حفیظ نعمانی اوران کا عہد
اردو صحافیوں کی کہکشاں

معصوم مرادآبادی

’حفیظ نعمانی اور ان کا عہد‘حکیم وسیم احمد اعظمی کی تازہ ترین تصنیف ہے۔ جس میں ہمارے عہد کے 100 صحافیوں کا تذکرہ ہے۔ حفیظ نعمانی ہمارے عہد کے ایک ایسے البیلے صحافی تھے جنھوں نے پوری ہمت اور حوصلے کے ساتھ قلم وقرطاس سے کوئی نصف صدی کا رشتہ نبھایا۔انھوں نے اس راہ میں وہ تمام سنتیں پوری کیں جو ہمارے اکابرصحافیوں کا طرہ امتیاز رہی ہیں۔ انھوں نے جرات وبے باکی کے عوض قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ حاکمان وقت کے مظالم سہے، لیکن کبھی حالات کے آگے سپر نہیں ڈالی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کتاب میں مصنف نے سب سے پہلے حفیظ نعمانی کی قلندرانہ زندگی اور ان کی فکر وفن پر تقریباً 65 صفحات میں بھرپور روشنی ڈالی ہے۔ حکیم وسیم احمد اعظمی کی یہ طویل تحریر حفیظ نعمانی مرحوم کی صحافیانہ سرگرمیوں اور اس راہ میں پیش آنے والی دشواریوں کا مکمل احاطہ کرتی ہے اور اس کا کتاب کا ماحصل بھی کہی جاسکتی ہے۔مصنف کو حفیظ نعمانی اور ان کے فن کی بلندی سے جو عقیدت ہے، یہ کتاب اس کا اظہار ہے۔اس کے ساتھ ہی اس کتاب میں حفیظ نعمانی کے ہم عصر اردو صحافیوں اور کالم نگاروں کا تذکر ہ ہے، جو مولانا عبدالماجد دریابادی سے شروع ہوکر اویس سنبھلی پر ختم ہوتا ہے۔
حکیم وسیم احمد اعظمی کا بنیادی تعلق طب یونانی سے ہے، لیکن ان کا وطنی تعلق اعظم گڑھ کی زرخیز سرزمین سے ہے، جہاں ہمیشہ علم وادب کی آبیاری ہوتی رہی ہے۔ وطنی تعلق نے ہی لوح وقلم سے رشتہ استوار کرنے پر انھیں مجبور کیا اور انھوں نے ملازمت سے سبکدوشی کے بعد خود کو علمی و ادبی کاموں کے حوالے کردیا۔ صحافت اور صحافی ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہیں، جس کا ثبوت571صفحات کی یہ کتاب ہے،جو اپنے موضوع سے بھرپور انصاف کرتی ہے۔یہ کتاب کیا ہے‘ ایک کہکشاں ہے جس میں ہمارے عہد کے تمام صحافی اپنی خوبیوں اور صلاحیتوں کے ساتھ ہمارے سامنے آتے ہیں،جن کی تعداد 100 کے قریب ہے۔

