حمید دلوائی (1932 تا 1978) کی کتاب کے نئے ایڈیشن پر ایک نظر

از پروفیسر محمد سجاد

بھارتی مسلمانوں کے درمیان حمید دلوائی (1932 تا 1978) کا ذکر تحقیر، تنفر اور تذلیل کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ نئ نسل کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی دلچسپی حمید دلوئ کی تحریروں میں پھر سے پیدا کروانے میں رام چندر گوہا کی کتاب، میکرس آف موڈرن انڈیا (2010)، کا رول مانا جا سکتا ہے۔ رام گوہا نے حمید دلوئ کی تحریروں کو ملیٹینٹ یعنی شدید ("غیر محتاط”) طور پر سیکولر جدیدیت کی تبلیغ والی تحریریں قرار دیا ہے۔
انہوں (حمید دلوائ) نے سنہ 1965ء میں ایک مراٹھی ناول، ایندھن، لکھا تھا۔ ان کا ایک افسانہ، کفن چور، بھی مقبول ہوا تھا۔
حال ہی میں پینگوئن نے ان کی تحریروں (کالموں اور تقریروں کے مجموعے) کو پھر سے شائع کیا ہے۔ ان کے بیش تر کالم مراٹھی زبان میں لکھے گئے تھے۔

حمید دلوائی کی کتاب کے نئے ایڈیشن پر ایک نظر
حمید دلوائی کی کتاب کے نئے ایڈیشن پر ایک نظر

