حقیقی اسلام کی طرف لوٹنا ہی مسئلہ کا حل ہے

قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ

خصوصی پیشکش از ابو المحاسن ڈاٹ کام

مسلمانوں کے اندر کی جہالت و نا خواندگی سے اسلام کے اجتماعی نظام کمزور ہورہے ہیں اس وقت لوگوں کی اکثریت ایسی ہے جو اسلام کی روح اور جوہر سے نا آشنا ہیں، سارے حدود شریعت، ضوابط الہی اور حقوق انسانی پامال کیے جارہے ہیں، زندگی کی گاڑی کا کوئی پلیٹ فارم متعین نہیں، ہرایک اپنے آپ میں مگن ہے اور یہ سانحہ ہے جس سے یورپ نے پورا فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے میں جہالت کو عام کرنے کی ناپاک سازش کی ہے، وہ مسلمان جو علم کے میدان میں نمایاں اور عظیم تصورات رکھتے ہیں لیکن انھوں نے ایک طرف تاریخ اسلام کی غیرسند و ضعیف روایتوں کو اخذ کرنے کا اسلوب اپنایا ہے تو دوسری طرف تاریخ کو مسخ کرنے کی روش بھی اختیار کر رکھی ہے اور یہ دونوں کام کرنے کے بعد بحث و تحقیق کے جدید اسلوب میں اسلامی تاریخ پیش کی جارہی ہے، اور نئی نسل کے سامنے یہی تصنیفات آرہی ہیں، اور یہی لوگ اس سازش کا شکار ہو رہے ہیں۔ ان کے اندر اپنی تاریخ پر بے اعتمادی کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ احساس کم تری کے شکار ہیں اور اسلام سے علیحدگی اور کنارہ کشی اختیار کرنا چاہتے ہیں اور وضعی قوانین پر ایمان رکھتے ہیں۔

ہر چہار جانب سے اسلام پر یہ حملہ درحقیقت اس کے روشن چہرہ پر تاریک پردہ ڈالنے کی نا پاک کوشش تھی اور اسی نے نئی نسل میں فکری اور اجتہادی کشمکش پیدا کردی اور اس فکری کشمکش میں اسلام کے ثابت شدہ عقائد، اس کی مثالی اور ہر زمان و مکان سے جوڑ کھانے والی تہذیب و ثقافت اور بلند اقدار و روایات کے حامل کلچر سے ناواقفیت نے اور اضافہ کر دیا۔ اور مسلمانوں میں اس ناخواندگی کے عام ہونے اور مختلف النوع نظریات کے پر وان چڑھنے افکار و خیالات کے اختلاف کی کثرت اور جائز و صحیح اختلاف کے حدود سے تجاوز نے امت میں افتراق و انتشار کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ ایک جماعت اپنی رائے کے خلاف کسی اور کی رائے کو سننے کے لیے تیار نہیں، حتی کہ ان اجتہادی مسائل میں بھی جن میں اختلاف ہونا ایک فطری اور طبعی بات ہے جس کا حضرات صحابہ کرام، تابعین عظام اور سلف صالحین کے یہاں بھی وجود ملتا ہے۔ ہر پارٹی اور جماعت حق کو اپنے اندر ہی محصور بجھتی ہے اور پھر اس کے بعد دوسروں کو اپنی رائے کا پابند بنا نا چاہتی ہے۔ یہ وہ کیفیت ہے جس نے وسیع پیمانے پر فکری انتشار و اختلاف کو جنم دیا ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ امن و امان اور آپس میں اتحاد و اتفاق عنقا بن چکا ہے۔ آج امت اسلامیہ اپنے ہی آرا، وافکار کے بندھن میں جکڑی ہوئی ہے ملی مفادات اور مصالح سے چشم پوشی برتی جا رہی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہوئے ہے اور دنیا کے وسیع و عریض دستر خوان پر طفیلی بن کر رہنا گوارہ کر چکی ہے۔