صحافت یوں تو ایک پیشہ ہے، لیکن پیشے کا لفظ کثرت استعمال سے اتنا عام اور کسی حدتک بدنام ہوگیا ہے کہ اسے استعمال کرتے ہوئے تکلف ہوتا ہے۔ اس لیے میں پیشے کے مقابلے میں فن کو اہمیت دیتا ہوں۔ حالانکہ بعض صحافی پوری پوری زندگی اس میں گذارنے کے باوجود فن کار نہیں بن پاتے، لیکن اس فن میں اتنی وسعت اور توانائی ہے کہ یہ اچھے برے لوگوں کو ساتھ لے کر پچھلی دوصدیوں سے زندہ ہے۔
اردو میں صحافیوں کے تذکرے لکھنے کی روایت بہت مستحکم نہیں ہے۔ اس سلسلے کی پہلی اور کامیاب کوشش مولانا امداد صابری نے گزشتہ صدی کی آٹھویں دہائی میں کی تھی۔ 1973میں شائع ہونے والی ان کی کتاب ”اردو کے اخبار نویس“ حالانکہ اپنی لیتھو طباعت و کتابت کے اعتبار سے کمزور کتاب تھی، لیکن موضوع کی انفرادیت اور تنوع کے اعتبار سے یہ اوّلین پیشکش کہی جاسکتی ہے۔ اس لیے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔مولانا امداد صابری، جن سے اس خاکسارکو ان کی آخری عمر میں استفادے کا موقع ملا، ایک درویش صفت انسان تھے۔ انھوں نے اردو صحافت کی تاریخ پر جو کام کیا ہے، اس نے انھیں امر کردیا ہے۔ پانچ ضخیم جلدوں میں ”تاریخ صحافت اردو“ ان کا ایسا کارنامہ ہے جس کے لیے انھیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔اردو صحافت کے تمام مورخین نے مولانا امداد صابری کی کتابوں کا سہارا لے کر ہی اپنے کام کو آگے بڑھایا ہے۔ ”اردوکے اخبار نویس“ میں انیسویں صدی میں شائع ہونے والے اخبارات ورسائل کے ایڈیٹروں کے حالات زندگی درج ہیں۔ یہ کتاب اس دور کے صحافیوں کے احوال جاننے کا بنیادی حوالہ سمجھی جاتی ہے۔448صفحات پر مشتمل اس کتاب میں 56مدیروں کا تفصیلی تعارف دیا گیا ہے، جن میں اردو کے پہلے اخبار”جام جہاں نما“ کے ایڈیٹر پنڈت ہری ہر دت سے لے کر ”اودھ اخبار“ کے ایڈیٹر منشی نول کشور تک کے احوال ہیں۔

اس کے بعد بھی صحافیوں کے شخصی احوال پر کئی کتابیں منظرعام پر آئیں، لیکن وہ صوبائی سطح کے صحافیوں تک محدود رہیں، جبکہ حکیم وسیم احمداعظمی کی زیرنظر کتاب اس معاملے میں یکتا نظر آتی ہے، کیونکہ اس کا دائرہ کسی ایک شہر اور صوبے تک محدود نہیں ہے۔ حالانکہ مصنف کا پیش لفظ پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ صرف لکھنؤ کے صحافیوں تک محدود ہے، لیکن کتاب کے تفصیلی مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس میں نہ صرف لکھنؤ بلکہ دہلی، پٹنہ، بمبئی، بھوپال، حیدرآباد اور دیگر شہروں کے صحافیوں کا بھی تذکرہ ہے جس سے اس کی اہمیت دوچند ہوگئی ہے۔خاص بات یہ ہے کہ مصنف نے بڑی عرق ریزی کے ساتھ سرکردہ اردو صحافیوں کے احوال جمع کئے ہیں اور انھیں مستند حوالوں کے ساتھ بڑی چابک دستی سے پیش کیا ہے۔ہر صحافی کے حالات قلم بند کرتے وقت اس کے بارے میں مطبوعہ اور غیرمطبوعہ مواد تک پہنچنے کی کوشش اس کتاب کی فنی اہمیت کو بڑھاتی ہے، جس کے لیے صاحب کتاب کو داد ملنی چاہئے۔

میرے ناقص علم کے مطابق اردو صحافت اور صحافیوں پر اب تک جو کام ہوچکا ہے، اس میں اوّلیت تو مولانا امداد صابری کی کتابوں کو حاصل ہے۔ انھوں نے ”تاریخ صحافت اردو“کی پانچوں جلدوں میں اردو اخبارنویسوں کے احوال قلم بند کئے ہیں اور ان کو علاحدہ کتاب کی صورت میں بھی ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔اس سے قبل عبدالسلام خورشید کی معرکۃ الآراء کتاب ”صحافت:پاکستان و ہندمیں“ (مطبوعہ 1963، لاہور)میں بھی کچھ سرکردہ صحافیوں کے احوال بیان کئے گئے ہیں۔ اس کے بعد محمدعتیق صدیقی نے اپنی کتاب ”ہندوستانی اخبارنویسی:کمپنی کے عہد میں“(مطبوعہ 1957، دہلی)ڈاکٹر طاہر مسعود کی کتاب ”اردو صحافت انیسویں صدی میں“(مطبوعہ 2002کراچی)میں بھی صحافیوں کے احوال پڑھنے کو ملتے ہیں۔

