مجتبیٰ حسین کی یاد میں
معصوم مرادآبادی
ممتاز مزاح نگار مجتبیٰ حسین نے اپنے بڑے بھائی محبوب حسین جگر کے انتقال پر لکھا تھا کہ ”1956سے میری تحریریں روزنامہ ’سیاست‘ میں شائع ہوتی رہی ہیں اور زیر نظر تحریرمیری پہلی تحریر ہے، جو جگر صاحب کی نظروں سے گز رے بغیر شائع ہورہی ہے اور مجھے یہ بھی اندازہ ہے کہ اگر وہ زندہ ہوتے اور یہ تحریر ان کی نظر سے گزرتی تو کبھی شائع نہ ہوتی۔“

میں اس بات کو اس انداز میں کہہ سکتا ہوں کہ مجتبیٰ حسین پرمیں نے ان کی زندگی میں کئی مضامین لکھے اوریہ سب ہی ان کی نظروں سے گزرے۔ آج اگر وہ زندہ ہوتے تو میرے اس مضمون کو دیکھ کر خاصے ناراض ہوجاتے، جو میں ان کے انتقال کے بعد انھیں خراج عقیدت کے طور پر لکھ رہاہوں۔ حالانکہ انھوں نے خودبہت پہلے اپنی تعزیت میں ایک بڑا بھرپور مضمون لکھا تھا، جو ان کی کتاب ’چہرہ در چہرہ‘ میں شامل ہے۔ وہ ایک مزاحیہ مضمون تھا جو انھوں نے’اپنی یاد میں‘ لوگوں کو ہنسانے کے لئے لکھا تھا اور اس بات کا ثبوت تھا کہ ایک بڑا مزاح نگار وہی ہوتا ہے جو اپنے آپ پر بھی ہنس سکتا ہے۔لیکن میں جو کچھ لکھ رہا ہوں، وہ مزاح ہرگز نہیں ہے۔یہ لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ ہمارے عہد کے منفرداورممتازمزاح نگار مجتبیٰ حسین اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ انھوں نے گزشتہ26مئی2020 کو اپنے وطن ثانی حیدرآباد میں آخری سانس لی۔ یہ درست ہے کہ ان کی موت طبعی انداز میں ہوئی لیکن انھوں نے جتنی بھرپور زندگی جی، اسے دیکھ کر ان کے انتقال کی خبر پر یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا۔
پچھلے دنوں جب مجھے معلوم ہواکہ وہ صاحب فراش ہوگئے ہیں اور انھیں لوگوں کوپہچاننے میں بھی دشواری پیش آرہی ہے تو سچ پوچھئے مجھے جھٹکا سا لگا، کیونکہ مجتبیٰ صاحب کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے دوستوں اور خیر خواہوں کو دور سے پہچان لیتے تھے۔ جب مجھے یہ بتایا گیا کہ مجتبیٰ صاحب اب تنہائی میں رہ کر اپنے آخری ایام بسر کرناچاہتے ہیں تویہ بات بھی میرے لئے قطعی ناقابل یقین تھی، کیونکہ انھوں نے اپنی زندگی میں تنہائی کو کبھی منہ نہیں لگایا اور ہمیشہ اپنے دوستوں اور چاہنے والوں کے درمیان میں رہے۔ حالانکہ آنجہانی وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کی دیکھا دیکھی انھوں نے یہ سوچ کر اپنے گھٹنے کا آپریشن کرالیا تھا کہ بڑا آدمی بننے کے لئے یہ کام بھی ضروری ہے، لیکن واجپئی کی طرح ان کے گھٹنے کا آپریشن بھی ناکام ہوا اور وہ آہستہ آہستہ اپنے دوستوں کی محفلوں سے محروم ہوتے چلے گئے۔ انھوں نے اس کی تلافی اپنے موبائل فون سے کرنے کی کوشش کی، لیکن اس میں بھی انھیں رہ رہ کر ایک کمی کا احساس ہوتا رہا،جیسا کہ انھیں ہرشے میں ہوتا تھا۔
مجتبیٰ حسین نے اپنی عملی زندگی کا بیشتر حصہ دہلی میں گزارا اور یہاں کی ادبی زندگی کا لازمی حصہ بن کررہے۔آج میں مجتبیٰ حسین کے بغیردہلی کا تصور کرتا ہوں تو مجھے اس بھرے پرے شہر میں بڑی کمی محسوس ہوتی ہے۔ حالانکہ انھوں نے کئی برس پہلے اس شہر کو خیر باد کہہ کر اس حیدرآباد میں بودوباش اختیار لرلی تھی، جہاں سے وہ1972 میں گجرال کمیٹی میں کام کرنے دہلی آئے تھے، لیکن اس دہلی شہر سے ان کا تعلق ایسا تھا کہ وہ حیدرآباد میں رہنے کے باوجود سانس دہلی کی ہوا سے ہی مستعار لیتے تھے۔دہلی سے ان کے قلبی تعلق کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آخری وقت میں جب انھوں نے اپنے ہوش وہواس کھودئیے تھے تو وہ اس حالت میں بھی خود کو دہلی میں تصور کرتے تھے اور کہتے تھے”مجھے پروگرام میں جانا ہے، دیر ہورہی ہے، مجھے جلدی لے چلو۔“
دہلی میں ان کے دوستوں کا حلقہ اتنا وسیع تھا کہ اس کا صحیح اندازہ لگانا مشکل ہے، لیکن ان کے کچھ دوست ایسے ضرور تھے جن سے وہ ایک دن بھی جداہونے کا تصور نہیں کرسکتے تھے۔ان میں ڈاکٹرخلیق انجم، پروفیسر نثار احمد فاروقی، شرددت، پروفیسر گوپی چند نارنگ، زبیر رضوی اور نارنگ ساقی تو ان کے ہم پیالہ اور ہم نوالہ تھے۔ ان کے علاوہ نہ جانے کتنے لوگ تھے، جو ان کے ساتھ وقت گزارنے کے متمنی رہتے تھے۔ان میں سے بیشتر لوگ اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں اور اب دوردرشن کے سابق ڈپٹی ڈائرکٹر شرددت اور نارنگ ساقی ہی بقید حیات ہیں۔ ان دونوں کی حیثیت مجتبیٰ حسین کے لئے ان دوفرشتوں جیسی رہی ہے جو دونوں شانوں پر بیٹھ کر نامہ اعمال لکھتے ہیں۔پچھلے سال جب وہ دہلی اردو اکادمی کا بہادرشاہ ظفر ایوارڈ لینے یہاں آئے تھے تو ان کے یہ دونوں یار غار بھی وہاں منکر نکیر کی طرح ان کے ساتھ موجود تھے۔(افسوس شرددت بھی نہیں رہے)
مجتبیٰ صاحب کا حال یہ تھا کہ ان کی انگلیاں ہروقت موبائل پررہتی تھیں اور وہ کسی نہ کسی کو فون ملاتے رہتے تھے۔ ایک روز انھوں نے مجھے فون کرکے پوچھا کہ”آپ کہاں کھڑے ہیں؟“میں نے جواب دیاکہ میں اس وقت اپنی اسٹڈی میں بیٹھا ہوں تو انھوں نے کہا کہ بس یونہی پوچھ لیا، کیونکہ میں نے ابھی زبیر رضوی کو فون کیا تو ان کی بیگم نے بتایاکہ ’’زبیر تو ابھی آئینے کے سامنے ہی کھڑے تھے، پتہ نہیں کہا ں چلے گئے۔ شاید بیڈ روم کے آئینے کے سامنے ہوں گے۔“ میں نے سوچا شاید آپ بھی آئینے کے سامنے کھڑے ہوں۔ بھلا بتائیے اس بڑھاپے میں بھی زبیر کو آئینے کا اتناشوق ہے۔
میں گزشتہ 47 برس کے دہلی کے ادبی منظرنامے کا عینی گواہ ہوں۔ یہ زمانہ دہلی میں ادبی سرگرمیوں کے عروج کازمانہ تھا۔ ان تقریبات کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ مجتبیٰ حسین ان کا لازمی حصہ ہواکرتے تھے۔ شاید ہی ایسی کوئی تقریب ہو جس میں ان کی غیر حاضری ہوئی ہو۔آج دہلی کا ادبی منظرنامہ بہت اداس کرتا ہے، کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ وہی لوگ ان تقریبات میں شریک ہوتے ہیں، جنھیں اسٹیج پر بیٹھنے کی دعوت دی جاتی ہے۔پروگرام شروع ہونے کے بعد جب یہ لوگ سامعین کی نشستیں خالی کرکے اوپر بیٹھ جاتے ہیں تو نیچے کی نشستیں خالی ہوجاتی ہیں اور مقررین ان ہی خالی نشستوں کوخطاب کرتے رہتے ہیں۔ لیکن میں نے اس دہلی میں ایسی بھرپور محفلیں دیکھی ہیں جن میں ادب کی بڑی بڑی شخصیات صف سامعین میں نظر آتی تھیں اور ہال کھچا کھچ بھرا ہوتا تھا۔
گزشتہ دنوں دہلی اردو اکادمی نے مجتبیٰ حسین کو جب اپنے سب سے بڑے اعزاز ’بہادر شاہ ظفر ایوارڈ‘ سے نوازنے کا فیصلہ کیاتو سب سے پہلے میں نے انھیں فون پریہ خوش خبری سنائی۔انھیں میری بات پر یقین نہیں آیا، کیونکہ پچھلے کئی برسوں سے ان کا یہ حق مارا جارہا تھا۔ انھوں نے ایک بار مجھ سے کہا تھا کہ یہ ایوارڈ انھیں نہیں مل سکتا، کیونکہ ہمارے نقاد اور ادب کے کارپرداز طنز ومزاح کو دویم درجے کی صنف سمجھتے ہیں۔ انھیں جب یقین ہوگیا کہ واقعی انھیں طنزومزاح کاآخری تاجدار تسلیم کرتے ہوئے آخری مغل تاجدار کے نام سے منسوب ایوارڈ تفویض کیا گیا ہے تو وہ بہت خوش ہوئے اور ایوارڈ وصول کرنے حیدرآباد سے چل کر دہلی آئے۔مجھے انھیں دیکھ کر دھچکا سا لگا، کیونکہ وہ بغیر سہارے کے کھڑے نہیں ہوپا رہے تھے۔ایوارڈ وصول کرنے کے بعد انھوں نے میرے شانے پر ہاتھ رکھ کر کہا”میاں اب میں واقعی بوڑھا ہوچکا ہوں اور اپنا سامان باندھنے کی تیاری کررہا ہوں۔“
مجتبیٰ حسین نے طنز ومزاح سے بھرپور تحریریں لکھیں اور ہم سب کو ہنساہنسا کرلوٹ پوٹ کرتے رہے، یہاں تک کہ قبر میں جاتے جاتے بھی ہمارے لئے ہنسی کا سامان کرگئے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے جو بندشیں لگائی گئی تھیں، ان کے تحت آخری رسومات میں صرف بیس لوگ ہی شریک ہوسکتے تھے جبکہ شادی میں شرکت کے لئے پچاس لوگوں کو شرکت کی چھوٹ تھی، لیکن مجتبیٰ حسین کے جنازے میں پچاس لوگ شریک ہوئے۔ یہ کسی غلط فہمی کی بنیاد پر ہوا یا پھر یوں ہی ہوگیا، مجھے نہیں معلوم۔ہاں اتنا ضرور ہے کہ ان کا انتقال اگر عام حالات میں ہوتا تو ان کے جنازے میں ہزاروں سوگواروں کا ہجوم ہوتا۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہوتے جنھیں ان سے سچی محبت تھی اور وہ بھی جنھوں نے ان کی زندگی میں کانٹے بوئے۔
ظاہرہے موت ایک ایسی حقیقت ہے جس سے فرار ممکن نہیں ہے۔ وہ دہلی سے حیدرآباد شاید یہ سوچ کر منتقل ہوئے تھے کہ وہاں انھیں زیادہ سکون میسر آئے گا، لیکن المیہ یہ ہے کہ خود ان کے شہر میں ایسے بھی لوگ تھے جو ان کا تمسخر اڑاتے تھے اور انھیں نشانہ بناتے تھے۔ لیکن یہاں دہلی میں جہاں انھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گزارا، ان کے انتقال کے بعد مجھے بڑی اداسی نظر آئی۔ جس وقت انھوں نے آنکھ موندی تو دہلی کی وہ سڑکیں ویران پڑی تھیں، جن پر انھوں نے برسوں اپنی اسکوٹر دوڑائی تھی۔ان ادبی اداروں میں تالے پڑے تھے، جہاں انھوں نے سینکڑوں محفلوں میں شرکت کی اور انھیں زعفران زار بنایاتھا۔ان کے بغیر دہلی کی ادبی زندگی بڑی سونی اور ویران نظر آتی ہے۔ حالانکہ وہ سب لوگ ہی تقریباً اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں، جنھوں نے مجتبیٰ حسین کے ساتھ اپنی زندگی کے بہترین ایا م گزارے۔مجتبیٰ حسین بڑے زندہ دل انسان تھے اور جس محفل میں بھی شریک ہوتے تھے، اسے طنز ومزاح سے بھرپور جملوں سے زعفران زار بنادیتے تھے۔وہ اسٹیج پر ہوں یا پھر صف سامعین میں،ان کی جملے بازی محفل میں رنگ بھرتی تھی۔وہ بات میں بات پیدا کرنے کا ہنر خوب جانتے تھے اور اس میں مزاح کے پہلو نکالتے تھے۔
دہلی، مجتبیٰ حسین کی کمزوری تھی یا طاقت، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔وہ بظاہر این سی آر ٹی سے سبکدوش ہونے کے بعد یہاں سے حیدرآباد ضرور منتقل ہوگئے تھے، لیکن سچ پوچھئے تو ان کا دل یہیں پڑا رہتا تھا اور وہ اکثر فون پر مجھ سے دہلی کا حال چال اور مشترکہ دوستوں کی خیریت دریافت کرتے تھے۔مجتبیٰ حسین حیدرآباد کا بھرپور ادبی منظر نامہ چھوڑ کر 1971میں گجرال کمیٹی کے سلسلے میں دہلی آئے تھے اور پھر یہیں کے ہورہے۔ان کے آنے کے بعد دہلی کی ادبی زندگی میں ایک کمی پوری ہوگئی تھی اور یہی وجہ ہے کہ انھیں یہاں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔پروفیسر گوپی چند نارنگ کے لفظوں میں:
”ادھر دہلی والوں کی ادبی زندگی میں ایسی کچھ کمی تھی کہ جب مجتبیٰ حسین یہاں آئے توانھوں نے بہت جلد دلو ں کو مسخر کرناشروع کیا اور مزاح کی محفلوں میں ایک معنویت پیدا ہوگئی۔ یہ نہیں کہ یہاں مزاح کا چرچا نہیں تھا۔ تھا، فکر تونسوی لکھ رہے تھے، دوسرے احباب بھی ہیں، کبھی کبھی مزاح کے شعراء بھی آجاتے ہیں، مشاعروں میں، شعری نشستوں میں،لیکن یہ بات نہیں تھی۔ ہمارے یہاں جس طرح کا ادب تخلیق ہورہا تھا، غزل تھی، نظم تھی، افسانہ تھا، ڈرامہ تھا، ناول تھا،لیکن مزاح نگاری جس کو صحیح معنوں میں مزاح نگاری کہا جاتا ہے، اسے دہلی کی زندہ ادبی روایت کا حصہ مجتبیٰ حسین نے بنایا اور یہ معمولی کارنامہ نہیں ہے۔“
اس میں دو رائے نہیں کہ مجتبیٰ حسین نے دہلی میں ایک ایسے طنزومزاح کی داغ بیل ڈالی جو اس سے پہلے یہاں نہیں تھا اور یہی وجہ ہے کہ وہ یہاں کی ادبی محفلوں پر چھاگئے۔ادبی سرگرمیاں اور ان کے ادبی دوست ہی دہلی میں ان کا اوڑھنا بچھونا تھے۔ ایسا شاید ہی کبھی ہواہو کہ وہ ایک فرماں بردار شوہر کی طرح دفتر سے سیدھے گھر گئے ہوں۔ وہ دفتر سے فارغ ہوکر اپنے دوستوں کی تلاش میں نکل جاتے تھے اور وہ جہاں بھی انھیں میسر آجاتے، وہیں محفل سجاتے تھے۔ اس معاملے میں ان کی پرانی اسکوٹر ان کا کافی ساتھ دیتی تھی جس کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ دہلی کے تنگ وتاریک گلی کوچوں میں آسانی سے سماجاتی تھی اور بھیڑ بھاڑ والے علاقوں میں بھی انھیں لئے لئے پھرتی تھی۔مجتبیٰ حسین کی اس اسکوٹر کو اس اعتبار سے تاریخی حیثیت حاصل ہے کہ اس کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ کر بڑی بڑی شخصیات نے سواری کی۔ان میں پاکستانی مصور صادقین، شہرہ آفاق پینٹر مقبول فداحسین،گلوکار غلام علی جیسی ہستیا ں شامل ہیں۔پروفیسر بیگ احساس کی تجویز تھی کہ”اس اسکوٹرکومیوزیم میں رکھنا چاہئے، جس کی وجہ سے ایک عظیم فنکار نے نہ صرف ترقی کی منزلیں طے کیں بلکہ کئی عظیم فنکاروں کو منزل مقصود تک پہنچایا۔“
ایک مرتبہ تو وہ اپنی اس اسکوٹر پر بیٹھ کر اپنے دوست شہریار سے ملنے علی گڑھ پہنچ گئے تھے، جو دہلی سے پورے 140کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کا قصہ خود شہریار نے اس انداز میں بیان کیا ہے:
”کئی سال پہلے کی بات ہے۔ رات کے نو بجے ناصر الدین اسٹاف کلب کے کمرے میں داخل ہوئے۔ ان کے پیچھے ایک اور صاحب تھے۔ ہاتھ میں ہیلمٹ تھا۔ ناصرنے تعارف کرایا کہ یہ مجتبیٰ حسین ہیں اور دہلی سے اسکوٹر پر آپ سے ملنے آئے ہیں۔ میں نے غور سے دیکھا، آنکھوں کے بہت پیچھے سے ایک معصوم لیکن شریر چہرہ دکھائی دیا۔“
اس معصوم چہرے نے شہریار کوآگے چل کر کس طرح اپنا مرید بنایا۔ اس کاقصہ انھوں نے یوں بیان کیا ہے:
”دہلی میں دوڈھائی آدمی میرے لئے سب کچھ تھے اور ہیں۔ان سے ملنے کے بعد میں خود کو مجتبیٰ کے حوالے کردیتا ہوں۔ مزاح نگاری کی وجہ سے ان کے اندر مبالغہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہے(یا یوں کہیے کہ مزاج کے مبالغے نے مزاح نگاری کی طرف انھیں لگایا ہے)اس لئے وہ دوستوں کی تعریف اس طرح کرتے ہیں کہ یہ پتہ نہیں چلتا کہ تعریف کہاں ختم ہوئی اور کھنچائی کہاں شروع ہوئی۔ کچھ لوگوں کی تعریف میں البتہ احتیاط برتتے ہیں۔ میں ان میں سے ایک ہوں۔ اس کے باوجود ان کی صحبت میں ہر آن چوکنا رہنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اردو کا شاید ہی کوئی ادیب ایسا ہو جو دہلی آئے اور مجتبیٰ سے ملے بغیر واپس چلا جائے۔ مجھے اب عادت سی پڑگئی ہے۔ پہنچتے ہی اور اب ٹیلیفون کی آسانی کی وجہ سے پہنچنے سے پہلے ان کو اطلاع کردیتا ہوں اور واپسی سے پہلے اجازت لیتا ہوں۔ میں کس سے ملوں گا، کیا کھاؤں گا، کیا پیوں گا، کب تک رہوں گا، یہ سب کچھ مجتبیٰ طے کرتے ہیں۔ کبھی کبھی مجھے خود پر غصہ آنے لگتا ہے کہ وہ شخص جو آج تک زن مرید نہیں ہوا، مجتبیٰ مرید کیونکر ہوگیا۔“
یہ حقیقت ہے کہ مجتبیٰ حسین کودوست بنانے کے فن میں ملکہ حاصل تھا۔انھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اپنے بیوی بچوں کی بجائے اپنے دوستوں کے ساتھ بسر کیا۔اس کا اظہار انھوں نے اپنے مضمون ’’میں اور میرا مزاح“ میں ان الفاظ میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
”میں دوستوں کا رسیا اور متوالا ہوں۔ اپنے وقت کا بڑا حصہ دوستوں میں گنواتا ہوں، کیونکہ ایسا کرنے سے دوستوں کو میرے خلاف غیبت کرنے اور مجھے ان کے خلاف غیبت کرنے کا موقع ہاتھ آتا ہے اور یہ کوئی معمولی سہولت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی محفل سے اٹھ کر بظاہر تو باہر چلا جاتا ہوں، لیکن اصل میں وہیں کہیں چھپ کر کھڑاہوجاتا ہوں اور بڑی دیر تک اپنے کانوں سے اپنے خلاف ہونے والی غیبت کو سنتا رہتا ہوں۔ اگر کسی دن دوست میری غیبت نہیں کرتے تو میں اپنی پناہ گاہ سے باہر نکل آتا ہوں اور ان سے لڑنے لگتا ہوں کہ آج تم نے میری غیبت کیوں نہیں کی۔ آج کا سارا دن تو بس یونہی ضائع ہوگیا۔“
مجتبیٰ حسین نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز حیدرآباد سے کیا، لیکن اپنی عملی زندگی دہلی میں بسر کی۔ حالانکہ وہ نہ دہلی کے تھے اور نہ حیدرآباد ان کا وطن تھا۔مگر حقیقت یہ ہے کہ دہلی والے انھیں اتنا ہی اپنا سمجھتے تھے جتناکہ حیدرآبادوالے۔اب میں آپ کو اس شام کا قصہ سناتا ہوں جو د11 ستمبر 2005کو مجتبیٰ حسین کے ساتھ دہلی اردو اکادمی نے برپا کی تھی اورجس پرمیں نے ایک رپورتاژ لکھا تھا۔ نہ جانے کیوں یہ رپورتاژ انھیں اتنا پسند آیا کہ وہ اسے اپنے ہر چاہنے والے کو پڑھنے کا مشورہ دیتے تھے۔اس کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
