صالحیت و صلاحیت کے پیکر، ایک سنجیدہ شخصیت
مفتی امام الدین قاسمیؒ
بدرالاسلام قاسمی
استاذ جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند
وفات کی اطلاع
آج مؤرخہ یکم فروری ۲۰۲۴ء مغرب کے وقت واٹس اپ پر ایسی خبر موصول ہوئی جس نے کچھ لمحات کے لیے ذہن و دماغ کو مفلوج سا کر دیا، اُس خبر پر نہ تو دل یقین کرنے پر آمادہ تھا اور نہ ہی ذہن اُس پر بھروسہ کرنے کو تیار۔ خبر ملی کہ ’’مولاناامام الدین قاسمی، سابق کارکن مرکزی دارالقضاء امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ، الحمد ادارہ خدمت ِ خلق کے فعال رکن کا ابھی کچھ دیر پہلے انتقال ہوگیا۔انا للہ و انا الیہ راجعون‘‘ کچھ ہی دیر میں خبر کی تصدیق ہو گئی اور زبان پر بس کلماتِ استرجاع جاری ہوئے، رفیق درس کے لیے ایصالِ ثواب کیا اور پس ماندگان کے لیے صبر جمیل کے لیے بارگاہِ الٰہی میں التجا کی۔
یادِ ماضی: دارالعلوم وقف میں راقم کا داخلہ
فارسی سے عربی پنجم تک کی تعلیم ’’معہدالانور دیوبند‘‘ میں حاصل کرکے راقم عربی ششم کے لیے اپنی عقیدتوں کے مرکز، مادرِ علمی دارالعلوم وقف میں داخل ہوا، معہد میں ہر جماعت میں طلبہ کی تعداد بیس سے کم ہی رہتی تھی، بلکہ عموماً یہ تعداد ایک درجن کے ارد گرد گھومتی، بسا اوقات ایسا بھی ہوا کہ بعض جماعتوں میں دو یا تین ہی طلبہ رہتے۔ ادارے کے ناظم تعلیمات ، استاذ محترم حضرت مولانا عبدالرشید بستوی علیہ الرحمہ کا کہنا تھا کہ ہمیں کمیت سے کوئی غرض نہیں، اصل مقصود کیفیت ہے، چناںچہ درس گاہ کے کھچا کھچ بھر جانے سے کہیں بہتر ہے کہ استاذ کے مخاطب چند ہی باصلاحیت طلبہ ہوں لیکن وہ بغور ان کی باتیں سنیں اور ان پر عمل پیرا ہو کر دینی خدمت کے جذبات سے سرشار ہوں۔
مولوی امام الدین سے ملاقات
یہاں دارالعلوم وقف میں داخلہ راقم کے لیے ایک نیا تجربہ تھا، ہر جماعت میں سینکڑوں طلبہ، بڑی بڑی درسگاہیں، مائیک پر سبق، عبارت خوانی کےلیے باقاعدہ ترجمان سے کہہ کر اپنا نام لکھوانا وغیرہ؛ یہ تمام باتیں میرے لیے نئی تھیں۔ بہرحال ! والد گرامی حضرت مولانا محمداسلام قاسمی علیہ الرحمہ چوں کہ دارالعلوم وقف کے بے لوث اور بنیادی اساتذہ میں تھے، اس لیے طلبہ میں میرا کچھ تعارف تھا۔ وہاں نئے طلبہ سے ملاقات ہوئی، جو رفتہ رفتہ دوستی اور رفاقت میں تبدیل ہوگئی۔ اُن میں ایک طالب علم کا نام تھا ’’امام الدین مدھوبنی‘‘۔
اوصافِ حمیدہ
وہ دُبلے پتلے، طالب علمی میں ہی نہایت سنجیدہ اور باوقار شخصیت کے حامل تھے۔ سبق میں پابندی کے ساتھ حاضری، اساتذہ کی تقریر پر مکمل توجّہ، متنازع گفتگو اور جذباتی تبصروں سے کلّی احتراز، تمام اساتذہ کا ادب و احترام اور ساتھیوں کے ساتھ خیرخواہی اُن کے خاص اوصاف تھے۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اُس زمانے میں اینڈرائیڈ موبائل نہ تھے اور ہماری غیردرسی مصروفیات ضلعی و صوبائی انجمنوں اور ان کے تحریری و تقریری مسابقوں تک محدود تھیں، زیادہ سے زیادہ عصر تا مغرب کھیل کود۔ اُس کے علاوہ درس گاہ سے گھر اور گھر سے درس گاہ۔ راقم کو اُس وقت گرافکس ڈیزائن کی تھوڑی بہت شد بُد ہو چکی تھی، مولوی امام الدین اپنے رفیق (غالباً) مولوی اشتیاق مدھوبنی کے ساتھ میرے پاس ایک کام لے کر آئے، اُن کی ضلعی انجمن ’’بزم نہضۃ الطلبہ‘‘ کا لیٹرپیڈ ڈیزائن ہونا تھا۔ اس سے اندازہ ہوا کہ وہ اپنی ضلعی انجمن کے کسی اہم عہدہ پر فائز ہیں۔
