دینی وعصری تعلیم میں امتزاج كی ہوڑ
سكے كا دوسرا رخ
ڈاكٹر عبدالملك رسولپوری
وقت حاضر كے اوساط علمیہ میں چہار سو مدارس كے نصاب تعلیم میں ترمیم واضافہ اور اس كی تجدید كاری كی بحثیں عروج پر ہیں۔ مختلف تنظیمیں مختلف اداروں سے فنڈ حاصل كر كے یونیورسٹیوں میں واقع اسلامی علوم كے شعبوں كا سہارا لے كر مدارس میں دخل اندازی اور مدارس كو صراط مستقیم یا شاہ راہ اسلامی سے ہٹانے كی كوششوں میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ كچھ جبہ ودستار والے احباب بھی دینار ودرم كی آس میں اس ناكام مہم میں شریك ہیں۔ بین الاقوامی منظر نامے كا مطالعہ كریں تو مغربی تجزیہ كاروں نے اس حقیقت كو بہت پہلے تسلیم كرلیاتھا كہ مخصوص ذہنیت كے خلاف انقلابات مدارس كے انھیں خرقہ پوشوں كے ذریعہ برپا ہوئے ہیں؛ چناں چہ ان كے آقاؤں نے مدارس میں ڈی ریڈیكلائزیشن یعنی سرخ خون كو سفیدكرنے كی مہم شروع كی كہ مغربی تعلیم كے ذریعہ دنیاوی چكاچوند پیدا كی جائے، جس سے فراست ایمانی سے معمور ،رسا ذہن اور دور بیں نگاہ ركھنے والوں كی آنكھیں خیرہ ہوجائیں اور یہ اسلام كو پسپا كرنے كے لیے كی جانے والی مغرب اور مغرب نواز طاقتوں كی سازشوں سے ان كے كامیاب ہونے سے پہلےواقف نہ ہوسكیں۔
جب كی دوسری سمت اسی اسلام مخالف مخصوص ذہنیت سے یارانہ ركھنے والے لوگ، اپنے پیروكاروں كو ریڈیكلائز كررہے ہیں ، مذہبی شدت پیدا كر كے ان كے خون كی سرخی كو اور بھی تیز كررہے ہیں، جس كا مشاہدہ ہر دوسرے روز ہورہا ہے۔ وطن عزیز تو اس مرض سے كب كا دوچار تھا ہی، اب تو خود مغرب میں سرخ چھینٹیں نظر آنے لگی ہیں۔ انگلینڈ میں كیا ہورہا ہے شاید بین الاقوامی امور پر دسترس ركھنے والا ہر شخص اس سے واقف ہوگا۔
ادھر ہمارے نظام میں كچھ داخلی خامیوں یا سمجھو وقت كے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہو پانے كی وجہ سے برپا ہونے والی كمزوریوں كو بہانہ بناكر ، یہ مخصوص ذہنیت ہمیں مغلوب كرنے كی ہر ممكن كوش كررہی ہے۔ یاران اغیار نے ماضی میں جس طرح بودھ تہذیب كو لقمہ تر بناكر نگل ڈالا، اسی طرح یہ اسلامی تہذیب كو بھی نابود كرنے كے لیے پیہم كوششوں میں مصروف ہیں۔ ان كی یہ مہمات كوئی نئی نہیں ہیں، ان كی جڑیں دور بہت دور صلیبی جنگوں سے وابستہ نظر آتی ہیں، مقاصد اور اہداف ابھی بھی وہی ہیں، بس طریقوں اور مناہج میں تبدیلیاں ہوئی ہیں ۔
ماضی كی انھیں مساعی مكروہہ كے پیش نظرحضرت شاہ ولی اللہ كے پیروكاران اوردہلی كالج كے فیض یافتگان نے ثقافت اسلامیہ كی بقا وتحفظ كے لیے دیوبند ، سہارن پور، مراد آباد، امروہہ اور گلاؤٹھی جیسے قصبات میں اسلامی تعلیم گاہیں قائم كیں اور پھر ان كے متبعین ومنتسبین نے اس دائرے كو مزید وسعت دی اور مدارس كی تعداد میں اور بھی اضافہ كیا، حتی كہ بحمد اللہ آج پورے ملك میں مدارس كا ایسا نظام قائم ہے كہ اگر كوئی شخص ان كی تہذیب كو لقمہ تر سمجھ كر نگلنے كی كوشش كرے گا ، تو یہ خاردار كانٹا بن كر اس كی گلے میں اٹك جائے گی، جس سے نجات اور خلاصی صرف موت ہی میں مضمر ہوگی۔
