مسلم پرسنل لا میں مداخلت

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

بمبئی ہائی کورٹ کے جسٹس راجیش پاٹل کی سنگل بینچ نے طلاق شدہ مسلم خواتین کو دوسری شادی کے بعد بھی پہلے شوہر سے نفقہ کے حصول کے مطالبہ کو درست قرار دیا ہے، یہ فیصلہ سیدھے سیدھے مسلم پرسنل لا میں مداخلت ہے، مسلم پرسنل لا کے مطابق مطلقہ عورت اگر اس کا مہر ادا کر دیا گیا ہو تو نفقہ عدت کے سوا اور کسی چیز کی حقدار نہیں ہے، شوہر اس کے گھر سے رخصت ہوتے وقت حسن سلوک کے طور پر کچھ دیدے تو یہ ایک مستحسن امر ہے جو ’’متاع معروف‘‘ اور ’’تسریح بالاحسان‘‘ کے ذیل میں آتا ہے، لیکن طلاق کے بعد اس کو نان ونفقہ دیا جائے یہ بات شریعت اور مسلم پرسنل لا کے خلاف ہے، اس لیے کہ عدت گذرنے کے بعد وہ پورے طور پر اس شوہر کے لیے اجنبیہ کی طرح ہے، وہ اپنے نفس کی مجاز ہے، جہاں چاہے شادی کرکے اپنی نئی زندگی شروع کر سکتی ہے ۔اس فیصلہ کا مطلب تو یہ ہوگا کہ ایک اجنبیہ عورت کے لیے کسی پر نان ونفقہ کو لازم قرار دیا جائے۔

اس سے قبل شاہ بانو کیس اور دوسرے معاملات میں جو فیصلے آئے تھے، اس میں تا عمر یا دوسری شادی تک کی قید لگی ہوئی تھی ، اور عدالت کا موقف یہ تھا کہ اگر پہلے شوہر سے نفقہ نہ دلایا جائے تو اس کے خورد ونوش کا کیا ہوگا، راجیو گاندھی کے دور اقتدار میں شاہ بانو کیس کے فیصلہ پر جو مسلمانوں نے احتجاج درج کرایا تھا اس کی روشنی میں مسلمانوں کو عدالت کے اس نقطۂ نظر اور قانون کی ایسی تشریح کے نفاذ سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا۔مسلم قائدین نے حکومت پر واضح کر دیا تھا کہ اسلام میں بے سہارا کوئی نہیں ہے ، جس کا کوئی وارث نہیں ہوتا اس کا نفقہ امیر شریعت بیت المال سے دے سکتے ہیں۔

حالیہ فیصلہ اس عمومی نقطۂ نظر کے بھی خلاف ہے اور مسلم پرسنل لا میں مداخلت کے قبیل سے ہے، جسٹس راجیش پاٹل کا کہنا ہے کہ طلاق پر حقوق کے تحفظ مسلم ایکٹ MWPA1998کے سیکشن 3(1)A میں دو بارہ شادی کے ساتھ نفقہ مطلقہ کو مشروط نہیں کیا گیا ہے، یہ لفظ اس ایکٹ سے غائب ہے، اس لیے شادی کے بعد بھی مطلقہ کو معقول رقم کے مطالبہ کا سابق شوہر سے حق ختم نہیں ہوتا، سیکشن 3(1)Aکے تحت وہ کفالت کا دعویٰ کر سکتی ہے، یہ دعویٰ وہ طلاق کی تاریخ سے کر سکتی ہے، اوریہ مطالبہ اس کی دوسری شادی میں رکاوٹ بھی نہیں بنے گا، اس فیصلہ کا مطلب یہ ہوا کہ اگر عورت دوسرے شوہر سے بھی طلاق پالے اور تیسری شادی کر لے تو بیک وقت پہلے دونوں سے شوہر سے معقول نان ونفقہ وصول کر سکے گی، اوروہ اس سلسلے کو درازبھی کر سکتی ہے، اگر اس فیصلے کو دلیل بنا لیا جائے تو ہر شوہر کو ناک میں دم کر کے عورت طلاق لیتی رہے گی اور پرانے شوہر سے نفقہ وصول کرتی رہے گی اور ظاہر ہےMDPA-1998میں سابقہ شوہروں کی تعداد بھی مقرر نہیں ہے، اس لیے یہ عورتوں کے ذریعہ مرد پر ظلم وستم کا نیا بازار کھول دے گا، خانگی زندگی تباہ ہو کر رہ جائے گی ، اس مسئلہ پر مسلم پرسنل لا بورڈ کو نوٹس لینی چاہیے اور اس کے تدارک کی شکل نکالنی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں
FacebookWhatsAppShare