس طریقۂ کار کے با وجود بڑی کامیابی نہیں مل رہی ہے، گذشتہ جولائی میں سرکار نے پارلیامنٹ کو مطلع کیا تھا کہ ابھی تک ای ڈی نے پانچ ہزار چار سو بائیس (5422)معاملے درج کیے ہیں، جس میں صرف تئیس (23)معاملات میں ہی مجرموں کو سزا مل سکی ہے، یعنی حکومت ہند اس محکمہ پر لاکھوں روپے ماہانہ خرچ کرکے آدھے فی صد سے بھی کم کامیابی حاصل کر پا ئی ہے، اس کی وجہ اس کا طریقہ کار اور سرکار کے چشم وابرو کو دیکھ کر عجلت میں معاملات کا اندراج ہے، جس کے پیچھے ٹھوس ثبوت اور مضبوط شواہد نہیں ہوتے، البتہ جس پر معاملہ درج ہوا وہ غیر ضروری طور پر ہراساں اور لوگوں کی نظر میں مشکوک ہوجاتا ہے، حکومت یہی چاہتی ہے؛ لیکن یہ انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے۔
ای ڈی نے اگر اپنے طریقہ کار کو نہیں بدلا اور سیاسی بنیادوں پر مقدمات درج کیے جاتے رہے تو بہت ممکن ہے کہ دوسری جگہوں پر بھی عوام اس حربے کا استعمال کرنے لگے ، ظاہر ہے شاہ جہاں شیخ کے لیے آؤٹ لک نوٹس اور سرحدکی گھیرا بندی اور آدھا شنکر کی گرفتاری سے اس قسم کے واقعات کے سلسلے کو روکا نہیں جا سکے گا، ضروری سطح پر کام کرنے کی ہے، حکمراں طبقہ کے سیاسی دباؤ میں ای ڈی کاروائی نہ کرے، اور عوام اس قسم کی شرمناک حرکت سے پر ہیز کرے، قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لے کہ یہ کسی طور پر درست نہیں ہے۔
اگر ہماری جانچ ایجنسیوں خصوصا ای ڈی اور سی بی آئی سے لوگوں کا اعتماد اٹھ گیا تو ملک کے لیے یہ بڑا نقصان ہوگا، ہمیں ایسے اقدام کرنے چاہیے جس کی وجہ سے ای ڈی کے بارے میں اعتماد اور اس کے احترام میں اضافہ ہو سکے۔ اس کے لیے ای ڈی کو چھاپہ ماری کے لیے طے شدہ اصولوں (SOP)کا خیال رکھنا ضروری ہوگا، جو اس کے طریقہ کار کی بھی تعیین کرتی ہے۔

FacebookWhatsAppShare