غیبت : ایک معاشرتی بیماری

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

جن گناہوں کے گناہ ہونے کا خیال بھی ہمارے دل ودماغ سے نکل گیا ہے، ان میں غیبت سر فہرست ہے، کسی ایسی بات کو پیٹھ پیچھے بلا ضرورت بیان کرنا کہ اگر اس کے سامنے بیان کیا جائے تو اسے نا پسند ہو، غیبت کہلاتا ہے، اگر اس کے اندر وہ صفت نہ ہو اور بیان کیا جائے تو یہ تہمت ہے۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے اپنے بھائی کی پیٹھ پیچھے برائی کرنے سے منع کیا ہے اور اس کی کراہت بیان کرنے کے لیے فرمایا کہ کیا تمہیں پسند ہے کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھاؤ، حالاں کہ تم لوگ اس کو پسند نہیں کرتے، اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ معاف کرنے والا مہربان ہے۔ (الحجرات: 12) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے غیبت کو زنا سے زیادہ بُرا عمل قرار دیا، کیوں کہ زنا کا گناہ تو بہ سے معاف ہوجاتا ہے، لیکن غیبت کا گناہ اس وقت تک معاف نہیں ہوتا، جب تک جس کی غیبت کیا ہے وہ معاف نہ کردے۔ (طبرانی وبیہقی) ایک موقع سے حضرت عائشہ ؓ نے حضرت صفیہ ؒ کو پست قد کہا تو آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم نے ایسی بات کہہ دی کہ اگر اس کو سمندر کے پانی میں ملا دیا جائے تو پورا پانی بدبودار ہوجائے۔ (ابوداؤد) مسند احمد کی ایک روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر دو قبروں پر ہوا، فرمایا: ان قبر والوں کو عذاب ہو رہا ہے، ان میں سے ایک غیبت کرتا رہتا تھا اور دوسرا پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا، ایک شخص کے بارے میں مذکور ہے کہ قیامت میں جب نامہئ اعمال کھولا جائے گا تو وہ اپنی نیکیوں کا اندراج اس میں نہیں پائے گا، دریافت کرنے پر اسے اللہ رب العزت کہیں گے کہ تو نے غیبت کرکے اسے ختم کر ڈالاتھا اور ظاہر ہے جب نیکیاں برباد ہو گئیں تو وہ جہنم کا مستحق قرار پائے گا، معراج کی رات حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر ایک ایسے شخص پر ہوا جو مردار کھا رہا تھا، دریافت پر حضرت جبرئیل ؑ نے فرمایا کہ یہ غیبت کرکے لوگوں کا گوشت کھایا کرتا تھا، ایک موقع سے سخت بدبو آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ ان لوگوں کی طرف کی ہوا ہے جو مسلمانوں کی غیبت کرتے تھے۔

واقعہ یہ ہے کہ آج ہماری کوئی مجلس غیبت سے خالی نہیں ہوتی، صبح صبح آنکھ ملتے ہوئے، چائے کی دوکان پر لوگ پہونچ جاتے ہیں، ایک پیالی چائے پیتے ہیں اور پورے محلے کی ٹوپی، پگڑی اچھال دیتے ہیں، ایک پیالی چائے پر مردار کھانے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، اور جب چار میں سے ایک چلاجاتا ہے تو تین مل کر اس کی برائی شروع کردیتا ہے کہ بڑا ہانک رہا تھا، لگتا ہے خود دودھ کا دھویا ہوا ہے، چائے خانہ پر لوگوں کے بارے میں ایسی ایسی باتیں کی جاتی ہیں جو غیبت سے بڑھ کر تہمت تک پہونچ جاتی ہیں، یہی حال گھروں میں عورتوں کا ہے، جہاں دو عورتیں جمع ہوئی، تیسری اور پاس پڑوس کی عورتوں کی بُرائی شروع ہوجاتی ہے، شیطان انسانوں کا کھلا دشمن ہے اس لیے وہ مجلس کو طویل کرتا رہتا ہے تاکہ دیر تک غیبت کا کام ہوتا رہے، اور نامہئ اعمال سیاہ ہوتے رہیں۔

غیبت کا گناہ جس قدر شدید ہے اسی قدر اس کا سننا بھی گناہ ہے، غیبت کرنے سے کسی بھائی کو نہ روکے تو اللہ رب العزت اسے دنیا وآخرت میں ذلیل کردے گا، اور اگر اس نے غیبت سے روک دیا تو اللہ کی نصرت ومدد دونوں جہان میں اسے حاصل ہوگی، مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ اگر کوئی شخص غیبت میں جو بُرائی بیان کی جا رہی ہے، اس کامسلمان بھائی ی طرف سے دفاع کرے اور جو عیب نکالا جا رہا ہے اس کی تردید کرے تو اللہ تعالیٰ اسے جہنم سے نجات دے دے گا۔

غیبت کرنے میں انسان کو مزہ آتا ہے، لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کھجور کی طرح ہے، حالاں کہ اس کے نقصانات شراب پینے سے زیادہ ہیں، صورت حال یہ ہے کہ ہر آدمی کو دوسرے کی بُرائی نظر آتی ہے اور وہ اس کو مزے لے لے کر بیان کرتا ہے، اور اپنے عیوب سے صرف نظر کرتا رہتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ نے اس کو بیان کیا جو آج مثل اور کہاوت کی طرح معروف ہے کہ اپنے بھائی کی آنکھ کا تنکا تو نظر آتا ہے، لیکن اپنی آنکھ کی شہتیر کا اسے پتہ نہیں چلتا، خوب یاد رکھنا چاہیے کہ جب ہم ایک انگلی کسی کی طرف اٹھاتے ہیں تو بقیہ تین انگلیان اپنی طرف مڑی ہوتی ہیں، یہ بتانے کے لیے تم کیسے ہو؟ اگر آدمی کی نظر اپنے عیوب پر بھی رہے تو وہ دوسروں کی غیبت سے باز رہے گا، بہادر شاہ ظفر کا مشہور شعر ہے۔

نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر رہے دیکھتے اوروں کے عیب وہنر
پڑی اپنی بُرائی پر جو نظر تو نگاہ میں کوئی بُرا نہ رہا

حضرت ابن عباس ؓ کا مشہور قول ہے کہ جب تم اپنے مسلمان بھائی کے عیب بیان کرنے کا ارادہ کرو تو اپنے عیوب کو یاد کر لو، فقہاء نے یہ بھی لکھا ہے کہ جس طرح کسی انسان کی غیبت حرام ہے اسی طرح بچے اور مجنوں کی غیبت کرنا بھی گناہ کا کام ہے، بچوں کے سامنے غیبت کا بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ وہ بھی اپنے گھر میں سن کر دوسروں کی بُرائی بیان کرنا شروع کر دے گا، اور غیبت میں مبتلا ہوجائے گا، جب کہ مجنوں تو اپنے دفاع پر بھی قادر نہیں ہے، اس کا گوشت کھانا بھلا کس طرح جائز ہو سکتا ہے، اسی طرح ذمی اور کافر کی غیبت بھی مکروہ ہے۔

غیبت کا تعلق صرف زبان سے نہیں ہے،بلکہ اگر کسی نے حرکات وسکنات سے یا کسی کی نقل کرکے اس کی کمزوری اور بُرائی بیان کی تو وہ بھی غیبت ہے، امام غزالی ؒ نے اسے زبان والی غیبت سے بڑی غیبت قرار دیا ہے کیوں کہ دلوں کو مجروح کرنے میں یہ زبان سے زیادہ مؤثر ہے۔