دوسری سمت مسلمانوں كی مادی پس ماندگی اور سائنسی تخلف كے پیش نظر دہلی كے كوچہ چیلان میں مولانا مملوك العلی سے فیض حاصل كرنے والے سید احمد خان نے دینی وعصری امتزاج والے جدید مدرسے كی بناد ركھی اور مسلمانوں كی مادی زبوں حالی اور علمی بے مائیگی دور كرنے میں اپنا حسین كردار ادا كیا۔ دہلی كالج اور كوچہ چیلان سےفیض حاصل كرنے اور مسلمانوں كی فلاح وبہبود كا سودا سر میں سمانے والے ان دو نامور قائدین كی دو عظیم تحریكوں میں جو فرق نظر آتا ہے، وہ یہ ہے كہ فكر قاسمی كے حاملین نے اپنے نظریہ ساز پیشواكے نقش پا كی پیروی كرتے ہوئے، ان كی تحریك كو آگے بڑھایا اور وطن عزیز میں ایمانی عقائد كے تحفظ، مذہب اسلام كی تبلیغ اور اسلامی تہذیب كی بقا كے لیے شہر شہر اور قصبے قصبے ہی نہیں؛ بلكہ گاؤں گاؤں اور پوروے پوروے میں مدارس ومكاتب كا عظیم سلسلہ قائم كردیا۔ اور آج كسی بھی شہر اور قصبے میں یہ جو بھی دینی رونق یا رمق نظر آرہی ہے، سب انھیں مدارس كی رہین منت ہے۔
جب كہ دوسری سمت ایسا محسوس ہوتا ہے كہ حضرت سرسید كے پیروكاروں نے ان كے مشن كو جمود كا شكار بنادیا ، ان كا لگایا ہوا پودا خو تو برگد بنا؛ لیكن اس كی شاخیں خود اسی كے اردگرد لپٹی رہیں ، جس ابر بے كراں كے بارے میں اسرار الحق مجازنے خواب دیكھا تھا كہ وہ اس بو قلمونی سے اٹھ كر چہار دانگ عالم میں برسے گا اور بنجر زمینوں كو سبزہ زار بناے گا ، وہ ابر وہاں سےاٹھ كر وہیں كے فیض یافتگان كے گھر برس كر رہ گیا ہے؛ وگرنہ كیا بات ہے كہ گاؤں اور پوروے تو دور خود شہروں اور قصبوں میں علمی خشك سالی پسری ہوئی ہے اور سرسید علیہ الرحمہ كی روح كو سكون اور اخروی ثواب بہم پہنچانے والی علی گڑھ تحریك كی كوئی شاخ وہاں نہیں نظر آتی ہے ۔ ہمیں یہ كہنے میں كوئی تردد نہیں ہوگا كہ سر سید علیہ الرحمہ كے مشن سے وابستہ لوگوں نے قومی بہبود كی بہ نسبت شخصی فلاح كو پیش نظر ركھا اور تحریك كی نسبتوں سے شخصی فائدے حاصل كركے خود كو وزیر وگورنر بنایا ،جب كہ قاسمی تحریك سے وابستہ بوریہ نشینوں نے شخصی راحت وآرام كو قربان كر كے وطن عزیز كی گلیوں اور كوچوں كے سنگریزوں پر پاپیادہ چل چل كر لوگوں كی فلاح وبہبود كے لیے جد وجہد كے ہر ممكن راستے پر آبلہ پائی كی ہے۔
علمی ترقی كے اس جدید دور میں ہم دیكھیں تو ہر شخص تعلیم كی فكر میں اسكول كی سمت رواں دواں نظر آتا ہے ،ماضی كی منبوذ اور دھتكاری ہوئی قومیں، علم كا تاج سر پر جمائے حكمرانی میں مشغول ہیں، جب كہ جس ملت كو امت اقرأ كا لقب ملا ہوا ہے، وہ نری غفلت كا شكار نظر آتی ہے۔ خواندہ اقوام كی فہرست میں وہ سب سے نچلی سیڑھی پر محسوس ہوتی ہے۔