بلاشبہ صحافت کی ہر کتاب میں اپنے عہد کے صحافیوں کا ذکر موجود ہے، لیکن انھیں علاحدہ کتابی شکل میں شائع کرنے کی کوششیں کم ہی نظر آتی ہیں۔جہاں تک لکھنؤ کا سوال ہے تو اس سلسلہ میں عبدالنافع قدوائی کی کتاب ”لکھنؤ کے بھولے بسرے اردو صحافی“(اشاعت 2016 ) کو پہلی کوشش قراردیا جاسکتا ہے۔یوں تو مرحوم حفیظ نعمانی کی کتاب ”بجھے دیوں کی قطار“میں لکھنؤ کے کچھ صحافیوں کا تفصیلی ذکر موجود ہے، لیکن ان کی تعداد دوچار سے زیادہ نہیں ہے۔ اس کتاب میں جمیل مہدی، ہاشم رضا عابدی الہ آبادی اور سلامت علی مہدی جیسے جید صحافیوں کا تفصیلی تذکرہ ہے اور حقیقت یہ ہے کہ مجھے اس کتاب کے علاوہ کہیں اور ان تینوں صحافیوں پر سیرحاصل مضامین پڑھنے کونہیں ملے۔نافع قدوائی نے اپنی کتاب میں لکھنؤ کے تیس سے زیادہ صحافیوں کے احوال قلم بند کئے ہیں۔حکیم عبدالقوی دریابادی،ڈاکٹر محمد آصف قدوائی، عثمان غنی، قیصر تمکین، جمیل مہدی، حسن واصف عثمانی، امین سلونوی، شوکت عمر وغیرہ کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔

جہاں تک دہلی کا تعلق ہے تو اس میدان میں دولوگوں نے خامہ فرسائی کی ہے۔ ان میں پہلا نام ظفرانور کا ہے جنھوں نے صحافیوں کے احوال پر یکے بعد دیگرے تین کتابیں تصنیف کیں۔ ان کی پہلی کتاب ”دہلی کے اردو صحافی:آزادی کے بعد“ 2013 میں منظرعام پر آئی تھی جس میں پچاس مرحومین اور زندہ صحافیوں کا تذکرہ ہے۔ حالانکہ تحقیق کا معیار اتنابلند نہیں ہے، لیکن خوبی یہ ہے کہ ان میں بیشتر زندہ صحافیوں کے احوال مصنف نے براہ راست حاصل کئے ہیں۔2015میں دہلی اردو اکادمی سے شائع ہونے والی سہیل انجم کی کتاب ”دہلی کے ممتازصحافی“بھی اپنے موضوع پر کافی وشافی مواد پیش کرتی ہے۔ اس میں آزادی کے بعد کے 31صحافیوں کا تذکرہ ہے۔2015 میں ہی شائع ہونے والی سید احمد قادری کی کتاب”اردو صحافی بہارکے“ بھی ایک اہم کتاب ہے، جس میں بہار وجھارکھنڈ کے صحافیوں کا تذکرہ ہے،لیکن حکیم وسیم احمد اعظمی کی زیر نظر کتاب حالیہ عرصے میں شائع ہونے والی ان سب کتابوں پر سبقت لے گئی ہے، کیونکہ اس میں 100صحافیوں کے احوال کو بڑی محنت سے یکجا کردیا گیا ہے اور کہیں بھی سرسری مطالعہ کو راہ نہیں دی گئی ہے۔ کتاب میں شامل بیشتر صحافی وہ ہیں جنھوں نے اپنی پوری پوری زندگی اردو صحافت کی نذر کی ہے ۔ان میں مولانا عبدالماجد دریابادی،مولانا عثمان فارقلیط،حیات اللہ انصاری،حکیم عبدالقوی دریا بادی،صباح الدین عمر، عشرت علی صدیقی،محمدمسلم، جی ڈی چندن، کلدیپ نیر،سلامت علی مہدی، نازانصاری،احمد سعید ملیح آبادی،شاہد رام نگری، مولانا عتیق الرحمن سنبھلی،جمیل مہدی،پروانہ ردولوی، محفوظ الرحمن،احسن مفتاحی،نورجہاں ثروت،سیداحمد قادری،شافع قدوائی،شکیل رشید،صفدرامام قادری،ایم ودود ساجد، سہیل انجم اور یامین انصاری وغیرہ شامل ہیں ۔مجھے امید ہے کہ یہ کتاب نئی نسل کے صحافیوں اور صحافت کا مطالعہ کرنے والے قارئین کے لیے بہت مفید ثابت ہوگی اور لوگ اس سے تحریک حاصل کرکے اس قسم کی مزید کوششیں کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں