لال قلعہ پر سب سے پہلے ترنگا جھنڈا لہرانے والے میجر جنرل شاہ نواز خان
مغلیہ سلطنت کے سنہری دور کی یادگار لال قلعہ سے سب ہی واقف ہیں۔ یہ وہی قلعہ ہے جس کے دیوانِ خاص میں موجود تخت طاؤس پر بیٹھ کر مغلیہ سلطنت کے حکمراں ہندوستان کے طول و عرض پر حکومت کرتے تھے۔ یہ قلعہ 1857سے لے کر ملک کو آزادی حاصل ہونے تک برطانوی فوج کے قبضے میں رہا جس میں انہوں نے اکثر ہندوستانی قیدیوں کو قید رکھا۔ لیکن کیا آپ اس شخص کو جانتے ہیں جس نے ملک کو آزادی ملتے ہی اس لال قلعہ سے انگریزوں کا جھنڈا ’یونین جیک‘ اتار کر ہندوستان کا قومی پرچم ’ترنگا‘ لہرایا تھا؟ جی ہاں! اس شخص کا نام تھا میجر جنرل شاہنواز خان۔
جنرل شاہنواز خان کا لال قلعہ سے رشتہ کافی پرانا ہے۔ جب وہ آزاد ہند فوج میں نیتا جی سبھاش چندر بوس کے کندھے سے کندھا ملا کر لڑ رہے تھے۔ اسی درمیان برطانوی فوج نے انہیں پکڑ کر اسی لال قلعہ میں قید کر دیا اور یہیں ان کا مشہور کورٹ مارشل اور آئی این اے ٹرائل ہوا، تب جواہر لال نہرو نے ان کے لئے وکالت کی تھی۔
سال 2018 جون تک لال قلعہ میں ہر روز شام چھ بجے لائٹ اینڈ ساؤنڈ کا جو پروگرام ہوتا تھا، اس میں نیتا جی کے ساتھ جنرل شاہنواز کی بھی آواز شامل تھی۔ واضح رہے کہ سال 1968 سے یہ شو ’انڈیا ٹورزم اینڈ ڈیولپمنٹ کارپوریشن‘ کے ذریعے چلایا جارہا تھا، لیکن جب اس تاریخی عمارت کو ڈالمیا گروپ نے 5 سالہ کنٹریکٹ پر حاصل کیا، اس شو کو اپگریڈیشن کے نام پر معطل کر دیا گیا، جبکہ یہ ایشیا کے کسی بھی تاریخی مقام پر قدیم ترین میوزیکل پریزنٹیشن تھا۔ ایک خبر کے مطابق ایک نیا میوزیکل شو پھر سے تیار کیا گیا تھا اور سال 2020 میں مارچ مہینے سے اسے دوبارہ شروع کیا جانے والا تھا لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے لال قلعہ کو عوام کے لئے بند کر دیا گیا۔ لیکن جولائی میں اس کے کھلنے کے باوجود وہ شو ابھی شروع نہیں ہوسکا ہے۔
واضح رہے کہ ملک کو آزاد کرانے والے عظیم رہنماؤں میں جنرل شاہنواز خان کا نام عزت سے لیا جاتا ہے، جو آزاد ہند فوج کے میجر جنرل تھے اور نیتا جی سبھاش چندر بوس کے انتہائی قریبی لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ 1942 سے 1945 تک برطانوی فوج کے خلاف لڑ کر اس آزاد ہند فوج نے قریب ڈیڑھ ہزار میل کا علاقہ آزاد کرایا تھا۔ اس کی مرکزی قیادت میں کمانڈر ان چیف میجر جنرل شاہنواز، کرنل پریم کمار سہگل اور کرنل گور بخش سنگھ ڈھلوں شامل تھے۔ ان تینوں پر 1945 کے آخری دنوں میں دہلی کے لال قلعے میں مقدمہ چلایا گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ان پر مقدمہ چل رہا تھا، تب جنرل شاہنواز، گاندھی جی کے ساتھ تھے۔ اس کا ثبوت گاندھی جی کے لکھے خطوط اور تقریریں ہیں، جن میں ہر بار وہ جنرل شاہنواز خان کا نام لینا نہیں بھولتے۔ نیتا جی سبھاش چندر بوس کی 50ویں سالگرہ کے موقع پر جنرل شاہنواز خان نے کہا تھا ’’ہندوستان سے باہر رہتے ہوئے جہاں ہم نے اپنے ملک کی آزادی کے لئے ہتھیاروں سے جنگ کی ہے، وہیں اب ہم عدم تشدد کے ذریعہ ہندوستان کی خدمت کریں گے‘‘۔ شاہنواز خان کی اس بات کا ذکر 22 جنوری 1946 کو مدراس میں مہاتما گاندھی نے آزاد ہند فوج کے ممبروں سے خطاب کرتے ہوئے بھی کیا اور 18 فروری 1946 کو ممبئی میں اپنی ’پراتھنا سبھا‘ میں بھی کرتے نظر آئے۔
13 مارچ 1946 کے بامبے کرانیکل میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق، 12 مارچ کو میجر شاہنواز دلی کے برلا بھون میں گاندھی جی سے ملے اور کافی طویل گفتگو کی۔ 22 مارچ 1946 کو گاندھی جی مہاراشٹر کے اروولی کنچن میں مقیم ایک فوجی کیمپ میں گئے تھے۔ وہاں بھی وہ فوجیوں سے گفتگو میں شاہنواز خان کا نام لینا نہیں بھولے۔ ملنے جلنے کے ساتھ ساتھ دونوں میں خطوط کے ذریعہ بھی بات ہوتی رہی ہے۔ اس کا اندازہ گاندھی جی کے لکھے کئی خطوط سے ہوتا ہے۔ 20 نومبر 1946 کو گاندھی جی نے شاہنواز خان کو ایک خط لکھا جس میں وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ میں نے کل آپ کے خط کے جواب میں ایک ٹیلیگرام بھیجا تھا۔
شاہنواز خان 1946 میں بہار کے نواخلی فسادات کے متاثرین کی مدد کے لئے بہار میں تھے۔ خان عبد الغفار خان بھی ان کے ساتھ تھے۔ 28مارچ 1947 کو جب پروفیسر عبدالباری صاحب کو گولی ماری گئی، تب بھی شاہنواز خان بہار میں موجود تھے اور ان کے جنازے میں بھی شامل ہوئے۔ 1947میں شاہنواز خان بہار میں جو کام کر رہے تھے، اس پر تفصیلی گفتگو گاندھی جی نے کئی بار کی ہے۔ 29 اپریل 1947 کو گاندھی جی ان کے کاموں کی تعریف کرتے ہوئے اپنی ’پراتھنا سبھا‘ میں ان کے کاموں پر تفصیل سے ذکر بھی کرتے ہیں۔ یکم مئی 1947 کے ’پرارتھنا سبھا‘ میں بھی گاندھی جی ان کے کاموں کی تعریف کرتے نظر آرہے ہیں۔
اس سے قبل 15اپریل 1947کو شاہنواز خان پٹنہ کے گاندھی کیمپ میں گاندھی جی کے ساتھ تھے۔ یہاں ایک گفتگو میں گاندھی جی شاہنواز خان سے کہتے ہیں، ’میں تو آپ سے بڑی امیدیں لگائے بیٹھا ہوں۔ مجھے آپ کو مکمل طور پر عدم تشدد ہتھیار کا سپاہی بنانا ہے۔ آپ نے نیتا جی کے ساتھ کرنل کا عہدہ حاصل کیا اسی طرح مجھے آپ کو عدم تشدد کا کرنل بنانا ہے…
حالانکہ گاندھی جی کے دور میں ملک کے آزاد ہونے سے پہلے ہی کانگریس نے ان کے ساتھ امتیازی سلوک کرنا شروع کر دیا تھا۔ انہی دنوں راشٹریہ سیوا دل نے الزام لگایا کہ کانگریس کے وزیر شنکر راؤ دیو نے گاندھی جی کی ہمدردی کے باوجود شاہنواز خان کو کانگریس سیوا دل کے صدر کے عہدے سے استعفیٰ دینے پر مجبور کیا تھا۔ پریما بہن نے اس سلسلے میں گاندھی جی کو ایک خط لکھ کر ان کے ساتھ ہوئے خط و کتابت کو شائع کرنے کی اجازت چاہی تھی۔ پریما بہن کے اس خط کے جواب میں گاندھی جی نے کہا تھا کہ میں اپنے خط کو شائع کرنے کی اجازت نہیں دوں گا۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی لکھا کہ جنرل شاہنواز نے مجھے بتایا کہ جب تک کہ ان کے ہاتھ میں سارے حقوق نہیں ہوں گے، وہ اپنے کام کا پورا انصاف نہیں کر سکتے۔ میں نے کہا کہ اگر ایسا ہو تو انہیں نکل جانا چاہیے۔
ملک کے آزاد ہونے کے بعد بھی شاہنواز خان بہار کے مسوڑھی میں کام کر رہے تھے۔ گاندھی جی نے 7 اکتوبر 1947 کو انہیں ایک خط لکھ کر کہا، ’پیارے جنرل شاہنواز! آپ کا خط موصول ہوا۔ تم وہاں جو کام کر رہے ہو، اگر وہ غیرحاضری میں چوپٹ نہ ہو جائے، تو تم اسے چھوڑ کر پاکستان جا سکتے ہو۔‘ لیکن شاہنواز خان واپس لوٹ کر اپنے گھر پاکستان نہیں گئے۔ بلکہ پاکستان سے ان کا کنبہ گھر چھوڑ کر ہندوستان آگیا۔
جنرل شاہنواز خان کی پیدائش 24جنوری 1914کو گاوں مٹور، ضلع راولپنڈی (اب پاکستان) میں جھنجھوا راجپوت کیپٹن سردار ٹیکا خان کے گھر ہوئی تھی۔ ان کی ابتدائی تعلیم پاکستان میں ہوئی۔ آگے کی پڑھائی انہوں نے پرنس آف ویلز رائل انڈین ملٹری کالج، دہرادون میں پوری کی اور 1940 میں برٹش انڈین آرمی میں بطور ایک آفیسر جوائن کرلیا۔ اسی دوران دسمبر 1941 میں جاپانی فوج نے سنگاپور پر حملہ کر دیا۔ سنگاپور کو بچانے کے لئے انگریزوں نے ہندوستان سے برٹش آرمی کے ساتھ 60 ہزار ہندوستانی سپاہیوں کو سنگاپور بھیج دیا۔ اس میں بطور کیپٹن شاہنواز خان بھی شامل تھے۔
یہاں برطانوی فوج کی شکست ہوئی اور ہزاروں فوجی جوانوں کے ساتھ جنرل شاہنواز خان بھی یہاں جنگی قیدی بنا لئے گئے۔ یہیں سنگاپور کے جیل میں ان کی مالاقات انقلابی فوجیوں سے ہوئی، جو نیتا جی کے دوستوں میں سے تھے۔ اس طرح وہ جلد ہی سبھاش چندر بوس کے ساتھ آزاد ہند فوج میں جڑ گئے۔ ان کی قائدانہ صلاحیت کی وجہ سے عارضی حکومت ہند کی کابینہ میں انہیں شامل کیا گیا۔ دسمبر 1944 میں مانڈلے میں تعینات آزاد ہند فوج کی ٹکڑی کے کمانڈر مقرر ہوئے۔ جب نیتا جی نے ستمبر 1945 میں آزاد ہند فوج کے کچھ چنندہ فوجیوں پر مشتمل اپنی سبھاش بریگیڈ بنائی تو اس کا کمانڈر جنرل شاہنواز خان کو ہی بنایا گیا۔ برٹش فوج سے لڑائی کے دوران 1945 میں برما میں جنرل شاہنواز اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ 1946 میں ان پر بغاوت کا مقدمہ چلا۔ اس مقدمہ کے خلاف پورے ملک میں احتجاج ہوا اور ہندوستانی عوام کے شدید دباؤ کی وجہ سے برطانوی فوج کو انہیں رہا کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔
1946 میں آزاد ہند فوج کے خاتمے کے بعد جنرل شاہنواز خان انڈین نیشنل کانگریس میں شامل ہوگئے۔ ملک کی آزادی کے بعد 1952 میں پہلے لوک سبھا انتخاب میں کانگریس کے ٹکٹ پر ہی میرٹھ سے الیکشن جیتا۔ اس کے بعد 1957 ،1962 اور 1971 میں میرٹھ سے لگاتار جیت حاصل کی۔ وہ 23 سال تک مرکزی حکومت میں وزیر رہے۔ 1952 میں پارلیمانی سکریٹری اور ڈپٹی ریلوے منسٹر بنے۔ 1957تا 1964وزیر خوراک و زراعت کے عہدے پر فائز رہے۔ 1965 میں وزیر زراعت اور 1966 میں وزارت محنت، روزگار اور بحالی کی ذمہ داری سنبھالی۔ 1971 سے 1975 تک انہوں نے وزارت پٹرولیم اور کیمیکلز اور زراعت و آبپاشی کی باگ ڈور سنبھالی۔ سن 1975 سے 1977 کے عرصہ کے دوران مرکزی وزیر زراعت و آبپاشی کے ساتھ ایف سی آئی کے چیئرمین کی ذمہ داریاں بھی نبھائیں۔ 1956 میں حکومت ہند نے نیتا جی سبھاش چندر بوس کی موت کی وجوہات اور حالات کو ظاہر کرنے کے لئے ایک کمیشن تشکیل دیا تھا، اس کے کمیشن کے صدر بھی جنرل شاہ نواز خان ہی تھے۔ ساتھ ہی انہوں نے آئی این اے اور نیتا جی سبھاش چندر بوس کے ساتھ وابستہ یادوں پر ایک اہم کتاب بھی لکھی ہے، جو نیتا جی اب تک لکھی کتابوں میں ایک بہترین کتاب ہے۔
اس طرح میرٹھ لوک سبھا سیٹ سے نمائندگی کرنے والے جنرل شاہ نواز خان 23 سال تک مرکزی حکومت میں وزیر رہے۔ میرٹھ جیسے حساس شہر میں ان کے زمانے میں کوئی ہنگامہ آرائی یا فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا۔ وہ 1977 سے 1983 تک کانگریس سیوا دل کے انچارج بھی رہے۔ اس طرح آخری دم تک کانگریس کی خدمت کرتے ہوئے 9 دسمبر 1983 کو اس دنیا کو ہمیشہ کے لئے الوداع کہہ گئے۔
جنرل شاہنواز خان میموریل فاؤنڈیشن کے بانی اور ان کے پوتے عادل شاہنواز ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں کہتے ہیں کہ جنرل شاہنواز خان نہ صرف ایک عظیم جنگ مجاہد تھے، بلکہ وہ ایک بے لوث محب وطن بھی تھے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی ملک کی خدمت کے لئے وقف کر دی تھی۔ لیکن ملک کی کسی بھی حکومت نے انہیں وہ اعزاز نہیں دیا جس کے وہ حق دار تھے۔ اس سے قبل ریٹائرڈ جج مارکنڈے کاٹجو نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ملک سے جنرل خان کی وفاداری اور ملک کی تعمیر میں سرکردہ کردار کو دیکھتے ہوئے انہیں بھارت رتن ایوارڈ سے نوازے، لیکن یہ اعزاز سے نوازے جانے کی بات تو دور، حکومت کے جانب سے بلکہ خود کانگریسی انہیں اُن کے یوم پیدائش یا یوم وفات کے موقع پر یاد تک نہیں کرتے۔
آپ کو یہ جان کر بے حد حیرانی ہو گی کہ مشہور بالی ووڈ اداکار شاہ رخ خان کے والد جنرل شاہنواز خان کے ساتھ ہی پاکستان سے ہندوستان آئے تھے۔ شاہ رخ خان کی والدہ ممتاز خان کو جنرل شاہنواز خان نے ہی گود لے کر ان کی شادی کروائی تھی۔جنرل شاہنواز خان، نیتا جی سبھاش چندر بوس اور آزاد ہند فوج کے نہ جانے کتنے نمائندوں نے اپنی زندگی کو داؤ پر لگا کر ہندوستان کو آزادی دلوائی، لیکن آج ان کے ناموں سے ملک کے عوام واقف ہی نہیں ہیں۔ وقت کی ضرورت یہ ہے کہ ہم شاہنواز خان جیسی شخصتیوں کے بارے میں جانیں اور ان کی میراث کو سنبھالیں۔ یہ کام اس وقت اس لئے بھی اہم ہو جاتا ہے کیونکہ اس سال حکومت ہند ،مغربی بنگال انتخابات کے پیش نظر نیتا جی سبھاش چندر بوس کی 125ویں یوم پیدائش کو پورے سال دھوم دھام سے منانے جا رہی ہے۔ اس کام کے لئے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے۔ یہ کمیٹی 23 جنوری 2021 سے شروع ہونے والی ایک سال کی یادگاری سرگرمیوں کے بارے میں فیصلہ کرے گی۔ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ اس کمیٹی کی سربراہی کر رہے ہیں۔
~افروز عالم ساحل