ایسا شاید اس لیے ہوا ہے كہ جن ہاتھوں میں علم كی مشعل تھی، انھوں نے اس مشعل كی روشنی كو ایك ہی چہاردیواری میں قید كردیا تھا ، ہونا تو یہ چاہئے تھا كہ اہل دانش كی جلائی ہوئی ان مشعلوں كی روشن كرنیں، كوچہ كوچہ ،قریہ قریہ اور ہر شہر وقصبے میں پہنچتیں اور وہاں پسری ہوئی تیرگی كو چھانٹ كر رنگ ونور كی دیگر شمعیں روشن كردیتیں ؛لیكن نہ یہ ہوا اور نہ قوم جہالت كی ا ندھیریوں سے نكل سكی۔ ان مجازی باتوں كو اگر حقیقی اسلوب میں بیان كیا جائے توایسے بھی سمجھ سكتے ہیں كہ جس طرح مصر كے جامع ازہر نے اپنی درسگاہوں میں قابل اور با صلاحیت طلبہ داخل كرنے كی نیت سے عالم عرب كے متعدد ممالك اور خود مصر كے متعدد صوبوں میں اپنے فیڈر اسكول قائم كیے ہوئے ہیں، كیایہ ممكن نہ تھا كہ ہماری سوسالہ قدیم دونوں یونیورسٹیاں وطن عزیز كے مسلم اكثریتی قصبات میں اپنے اسكولوں كی شاخیں قائم كرتیں اور جس طرح اعلی تعلیم میں مسلم امہ كی تعلیمی ضرورتوں كی تكمیل كررہی ہیں، ادنی اور متوسط تعلیم كی فراہمی میں بھی اپنا كردار ادا كرتیں، سچر كمیٹی رپورٹ كے بعد ہمیں محسوس ہوتا ہے كہ یہ كام اور بھی حسن وسلیقہ سے كیا جاسكتا تھا۔ یقینا اس میں دشواریاں پیش آتیں ؛ لیكن جس طرح اعلی تعلیم كے لیے كیرلا اور كشن گنج كے ذیلی مراكز قائم ہوگئے ہیں، اسی طرح منٹو سركل اور عبداللہ كالج كی شاخیں بھی قائم جاسكتی تھیں، دہلی میں خاطر خواہ مسلم شرح فی صد ہونے كے باوجود جامعہ ملیہ اسلامیہ كے ماتحت ایك دو اسكولوں كے علاوہ كچھ نہیں نظر آتا ہے۔ اس كو بھی ایك سلسلہ بنایا جاسكتا تھا اور دہلی كے جعفر آباد، مصطفی آباد ،اندر لوك جیسے دیكر علاقوں میں بھی ان كی ایك ایك شاخ قائم كی جاسكتی تھی اور اندرون دہلی ہی كیا ہم اس سے بھی باہر نكل كر پورے وطن عزیز میں تعلیمی مہم چلا سكتے تھے۔ یقینا یہ كام تنہا نہیں ہوتا ، مسلم قوم كو پس ماندگی كا شكار بنانے كی مہم میں مصروف لوگ ركاوٹیں كھڑی كرتے ، لیكن ہر مشكل كا كوئی نہ كوئی حل ہوتا ہے ، ہمیں مسلم تنظیموں كو ساتھ لے كر اور ان كے سیاسی روابط سے فائدہ اٹھا كر اپنی مشكلوں كو حل كرنے كی كوشش كرنا چاہئے تھی۔
مسلم معاشرے میں علمی خشك سالی كا مطلب یہ بھی نہیں ہے كہ وہاں ہلكی فوار اور چھوٹے چشمے بھی نہ نظر آتے ہوں ،یقینا مسلم سوسائٹیوں میں بھی بہت سے اسكول قائم ہیں اور قوم كی علمی بے مائیگی دور كرنے میں اپنا كردار اداكررہےہیں ، لیكن افراط كے شكار اسكولوں كے ذمہ دار مسلم نونہالوں كو جدید تعلیم سے آراستہ كرنے میں كبھی كبھی حدود كو عبور كر كے منفی درجے تك پہنچ جاتے ہیں جس كی وجہ سے بچے تعلیم تو حاصل كرلیتے ہیں پر وہ قوم كاحصہ نہیں باقی رہ پاتے ہیں، وہ امت محمدیہ كے بجائے میكالے كی امت زیادہ محسوس ہوتے ہیں۔ ان كے نظریات بدلے ہوئے نظر آتے ہیں ان كا فكری رجحان توبہ كی حدتك مكروہ ہوجاتا ہے۔ انھیں دوسری تہذیبوں میں گھل مل جانے سے بھی كوئی گریز نہیں ہوتا ہے۔ ان كے یہاں مذہب ، دو معاشروں میں نزاع كا باعث ہوتاہے اور تمام مذاہب ایك ہی ایشور كی بات كرتے ہیں اور ایك ایشور تك پہنچاتے ہیں، جیسے افكار ذہنوں میں گھر بنالیتے ہیں۔ كلچرل پروگرام كے نام پر ڈانس اور ناٹك كرتے نظر آتے ہیں ، صوم وصلات و زائد شی محسوس كرتے ہیں، قربانی كو مال كا ضیاع تصور كرتے ہیں اور نہ جانے كیا كیا۔ اخلاقی كردار دیكھیں تو نہ بڑوں كی توقیر نظر آئے گی اورنہ چھوٹوں پر شفقت ،كتنے اپنے بوڑھے والدین كی خدمت سے جی چراكر ان كو اولڈ ایج ہوم چھوڑ آتے ہیں ۔ كتنے مال وزر كی حرص میں حلال وحرام كی قیودات سے آزاد جانوروں كی طرح دوسروں كے كھیتوں میں چر رہے ہیں۔ یقینا یہ منظر نامہ تمام اسكولوں میں نہیں نظر آتا ہے ؛لیكن ایسا بھی نہیں ہے كہ تمام اسكول ان اخلاقی كمزوریوں سے پاك وصاف نظر آتے ہوں۔
ان سب كے باوجود كسی ادارے اور انجمن كو مسلم قوم كے ان معصوم بچوں كی دینی فكر نہیں ستارہی ہے كہ وہ سیمنار اور ورك شاپ كر كے ان كے اسكولی نصاب میں دینی تربیت كا اضافہ كرواسكے ۔ شاید ان انجمنوں كی نظر میں دینی فوز وفلاح كی بہ نسبت دنیوی بہبود كی اہمیت زیادہ ہے، جس كی وجہ سے غم كے مارے یہ بے چارے اہل مدارس كی غربت دور كرنا چاہتے ہیں اور انھیں بھی دنیوی بلندی پر دیكھنا چاہتے ہیں۔
اسلامی جامعات كے نصاب میں دخل اندازی كے خواہاں ایسے اداروں كو جو جامعات سے باہر عصری یونیورسٹیوں میں سیمنار ووركشاپ منعقد كررہے ہیں ، ایك دو پروگرام مسلم اسكول اور كالجز میں دینی فضا قائم كرنے كے لیے بھی كر لینے چاہیے۔
ہمارے یہاں عصری تعلیم کے لیے تین طرح كے ادارے پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو ہمہ طور سیكولر ہیں، ان میں باضابطہ طور پر كسی بھی مذہب كی كوئی بھی تعلیم نہیں دی جاتی ہے۔ جیسے مركز كے سروودیہ اور كیندرہ ودھالیہ ان كے علاوہ صوبائی حكومتوں كے ماتحت تعلیم فراہم كرنے والےسركاری اسكول . دوسرے ایسے اسكول جن كو مركزی یا صوبائی طور پراقلیتی ادارہ ہونے كا شہادت نامہ ملا ہوا ہے، جیسے جامعہ ملیہ اسلامیہ كے متعدد اسكول،جامعہ ہمدردكے اسكول اور علی گڑھ یونیورسٹی كے اسكولوں كے ساتھ مختلف صوبوں میں حكومت كی طرف سے امداد یافتہ اقلیتی اسكول۔تیسرے مسلم احباب كی طرف سے قایم كیے جانے والے مركز یا صوبوں سے منظور شدہ پرائیوٹ اسكول۔
