صحرائے جنوں اور احمد معراج
✍️انور آفاقی دربھنگہ
دبستانِ عظیم اباد میں جب شعر و ادب کی بہار چھائی ہوئی تھی تو اس کے ساتھ اسی زمانے میں دوسرے کئی اضلاع بھی اس بہار کی خوشبوؤں سے فیض یاب ہونے لگے تھے ان اضلاع میں سے ضلع سارن کے شہر چھپرہ میں بھی شعر و سخن کی فضا پھولنے پھلنے لگی تھی۔ شہر چھپرہ جس کی خاک سے نشتر چھپروی ، عبد الطیف شؔفا چھپروی، اسمعیل خاں جوؔش چھپروی، محمد حنیؔف چھپروی، اجتبی حسین رضوی اور دوسرے کئی شعراء اٹھے اور شعر و ادب کی دنیا پہ چھا گئے اور بڑا نام پیدا کیا ۔ چھپرہ میں شاعری کی فضا سازگار ہوتی رہی اور اس کی خمیر سے شعرا و ادبا پیدا ہوتے رہے ۔ اسی خمیر سے اٹھنے والے ایک خوش مزاج ،خوش گلو اور خوش اخلاق و اعتبار نوجوان شاعر کا نام ڈاکٹر احمد معراج ہے جن کا وطن ثانی عشق و محبت کی سرزمین، ٹیگور و نذر الاسلام کا وطن اور رضا علی وحؔشت ، علقمہ شبلی کا مسکن شہرِ نشاط یعنی کالکوتہ ہے ۔
احمد معراج الدین خان ابن عبداللہ خان و نجمہ بیگم نے چھپرہ بہار کے ایک موضع ارنا میں 7 جنوری 1986 ( بہ اعتبار تعلیمی سند )میں آنکھیں کھولیں۔ شعر و ادب کی دنیا میں اپنے قلمی نام احمد معراج سے مشہور ہوئے ۔ بچپن ہی سے کلکتہ جیسے دلربا شہر میں پروان چڑھنے والے اور وکٹوریہ میموریل گارڈن ، آٹرم گھاٹ کی صبح و شام کی فضا میں سانس لینے والے احمد معراج کی ابتدائی تعلیم مدرسہ حنفیہ رضویہ سے شروع ہوئی مولانا ازاد کالج کولکاتا سے گریجویٹ ہوئے ۔ایم۔ اے اور بی۔ ایڈ کی ڈگریاں مولانا ازاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدراباد سے پائیں ۔ بی ۔پی۔ ایڈ ناگپور یونیورسٹی ناگپور سے مکمل کیا ۔ ساتھ ہی وہ للت نارائن متھلا یونیورسٹی دربھنگہ سے ڈاکٹریٹ کے سند یافتہ بھی ہیں ۔ جب شاعری کی ابتدا کی تو اپنی پہلی غزل پر معتبر شاعر بازغ بہاری سے اصلاحِ سخن لی پھر ان کی وفات کے بعد مستقل طور پر اپنا کلام معروف و مشہور شاعر حلیم صابر کو دکھانے لگے ۔ حلیم صابر نے احمد معراج کی فنی صلاحیت کو نکھارا اور اب احمد معراج نے اپنے پہلے مجموعہ کلام” صحرائے جنوں” ( مطبوعہ 2022) کے ساتھ شاعری کی دنیا میں اپنی شناخت کرائی ہے۔
احمد معراج جتنے ہینڈسم ہیں وہ اتنی ہی خوبصورت شاعری بھی کرتے ہیں ۔ وہ مشاعرے میں اپنا کلام ترنم سے سنا تے ہیں اور سامعین سے داد و تحسین پاتے ہیں ۔ اس کم عمری ہی میں کئی اعزازات و انعامات سے نوازے جاچکے ہیں ۔ صرف کولکاتا ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستان کے مشاعرے میں مدعو کیے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر احمد معراج کا اولین مجموعہ کلام "صحرائے جنوں” میری نگاہوں کے سامنے ہے اور ابھی زیر مطالعہ ہے۔ یہ کتاب مجھے بدست ڈاکٹر منصور خوشتر، چند دنوں قبل موصول ہوئی تھی۔ میں اس خوبصورت تحفہ کے لیے ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور صحرائے جنوں کے لیے نیک تمنائیں پیش کرتے ہوئے دعا کرتا ہوں کہ صحرائے جنوں اپنی مقبولیت کی تمام بلندیوں کو چھو لے ۔ اللہ ان کو نئی توانائی اور فکری جولانی عطا کرے اور ان کا دوسرا مجموعہ کلام بھی جلد ہی قارئیں ادب کے ہاتھوں میں ہو۔ امین۔
پیش نظر کتاب کل 174 صفحات پر محیط ایک دیدہ زیب مجموعہ کلام ہے جسے عرشیہ پبلی کیشنز دہلی نے بڑے اہتمام سے چھاپا ہے ۔ اس کتاب کو موصوف نے اپنی "امی جان” کے نام منسوب کیا ہے ساتھ ہی ایک صفحہ اپنے مادرِ علمی "مولانا آزاد کالج کلکتہ” کے نام بھی کیا ہے۔ یہ وہی کالج ہے جہاں سے انہوں نے علم حاصل کرکے اپنے باطن کو روشن کیا ، شعور کے راستے طئے کئے اور منزل کی طرف گامزن ہوئے۔ بعد کے دو صفحات پر ان کا تعارف و کوائف ہے جس سے ان کے بارے میں قارئین کو بہت سی ضروری معلومات حاصل ہو جائیں گی ۔ فہرست پانچ صفحات پر مشتمل ہیں ۔
سب سے پہلے احمد معراج "اپنی بات "کے صفحہ پر اپنی دلی کیفیات و احساسات کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں۔۔
” قدرت نے مجھے بے حد حساس طبیعت عطا کی ہے ۔ یہی سبب ہے کہ زمانے کے تغیرات مجھے حد درجہ متاثر کرتے ہیں اور میں اضطرابی کیفیت سے دوچار ہو جاتا ہوں ۔ یقینا اس کی آہٹ آپ بھی میری شاعری میں محسوس کریں گے ۔ قدروں کا زوال میرے لیے ایک بڑا سانحہ ہے ۔میری نظریں ایسے صالح سماج کو ڈھونڈتی ہیں جس میں انسانیت کی خوشبو فضاؤں میں رچی بسی ہو”۔
سچی بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی شاعر/ فنکار پہلے حساس ہوتا ہے تب ہی اس کی نگاہوں کے سامنے ہونے والے واقعات اس کے قلب پر مرتسم ہوتے ہیں اسے جھنجوڑتے ہیں تڑپاتے ہیں رلاتے ہیں اور تب ایک شاعر/فنکار اپنا قلم اٹھاتا ہے اور اپنے قلبی کیفیات و تجربات کو صفحہءِ قرطاس پر بکھیر کر سکون پاتا ہے۔ اور عام انسان اس شاعر کی تخلیق میں اپنے دکھ درد کی تصویر دیکھتا ہے ۔ شاعر کی آواز اس کی اپنی آواز لگتی ہے اور تب جا کر وہ شاعر وہ فنکار عوامی سطح پر مرکز نگاہ بنتا ہے ۔ پکاسو اپنے احساس و جذبات کو پینٹنگ میں پیش کر کے ایک بڑا فنکار بن کر ابھرتا ہے ساحر لدھیانوی” چکلہ "جیسی نظم لکھ کر تہلکہ مچا دیتا ہے اور یہ کہہ کر
کہاں ہیں کہاں ہیں محافظ خودی کے
ثنا خوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں
لوگوں کی نگاہوں کا مرکز بن جاتا ہے ، اور شاعر جمالی
جیسا شاعر یہ شعر
ائے پڑوسی یہ جو بچہ ہے ترے نیزے پر
تیرا ببلو اسے کل ڈھونڈ کے روئے گا بہت
سنا کر سامعین کو سکتے میں ڈال دیتا ہے اور ڈاکٹر احمد معراج محنت کشوں کے دکھ اور درد کو اپنا دکھ درد سمجھ کر جب یہ شعر کہتا ہے اور مشاعرے میں سناتا ہے
دھوپ سر پر مرے مشقت کی
شاخ محنت پہ پھل رہا ہوں میں
تو قارئین و سامعین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں کامیاب ہوجاتا ہے ۔
اس کے بعد 26 صفحات پر ڈاکٹر احمد معراج کی شخصیت اور فنِ شاعری پر ڈاکٹر نسیم احمد نسیم بتیا، بہار ، ممتاز ناقد ڈاکٹر حقانی القاسمی دہلی ، ایم۔ نصر اللہ نصر کولکاتا ،اور ڈاکٹر خان محمد رضوان دہلی نے عمدہ تاثراتی مضامین قلمبند کئے ہیں جن کے مطالعے سے قارئین کو یک گونہ مسرت اور آحمد معراج کی شاعری کے کینوس کی وسعت کا اندازہ ہوگا ۔
سب سے پہلے کتاب کے گرد پوش کے اندرونی حصے پر معروف صحافی شاعر ادیب ناقد ف۔ س۔ اعجاز کی تحریر پر نظر پڑتی ہے وہ اپنی رائے دیتے ہوئے رقم طراز ہیں:
” احمد معراج کی شاعری کی موجودہ پرواز سے ان کی دلی کیفیات کی سمتیں اور تہیں واضح ہوتی ہیں ۔ حیات و موت کے فلسفہ میں ان کی دلچسپی نے ان کی غزلوں کی زبان کو ایک خاص صفائی اور پاکیزگی عطا کر دی ہے”۔
ڈاکٹر احمد معراج کی شاعری اور شخصیت پر گفتگو کرتے ہوئے ہمارے معروف و مقبول ادبا و شعرا نے کیا کچھ تحریر کیا ہے ، مناسب لگتا ہے کہ ان کے کچھ اقتباسات بھی آپ قارئین کی بصارتوں کے حوالے کرتا چلوں۔ معروف ادیب و شاعر ڈاکٹر نسیم احمد نسیم ، احمد معراج کی شعری کائنات ، زبان اور طرز بیان پر اپنی رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
"احمد معراج کی زبان شستہ شگفتہ اور سلیس ہے۔ اس لیے ان کے یہاں خیال الجھے ہوئے اور گنجلک نہیں ہیں۔
وہ بہت روانی اور برجستگی کے ساتھ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں کہہ جاتے ہیں ۔ میری دانست میں یہ کسی بھی شاعر کی سب سے بڑی خصوصیت تصور کی جانی چاہیے”۔
ان کے بعد اردو دنیا کے نہایت معتبر اور ممتاز ناقد و صحافی حقانی القاسمی( نئی دہلی) کا عمدہ مضمون "سخنِ آسماں کا نیا ستارہ "پڑھنے کو میسر ہے ۔ موصوف، ڈاکٹر احمد معراج کے بارے میں بہت واضح اور کھلے دل سے ان کی شعری صلاحیت و استعداد پر اپنی رائے اور پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
” احمد معراج کی شاعری حادثات حیات ، زندگی کے تضادات وہ تموجات ، انتشار و آویزش کی تعبیر بھی ہے اور عصری کرب و کشمکش کا بیانیہ بھی ۔ ان کی شاعری کا روح اور روحانیت عشق اور رومانیت سے بھی گہرا رشتہ ہے ۔ اس میں تزکیہ نفس ، تطہیر باطن کے ساتھ ساتھ ، جمالیاتی اور جذباتی تسکین کا عنصر بھی ہے”۔
احمد معراج کی شخصیت اور فن سے متعلق معروف شاعر و ادیب ایم ۔نصراللہ نصر ( ہورہ مغربی بنگال) فرماتے ہیں:
"ڈاکٹر احمد معراج نہایت ہی مخلص اور سلیقہ مند انسان ہیں ۔ درد مند دل رکھتے ہیں ۔ طبیعت میں شگفتگی اور شادابی ہمیشہ قائم رہتی ہے ۔ آج وہ اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں سے ان کا شعری و ادبی قد کہسار کے درمیان سے نکلتے ہوئے سورج کی مانند صاف دکھائی پڑتا ہے”۔
آخر میں مشہور و معروف ادیب و شاعر ڈاکٹر خان محمد رضوان(دہلی ) کچھ اس انداز میں خامہ فرسائی کرتے ہیں:
” ڈاکٹر احمد معراج کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اپنے آپ پر کسی بھی تحریک یا رویے کی فکری میلان کو حاوی نہیں ہونے دیا بلکہ ان افکار و خیالات پر خود کو حاوی رکھا ۔ یہی سبب ہے کہ وہ اپنی مثبت فکر اور متنوع خیالات سے پرورش لوح و قلم کر رہے ہیں "۔
