سب سے آسان ترجمہ قرآن مجید حافظی ۔ قرآن فہمی کے لیے سنگِ میل
تبصرہ نگار ۔ مفتی اشرف عباس قاسمی، استاذ دارالعلوم دیوبند
مترجم: حضرت مفتی اشتیاق احمد قاسمی استاذ دارالعلوم دیوبند
حامدا و مصليا ، أما بعد! قرآن مقدس کتاب ہدایت ہے،اس کا درست فہم ہی وہ بنیاد ہے جس پر اسلامی تعلیمات کی عمارت استوار ہے، کلام خداوندی کو اس کے صحیح تناظر میں سمجھنا، اس کی مرادیں متعین کرنا ، پس منظر اور پیش منظر کے لحاظ سے اس کا مدعا واضح کرنا یہ وہ بنیادی ذمہ داری ہے جس کا ادراک علماء کو اول روز سے رہا ہے ،اس لیے ہر دور کے علماء کرام نے اپنے دور کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے قرآنی تعلیمات کے فہم کو عام انسانوں تک منتقل کرنے کے لیے کوشش فرمائی ہے ، قرآن مجید کے تراجم انہیں کوششوں اور ذمہ داریوں کی انجام دہی کا آئینہ اور نمونہ ہیں ، یہ عجیب بات ہے کہ ایک طبقہ روایتی علماء پر اس حوالے سے طعن کرتا ہے کہ انہوں نے قرآن کریم سے عوام کو دور رکھا، جب کہ تراجم کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو روایتی علماء کرام ہی صف اول میں نظر آتے ہیں ۔
دنیا کی مختلف زبانوں میں تراجم قرآن کی ایک پوری تاریخ رہی ہے ،ہمارے برصغیر میں شاہ ولی اللّٰہ دہلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ اور ان کے خانوادے نے قرآن مجید کے متن سے براہ راست جڑنے اور تراجم کی روایت کوباقاعدہ تحریک کی صورت میں عام کیا، شاہ ولی اللّٰہ صاحب جیسے بابصیرت انسان نے خاص طور پر آنے والی وقت کی فضا کو بھانپ لیا تھا ،اور اس میں راست طریقے پر متن قرآن سے وابستگی کی اہمیت کو محسوس کر لیا تھا، شاہ صاحب فتح الرحمن کے مقدمے میں لکھتے ہیں:
"آج ہم جس زمانے میں ہیں، اور جس ملک (برصغیر ہندوستان) میں رہتے ہیں، مسلمانوں کی خیر خواہی کا تقاضہ یہ ہے کہ قرآنِ حکیم کا ترجمہ سلیس فارسی زبان میں روز مرہ محاورہ کو سامنے رکھتے ہوئے کیا جائے۔ جس کی عبارت ہر قسم کے تصنع، بناوٹ اور خودنمائی سے پاک ہو اور اس میں قصص و واقعات اور غیر ضروری توجیہات و تشریحات کے بجائے آیات کا ترجمہ پیش کیا جائے؛ تاکہ عوام و خواص یکساں طور پر اس کو سمجھیں، اور چھوٹے بڑے ایک ہی نہج پر اس کا شعور حاصل کریں۔“
شاہ صاحب نے اس ضرورت کے تحت خود بھی اس وقت کی رائج زبان فارسی میں ترجمہ کیا ،اور اپنے وابستگان میں بھی اس فکر کو عام کیا ،چناچہ آپ کے صاحبزادگان شاہ رفیع الدین علیہ الرحمہ اور شاہ عبد القادر علیہ الرحمہ نے اردو ترجمےفرمائے ، پھر جب زمانہ آگے بڑھا ،فکر ولی اللہی دیوبند کی صورت اپنے برگ و بار لے آئی تو تراجم کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا ،ہر بدلتے وقت میں تبدیلیوں کو محسوس کیا گیا ، اور اس کے حساب سے ترجمے تیار کئے گئے ،اپنے تراجم میں عصری ضرورتوں کا خاص لحاظ رکھا گیا ، پیش نظر ترجمہ قرآن بھی اسی سلسلے کے ایک کڑی ہے ، مترجم معروف صاحب قلم اور محقق عالم دین،ڈاکٹر مفتی اشتیاق احمد قاسمی استاد دارالعلوم دیوبند ہیں، جنھیں اللہ پاک نے ترجمے کے لیے ضروری علوم عربیہ پر دسترس کے ساتھ اردو زبان وادب کا بھی خاص ذوق عطا کیا ہے۔ قرآن مقدس کی تفسیر اور ترجمے سے خصوصی مناسبت ہے،اور آسان سے آسان راہ اپناکر ترجمہ قرآنی تک رسائی کے لیے کامیاب نئے طریقے وضع کررکھے ہیں، حتی کہ جو طلبہ آپ سے نیازمندانہ علمی تعلق رکھتے ہیں آپ ان کو نحو وصرف کے موٹے موٹے قواعد بتلاکر سرعت کے ساتھ قرآن کریم کا مکمل ترجمہ یاد کرادیتے ہیں، بلکہ بعض دوسرے مدارس جنھوں نے اس نہج کو اپنایا ہے، ان کا تاثر یہ ہے کہ اس نہج سے طلبہ میں بہت جلد ترجمے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔
اس سب سے آسان ترجمے کی ضرورت کیوں پیش آئی خود حضرت مترجم کے قلم سے ملاحظہ فرمائیں ، آپ فرماتے ہیں:
"اکابر کے قابل اعتماد تراجم پر ایک دو صدی گزر چکی ہے، ان میں عربی اور فارسی کے الفاظ بہت ہیں، محاورات میں آج کا قاری اجنبیت محسوس کرتا ہے، اگرچہ اس زمانے کی یہ فصیح زبان ہے، جب فارسی کا چلن تھا، عربی مفردات سے عوام واقف تھے؛ اب زبان بدل چکی ہے، مفردات نئے آ گئے ہیں، ترکیبیں نیا روپ دھار چکی ہیں، اس لیے ایسا ترجمہ کیا جائے جو تفسیر کے منہجی خطوط پر استوار ہو ساتھ ہی عربی فارسی کے مشکل الفاظ نہ ہوں، ترکیبیں آج کی ہوں، ایسے الفاظ بھی نہ ہوں جن سے ایک علاقہ مانوس اور دوسرا غیر مانوس ہو”
اگرچہ یہ طے کردینا کہ اس جملے یا لفظ کا سب سے آسان ترجمہ یہی ہے، آسان نہیں بلکہ مشکل ہے، تاہم مترجم موصوف نے اس حوالے سے جس عرق ریزی اور تتبع واستقصا سے کام لیا ہے، اس کے پیشِ نظر بہت حد تک وہ اپنے مقصد اور منہج میں کام یاب نظر آرہے ہیں۔
چنانچہ آپ نے پورے شرحِ صدر کے ساتھ اس اہم کام کا بیڑا اٹھایا اور اپنے اس کام کی بنیاد اکابر علماء کے تراجم پر رکھی ،آپ فرماتے ہیں:
” چنانچہ علامہ جرجانی اور شاہ ولی اللہ کے فارسی ترجمے ؛ شاہ رفیع الدین اور شاہ عبد القادر کے اردو ترجمے کتب خانہ دار العلوم دیو بند سے حاصل کیے، ان کے ساتھ اکابر کے پندرہ تراجم تک رسائی ہوگئی ؛ یعنی ترجمہ شیخ الہند ، حقانی، تھانوی، دریا بادی، فتح محمد جالندھری، احمد لاہوری، احمد سعید دہلوی، سرفراز خان صفدر، اکرم اعوان، عبد القیوم مہاجر مدنی ، عاشق الہی بلند شهری ، صوفی عبد الحمید سواتی محمد تقی عثمانی ، خالد سیف اللہ رحمانی مد ظلہما اور مفتی صاحب کی ہدایت القرآن کے لفظی و محاوری ترجمے ؛ اس طرح انیس قابل اعتماد تراجم کے لفظ لفظ اور حرف حرف پر غور و فکر کرنے کاحوصلہ لے کر بیٹھا، ان میں پانچ تراجم کو ناچیز ام التراجم تصور کرتا ہے، یعنی حضرت شاہ ولی اللہ، شاہ رفیع الدین ، شاہ عبد القادر دہلوی، حضرت تھانوی اور فتح محمد جالندھری کے ترجمے ؛ اس لیے کہ بعد کے سارے ترجمے انھیں کو سامنے رکھ کر تیار کیے گئے ہیں”