پہلی قسم كے مكمل سیكولر اسكولوں میں مذہبی تعلیم وتربیت كی كوئی گنجائش نہیں ہوتی ہے۔ اور ان كی لا مذہبیت ہی مسلم قوم كے حق میں بہتر ہے ۔ ان اداروں میں مذہبی عنصر داخل كرنے كے لیے پارلیمنٹ كے ذریعہ دستور ہند كا ڈھانچہ تبدیل كرنا ہوگا ،جو مسلمانوں كے لیے انتہائی مضر ہوگا اور جس كے لیے دشمن طاقتیں ہمہ تن كوشش بھی كررہی ہیں۔
دوسری قسم كے حکومتی اقلیتی اداروں میں اس کی گنجائش ہے کہ اقلیتوں کی مذہبی اور تہذیبی تعلیم و تربیت کا اضافہ کیا جائے۔ اسی نکتے کے پیش نظر ماضی قریب میں جامعہ ملیہ اور اے ایم یو جیسے اداروں میں مسلم طلبہ کے لیے اردو زبان کا ایک موضوع ضروری تصور کیا جاتا تھا۔ اسی طرح ان جامعات كے اسكولوں كے داخلہ جاتی امتحانات میں اسلام كی بنیادی معلومات پر مبنی سوالات بھی ہوتے تھے،جو اب سیکولرازم سے متاثر ہوکر یا اقلیتی درجہ ختم ہونے کی وجہ سے ختم ہوتے جارہے ہیں۔
تیسری قسم یہ مسلم پرائوٹ اسکول اور کالجز ہیں،مسلم تہذیب و ثقافت کو پروان چڑھانے کے لیے یہ وسیع میدان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں نہ تو ڈریس کوڈ کی کوئی حکومتی پابندی ہے اور نہ ہی صباحی دعا میں کسی قسم كی قید وبند؛ اس لیے ہمیں ان اداروں پر اپنی مساعی کو مرکوز کرکے محنت کرنا چاہئے۔ جس كے لیے ہمیں اسلام كی ضروری او ر بنیادی معلومات پر مبنی اسلامی ثقافت و تہذیب کا پورا ایک مختصر نصاب اور طریقہ عمل وضع كرنا چاہئے۔ مثلاً صباحی اجتماع میں اسکول ترانہ یا دعا کے بعد کسی بھی درجے کا ایک طالب علم اخلاقیات کے عنوان پر قرآن پاک کی ایک آیت اور اس کا انگلش یا ہندی میں ترجمہ سنائے اور كوئی دوسرا طالب علم سماجیات سے متعلق ایک حدیث عربی كلمات كے ساتھ پڑھے اور اس کا اردو یا انگلش ترجمہ سنائے۔ ان بچوں كے لیے آیات و احادیث كا انتخاب ان كے اساتذہ اور استانیاں كرسكتی ہیں۔ اگر ہم نے حقوق انسانی سے وابستہ اقوام متحدہ كے چارٹر كو پیش نظر ركھ كر سو آیات اور احادیث كا انتخاب كر لیا اور تربیت كے ذریعہ انھیں بچوں كی روز مرہ عادات میں داخل كردیا ،تو ایك پن دوكاج والا عمل ہوگا ، اسلامی تہذیب كو بھی فروغ ملے گا اور اس نام نہاد اقوام متحدہ كے چہرے پر بھی مسكراہٹ آجائے گی۔
اس کے بعد اسباق شروع ہوں گے ،تو درسگاہوں کا ماحول اسلامی بنایا جائے، چاروں دیواروں پر اسلامی طغرے یا دینی باتیں لکھی جائیں اور سب سے بہتر یہ ہوگا كہ جگہ جگہ فارابی و ابن ہیثم اور خوارزمی جیسے مسلم سائنس دانوں کے مختصر سوانحی نوٹ لکھ دیے جائیں۔ اس سے مسلم بچوں كو اپنے پركھوں كی تاریخ پتہ چلے گی، جس سے ان كا حوصلہ مضبوط ہوگا اور ان كے اندر بھی كچھ بڑا كرنے كا جذبہ پیدا ہوگا۔