ہماری یہ رفاقت عربی ششم سے عربی ہفتم، پھر دورۂ حدیث شریف تک برقرار رہی۔ اس دوران انہیں کبھی کسی طالب علم سے بلاوجہ الجھتے ہوئے نہ دیکھا، کسی کی غیبت، برائی اور بدخواہی سے اُن کا دامن ہمیشہ صاف ستھرا پایا۔ بلکہ بیشتر مقامات پر وہ فریقین میں صلح کراتے نظر آتے، اُن کے علاقے کے طلبہ اُن کی رائے کو اہمیت دیتے اور انہیں اپنا خیرخواہ سمجھتے۔ وہ کافی خوش خط تھے، تحریر کا سلیقہ تھا، ظاہری بناوٹ، تصنع اور تکلف سے کوسوں دور تھے، بالکل سیدھے سادے اور ایک آئیڈیل طالب علم۔
تکمیل ادب عربی میں
راقم دورۂ حدیث سے فراغت حاصل کرکے ۲۰۱۰ء میں ’’معہد الانور‘‘ (جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند) میں تدریسی خدمات انجام دینے لگا، تین گھنٹوں کی تدریس کے ساتھ ہی دارالعلوم وقف کے شعبۂ تکمیل ادب عربی میں دو گھنٹوں کی سماعت کے لیے حاضر ہوتا، یہ دونوں اسباق والد گرامی سے متعلق تھے جس میں وہ اسالیب الانشاء اور تاریخ الادب العربی کا درس دیتے۔ مولوی امام الدین بھی اسی شعبہ میں داخل تھے ، اس طرح ہماری رفاقت میں ایک سال کا اضافہ ہوگیا۔ تکمیل ادب میں بھی وہ حسب ِ سابق پوری لگن اور جدوجہد کے ساتھ سرگرم رہے، والد گرامی اور دیگر اساتذہ کے اسباق کی تیاری، تمرینات پر توجّہ، حل عبارت وغیرہ، ساتھ ہی عربی انجمن ’’النادی العربی‘‘ میں متحرک شرکت، دیگر طلبہ کو انجمن میں حاضری کے لیے شوق دلانا، انہیں جداری ماہنامہ میں مضمون لکھنے کے لیے آمادہ کرنا، اساتذہ کے مزاج کے مطابق دیگر تمام امور کی انجام دہی میں وہ پیش پیش رہے۔
راہیں جداجدا
شعبۂ تکمیل ادب سے جزوی استفادے کے بعد میں نے اپنا مکمل وقت معہد الانور کے لیے فارغ کر لیا اور اب پانچ چھ اسباق راقم سے متعلق ہو گئے، جب کہ مولوی امام الدین صاحب بھی دیوبند سے چلے گئے، بعد میں معلوم ہوا کہ انہوں نے تکمیل افتاء و قضا کے لیے ہندوستان کی سب سے معیاری درس گاہ ’’المعہد العالی ، امارت شرعیہ پٹنہ‘‘ کا رخ کیا ہے۔ زندگی آگے بڑھتی رہی اور سب رُفقاء اپنی اپنی راہ پر گامزن ہو گئے۔ راقم کا اُس وقت بھی یہی نظریہ تھا اور آج بھی یہی ہے کہ جن طلبہ کے اندر صلاحیت اور صالحیت پائی جائے، جنہیں یقین ہو کہ وہ مستقبل میں پوری دیانت داری اور احساسِ ذمہ داری کے ساتھ شرعی احکامات میں لوگوں کی درست رہنمائی کرسکتے ہیں اُنہیں ضرور تکمیل افتاء کرنا چاہیے کہ ایک مفتی کی بات آج بھی عوام میں اہمیت کی حامل ہوتی ہے، لیکن صالحیت و صلاحیت اور متدین مزاج کے فقدان کے باوجود محض ڈگری اور نام کے سابقہ کے طور پر ’’مفتی‘‘ کا لیبل لینے کے لیےاس شعبہ میں داخل ہونا افسوسناک ہے۔
امارتِ شرعیہ پٹنہ میں خدمت
اب مولوی امام الدین امارتِ شرعیہ میں دو سالہ تکمیل افتاء و قضا کرنے کے بعد قاضی امام الدین صاحب بن چکے تھے، اساتذہ و ذمہ داران نے ان کی صلاحیتوں کو پہچانا، ان میں مزاج کی سنجیدگی و متانت اور امانت و دیانت کے اوصاف نمایاں طور پر محسوس کیے تو انہیں امارت ہی میں خدمت کا موقع میسر آیا جو رفتہ رفتہ وہاں پر نائب قاضی بن گئے۔ مختصر سے وقت میں وہ کافی ترقی کر گئے تھے۔
والد گرامی سے خاص تعلق
اس دوران والد گرامی وقتاً فوقتاً امارت شرعیہ آتے جاتے رہتے، کبھی مجلس شوریٰ میں تو کبھی کسی اور عنوان سے۔ وہاں اپنے شاگرد رشید قاضی امام الدین سے ملاقات پر بہت خوش ہوتے۔ اہم معاملات میں انہیں مفید مشورے دیتے، بڑوں کے درمیان رہ کر ایک کم عمر کو کس طرح میدانِ عمل میں وسعت پیدا کرنی چاہیے، کون سے اُمور ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں، یہ ساری باتیں ان کے درمیان ہوتیں، بارہا یہ گفتگو فون پر بھی ہوتی۔
آخری ملاقات
دو سال قبل امیر شریعت ثامن کے انتخاب کے موقع پر راقم کو والد گرامی کےساتھ امارت شرعیہ پٹنہ جانے کا موقع ملا، یہ میرا وہاں کا پہلا سفر تھا۔ اجنبی چہرے، نئی جگہ، کچھ لوگ جانے پہچانے بھی ملے لیکن موقع کی مناسبت سے مہمانوں کا ازدحام ایسا تھا کہ کسی کے پاس زیادہ دیر رک کر بات کرنے کا وقت نہ تھا، وہاں قاضی امام الدین صاحب سے بہت اچھی ملاقات ہوئیں، انہوں نے والد گرامی کا کافی خیال رکھا، اپنے کچھ اہم معاملات میں ان سے مشورہ لیا، والد گرامی نے حسب سابق ان کی رہنمائی کی۔
امارت سے علاحدگی اور الحمد ٹرسٹ سے وابستگی
امیر شریعت کے انتخاب کے بعد کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر وہ امارت شرعیہ سے علاحدہ ہوگئے، اس موقع پر بھی انہوں نے والد گرامی سے مشورہ لیا ، اس دوران وہ مستقبل کے حوالے سے کافی مایوس نظر آئے۔ والد گرامی نے انہیں حوصلہ دیا اور کہا کہ مایوس نہ ہوں! اللہ کی زمین بہت بڑی ہے، اللہ ضرور تم سے خدمت لے گا۔ چناںچہ وہ جلد ہی ایک دوسری تنظیم سے وابستہ ہو کر خدمت میں مصروف ہوگئے۔
والد گرامی سے متعلق مضمون
۱۶؍جون ۲۰۲۳ء کو والد گرامی کی وفات کے بعد ان سے تعزیتی گفتگو ہوئی، کچھ دنوں بعد سوانحی مقالات و مضامین کو کتابی شکل میں مرتب کرنے کا پروگرام بنا تو قاضی امام الدین صاحب کو بھی میں نے والد صاحب پر مضمون لکھنے کے لیے کہا، جس پر انہوں نے ایک عمدہ مضمون ارسال کیا جو ایک شاگرد اور استاذ کے تعلق کو ظاہر کرتا ہے ،یہ تحریر اِن شاء اللہ مجموعہ مقالات کا حصہ ہوگی۔
کسے معلوم تھا کہ نئے عزم و حوصلہ کے ساتھ مستقبل میں کئی ملّی و رفاہی خدمات کا خواب دیکھنے والی آنکھیں اتنی جلدی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائیں گی۔ لیکن یہی اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے کہ :
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ ، کل ہماری باری ہے
اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے، ان کے سیئات کوحسنات سے مبدل فرمائے، ان کے پس ماندگان اور اہل خانہ کو صبر جمیل بخشے۔ آمین۔ بلاشبہ ان صبر آزما حالات میں مجھ جیسے کئی رفقاء اُن کے غم میں شریک ہیں۔