کن خطوط پر ترجمہ کو آگے بڑھایا گیا ، کام کی نوعیت کیا رہی ، ترجمہ میں کس قدر محنت و جانفشانی سے کام لیا گیا ہے اس کا اندازہ کو ذیل کے اقتباس سے لگایا جاسکتا ہے:
” کام کی نوعیت یہ رہی کہ پہلے قرآن پاک کے ایک لفظ کے سارے ترجمے دیکھتا اور انھیں ایک کاغذ پر جمع کر لیتا پھر ان میں سے آسان ترجمے کا انتخاب کرتے ہوے درج ذیل عربی تفاسیر میں سے متعدد یا سب کو دیکھتا ؛ تفسیر جلالین ، کبیر، ابن کثیر، ابن عاشور، قرطبی، طبری، بغوی، مدارک، سعدی اور زمخشری ؛ ساتھ ہی عربی لغات سے مدد لیتا ، ان میں لغات القرآن، المعانی (انٹرنیٹ) ، المعجم الوسيط ، القاموس الوحيد، مصباح اللغات قابل ذکر ہیں؛ جب مفردات کے انتخاب پر مطمئن ہو جاتا تو اُسے اردو لغات میں دیکھتا؛ اس کے لیے فیرز اللغات، جامع اللغات ، فرہنگ آصفیہ اور انٹرنیٹ پر موجودہ چند لغات سے مدد لیتا اور جو لفظ کئی بار آیا ہے اس کو سارے مقامات پر دیکھتا اور سارے معانی کو جمع کرتا اور ہر جگہ کے مناسب معانی پر غور کرتا ؛ پھر محاورات کو دیکھتا اور ایسی آسان تعبیر اختیار کرتا جس سے آسان پر میں قادر نہیں، جسے ہر وہ اردو پڑھنے والا سمجھ سکے ، جو اخبار پڑھ لیتا ہے اور جو تعبیر اردو حلقے میں ہر جگہ سمجھی جاسکے اور صرف و نحو سے بھی صرف نظر نہیں کیا ؟ اس مرحلے میں بہت سی جگہوں میں غور و فکر میں پورا پورا دن لگ گیا؛ بلکہ کئی کئی دن صرف ہو گئے ".
اس طرح محنت شاقہ اور اور طویل فکر وتدبر کے بعد یہ آسان ترین ترجمہ منظر عام پر آسکا ہے، جس کے ذریعے ایک اہم ضرورت کی تکمیل اورمایۂ ناز محدث و مفسر،مخدوم گرامی حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری قدس الله سره وبرد مضجعه، سابق شیخ الحدیث وصدر المدرسین دارالعلوم دیوبند کے امر کی تعمیل بہ حسن وخوبی ہوتی نظر آرہی ہے۔مفتی صاحب موصوف، حضرت مفتی سعید احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے خصوصی تربیت یافتہ قابلِ فخر تلمیذ رشید ہیں،اور آپ کے انتہائی معتمد اور منظور نظر رہے ہیں۔اور حضرت والا کے طے کردہ رہنما خطوط پر ہی اس منصوبے کو انجام تک پہنچایا ہے ۔
میں دل کی گہرائیوں سے اس خدمت گرامی پر مترجم محترم کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور طبقہ اہل علم، طلبہ مدارس اور عامۃ المسلمین سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ قرآن فہمی میں اس گراں قدر ترجمے سے ضرور فائدہ اٹھائیں! ربّ کریم حضرت مولانا کی اس کاوش کو بے انتہا قبول فرمائیں اور اس کو خوب افادیت و نافعیت عطا فرمائیں!