اس مجموعہ کلام میں صفحہ 42 سے 165 تک صرف غزلیں ہی غزلیں ہیں جنکی تعداد 80 ہے ۔ اس کے ساتھ 48 متفرق اشعار بھی اس مجموعہ کلام کی زینت بنے ہیں ۔ یہاں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ احمد معراج نے صرف غزلیں ہی نہیں کہی ہیں بلکہ شاعری کے دوسرے اصناف پر بھی ان کو دسترس حاصل ہے۔ وہ خوب صورت نثر بھی لکھتے ہیں ۔ ان کے تحریر کردہ مضامین و مقالے رسائل و جرائد کے ساتھ اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں ۔
انکی دو کتابیں "آنکھوں دیکھی:تجزیہ ” اور "گلستانِ وارث(تحقیق و تدوین )” منظر عام پر آچکی ہیں ۔
جب ہم احمد معراج کی شاعری پر غور کرتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی کم عمری ہی سے
اطراف و اکناف کا مشاہدہ بہت گہری نگاہ سے کیا
ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا عکس ان کے اشعار میں جا بجا نظر اتا ہے ۔ شاعر نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے حالات اور روز بروز ہونے والے واقعات اس کے ذہن کو نہ صرف متاثر کرتے ہیں بلکہ جھنجھوڑتے بھی ہیں ۔ شاعر کا مشاہدہ جس قدر گہرا ہوگا اس کی شاعری میں اس کی تصویر کشی بھی اتنی ہی پُر کشش ہوگی ۔ زمانے کے نشب و فراز اور حالات نے ان کو ایک درد مند انسان بنا دیا ہے۔ لہذا ان کی شاعری میں انسان کی زبوں حالی ، مجبوری اور لاچاری
کا عکس اور عصری حیثیت بھی نظر اتی ہے ۔ ان کے کچھ اشعار دیکھیں:
بے گھری اوڑھے ہوئے رہتے ہیں فٹ پاتھ پہ جو
ان کے رہنے کے لیے کاش کوئی گھر ہوتا
یوں مفادات کے زینے پہ اگر چڑھتا رہا
سب کی نظروں ہی سے ایک روز اتر جاؤں گا
جب بھی روتا ہوں اکیلے میں سکون پاتا ہوں
میرا غم بانٹنے والی مری تنہائی ہے
مت سمجھیے کہ وہ پرانی ہے
عہد رفتہ کی جو نشانی ہے
موت مارے گی کیا اسے مؔعراج
زندگی نے جس کو مارا ہے
نئی تہذیب کی دیکھی یہ نئی عریانی
خوش لباسی میں بدن حسن کا عریاں نکلا
ائینہ دیکھنے کی عادت نے
مجھ کو سچ بولنا سکھایا ہے
یہ سچ ہے کہ بعض شعراء کی طرح احمد معراج نے بھی کچھ الفاظ کو اپنی شاعری میں خصوصیت کے ساتھ برتا ہے۔ حقانی القاسمی کی باریک بیں نگاہ
اس طرح کے الفاظ پر پڑی تو وہ کہہ اٹھے :
” احمد معراج کی کچھ پسندیدہ لفظیات بھی ہیں۔ جن سے ان کے ذہنی اور جذباتی سمتوں کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔ خواب ، یاد ، تنہائی ، اشک ، غم ، زندگی اور چراغ ان کے مخصوص الفاظ ہیں”۔
مجموعہ کلام کا مطالعہ کرتے ہوئے جب میں( راقم الحروف) نے غور کیا تو ان الفاظ جن کی نشاندہی حقانی صاحب نے کی ہے ۔ ان کے ساتھ "عشق” اور” گھر” دو مزید ایسے الفاظ ملتے ہیں جو تواتر سے ان کے کلام میں بکھرے نظر اتے ہیں ۔ چنانچہ لفظ” عشق” کوئی 17 مرتبہ ان کے اشعار میں ملتے ہیں جبکہ لفظ "گھر” سب سے زیادہ یعنی 26 بار ائے ہیں ۔
عشق و محبت کی لو ، اللہ نے انسان کے دل اور اس کی فطرت میں اسے خلق کرتے ہوئے روشن کر دی تھی۔ جب تک انسان کے اندر دل دھڑکتا رہے گا عشق کی لو روشن رہے گی ۔ انسان کے دل میں عشق و محبت کی یہ "لو ” اگر روشن نہیں رہے گی تو پھر انسان ایک روبوٹ بن کر رہ جائے گا ۔ عشق کے حوالے سے چند اشعار بطور خاص آپ قارعین کی بصارتوں کی نذر کرتا چلوں ۔ پڑھیے اور لطف اٹھائیے ۔
وہاں عشق نے ہم کو پہنچا دیا
جہاں تک ہماری رسائی نہیں ہے
عشق کو چاہیے نظر ایسی
حسن چلمن سے بھی دکھائی دے
حسن کی کائنات عشق میں ضم
ایسی پیش نظر مثال کہاں
چہرہءِ عشق کو بارہا
انسوؤں سے نکھارا گیا
ہے معؔراج اگر عشق سچا تمہارا
تو خاموش کیوں ہو زمانے کے ڈر سے
عشق کو عشق کی معراج نہ حاصل ہوتی
مرحلے عشق کے مؔعراج جو آساں ہوتے
اب آئیے لفظ” گھر” کی طرف ۔ گھر ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ گھر ہی ہے جہاں دنیا کے سارے مصائب، الجھنوں اور پریشانیوں سے نبرد آزما ہونے کے بعد تھکا ہارا انسان جب گھر لوٹتا ہے تو اس کو آرام و سکون میسر ہوتا ہے۔ مگر وہ لوگ جو اپنی اس بنیادی ضرورت سے بھی محروم ہیں یا وہ گھر جہاں رہ کر بھی سکون نام کی چیز انہیں نہیں ملتی ۔ پھر ایسے حالات و واقعات سے جب ایک شاعر روبرو ہوتا ہے تو پھر گھر اس شاعر کے یہاں کس طرح ایک اہم موضوع بن کر اس کی شاعری میں ابھر اتا ہے ۔ اس کی جھلک احمد معراج کے مجموعہ کلام "صحرائے جنوں” میں نظر آتی ہے ۔چند اشعار ملاحظہ فرمائیں اور شاعر کی ذہنی پرواز کا اندازہ کریں ۔۔۔۔۔۔۔
ہوتا مٹی کا مکاں پھوس کا چھپر ہوتا
سر جھپانے کے لیے اپنا کوئی گھر ہوتا
جس میں رہتا ہوں میں وہ گھر تو میرا ہے
لیکن کاش رہنے کے لئےگھر کی طرح گھر ہوتا
بے گھری اوڑھے ہوئے رہتے ہیں فٹ پاتھ پہ جو
ان کے رہنے کے لیے کاش کوئی گھر ہوتا
اگر ہو دیوار و در سلامت تو گھر سلامت
ہو گھر کی بنیاد گر سلامت تو گھر سلامت
ہے گھر کی رونق تو بال بچوں کے شور و غل سے
ہوں جن کے نور نظر سلامت تو گھر سلامت
یوں ہمیں جہد مسلسل نے سفر میں رکھا
مدتوں بعد کبھی لوٹ کے ہم گھر ائے
شب نوردی میں مجھے ہوش کہاں رہتا ہے
لوٹ کر گھر کی طرف وقت سحر جاؤں گا
بوڑھی انکھوں میں نور بھر آیا
بعد مدت کے میں جو گھر آیا
احمد معراج نے زندگی کو اپنی نگاہوں سے کس زاویہ سے کیسے دیکھا اور اپنے احساسات کو اشعار میں کس طرح پیرویا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں ۔
بے وقار زندگی با وقار زندگی
دونوں صورتوں میں ہے برقرار زندگی
زندگی کو زندگی دے گئی فریب جب
کس پہ اب کرے بھلا اعتبار زندگی
تیرہ شبی میں ان کو ہوئی زندگی عطا
سورج کے ڈوبتے ہی ستارے چمک اٹھے
میرے اندر شعور جاگ اٹھا
زندگی میں فریب کھانے سے
میرا سرمایہءِ زندگی
دولت فکر و فن اور میں
زندگی مل گئی چراغوں کو
ایک سورج کے ڈوب جانے سے
اس دعا کے ساتھ مجھے اجازت دیں کہ رب کریم
احمد معراج کی زندگی کو خوشیوں سے بھر دے اور وہ گلستانِ شعر و ادب کو اپنی تخلیقات سے سجاتے سنوارتے رہیں ۔۔۔۔۔۔۔ آمین ۔