تعلیم وتدریس كے پورے دورانیے میں اساتذہ كی ذم داری ہو کہ ماضی میں ماشاء اللہ الحمد للّٰہ اور مستقبل کی لیے ان شاء اللہ کا بکثرت استعمال کریں۔ اس كے علاوہ روز ینہ اعمال كے آداب بچوں كی زندگی كا معمول بنادیں ۔ مثلا پانی كیسے پینا ہے، پینے كے پہلے اور بعد میں كیا كہنا ہے۔ كوئی مشكل سبق شروع كرنے سے پہلے كون سی دعا پڑھ لینا ہے۔ دعاؤں كے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور سبق میں دل لگنے لگتا ہے، جس كے باعث سبق آسان محسوس ہوتا ہے اور یاد ہوجاتا ہے۔ اسباق کے بعد رخصت کے وقت ظہر کی نماز کا اہتمام ہونا چاہئے اور چھوٹے بچوں میں جہری قرات کر کے نماز کا عملی مظاہرہ ہونا چاہئے۔ ظہرانے کا وقت ہوجائے تو کھانے کے مسنون آداب کا خیال رکھا جائے۔
لیکن اس طرح کی تربیت کے لیے لازم ہے کہ ہم اسکول کے پرنسپل کو قانع کریں ، ان كو ان آداب کی افادیت بتلائیں اور انسانی نشو و نما كی عمر میں اخلاقی تعلیم كی اہمیت پر انھیں لكچر دیں كہ اخلاق وآداب كی اس تعلیم كا نتیجہ صرف اسكول میں ہی نہیں ؛بلكہ طالب علم سے وابستہ اس كی اجتماعی زندگی میں ہرجگہ نظر آئے گا۔
اس طرح کے متعدد پرنسپل حضرات کو باہم جوڑ کر مسلم اسکولوں کی ایک ایسی سیوشن بنائیں، جس کے پلیٹ فارم سے نہ صرف پرنسپل حضرات کی ذہن سازی کی جائے؛ بلکہ گاہے بہ گاہے ان اسکولوں میں برسر تدریس اساتذہ کو اسلامی اور تہذیبی ٹریننگ دے کر ان میں تدریس برائے تنخواہ کی بہ نسبت تدریس برائے تعمیر ملت کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ البتہ یہ کام ایک فرد کا نہیں ہے، یہ تنظیموں کا کام ہے مسلم تنظیموں کو اس کام کے لیے منصوبہ بندی کرنا چاہئے ۔
اختتام پر یہ بھی یاد رہے كہ كل پندرہ اگست كو مسلم اسكولوں میں جشن آزادی كے نام پر آزادی كے لیے قربانیاں دینے والوں كو كم یاد كیا جائے گا ،چھوٹے كپڑے پہنا كر بچوں اور بچیوں سے مغربی ڈانس زیادہ كرایا جائے گا اور اسی كو ہم اپنی ترقی اور فلاح وبہبو د باور كریں گے۔ اگر یہی رہا تو وہ دن دور نہیں كہ مسلم مجاہدین آزادی میں صرف مولانا ابو الكلام آزاد كا نام ہی باقی رہے گا باقی سب گمنامی كے غار میں گم ہوجائیں گے اور جس طرح اندلس كی تباہی كے بعد مسلم اسكالرشپ كو مسلمانوں كے ذہنوں سے كھرچ كر ان كی نسلوں كو یہ تسلیم كرنے پر مجبور كردیا گیا كہ ان كے آباء واجداد نے دنیا كی ترقی كے لیے كچھ نہیں كیا ، تمام ایجادت كا سہرہ مغرب كے انگریزوں كے سر بندھتا ہے بعینہ اسی طرح آنے والی نسلوں كو یہ باور كرنے پر مجبور كردیا جاے گا كہ ان كے پركھوں نے انگریزوں كی بالائی كھائی تھی اور آزادی كے لیے خون صرف زعفرانی لوگوں نے بہایا تھا۔ جیسا كہ ابھی سے مشاہدہ شروع ہوگیا ہے كہ انگریزوں كے بہی خواہوں كو آزادی كا ہیرو بناكر پیش كیا جارہا اور وطن عزیز كے لیے جانوں كو نذرانہ پیش كرنے والوں كو اپنی ہی گولی سے مر جانے والے بدھو۔