اس عظیم فکری کشمکش سے نبرد آزما ہونے کا آخر راستہ کیا ہے اور اس عظیم بحران سے خلاصی کی کون سی سبیل ہے، ظاہر ہے اس کا راستہ ایک ہی ہے اور وہ ہے حقیقی اسلام کی طرف واپسی۔ وہ اسلام جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ سے ہمیں ملا ہے۔ معاشی، سیاسی، اجتماعی اور خاص طور پر علمی میدان میں مکمل طور پر اسلامی تعلیمات سے رہنمائی حاصل کرنا لازم ہے۔ آج مسلمانوں کے حلقے میں علم نا پید ہوتا جارہاہے یا پھر ایک خاص طبقہ میں محدود ہوکر رہ گیا ہے جو نہ تو کافی ہے اور نہ ہی مسلمانوں کے شایان شان ہے، بلکہ امراء و غرباء، حکام و وزرا، ہر طبقہ کے ہر فرد میں علم کو اس طرح عام ہونا چاہیے جس طرح حضورصلی اللہ علیہ سلم کے زمانے میں صحابہ کرام کے اندر عام تھا۔

کیوں کہ علم ہی وہ سرچشمہ ہے جوا مت کے ہرفرد کی پیاس بجھا سکتا ہے، اسلام کے اندر کسی طرح کی تفریق نہیں ہے، ہر ایک برابر ہے، لیکن موجودہ زمانے میں علم بعض علاقوں اور افراد کے درمیان مخصوص اور محدود ہو کر رہ گیا ہے اور اکثر علاقے اور لوگوں کا عام طبقہ علم سے بے بہرہ ہے، حالاں کہ یہ اسلام کا تصور نہیں ہے، اسلام کا تصور تو بہت ہی وسیع اور بلند ہے۔ وہ علم کو عام کرتا ہے اور جو یان حق کی رہنمائی کرتا ہے، ہاں! البتہ اسلام محض ان ڈگریوں اور سندوں کو کوئی وزن نہیں دیتا جن کا آج عام چلن ہو گیا ہے، علم کسی ادارے یا یونیورسٹی کی ڈگریوں کانام نہیں ہے۔ اس فکری بحران سے نکلنے کا سب سے پہلاحل تویہ ہے کہ ہرطبقہ میں علم کوعام کیا جائے، دو سرے نمبر پر اسلام کو ہر میدان میں عملی جامہ پہنایا جائے، موجودہ عہد میں اسلامی نظام، اسلامی قوانین اور اسلامی دستور حیات کے ذریعہ ہی انسانیت کو حقیقی سعادت سے ہم کنار کیا جا سکتا ہے اور وہی امن وسلامتی اور حقیقی راحت و آرام مہیا کر سکتا ہے، جس کی تلاش میں آج یورپ حیران و سرگرداں ہے اور اب جب کہ مختلف نظام ہائے عمل تجربے اور مشاہدات کے بعد ناکام و نامراد ہو چکے ہیں ضروری ہے کہ سیاسی معاشی اور سماجی ہر میدان میں اسلامی نظام و قوانین کی بالا دستی قائم کی جائے اور خاص کر درج ذیل چار نقاط پر توجہ مرکوز کی جائے۔

۱۔معاشرہ کے ہر ہر فرد کو عدل و انصاف ملے کسی کی حق تلفی نہ ہو اور عدل کا تقاضہ ہے کہ ہر شہری کو تعلیم و صنعت، علاج و معالجہ، پیشہ و ملازمت اور ترقی میں برابر کا حق دیا جائے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے عدل قائم کرو، یہی تقویٰ کی علامت ہے، اور حدیث پاک میں قیامت کے دن کامیاب ہونے والے سات طرح کے اشخاص میں سے ایک امام عادل کو قرار دیا گیا ہے۔

۲۔معاشرہ کے ہر ہر فرد کی ظلم و زیادتی اور جورو استبداد سے حفاظت کی ذمہ داری لی جائے، بلکہ ظلم کا معاشرہ سے ہی ختم کر دیا جائے، نہ کوئی کسی پر زیادتی کرے اور نہ اس پر زیادتی کی جائے بلکہ ظلم کا سرے سے قلع قمع جائے۔ اس لیے کہ ظلم کا بدلہ ظالم کومل کر رہتا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، ”مظلوم کی بد دعا سے بچو اس لیے کہ اس کے درمیان اور اللہ کے درمیان کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔“

۳۔سوسائٹی کے ہر طبقہ میں اور معاشرہ کے ہر فرد کے اندر اپنے ذمہ داروں پر بھروسہ ہو، اور یہ احساس ہو کہ ان کے سربراہ ان سے غافل نہیں ہیں بلکہ ان کے حالات سے پوری طرح باخبر ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”الفت و محبت، رحم و کرم میں ایمان والوں کی مثال جسم واحد کی ہے اگر اس کے ایک حصے میں تکلیف پہونچتی ہے تو سارے جسم کو اس تکلیف کا احساس ہوتا ہے۔“

۴۔ کشمکش اور اضطراب کے مختلف اسباب ہیں جن کا خاتمہ از حد ضروری ہے، وہ یہ کہ: (الف) جب بھی کوئی جرم صادر ہو خواہ جس کی جانب سے بھی ہو اس جرم پر سزا ملنی چاہیے، اس پر پردے ڈالنا نقصان کا باعث ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”یہ اللہ کے حدود ہیں، اور جو لوگ ان حدود سے تجاوز کرتے ہیں وہی ظالم ہیں“۔(ب) حق کو صاحب حق تک پہنچانا لازم ہے، اگر صاحب حق کو حق نہ ملے، اس کی پامالی ہوتی رہے تو یہ بھی اضطراب کا سبب بنتا ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:”امانتوں کو ان کے مالکان تک پہنچاؤ۔“ (ج) زبان و قلم کی طاقت سب خدا داد نعمتیں اور اس کی امانتیں ہیں، لہٰذا ان کا استعمال ان مواقع پر ہونا چاہیے جن میں قوم و ملت کی مصلحت ہو، اور اگر ان کا استعمال ان مقاصد کی خاطر ہونے لگے جو کسی بھی انسان کے نقصان کا باعث بنتے ہیں تو یہ اللہ کی امانت میں خیانت ہوگی، اور اللہ تعالیٰ خائنین کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔

یہ چار وہ اہم ضروری نقاط ہیں جن پر پوری توجہ صرف کرنا لازم ہے اور جب تک ان کو بروئے کار لانے کی پوری کوشش نہیں ہوگی، تب تک کسی طرح کی کشمکش کے خاتمہ کا امکان نہیں۔اور مسلمانوں کے اندر پیدا ہونے والی فکری کشمکش خواہ وہ مسلمان اقلیت میں ہوں یا اکثریت میں، عالم اسلام میں رہنے والے ہوں یا کسی اور جگہ اس کے مختلف اسباب ہیں: (۱) باہر سے آنے والے افکار و نظریات اپنے زہریلے اور مسموم اثرات مسلمانوں کے اندر ہر جگہ اور ہر سطح پر پھیلاتے ہیں۔(۲) نجی زندگی میں اسلام سے دوری اور مبادی اسلام سے ناواقفیت صحیح راہ عمل اختیار کرنے میں رکاوٹ بنتی ہے۔(۳) اجتہادی و فقہی مسائل میں توسیع پسندی اور وسیع الظرفی کے بجائے تشدد و تعصب کی راہ پر گامزن ہونا بھی انتشار کا سبب بنتا ہے۔

یہ اور ان جیسے اسباب نیز مختلف جانب سے طرح طرح کے دباؤ نے موجودہ فکری کش مکش کے اندر دو طرح کے رد عمل پیدا کیے۔ (الف) ٹکراؤ اور مقابلہ کا موقف۔ (ب)دست برداری، خود سپردگی اور مصالحت کا موقف۔ حاصل کلام یہ کہ بنیاد کو درست کرنا سب سے اہم شئی ہے کیوں کہ اس پر عظیم الشان اور پر شکوہ عمارت کی بنیاد ڈالی جا سکتی ہے۔ اگر بنیاد ہی سیدھی نہیں ہوئی تو عمارت میں کجی پیدا ہونا لازمی بات ہے۔ یہ چند نقاط ہیں جن کی طرف توجہ دینا ضروری ہے۔