ایک سوال یہ بھی ہے کہ غیبت انسان کیوں کرتا ہے؟ اس کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں، کبھی تو کینہ، کدورت اور غصہ کی آگ ٹھنڈی کرنے اور دل کی بھراس نکالنے کے لئے کینہ، غصہ اور نفرت ہے کی وجہ سے انسان بُرانی شروع کر دیتا ہے، اس طرح اس کے دل کو وقتی راحت مل جاتی ہے، لیکن اس کی وجہ سے جہنم کی آگ اس کا مقدر بن جاتی ہے، کبھی لا یعنی مجلسوں میں بیٹھ کر دوستوں کی ہم نوائی اور ہاں میں ہاں ملانے کی وجہ سے وہ نا دانستہ غیبت کا مرتکب ہوجاتا ہے، پھر بات ہاں، ہوں سے آگے بڑھتی ہے اور وہ بھی مجلس کے تقاضے کے طور پر برائیاں بیان کرنا شروع کر دیتا ہے اور آخرت کی تباہی کا سامان کر لیتا ہے، بعض لوگ اپنے بڑے کے سامنے بُرائی بیان کرکے اس کی سرخروئی کے حصول کی کوشش کرتے ہیں، مقصد اپنے بھائی کو نیچا اور چھوٹا دکھانا ہوتا ہے، ذہن کے کسی گوشے میں یہ بات بھی رہتی ہے کہ آقا کے سامنے بُرائی کرنے سے دوسرا حقیر ہوجائے گا اور میرا قد بڑا ہوجائے گا، پہلے لوگ اپنے کو بڑا کرنے کے لیے خود کو چھوٹی لکیر سے بڑا کر کے پیش کیا کرتے تھے، اب خود کو صلاحیت اور صالحیت میں بڑا بننے کے بجائے اپنے حریف کے قد کو غیبت کر کے چھوٹا کیا جاتاہے، مثال کے طور پر اس کی لکیر کو مٹا کر یعنی بعض بُرائیاں بیان کرکے چھوٹا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، کبھی اپنے کو پاک صاف قرار دینے کی غرض سے بُرائی دوسرے کے سر منڈھ دی جاتی ہے اور معاملہ غیبت سے آگے بڑھ کر تہمت تک جا پہونچتا ہے، کبھی حسد، استہزاء اورمذاق کی وجہ سے بھی غیبت کی جاتی ہے۔

غیبت کا واحد علاج یہ ہے کہ اپنے عیوب پر نگاہ رہے، اور سوچتا رہے کہ میرے اندر تو خود ہی فلاں فلاں عیب ہے، دوسروں کے بارے میں ا ن عیوب کا تذکرہ کس طرح کروں، اس کے علاوہ اپنے مرے ہوئے بھائی کے گوشت کھانے کا تصور، اور دخول جہنم اور اعمال کے حبط کا استحضار بھی آدمی کو غیبت سے روکنے میں انتہائی مفید ہے، جس کی غیبت کرتا رہا ہے اس سے معافی بھی چاہنی چاہیے، کیوں کہ یہ حقوق العباد میں آتا ہے اور حقوق العباد کی معافی تلافی کے لیے صاحب حق کی معافی بھی ضروری ہے، اب اگر جس کی غیبت کرتا تھا وہ مر چکا ہے تو اس کے لیے دعاء مغفرت کرتا رہے، شاید اس کی تلافی کی اللہ کے یہاں کوئی شکل بن جائے۔

غیبت کی بعض صورتیں گناہ نہیں، مثلا قاضی کے سامنے گواہی دیتے وقت، ظالم کو ظلم سے روکنے، مسلمانوں کو کسی کے شر سے بچانے، مشورہ لینے والوں کو صحیح مشورہ دینے کی غرض سے اگر اس کے احوال بیان کیے جائیں تو ایسی غیبت ممنوعات کے قبیل سے نہیں ہیں، اسی طرح اگر کسی کے عیب کا ذکر تعارف کے لیے کیا جائے اور تنقیص کا خیال دل میں بالکل نہ ہو تو اس قسم کا تعارف بھی غیبت کے زمرے میں نہیں آئے گا، جیسے اندھے کا تعارف ”اعمیٰ“، بہرے کا تعارف ”اصم“ اور گنجے کا تعارف ”اقرع“ سے کرانا غیبت نہیں ہے، بشرطیکہ یہ اوصاف اس کی تنقیص کے لیے نہ بیان کیے گیے ہوں۔

غیبت کی تباہ کاریاں بے شمار ہیں، اس کی وجہ سے جھگڑے ہوتے ہیں، خاندان ٹوٹتا ہے، اور اچھا پُر سکون ماحول برباد ہو کر رہ جاتا ہے، سارے دوستانہ تعلقات پر غیبت کی ضرب کاری لگتی ہے، اس لیے سماج سے اس معاشرتی بیماری کو ختم کرنا ضروری ہے، اسی میں دنیا وآخرت کی بھلائی ہے۔

Leave a Reply