”مجتبیٰ حسین کے تعلق سے اب یہ تنازعہ اٹھ کھڑا ہواہے کہ وہ اصلاً دہلی کے ہیں یا حیدرآباد کے۔ دہلی والوں نے ان پر ملکیت کا دعویٰ کیا ہے جبکہ وہ حیدرآبادیوں کے لئے وہ ’برسوں‘ سے اپنے ٹھہرے۔ یہ بات علاحدہ ہے کہ ان کی پیدائش نہ دہلی میں ہوئی اور نہ حیدرآباد میں بلکہ انھوں نے جب اس دنیائے رنگ وبومیں آنکھ کھولی تو خود کو گلبرگہ میں پایا۔ وہی گلبرگہ جو خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کی سرزمین ہے۔ اس جلسہ کے مہمان خصوصی خواجہ حسن ثانی نظامی نے یہ کہہ کر سب کو خاموش کردیا کہ خودخواجہ بندہ نواز نے اپنی عمر کے85 برس دہلی میں گزارے اور105 برس کی عمر میں انتقال کیا اور اتنی ہی تصنیفات یادگار چھوڑیں۔ مہمان خصوصی نے ایک مقرر کا یہ الزام بھی مسترد کردیا کہ مجتبیٰ حسین کا لب ولہجہ حیدرآبادی ہے۔ انھوں نے کہا کہ”مجتبیٰ حسین کی تحریروں میں جو سا دگی اور پرُکاری ہے، وہ دلی کا خاصہ ہے اور وہ دہلی اسکول ہی کی نمائندگی کرتے ہیں، لہٰذا میں ان پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہوں۔ کاش کہ ہمیں کوئی ایسا اختیار مل جائے کہ ہم ان کا حیدرآباد آنا جانا بند کردیں اور اگر کسی نے میرے اس دعوے کو چیلنج کیاتو اس کے لئے میں ایک پی آئی ایل داخل کرکے اپنا حق ثابت کرسکتا ہوں۔“
پروگرام کے آخر میں خود مجتبیٰ حسین نے اپنے بارے میں جوکچھ کہا وہ ان کی شہریت کے تعلق سے کم دلچسپ نہیں تھا۔ انھوں نے کہا کہ”دہلی والوں نے میری شام مناکرمجھے بڑے تذبذب سے نکالا، کیونکہ ان دنوں میرا زیادہ وقت حیدرآباداور دہلی کے درمیان حالت سفر میں گزرتا ہے۔ حیدرآبادی مجھے دہلی والا سمجھتے ہیں اور دہلی والے حیدرآبادی، گویا کہ میں ایک دوشہرا شہری ہوکر رہ گیا ہوں۔ میں نے دہلی میں اپنی زندگی کا سب سے لمبا عرصہ 33برس گزارا ہے جو میرے لئے صدیوں کی زندگی جیسا ہے، کیونکہ میں گھنٹوں میں نہیں بلکہ لمحوں میں جیتا ہوں۔ میرے لئے زندگی دراصل زندہ دلی کا دوسرا نام ہے۔“
(’نیا دور‘ لکھنؤ، مجتبیٰ حسین نمبر، بابت ستمبر2018میں صفحہ 60 اور61)
مجتبیٰ حسین کے ساتھ منائی گئی اس شام کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر شمیم حنفی نے کہا تھا کہ:
”مجتبیٰ حسین کا المیہ یہ ہے کہ تشدد اور شورشرابے سے بھری دنیا میں وہ اپنی ظرافت کے ذریعہ نالے کو نغمہ بنانے کا جتن کرتے ہیں۔ مزاح نگار دراصل درد اور دہشت کی فضا کے خلاف ایک دفاعی مورچہ ہے۔ مجتبیٰ حسین نے مزاح نگاری کو ایک اخلاقی قدراور انسانی ذہانت کے سنجیدہ عمل کے طور پر اپنایا ہے۔“
حقیقت بھی یہی ہے۔ وہ جس طرح نالے کو نغمہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں، اس کی مثالیں ان کی تحریروں سے دی جاسکتی ہیں۔خود اپنی مزاح نگاری کے بارے میں مجتبیٰ حسین نے اپنے مضمون ’میں اور میرا مزاح‘ میں اس کیفیت کو بھرپور انداز میں بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”میرا خیال ہے کہ مزاح نگاری صحیح معنوں میں ایک ’کیفیت‘ کی پیداوار ہوتی ہے۔ یہ بڑی عجیب وغریب کیفیت ہوتی ہے جہاں پہنچ کر آدمی ذات کو بھی بھول جاتا ہے۔ اس لئے مزاح نگار کبھی خود غرض نہیں ہوتا۔ میرے نزدیک مزاح انسان کے پیمانہ وجود کے لبریز ہوکر چھلک پڑنے کا نام ہے۔ جب انسان کے وجود کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے تو وہ قہقہوں میں چھلکنے لگتا ہے۔۔۔لوگ مزاح کی کیفیت کوبہت معمولی سمجھتے ہیں حالانکہ سچا مزاح وہی ہے جس کی حدیں سچے غم کی حدوں کے بعد شروع ہوتی ہیں۔زندگی کی ساری تلخیوں اور اس کی تیزابیت کو اپنے اندر جذب کرلینے کے بعدجو آدمی قہقہے کی طرف جست لگاتا ہے، وہی سچا اور باشعور قہقہہ لگاسکتا ہے۔ ہنسنے کے لئے جس قدر گہرے شعور اور ادراک کی ضرورت ہوتی ہے، اتنے گہرے شعور کی ضرورت شاید رونے کے لئے درکار نہیں ہوتی۔“
مجتبیٰ حسین کی بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنی طنزومزاح سے بھرپور تحریروں کی طرح ذاتی گفتگو میں بھی خاصے بڑے مزاح نگار تھے۔عام طور پر مزاح لکھنے والے ذاتی زندگی میں بڑے سنجیدہ اور متین نظر آتے ہیں اور وہ لوگوں کو اپنی تحریروں کی حد تک ہی مزاح سے لطف اندوز ہونے کا موقع دیتے ہیں، لیکن مجتبیٰ حسین نجی گفتگو اور محفلوں میں بھی خوب رنگ جماتے تھے۔ایک قصہ ملاحظہ فرمائیے۔دہلی میں کرناٹک کے مشہور سیاسی لیڈر جعفر شریف ہربرس ایک بڑی افطار پارٹی منعقد کرتے تھے۔ اس میں ’روزہ داروں‘ کا ہجوم ہوتا تھا۔ ایک بار اس افطار پارٹی میں مجتبیٰ حسین سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے مجھے حکم دیا کہ جب یہاں سے روانہ ہوں تو انھیں بھی ساتھ لے لوں، کیونکہ ان کے پاس کوئی سواری نہیں ہے۔ہم دونوں کا روٹ ایک ہی تھا۔کچھ دیر بعد جب میں نے مجتبیٰ صاحب کو تلاش کیا تو وہ کہیں نظر نہیں آئے۔ موبائل کا زمانہ تھا نہیں کہ ایک دوسرے کو پکڑ سکیں۔ بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے ہم دونوں ایک دوسرے کو ڈھونڈتے رہے۔ بڑی دوڑ دھوپ کے بعد جب ہم دونوں ایک دوسرے کے روبرو ہوئے تو ان کا بے ساختہ جملہ کچھ اس طرح تھا”ایک معصوم کو ڈھونڈنے کے لئے کتنے گناہ گاروں سے ملنا پڑا۔“
کچھ دنوں پہلے کی بات ہے کہ مجتبیٰ صاحب نے مجھے فون کیا، لیکن نیٹ ورک کی خرابی کے سبب بات نہیں ہوپارہی تھی۔ کئی کالیں ڈراپ ہونے کے بعد جب ان سے رابطہ ہواتو وہ گویا ہوئے ”معصوم صاحب آپ میرا نمبر دیکھ کر بار بار فون کیوں کاٹ رہے ہیں۔میں سمجھ گیا اب آپ کا شمار بھی بڑے صحافیوں میں ہونے لگا ہے۔“ یہ ان کے گفتگو میں مزاح پیدا کرنے کا ایک طریقہ تھا اور وہ اپنے مخاطب کو کبھی بور نہیں ہونے دیتے تھے۔ ان کی اکثر تحریریں میرے اخبار ”خبردار جدید“ میں شائع ہوتی تھیں۔ ایک بار ایک قاری نے ان کی طنزیہ ومزاحیہ تحریروں پر عجیب وغریب تبصرہ کیا اور ان سے مزاح نگاری چھوڑ کر کوئی سنجیدہ کام کرنے کی گزارش کی۔ اس پر انھوں نے ’سیاست‘ میں دلچسپ کالم لکھا۔اس کا عنوان تھا”ہنسنا چھوڑو اور قوم کی خدمت کرو“۔ اس مضمون کے چند ابتدائی جملے ملاحظہ فرمائیں:
”دہلی سے ایک ہفتہ وار رسالہ نکلتا ہے’خبردارجدید‘۔ جس کے ایڈیٹر ہمارے نوجوان دوست معصوم مرادآبادی ہیں۔ ہمارے حساب سے مرادآباد نے بمشکل تمام جگر مرادآبادی کے روپ میں ایک ہی معصوم ہستی پیدا کی تھی۔ ان کے بعد چونکہ مرادآباد میں معصوموں کی پیدائش پر پابندی سی عائد ہوگئی ہے۔ اس لئے اس کی تلافی کے لئے معصوم مرادآبادی نے ’مرادآبادی‘ کو اپنے نام کا حصہ بنالیا ہے۔ معصومیت چاہے برائے نام ہی کیوں نہ ہو،بہرحال معصومیت ہی ہوتی ہے۔ ان ہی معصوم مرادآبادی نے ہمارا ایک مضمون اپنے رسالہ میں چھاپا تھا۔ چنانچہ اس مضمون کے سلسلہ میں ان کے پاس بعض توصیفی خطوط بھی آئے، لیکن ایک خط ایسا بھی آیا جسے نہ تو آپ تعریف کے خانہ میں ڈال سکتے ہیں اور نہ ہی مذمت کے۔ اس خط کے لکھنے والے محمدعلاؤالدین ہیں (یہ چراغ والے الہ دین نہیں ہیں)جو چتر پور ضلع ہزاری باغ کے رہنے والے ہیں۔ مضمون نگار نے ہمارے مضمون کی تعریف کرنے کے بعدجو کچھ لکھا ہے، اس کا لب لباب یہ ہے ”میں ان کے مضامین اکثر پڑھتا رہتا ہوں، نہایت ہی شگفتہ اور دلچسپ ہوتے ہیں۔ بے ساختہ ہنسی بھی آجاتی ہے، لیکن میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آخر یہ کب تک ٹھی ٹھی،ٹھاٹھا، ہی ہی، ہا ہا کرتے رہیں گے۔ انھیں دیکھنا چاہئے کہ ان دنوں حالات کتنے سنگین ہوتے جارہے ہیں۔ ان کی تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھیں معاشرے کی خرابیوں کا بخوبی اندازہ ہے، لیکن وہ جان بوجھ کر ان پر صرف ہنس کر خاموش ہوجانا چاہتے ہیں۔ انھیں اصلاح معاشرہ کے بارے میں عملی طور پر بھی کچھ کرنا چاہئے اور قوم کی خدمت کے لئے ایک باضابطہ لایحہ عمل بناکر کام کرناچاہئے۔ انھیں قبر کے عذاب کو بالکل نہیں بھولنا چاہئے۔ دوسری دنیا میں جب ان سے پوچھا جائے گا کہ نیچے کی دنیا میں وہ کیا کام کرکے آئے ہیں تو وہ کیا جواب دیں گے۔“
”یقین مانئے، جب سے ہم نے ’خبردارجدید‘ کی معرفت اپنے بارے میں یہ مکتوب پڑھا ہے، تب سے ہمیں رہ رہ کے ’خبردار قدیم‘ کا خیال آرہا ہے۔ دل کو دہلانے والی ایسی تعریف سے آج تک ہمارا واسطہ نہیں پڑا تھا۔ قبر کے عذاب کے تصور سے ہی ہمارا سارا وجود لرزنے لگا ہے۔ مکتوب نگار نے بعد از وقت ہی سہی ہماری آنکھیں توکھول دی ہیں۔ اب پیچھے پلٹ کر دیکھتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ لگ بھگ چالیس برسوں سے ہم نے ہنسنے ہنسانے کے سوا کوئی کام نہیں کیا(بشرطیکہ ہنسنے کو ایک کام سمجھا جائے) اس سارے عرصے میں ہم اس خوش فہمی میں مبتلا رہے کہ لوگوں کو ہنسانا اور ان میں خوشیوں کوبانٹنابھی ایک نیک کام ہے۔ ہمیں دوسری خوش فہمی یہ بھی لاحق تھی کہ سماج کی بے اعتدالیوں پر ہنس کر اور ان پر طنز کے نشتر چلاکر ہم قوم کی اصلاح کررہے ہیں۔ قوم کی اصلاح تو نہ ہوئی الٹا ہماری عادت خراب ہوگئی۔چنانچہ اب ہر سنجیدہ بات کو ہنسی میں ٹال کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔“
(’میراکالم‘صفحہ 117حسامی بک ڈپو، حیدرآباد، اشاعت جون 1998)
مجتبیٰ حسین کی تحریروں میں بے ساختگی کا عنصر نمایاں ہے۔ان کی نگارشات کو پڑھتے ہوئے کہیں بھی تصنع یا بناوٹ کا احساس نہیں ہوتا۔ وہ بات میں بات پیدا کرتے اور اپنے قاری کو اپنے سحر میں گرفتار کرتے چلے جاتے ہیں۔ان کی تحریروں کو پڑھ کر کہیں بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ زبردستی مزاح پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کے شخصی تجربات اور جذبات واحساسات میں ہمیں خود اپنے ارد گرد کی دنیا میں ہونے والے واقعات کی رمق نظر آتی ہے۔ وہ زندگی کے معمولی سے معمولی واقعے میں بھی اپنا ہنر جگانے کا ملکہ رکھتے تھے۔
مجتبیٰ حسین نے اپنے تحریری سفر کاآغاز کالم نگار کے طور پر کیا تھا اور جب تک ان کے قویٰ نے ان کا ساتھ دیا وہ کالم نگاری کرتے رہے۔ اسی طرح خاکہ نگاری میں بھی انھوں نے خاصا نام کمایا۔ شاید وہ اردو کے واحد ادیب ہیں، جنھوں نے سب سے زیادہ خاکے لکھے اوران خاکوں کے کئی مجموعے منظر عام پر آئے۔ وہ یاروں کے یار تھے اور اپنے بیشتر دوستوں کے نہایت عمدہ خاکے انھوں نے لکھے۔ عام طور پر خاکہ نگار اپنے تعلقات کو نبھاتے ہوئے اس فریضے کو انجام دیتے ہیں، لیکن مجتبیٰ حسین کی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے ممدوح کی تعریف کرتے کرتے کب کھچائی شروع کردیں، پتہ ہی نہیں چلتا۔یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں سے ان کے اچھے خاصے تعلقات تھے، جب انھوں نے ان کا خاکہ لکھا تو یہ تعلقات یاتو کشیدہ ہوگئے یا پھر ختم ہوگئے۔ بقول خود:
”میرے لکھے ہوئے خاکوں کا پہلا مجموعہ’آدمی نامہ‘پہلی بار 1981میں شائع ہواتھا۔ ادبی حلقوں نے اس کی جس طرح پذیرائی کی اور کررہے ہیں،اس کا مجھے گمان بھی نہ تھا۔ میں نہیں جانتا تھا کہ اس پذیرائی کا فائدہ میرے پبلشر کو بھی پہنچاہے کہ نہیں، اتنا ضرور جانتا ہوں کہ یہ پذیرائی میرے حق میں نقصان دہ ثابت ہوئی۔ اب ہر دوست مجھ سے اس مقصد کے تحت ملتا ہے کہ میں اس کا خاکہ لکھ دوں۔ گویا احباب سے میرے تعلقات اب اتنے بے لوث نہیں رہے، جیسے کہ ہونے چاہئے۔ دو ایک احباب تو ایسے بھی نکلے جن سے دوستانہ مراسم اس وقت تک قائم رہے، جب تک کہ میں نے ان کا خاکہ نہیں لکھ دیا۔“
(مجتبیٰ حسین، ”سو ہے وہ بھی آدمی‘‘اشاعت 1987حیدرآباد، صفحہ7)
کالم نگاری
کالم نگاری دراصل بنیادی طور پر صحافت کا شعبہ ہے۔اس شعبے میں ماضی میں جن لوگوں نے نام کمایا، ان میں مولانا ظفر علی خاں، عبدالمجید سالک، غلام رسول مہراور چراغ حسن حسرت کے کالم اپنے دور میں خاصے مقبول رہے ہیں۔ کالم نگاری کی صنف کو اصل عروج آزادی کے بعد حاصل ہوا اور اس نے ادب کے میدان میں باقاعدہ اپنی جگہ بنائی۔ پاکستان کے کئی ادیبوں نے اپنی ادبی نگارشات سے زیادہ کالم نویسی میں نام کمایااور اپنے فن کا ایسا جادو جگایا کہ کالم نگاری باقاعدہ ادب کی ایک صنف تسلیم کی جانے لگی۔ابن انشاء، احمد ندیم قاسمی، ابراہیم جلیس، مجید لاہوری اور شوکت تھانوی نے آزادی کے بعد اس صنف کو اعتبار بخشا۔ہندوستان کی اخباری صحافت میں صرف دونام ایسے ہیں جنھوں نے مزاحیہ کالم نگاری میں اپنی شناخت بنائی۔ ان میں پہلا نام فکر تونسوی(پیازکے چھلکے) اور دوسرا نام مجتبیٰ حسین(میرا کالم) کا ہے۔لیکن اگرآپ برصغیر میں طنزومزاح کے عصری منظر نامے پر نظر ڈالیں تو اس میں چار نام بہت نمایاں نظر آتے ہیں۔ ان میں پہلا نام اور سب سے نمایاں نام اردو طنز ومزاح کے بے تاج بادشاہ مشتاق احمد یوسفی کا ہے۔ دوسرا نام مشفق خواجہ کا ہے، جنھوں نے خامہ بگوش کے قلمی نام سے ’سخن در سخن‘ کے عنوان سے بہترین طنزیہ اور مزاحیہ کالم لکھے اور بہتوں کو ناراض کیا۔اس ذیل میں تیسرا نام مجتبیٰ حسین کا تھاجنھوں نے حال ہی میں ہمیں داغ مفارقت دیا ہے۔اس سلسلے کا چوتھا نام ممتاز کالم نگارعطاء الحق قاسمی کا ہے۔ پہلی تینوں شخصیات ہمیں داغ مفارقت دے گئی ہیں اور اب برصغیر کے مزاحیہ ادب کے منظر نامے پرہمارے کرم فرما عطاء الحق قاسمی کا نام ہے۔ خدا انھیں لمبی عمر عطا فرمائے۔ رخصت پذیر مزاح نگاروں میں مشتاق احمد یوسفی کو چھوڑ کر باقی تینوں مزاح نگاروں کی مشترکہ خوبی یہ ہے کہ انھوں نے اخبارات و جرائد میں کالم نگاری کے ذریعہ ادب میں اپنی مضبوط اور مستحکم شناخت بنائی۔مشفق خواجہ نے پہلے روزنامہ ’جسارت‘ میں اور اس کے بعد ہفتہ وار ’تکبیر‘ میں خامہ بگوش کے قلمی نام سے اپنا مقبول عام طنزیہ اور مزاحیہ کالم ’سخن در سخن‘لکھا۔مجتبیٰ حسین نے اپنے قلمی سفر کاآغاز حیدرآباد کے مقبول روزنامے ’سیاست‘ کیا او اس میں ’میراکالم‘ کے عنوان سے مسلسل برسوں کالم نگاری کی۔ ان کی بیشتر کتابیں انھیں کالموں کا انتخاب ہیں۔ عطاء الحق قاسمی برسوں سے روزنامہ ’جنگ‘ میں اپنا مقبول عام مزاحیہ کالم ’روزن دیوار سے‘ تحریر فرمارہے ہیں۔ اس کالم کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ تقریباً یومیہ شائع ہوتا ہے، جبکہ مشق خواجہ اور مجتبیٰ حسین کے کالم ہفتے میں ایک بار شائع ہوا کرتے تھے۔مجتبیٰ حسین کے ان دلچسپ کالموں کے کئی مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ ان کالموں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انھیں آپ ادب کی کئی اصناف میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ مجتبیٰ حسین نے اپنے کالموں کے ذریعے اپنے قارئین پر گہری چھاپ چھوڑی۔ وہ جس موضوع پر بھی قلم اٹھاتے تھے ا س کا پورا حق ادا کرتے تھے۔یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ روزنامہ ’سیاست‘ میں ان کی کالم نگاری کا آغاز محض اتفاقیہ طور پر ہواتھا۔انھوں نے اپنے مضمون ”میں اور میرا مزاح“ میں لکھاہے:
”اب ذرا میرے مزاح کی طرف آئیے۔میرا مزاح بھی ویسا ہی ہے، جیسا کہ میں ہوں۔ بے ضرر، بے ہنگم اور بے معنی، اس میں معنی اس لئے تلاش نہیں کرتا کہ اب الفاظ بھی اپنے معنی کھوتے جارہے ہیں۔ آپ تعجب کریں گے کہ میری مزاح نگاری کی بنیاد ایک المیہ پر رکھی ہوئی ہے۔وہ المیہ یہ ہے کہ مشہور کالم نگار شاہد صدیقی کے انتقال کے بعدمیرے بڑے بھائی جناب محبوب حسین جگراور روزنامہ ’سیاست‘ کے ایڈیٹرجناب میر عابد علی خاں نے ایک دن مجھے بلاکر خوب ڈرایا، دھمکایا اور یہ حکم دیا کہ میں اچانک مزاح نگار بن جاؤں، چنانچہ اس حکم کی تعمیل میں 12اگست 1962کو دن کے ٹھیک ساڑھے دس بجے میں نے پہلی مزاحیہ تحریر لکھی اور اب تک خوف کے مارے لکھتا چلا جارہاہوں۔ اب لوگ کہتے ہیں کہ میں پیدائشی مزاح نگار ہوں، لیکن میں جانتا ہوں، میں پیدائشی’ڈرپوک‘ آدمی ہوں۔ جبھی تو اس حکم سے ڈر کراب تک مزاح لکھتا آرہا ہوں، حالانکہ اپنی زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ اس میں ہنسنے سے کہیں زیادہ رونے کے مواقع موجود ہیں۔“
مجتبیٰ حسین کی زندگی پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے بھرپور زندگی گزاری۔ نہ تو خود بور ہوئے اور نہ ہی اپنے ہم نشینوں کو کبھی بور ہونے دیا۔ان کی زندگی کے سفر کا آغاز 15 جولائی1936 کرناٹک کے ضلع گلبرگہ کی تحصیل چنچولی میں ہوا، حالانکہ ان کے آباء واجداد کا تعلق عثمان آباد سے تھا، لیکن ان کے والدمولوی محمد حسین بسلسلہ ملازمت گلبرگہ آگئے تھے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی اور سیدھے چوتھی کلاس میں گلبرگہ کے مدرسہ تحتانیہ آصف گنج میں داخل کئے گئے۔ اس کے علاوہ عثمان آباد میں بھی کچھ عرصہ زیر تعلیم رہے۔1951 میں گورنمنٹ ہائی اسکول ٹانڈور سے میٹرک کاامتحان پاس کیااور یہیں سے 1953میں انٹر میڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔1955میں عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد سے گریجویشن کرنے کے بعد یہیں سے 1958 میں پبلک ایڈمنسٹریشن میں ڈپلوما کیا۔ 11 نومبر 1963کو اپنی چچیری بہن ناصرہ رئیس کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے اور اسے تاعمر نبھایا۔دوبیٹے اور دوبیٹیاں پیداہوئیں۔
مجتبیٰ حسین اور گجرال کمیٹی
عملی زندگی کاآغاز 1958میں روزنامہ ’سیاست‘ میں بطور سب ایڈیٹر کیا۔ اس کے بعد حکومت آندھرا پردیش کے شعبہ تعلقات عامہ سے وابستہ ہوگئے اور وہاں 1962سے1972 تک برسرکار ہے۔یہ بات کم ہی لوگوں کو معلوم ہے کہ مجتبیٰ حسین اس شہرہ آفاق گجرال کمیٹی سے بھی وابستہ رہے جو 1972میں سابق وزیراعظم اندر کمار گجرال کی قیادت میں بنائی گئی تھی اور جس کا کام اردو کی بقاء اور ترقی کی سفارشات پیش کرنا تھا۔ مجتبیٰ حسین نے اس کمیٹی کے شعبہ ریسرچ میں 10نومبر1972سے18 ستمبر1974تک کام کیا۔ اس دوران انھیں علی جواد زیدی اور ڈاکٹر خلیق انجم کی رفاقت میسر آئی اور ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔گجرال کمیٹی سے اپنی وابستگی کا حال انھوں نے ڈاکٹر خلیق انجم کے انتقال پر تحریر کردہ مضمون میں کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں:”یہ 1972کی بات ہے جب حکومت آندھرا پردیش کے محکمہ تعلقات عامہ کے اردو شعبے سے وابستہ تھا۔ ایک دن ایک سرکاری مراسلہ وزارت تعلیم، حکومت ہند کی جانب سے مجھے موصول ہواجس میں لکھا تھا کہ میں دو برسوں کی مدت کے لئے ڈیپوٹیشن پر دہلی آؤں اور کمیٹی فار پروموشن آف اردو کی رپورٹ کی تیاری میں کمیٹی کا ہاتھ بٹاؤں۔ یہ وہی کمیٹی ہے جس نے بعد میں سارے ملک میں ’گجرال کمیٹی‘ کے نام سے شہرت پائی۔ اندر کمار گجرال، مرکزی وزیر اطلاعات اس کمیٹی کے صدر نشین تھے۔علی جواد زیدی اس کے سیکریٹری تھے اور خلیق انجم اس کے ڈائرکٹر تھے۔ اس کے ارکان میں کرشن چندر، سجاد ظہیر،ڈاکٹر سروپ سنگھ، آل احمد سرور، عابد علی خاں، احتشام حسین، مالک رام وغیرہ جیسی نابغہ روزگار ہستیاں شامل تھیں۔۔۔۔مجھے رپورٹ کے لئے درکار تاریخی مواد کو اکھٹا کرنے کی غرض سے بسا اوقات نیشنل آرکائیوز کے دفتر میں بھی جانے کا موقع ملتا تھا، جہاں چھان بین کے دوران مجھے اچانک کچھ ایسی دستاویزات ملیں جن سے پتہ چلتا تھا کہ برطانوی حکومت نے اپنے دور اقتدار میں اردو کی کن کن نظموں کو ضبط کیا تھا۔ میں نے جب اس کی اطلاع علی جواد زیدی کو دی تو بہت خوش ہوئے اور مجھے مشورہ دیا کہ میں کمیٹی کے درکار مواد کے علاوہ ان نظموں کو بھی جمع کرتا چلوں۔ بعد میں خلیق انجم اور میں نے مل کر ان ضبط شدہ نظموں کو کتابی شکل میں مرتب کیا، جس کا اجراء وزیر اعظم اندرا گاندھی کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ کچھ دنوں بعد اس کا ہندی ایڈیشن بھی شائع ہوا۔۔۔گجرال کمیٹی نے مختلف مقامات کا طوفانی دورہ کیا اور شبانہ روز محنت کے بعداس کی رپورٹ کو دوسال کی مقررہ مدت میں مکمل کرلیا بلکہ اسے حکومت کے حوالے بھی کردیا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اندر کمار گجرال نے اپنے اثر ورسوخ کو استعمال میں لاتے ہوئے کئی ریاستی حکومتوں کواس بات کے لئے آمادہ کیا کہ وہ کمیٹی کی بعض سفارشات کو فوری روبہ عمل لے آئیں۔مثال کے طور پر کئی ریاستوں میں اردو اکیڈمیاں قایم کی گئیں جو آج بھی موجود ہیں۔ریڈیو پر اردو نشریات کے اوقات میں اضافہ کے علاوہ اردو اخبارات کو بعض سہولتیں فراہم کی گئیں۔ مگر افسوس گجرال کمیٹی کی، اردو تعلیم اور روزگار سے متعلق بہت سی اہم سفارشات آج تک ٹھنڈے بستے میں بند پڑی ہوئی ہیں۔“
(’خلیق انجم: کچھ یادیں، کچھ باتیں‘روزنامہ ’سیاست‘حیدرآباد، 19 نومبر 2016)
گجرال کمیٹی سے فارغ ہونے کے بعد مجتبیٰ حسین حیدرآباد واپس نہیں گئے اور وہ اگلے ہی روز یعنی19ستمبر1974کو مرکزی حکومت کے ادارے این سی آر ٹی کے شعبہ پبلی کیشنز سے بطور ایڈیٹر منسلک ہوگئے، جہاں سے جولائی1991میں سبکدوش ہونے کے بعد انھوں نے ایک بار پھر روزنامہ ’سیاست‘ کا دامن تھاما اوردہلی میں اس کے خصوصی نمائندے بن گئے۔ انھوں نے2008میں حیدرآباد مراجعت ضرور کی، لیکن ان کا دل دہلی میں ہی پڑا رہا، جہاں ان کے بے تکلف دوستوں کی پوری کہکشاں موجود تھی۔وہ آخری بار گذشتہ سال دہلی اردو اکادمی کا بہادر شاہ ظفر ایوارڈ لینے یہاں آئے تھے اور یہ ان کا آخری سفر دہلی تھا۔
خاکہ نگاری
مجتبیٰ حسین کے ادبی کارناموں میں ان کی خاکہ نگاری کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اردو کے ادیبوں میں شاید وہ اس اعتبار سے ممتاز حیثیت کے حامل ہیں کہ انھوں نے سب سے زیادہ خاکے لکھے۔ ان کے لکھے ہوئے دلچسپ خاکو ں کے کئی مجموعے شائع ہوئے اور انھیں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ انھوں نے خود اپنا بھی ایک خاکہ لکھا تھا جو ان کی کتاب’چہرہ درچہرہ‘ (اشاعت 1993)شامل ہے۔ یہ دراصل ایک مزاحیہ تعزیت نامہ ہے، جو انھوں نے ’اپنی یاد میں‘ کے عنوان سے تحریر کیا ہے۔ اسے پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے دوستوں کی ہی کھنچائی نہیں کرتے تھے بلکہ انھیں خود اپنے اوپر ہنسنے کا بھی ہنر آتا تھا۔ یہ ان کے ایک بڑے مزاح نگار ہونے کا ثبوت ہے۔ اس دلچسپ تحریر کے کچھ اقتباسات ملاحظہ فرمائیں:
”مجتبیٰ حسین (جنہیں مرحوم کہتے ہوئے کلیجہ منہ کو آنا چاہیے، مگر کیوں نہیں آرہا) پرسوں اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ یہ ان کے مرنے کے دن نہیں تھے، کیونکہ انہیں تو بہت پہلے نہ صرف مرجانا چاہیے تھا بلکہ ڈوب مرنا چاہیے تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ جس دن سے وہ پیدا ہوئے ہیں، تب سے ہی لگاتار مرتے چلے جارہے ہیں۔ گویا انہوں نے مرنے میں پورے اسّی سال لگادئیے۔ لوگ ایڑیاں رگڑ رگڑ کرمرتے ہیں۔ یہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر زندہ رہے۔ ان کی زندگی بھی قسطوں میں چل رہی تھی اور مرے بھی تو قسطوں میں۔۔۔ان کی بڑی خواہش تھی کہ ملک کی آزادی میں بھرپور حصہ لیں۔ بڑی تمنا تھی کہ انگریز کی لاٹھیاں کھائیں۔ چنانچہ جب جب وہ اس تمنا کا اظہار اپنے والد سے کرتے تو ان کی لاٹھی ضرور کھاتے۔۔۔مرحوم کی زندگی کی ٹریجڈی یہ تھی کہ وقت ان کی زندگی میں کبھی وقت پر نہیں آیا۔ ہر کام قبل ازوقت کیا، یا بعد از وقت۔ گویا زندگی بھر وقت سے آنکھ مچولی کھیلتے رہے۔ یہاں تک کہ آنکھ مچولی کھیلتے کھیلتے ان کا آخری وقت آگیا۔ شادی بھی کی تو وقت سے پہلے، یعنی اس عمر میں، جب انہیں یہ بھی پتا نہیں تھا کہ لوگ شادی کیوں کرتے ہیں۔ چنانچہ شادی کی پہلی ہی رات مرحوم اپنے کم عمر دوستوں کے ساتھ کبڈی کھیلنے نکل پڑے۔ گھر کے بزرگ انہیں زبردستی پکڑ کر لے آئے اور تنہائی میں سمجھایا کہ کبڈی کھیلنا ہی ہے تو۔۔۔“
مجتبیٰ حسین کی اس تحریر دل پذیر سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے اوپر ہنسنا جانتے تھے بلکہ قہقہے لگاتے تھے۔ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کوئی قلم کار اپنے بارے میں اس انداز تبصرہ کرے اور دوسروں کو اپنے اوپر ہنسنے کا موقع دے، لیکن یہ مجتبیٰ حسین کی بڑی خوبی تھی کہ وہ اپنا مذاق بھی ایسے ہی اڑاتے تھے جیسے وہ اپنے دوستوں اور چاہنے والوں کا اڑاتے تھے۔ اب آئیے آخر دہلی اردو اکادمی کے بانی سیکریٹری شریف الحسن نقوی پر لکھے ہوئے ان کے خاکے سے کچھ اقتباس نقل کرتے ہیں، جو انھوں نے 1987 کسی تقریب کے لئے تحریر کیا تھا۔لکھتے ہیں:
”میرے دوست کرشن لال نارنگ ساقی جو اس تقریب کے کنوینر بھی ہیں، پچھلے ہفتے ملے تو بولے کہ’ہم لوگ دہلی میں اردو کے موضوع پر ایک تقریب کا اہتمام کررہے ہیں، اور لوگ تو دہلی میں اردو کے موضوع پر بولیں گے، آپ اردو میں شریف الحسن نقوی کے موضوع پر اظہار خیال کریں۔‘ساقی نارنگ نے’’اردو میں شریف الحسن نقوی“کچھ اس طرح کہا کہ جیسے شریف الحسن نقوی ایک شخصیت نہ ہوں بلکہ اردو کی ایک تحریک ہوں یا مکتب فکر ہوں۔میں نے کہا کہ’دہلی میں اردو کے کئی پہلو ہیں اور میں شریف الحسن نقوی کو دہلی میں اردو کا سب سے روشن پہلو سمجھتا ہوں۔ جو پہلے خود روشن ہواس پر آپ مجھ سے مزید روشنی ڈلواکر کیا کریں گے۔ اردو والوں کے ساتھ مشکل یہ ہوتی ہے کہ کوئی روشن پہلو نظر آتا ہے تو اس پرروشنی ڈالتے ہی چلے جاتے ہیں اور جو تاریک پہلو ہوتے ہیں، انھیں مزید تاریک رکھنے کے لئے ان پر پردے ڈالتے چلے جاتے ہیں۔۔۔یہ اتفاق ہے کہ شریف الحسن نقوی ان دنوں اردو اکیڈمی دہلی کے سیکر یٹری ہیں اور میں انھیں اس وقت سے جانتاہوں جب نہ دہلی میں اردو اکیڈمی تھی اور نہ اردو اکیڈمی میں شریف الحسن نقوی تھے۔ حالانکہ اس وقت بھی وہ اردو میں کمر کمر ہی نہیں گلے گلے ڈوبے ہوئے تھے۔سید شریف الحسن نقوی کو پہلی بار میں نے آٹھ نو سال پہلے دیکھا تھا۔ دہلی میونسپل کارپوریشن کو اچانک پرائمری اسکول کے ٹیچروں کی ضرورت لاحق ہوگئی تھی اور اس مقصد کے لئے ایک سلیکشن کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ شریف الحسن نقوی اور میں اس سلیکشن کمیٹی کے رکن تھے۔ لگاتار چار دنوں تک ہم لوگوں نے سینکڑوں امیدواروں کا انٹرویو لیا۔ سلیکشن کمیٹی کا ممبر ہونے کے ناتے امیدواروں کی معرفت میری معلومات میں بعض دلچسپ اضافے بھی ہوئے۔ مثلاً مجھے یہ معلوم نہیں ہوسکتا تھا کہ غالب کوئلہ بیچنے کاکاروبار کرتے تھے۔ میر تقی میر کی کپڑے کی دکان چاندنی چوک میں تھی۔ محمد حسین آزاد کی ’آب حیات‘ ایک تصنیف نہیں بلکہ ان کی ایجاد کردہ ایک دوا کا نام ہے۔الطاف حسین حالی نہ صرف پانی پت کے رہنے والے تھے بلکہ پانی پت کی ایک لڑائی میں مارے بھی گئے تھے۔ میں ایسی معلومات پر ہنس دیتا تو شریف الحسن نقوی مجھے منع کرتے کہ ’اس طرح ہنسنے سے امیدواروں کے حوصلے پست ہوجاتے ہیں۔ اگر الطاف حسین حالی پانی پت میں پیداہوسکتے ہیں تو وہاں کسی لڑائی میں مارے بھی جاسکتے ہیں۔ آپ کو کیا تکلیف ہے۔“
(مجتبیٰ حسین:’مہرباں کیسے کیسے‘اشاعت 2010 ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، صفحہ225)
شریف الحسن نقوی کا یہ دلچسپ خاکہ خاصا طویل ہے اور اس سے آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ وہ خاکہ نگاری میں طنز ومزاح کے کیسے کیسے پہلو پیدا کرتے ہیں۔ وہ اپنی اس شناخت کو برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں جو طنزومزاح نگار کے طور پر سب سے زیادہ مستحکم ہے۔ یہی بات ان کے انشائیوں، کالموں اور سفرناموں کا بھی طرہ امتیاز ہے۔مجتبیٰ حسین جیسے زود نویس قلم کاروں کی تعداد ہمارے ہاں بہت کم ہے۔ ان کی تصنیفات کی تعداد دودرجن کے قریب ہے اور ہر کتاب طنزیہ اور مزاحیہ ادب کا شاہکار ہے۔یہ تمام تحریریں دراصل ان کے کالموں سے ہی کشید کی گئی ہیں۔ ان کے فن کو ہمارے عہد کے تمام بڑے نقادوں اور سربر آوردہ ادیبوں نے خراج تحسین پیش کیا ہے۔ میرزا ادیب کا تاثر ملاحظہ فرمائیں:
”جس طرح دیوانگی کے لئے فرزانگی کی ضرورت ہے، اسی طرح مزاح نگار کے لئے حقیقی سنجیدگی درکار ہے۔ مجتبیٰ حسین کے مزاح میں سنجیدگی ہے اور سنجیدگی میں مزاح۔زندگی کے مسائل کی تفہیم میں وہ بڑے سنجیدہ ہیں مگر ان کا انداز پیشکش طنزیہ ومزاحیہ ہے۔“