مولانا حکیم ظہیر احمد قاسمی
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
جامعہ عربیہ طیب المدارس اور مدرسہ عربیہ طیب العلوم مدنی مسجد پریہار کے بانی، اول الذکر کے ناظم، مدرسہ فیض الاسلام موتی گیر پرسا نیپال کے سابق استاذ، مخدوم بہار حضرت قاری محمد طیب صاحب سابق ناظم جامعہ عربیہ اشرف العلوم کنہواں سیتامڑھی کے دست گرفتہ، خلیفہ ومجاز بیعت، استاذ الاساتذہ علاقہ کی مشہور اور مقتدر شخصیت، سنتوں کے پابند، اسلاف کے طریقے پر گامزن، حکیم ہونے کے اعتبار سے مریضوں کے نبض شناس اور عالم ہونے کی وجہ سے وقت کے نباض حضرت مولانا حکیم ظہیر احمد قاسمی 6/ذیقعدہ 1445ھ مطابق 25 مئی 2024ء سنیچر کے دن صبح کے ساڑھے چھ بجے راہی دار بقا ہوئے۔
جنازہ کی نماز اسی دن ساڑھے چار بجے سہ پہر طیب المدارس کی مسجد کے صحن میں محی السنۃ حضرت مولانا عبد المنان صاحب قاسمی ناظم وبانی مدرسہ امدادیہ اشرفیہ راجو پٹی سیتامڑھی نے پڑھائی، ہزاروں سوگواروں نے جن میں سیتامڑھی کے اکثر وبیشتر مدارس کے اساتذہ وذمہ دار، ملی تنظیموں کے عہدیدار اور سیاسی میدان میں سر گرم عمل شخصیات تھیں جنازہ میں شریک ہوئے، جنازہ سے قبل میں نے ایک مجلس میں حکیم صاحب کے اعز واقرباء اور صاحب زادگان کے ساتھ تعزیتی گفتگو کی،ا ن کو حکیم صاحب کے بعد ان کی ذمہ داریاں یاد دلائیں، دوسری مجلس جنازہ کے عام شرکاء کے ساتھ ہوئی، اس میں حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم اور قائم مقام ناظم کے تعزیتی کلمات پہونچانے کے ساتھ حکیم صاحب کی زندگی کی خصوصیات، خدمات اور ہم جیسوں پر ان کی شفقت کا ذکر کیا گیا، حضرت مولانا اظہار الحق قاسمی جامعہ عربیہ اشرف العلوم کنہواں نے بھی اس موقع سے تعزیتی خطاب کیا، امارت شرعیہ کے قائم مقام ناظم صاحب نے فون پر تعزیت اور تسلی کے کلمات کہے، پسماندگان میں اہلیہ، تین لڑکے اور چار لڑکیوں کو چھوڑا، سب کی ذمہ داریوں سے حضرت فارغ ہو چکے تھے۔
حضرت مولانا الحاج حکیم ظہیر احمد بن محمد صدیق احمد بن محمد ٹھاگا کی ولادت 1939ء میں شمالی بہار کی مشہور بستی کنہواں ضلع مظفر پور میں ہوئی، یہ بستی نیپال کی سرحد پر واقع ہے اور اب ضلع سیتامڑھی میں ہے،ا بتدائی تعلیم سے د رجہ فارسی پنجم تک گاؤں کے با فیض ادارہ جامعہ عربیہ اشرف العلوم کنہواں میں حاصل کرنے کے بعد مدرسہ انوار العلوم مؤ آئمہ میں داخل ہوئے ا ور عربی دوم تک کی تعلیم یہاں پائی، وہاں سے جامعہ اسلامیہ محلہ خیر آباد مؤ پہونچے، یہاں عربی دوم میں داخلہ ہوا، چنانچہ عربی دوم سے شرح جامی تک کی تعلیم کے لیے یہ آپ کا مادر علمی قرار پایا1961اور 1962کا سال دا رالمبلغین پاٹا نالا لکھنؤ میں گذرا، 1963میں دار العلوم دیو بند میں داخلہ لیا، 1972ءمیں دورہ حدیث شریف سے فراغت ہوئی، اس کے بعد دار العلوم میں ہی ایک سال تخصص فی التفسیر اور چار سال طب کی تعلیم حاصل کرنے میں لگایا، اس زمانہ میں دارالعلوم دیو بند کے زیر انتظام ایک جامعہ طبیہ بھی چلا کرتا تھا۔
تدریسی زندگی کا آغاز مدرسہ فیض الاسلام موتی گیر پرسا نیپال سے کیا، اس کے بانی مولانا عبد السمیع صاحب ؒ آپ کے دوست تھے، چنانچہ وہاں انہوں نے اپنی خدمات دیں اور جوانی کے چوبیس سال اس مدرسہ کی تعلیمی وتعمیری ترقی میں لگا دیا، جس زمانہ میں حکیم صاحب وہاں ہوا کرتے تھے، اس زمانہ میں میرا آنا جانا جامعہ عربیہ اشرف العلوم کنہواں کے سالانہ امتحان کے لیے کم از کم سال میں ایک بار ہوا کرتا تھا، مدرسہ فیض الاسلام ایک جھونپڑی نما عمارت اور لکڑی کے ایک کھٹال میں چلا کرتا تھا، لکڑی کی یہ عمارت دو منزلہ تھی، قاری بدر عالم صاحب نور اللہ مرقدہ بھی ان دنوں مدرسہ فیض الاسلام میں ہوا کرتے تھے، نیچے کے حصہ میں مولانا حکیم ظہیر احمد قاسمی اور اوپر کی منزل میں قاری بدر عالم طیبی رہا کرتے تھے، قاری صاحب چوں کہ میرے اچھے دوست تھے اس لیے میرا قیام عموماً ان کے کمرہ میں ہوتاتھا۔
مدرسہ فیض الاسلام کے قیام کے زمانہ میں آپ نے حکیمی کا مشغلہ بھی جاری رکھا اور ایک اچھے معالج اور ماہر نباض کی حیثیت سے عوام میں مقبول ہوئے، بعد میں یہ سلسلہ باقی نہیں رہا اور مدرسہ کی خدمات کی وجہ سے سارا وقت درس وتدریس اور مالیات کی فراہمی میں لگنے لگا، حکیم صاحب دور دراز کے اسفار بھی سائیکل پر ہی کیا کرتے تھے، وہ دور بائیک اور موٹر سائیکل کا نہیں تھا، اور نہ ہی حکیم صاحب بائیک چلانا جانتے تھے، فیض الاسلام چھوڑنے کے بعد انہوں نے پریہار میں مدرسہ عربیہ طیب العلوم قائم کیا اور جب وہ آپسی تنازع کا شکار ہوا تو طیب المدارس قائم کیا او راپنی زندگی کے آخری مہہ وسال تک کو اس کام میں کھپا دیا۔دونوں مدرسہ کا نام اپنے پیر ومرشد سے محبت، تعلق، لگاؤ اور عقیدت کا مظہرہے۔
حضرت کی ایک تیسری جہت روحانی تھی، مخدوم بہار حضرت قاری طیب صاحب ناظم جامعہ عربیہ اشرف العلوم کنہواں سے بیعت ہوئے اور بعد میں خلافت بھی پائی، مسلمانوں میں اصلاح کا کام شروع کیا، بدعات کا زور ختم ہوا اور علاقہ کو آپ کی شخصیت سے کافی فائدہ پہونچا، آپ کو دیکھنے پر ان کے ارد گرد ایک روحانی ہالہ کا احساس ہوتا تھا۔
حکیم صاحب مرحوم علماء کے قدرداں اور چھوٹوں کو اوپر اٹھانے کا جذبہ رکھتے تھے، لمباکرتا، ٹوپی، عمامہ اور عصا کے ساتھ مولانا کی شخصیت عالمانہ وقار اور داعیانہ کردار کا مجسمہ تھی، مختلف جلسوں میں حضرت کے ساتھ تقریر کا بھی موقع ملا، مولانا ہم جیسے چھوٹوں کی بات بھی غور سے سنتے تھے اور اتنی توجہ دیتے تھے کہ چھوٹوں کو بھی اپنے بڑے ہونے کا احساس ہوجاتا تھا، میری آخری ملاقات یو سی سی کے دورے کے موقع سے ہوئی تھی،ضلع سیتامڑھی کوامارت شرعیہ والوں نے اس کام کے لیے میرے حوالہ کر دیا تھا، رات دیر گیے کہیں سے واپسی ہوئی تھی، قاری مامون الرشید اس سفر میں میرے رفیق تھے اور کہنا چاہیے کہ پروگرام انہیں کا ترتیب دادہ تھا، اس لیے قیام حکیم صاحب کے مدرسہ میں ہی طے ہوا، صبح چائے پر ملاقات ہوئی، وہی بزرگانہ شفقت اور خورد نوازی جو ان کی فطرت کا خاصہ تھا دیکھنے کو ملا، حالاں کہ اس وقت وہ علیل چل رہے تھے، اس سفر میں میرے ساتھ مولانا محمد انوار اللہ فلک قاسمی بانی ومعتمد ادارہ سبیل الشریعہ آواپور شاہ پور بھی تھے۔ جن کا تعلق حکیم صاحب سے ہم سب سے سِوا تھا۔
پیرانہ سالی اور ضعف کی وجہ سے کئی بار آپ پر فالج کا حملہ ہوا، اعضاء وجوارح کمزور ہوئے تو قلب کا عارضہ ہو گیا، انتقال کے ڈھائی ماہ قبل بالکل ہی صاحب فراش ہو گیے، آخر کے چند دنوں کومہ میں رہے، جس کی وجہ سے اللہ رب العزت کے یہاں جانے کے قبل ہی علائق دنیا سے الگ تھلگ ہو کر رہ گیے، علاج چلتا رہا، اعز واقربا خدمت میں لگے رہے، لیکن موت نے اپنا کام کر دیا، اللہ رب العزت مغفرت فرمائے، پس ماندگان کو صبر جمیل اور طیب المدارس کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے، حکیم صاحب نے اپنی زندگی میں اپنے بڑے صاحب زادہ قاری عبد العظیم نیر کے حوالہ مدرسہ کا کام کر دیا تھا، قاری مامون الرشید خلیفہ ومجاز مولانا عبد الرشید شیخ الحدیث بیت العلوم سرائے میر اعظم گڈھ ان کی معاونت کرتے رہے تھے، یہ اچھی بات ہوئی کہ تعزیتی جلسہ کے موقع سے اکابر کے ہاتھوں ان کے سر پر دستار باندھ دی گئی، یہ اس بات کا اعلان تھا کہ حکیم صاحب کے بعد قاری عبد العظیم نیر مدرسہ طیب المدارس کے ناظم ہوں گے۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ حکیم صاحب کے ذریعہ لگائے گیے اس پودے کو مزید ترقیات سے نوازے اور ہر قسم کے شرور وفتن سے محفوظ رکھے۔ آمین یا رب العالمین