پونا کے مراٹھی ہفتہ وار، سادھنا، سے منسلک تھے۔ ان کے مجموعے کا انگریزی ورژن سنہ 1968، سنہ 1969، اور پھر سنہ 1972 میں کچھ اضافے کے ساتھ شائع ہوا تھا۔
انگریزی ورژن میں ادارت اور اشاعت کرنے والے کا نام تھا دلیپ چترے (1938 تا 2009)، جو ایک معروف مراٹھی شاعر تھے۔
عنوان تھا، مسلم پالیٹکس ان سیکولر انڈیا۔ اس میں اے۔ بی۔ شاہ کا 14 صفحات پر مشتمل دیباچہ بھی بہت جامع ہے۔ پینگوئن کے تازہ ترین ایڈیشن (2023) نے اس کتاب کے عنوان سے لفظ "سیکولر” حذف کر دیا ہے۔ (شاید اس لئے کہ اب بھارت سیکولر نہ رہا؟)
چند اینڈنوٹس کا اضافہ کیا گیا ہے، اس تازہ ترین ایڈیشن میں۔
تازہ ترین اشاعت کا تبصرہ تلمیذ احمد نے دی وائر (انگریزی، جنوری 15، 2024) میں شائع کیا ہے۔ اس تبصرے کی تنقید کرتے ہوئے دوسرا تبصرہ ویریندر کپور نے اوپن دی میگیزن (2 فروری 2024) میں شائع کیا ہے۔ اس کے علاوہ دی وائر (انگریزی، 23 مئ 2023) میں حمید دلوئ کا ایک طویل انٹرویو (منوہر، ہفتہ وار، 26 اگست، 1973) بھی شائع کیا ہے۔
جہاں ایک طرف تلمیذ احمد (سابق ڈپلومیٹ؛ سمبایوسس یونیورسٹی، پونا، سے منسلک) نے شدید جانب داری سے کام لیا ہے، وہیں ویریندر کپور نے بھی تردید کرتے وقت اپنی مخصوص جانب داری کا مظاہرہ کیا ہے۔ تلمیذ احمد کا الزام ہے کہ دلوئ کی کتاب میں ساورکر، گولوالکر، ہیڈگیوار، کی تنقید نہیں کی گئ ہے۔ یہ الزام نہایت بے بنیاد ہے۔ دلوئ نے ہندو فرقہ پرستوں پر بھی شدت سے حملہ کیا ہے۔ البتہ آریہ سماج کا ذکر نہیں کیا ہے۔ دلوئ کا ماننا تھا کہ راجہ رام موہن رائے سے لے کر گاندھی اور نہرو تک، ہندوؤں کو مصلح اور آئیڈیولوگ ملتے رہے۔ اس کے برعکس بھارتی مسلمانوں کو سر سید کے علاوہ کوئ مصلح اور آئیڈیولوگ نہیں مل پائے۔ انہیں اقبال، جناح، مودودی جیسے آئیڈیولوگ ملے۔
تلمیذ کا یہ اعتراض بجا معلوم پڑتا ہے کہ اس تازہ ترین ایڈیشن میں ایک نئے پیش لفظ یا دیباچے کا اضافہ ہونا چاہئے تھا، اور موجودہ حالات میں اس کتاب کی معنویت کی وضاحت ہونی چاہئے تھی۔ تلمیذ احمدنے دلوئ کی تقریر (دہلی، 5 دسمبر 1971) کو بھی نظر انداز کر دیا ہے جس میں دلوئ نے مبینہ سناتنی ہندو کی تنقید کی ہے (صفحہ، 78)۔
حمید دلوائی کی تحریروں سے یہ لگتا ہے کہ وہ ملک میں ہندو مسلم تعلقات کو استوار اور مستحکم کرنے کے راستے ڈھونڈ رہے تھے۔ اس کے لئے وہ مسلمانوں کو خود احتساب کے لئے آمادہ کر رہے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ بھارتی مسلمانوں میں لبرل خیالات کے لیڈر اور مفکر کا فقدان ہے۔ اس کی توجیہہ بھی کی ہے ایک باب میں (صفحات 56 تا 60)۔ ہندو لبرلس کے لئے ان کی تنبیہہ یہ تھی کہ مسلم رجعت پسندی اور مسلم فرقہ پرستی پر ان کی خاموشی کے نتیجے بہت برے ہوں گے، ہندو فرقہ پرستی توانا ہو جائے گی۔ کمیونسٹوں کے لئے بھی ان کی یہی تنبیہہ تھی، حالاںکہ کمیونسٹوں اور مسلم فرقہ پرستوں کی سانٹھ گانٹھ کو بے نقاب کرنے والا مضمون کچھ زیادہ طنزآمیز تحریر بن گئ ہے۔ نیشنلسٹ مسلمانوں کی کیٹیگری سے بھی خاصے نالاں و بدظن معلوم ہوتے ہیں۔
اس تعلق سے انتظار حسین کا 1973ء کا ایک انٹرویو یاد آتا ہے، جو مندرجہ ذیل ہے:
جولائ تا ستمبر 1973 کے شب خون، الہ آباد، میں محمد عمر میمن (علیگ) اور انتظار حسین کے درمیان کا طویل انٹرویو شائع ہوا تھا۔ سنہ 1983ء میں جرنل آف ساؤتھ ایشیئن لٹریچر میں اس کا انگریزی ترجمہ، مع وضاحتی حواشی، بھی شائع ہوا۔
میمن کا سوال تھا کہ انتظار حسین جن تین کتابوں سے بہت متاثر ہیں ان میں نہرو کی ڈسکوری آف انڈیا کے علاوہ نرد چودھری کی، کنٹینینٹ آف سرسی، بھی ہے۔
اس کا ایک اہم اقتباس پیش ہے، جس پر آج کے ہندوستانی مسلمانوں کو غورو فکر کرنے کی ضرورت ہے۔
"۔۔۔پنڈت نہرو کا رویہ بہت ہی idealistic ہے۔ اسی رویے کے ساتھ انہوں نے ہندوستان کو دیکھا اور سمجھا۔ ان کی کشیدہ ہندوستان کی یہ تصویر مجھے بھی بہت بھلی لگی۔ اور یہ کتاب مجھے بڑی inspiring نظر آئ۔ اس کے بعد جب میں نے نرد چودھری کو پڑھا تو ہندوستان کے متعلق ان کا رویہ اتنا ہی بے رحمانہ تھا جتنا پنڈت نہرو کا idealistic تھا۔ نرد چودھری نے نہایت ہی بے رحمی اور سفاکی کے ساتھ ہندوستان کی تاریخ کا اور ہندو قوم کا تجزیہ پیش کیا تھا۔ بظاہر یہ کہا جا سکتا ہے کہ بھئ یہ تمہارا کوئ مذہبی تعصب ہوگا جس کی وجہ سے تمہیں یہ پسند آیا۔ ایسی بات نہیں ہے۔ مجھے پنڈت نہرو کی کتاب بھی بہت پسند آئ تھی لیکن جس طریقے سے نرد چودھری نے صورت حال کو سمجھنے کی اور جس دیانت اور جس جراءت کے ساتھ اس نے اپنی قوم کو جاننے کی کوشش کی اس نے مجھے نہ صرف متاثر کیا بلکہ رشک لانے پر مجبور بھی۔ اس روشنی میں میں نے اپنی قوم کی طرف دیکھا۔ میں نے یہ سوچا کہ ہمارے درمیان کوئ نرد چودھری پیدا نہیں ہو سکتا۔ پھر مجھے خیال آیا کہ ہم کتنے برسوں سے اپنی تاریخ کو idealize کرتے چلے آ رہے ہیں، مثلا، جب 1857 کے بعد کا دور شروع ہوا اور سر سید تحریک پیدا ہوئ تو تاریخ لکھنے کی بھی ایک رو چل پڑی جس نے مولانا شبلی کو جنم دیا۔ مولانا شبلی مسلسل ہماری تاریخ کو romanticise کرتے رہے لیکن اس تاریخ کے کچھ اور پہلو تھے جنہیں انہوں نے بیان نہیں کیا۔ مسلمان قوم کو بڑا فخر رہا ہے کہ تاریخ کے فلسفے نے جنم ہی مسلمانوں میں لیا ہے [ابن خلدون]۔ لیکن حالت یہ ہے کہ یہ مسلمان اپنی تاریخ کو فیس کرتا ہی نہیں بلکہ اس کے اچھے اچھے پہلو چن لیتا ہے اور انہیں ہی پوری تاریخ اور حقیقت جان کر celebrate کئے چلا جاتا ہے۔ اب نرد چودھری کا رویہ اس سے بالکل مختلف تھا۔ اس کے یہاں کوئ اس قسم کی خواہش نہیں تھی کہ بھئ میں جس قوم کا فرد ہوں اس قوم کی تاریخ کو celebrate کیا جائے۔ بلکہ وہ تو اصل تک پہنچنے کی کوشش کرتا نظر آتا ہے اور جس طریقے سے اس نے اصل کو سمجھا ہے، ہمارے سامنے پیش کر دیا ہے، اس خیال سے قطع نظر کہ پوری قوم اس کے خلاف کس طریقے سے react کرے گی۔ ۔۔۔۔۔”
یوں تو فسادات میں حکومت و ریاست کی افسوس ناک ناکامی (یا شرکت) کے خلاف انہوں نے شاید ہی کچھ لکھا ہے، لیکن مسلم جماعتوں (مسلم لیگ، خاکسار، وغیرہ) کی ہنسا اور تشدد کی طرف اشارے کئے ہیں۔ سندھ کے اللہ بخش سومرو کے قتل (1943)، رفیع احمد قدوائ کے بھائ کے قتل (1947)، مؤرخ شفاعت احمد خاں کے قتل (1946)، اور حصول پاکستان کے لئے قتل عام (1946 تا 1947، بہ مقام کلکتہ و نواکھالی) کا ذکر کیا ہے؛ مسلمانوں کے یہاں ریاست اور اقتدار حاصل کرنے کے لئے ہنسا کو آلہ کار بنانے کی بات کو اجاگر کیا ہے۔
حمید دلوائ نے کئ بصیرت افزا سوالات بھی اٹھائے ہیں، مثلا، جناح نے گاندھی کو تو ہندو فرقہ پرست کہا، لیکن ساورکر کے خلاف ان کے بیان نہیں ملتے۔
اس کتاب میں شامل، بیش تر مضامین، کالم یا تقریریں ہیں، اس لئے کئ باتوں کی تکرار پائ جاتی ہے۔ ریڈئینس (جماعت اسلامی کا انگریزی ہفتہ وار) نے اپنے ایک اداریہ میں دلوئ کو "سنگھی مسلمان” قرار دے دیا تھا ص، 115)۔
انہوں نے علی گڑھ جاکر طلبا، طالبات و اساتذہ سے ملاقات کی تھی۔ انہیں چند نوجوانوں سے کچھ امیدیں بن پائیں تھیں۔ پروفیسر محمد یاسین کی کتاب، سوشل ہسٹری آف انڈیا 1605 تا 1748 (اشاعت 1958)، محمد مجیب (1902 تا 1985)، محمد حبیب (1895 تا 1971)، رشیدالدین خاں (1924 تا 1996)، جیسے دانشوروں کی تحقیقات نے بھی دلوئ کو متاثر کیا۔
حمید دلوئ کی بیگم، مہرالنساء دلوئ (وفات 2017) کی آپ بیتی، بہ زبان مراٹھی، کے بارے میں بھی کچھ جانکاریاں حاصل ہوئ ہیں۔ دلیپ چترے نے دلوئ کو "اینگری ینگ سیکولرسٹ” کہا تھا۔ اسی عنوان سے ایک کتاب کی تالیف کی تھی مہرالنساء نے، اس کتاب میں چند مضامین (حمید کے اوپر لکھے ہوئے کچھ تعزیتی مضامین اور خاکے) اکٹھا کر دئے ہیں۔
حمید دلوئ کی تحریریں برصغیر کے بیش تر مسلمانوں کو جھٹکے (shocks) دیں گی۔ وکٹم ہوڈ سنڈروم کی افیم پر پلنے والی قوم کے لئے حمید دلوئ ایک ملعون و مطعون کردار ہی رہیں گے۔ پھر بھی آج کے نوجوانوں کو ان کی مختصر، بے باک تحریریں کم از کم ایک بار ضرور پڑھنی چاہئے۔ شاید ایسی تحریروں سے کچھ سراغ مل سکے کہ:
اول، ہمارے موجودہ عہد میں ہندوؤں کی بڑی تعداد مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کا جذبہ کیوں پالنے لگی ہے؟ اور
دوئم، ہندو لبرلس ہندو فرقہ پرستوں کے خلاف کیوں کمزور پڑنے لگے ہیں؟

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare