’مکتبہ جامعہ‘ بستر مرگ پر

مکتبہ جامعہ ،بستر مرگ پر
مکتبہ جامعہ ،بستر مرگ پر

معصوم مرادآبادی

علمی و ادبی کتابوں کا سب سے بڑا مرکز مکتبہ جامعہ بستر مرگ پر ہے اور کوئی اس کا پرسان حال نہیں۔ ایک صدی تک لاکھوں ذہنوں کو منور کرنے والے اس ادارے نے اگر یوں ہی بے کسی، بے بسی اور لاچاری میں دم توڑ دیا تو یہ اردو زبان اور اس کی تہذیب کا بڑا نقصان ہوگا۔ مکتبہ جامعہ کے ملازمین کو ڈھائی سال سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں اور وہ فاقہ کشی تک پہنچ گئے ہیں، لیکن باربار کی یاد دہانیوں کے باوجود کہیں کوئی جنبش نظر نہیں آتی۔ پچھلے دنوں مکتبہ جامعہ کی علی گڑھ شاخ کے انچارج محمد صابر نے جامعہ کے ذمہ داروں کو جو خط لکھا تھا، وہ اس کرب کا مکمل اظہار ہے، جس سے ملازمین گزر رہے ہیں۔ انھوں نے لکھا کہ ”ڈھائی سال سے ہم بغیر تنخواہ کے کام کررہے ہیں۔ فاقہ کشی کی نوبت آگئی ہے۔ اب گھر جاتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ کہیں گھر والے ضروری سامان کا تقاضہ نہ کردیں۔ دوسرا راستہ کوئی نظر نہیں آرہا ہے۔ گھر چھوڑ کر کہیں گم ہوجائیں اور گھر والوں کو بے سہارا چھوڑ دیں۔ خودکشی جائز نہیں ہے، لیکن ایسے حالات میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔“

اس خط سے مکتبہ کے ملازمین کا کرب سمجھنے میں آسانی ہوگی، لیکن المیہ یہ بھی ہے کہ مکتبہ جامعہ کے ہیڈ آفس میں برسرکار بعض ملازمین کا رویہ بھی ایسا ہے کہ جس کی وجہ سے مکتبہ کو یہ برے دن دیکھنے پڑرہے ہیں۔ اس کی مثال دہلی میں مکتبہ جامعہ کی اردو بازار شاخ کے انچارج کے ساتھ ہیڈ آفس انچارج کا رویہ ہے۔

واضح رہے کہ اردو بازار شاخ میں ایک بار پھر تالا ڈال دیا گیا ہے۔ گزشتہ سال ستمبر میں جب اردو بازار شاخ میں تالا ڈال کر اس کے انچارچ علی خسرو زیدی کو گھر بٹھا دیا گیا تھا تو راقم نے اس معاملے کو سوشل میڈیا کے ذریعہ اردو والوں تک پہنچایا تھا۔ اس پوسٹ کا خاطر خواہ اثر ہوا اور یہ معاملہ قومی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنا۔ انگریزی روزنامہ ’ٹائمز آف انڈیا‘ اور مشہور ویب سائٹ ’دی وائر‘ کے ساتھ ہی روزنامہ ’انقلاب‘ نے بھی اس مسئلہ کو اپنے صفحات میں جگہ دی۔ میڈیا رپورٹوں کے دباؤ میں ہیڈ آفس نے علی خسرو زیدی کوواپس بلاکر مکتبہ کی اردو بازار شاخ کودوبارہ کھول دیا۔ اس موقع پر ہیڈ آفس کے انچارج نے یہ غلط بیانی کی کہ اردو بازار شاخ دراصل’جی20‘ اجلاس کی وجہ سے بند کی گئی تھی۔ لیکن اب جبکہ اردو بازار شاخ میں دوسری تالا بندی کو ڈیڑھ ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزرچکاہے تو اس کے بند کرنے کی کوئی وجہ بیان نہیں کی گئی ہے۔

ہم نے جب اس معاملے کی چھان بین کی تو پتہ چلا کہ گزشتہ سال ستمبر میں اردو بازار شاخ تو کھول دی گئی تھی مگر ہیڈ آفس میں بیٹھے ہوئے تن آسان لوگوں نے علی خسرو زیدی کے ساتھ تعاون نہیں کیا، جس کے نتیجے میں وہ گزشتہ22/فروری کو حساب کتاب ہیڈ آفس انچارج کے سپرد کرکے گھر بیٹھ گئے۔ تب سے اب تک مکتبہ جامعہ کی اردو بازار شاخ بند پڑی ہوئی ہے اور کسی نے اس پر توجہ نہیں دی۔ میں گزشتہ ہفتہ کسی کام سے اردو بازار گیا تو صورتحال کا علم ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ مکتبہ جامعہ گزشتہ کئی برس سے ناگفتہ بہ حالات کا شکار ہے۔ جو کتابیں اسٹاک میں ختم ہوگئی ہیں، وہ ڈیمانڈ کے باوجود شائع نہیں کی جارہی ہیں۔ حالات دن بہ دن ابتر ہوتے جارہے ہیں اور وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ جس کے پاس مکتبہ کے90فیصد شیئر ہیں، اس سے آنکھیں موندے بیٹھا ہے۔

سبھی جانتے ہیں کہ مکتبہ جامعہ کی دہلی، بمبئی اور علی گڑھ میں تین شاخیں ہیں اور یہ بہت پرائم جگہوں پر ہیں۔ اس کے علاوہ دہلی کے پٹودی ہاؤس میں لبرٹی آرٹ پریس کی قیمتی عمارت بھی مکتبہ جامعہ کی ملکیت ہے۔ دہلی کے ہی بوانہ علاقہ میں مکتبہ جامعہ کی ایک اور قیمتی اراضی ہے، لیکن یہ سب مکتبہ کے کار پردازوں کی بے حسی کا شکار ہیں۔مکتبہ میں اس وقت کوئی منیجنگ ڈائریکٹر بھی نہیں ہے جس کی تقرری خود جامعہ کرتا ہے اور یہ کام اشاعتی صنعت سے واقف فرد کی بجائے کسی پروفیسر کو دیا جاتا ہے۔ پچھلی تقرری کامرس کے پروفیسر این یو خان شیروانی کی صورت میں کی گئی تھی، لیکن انھوں نے بھی اس کام میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ اور مکتبہ جامعہ کے قیام کی داستان 1920 میں ایک ساتھ شروع ہوئی تھی ۔ جامعہ جہاں درس وتدریس کا ادارہ تھا تو وہیں مکتبہ جامعہ لوگوں کو ذہنی غذا فراہم کرنے کا ذریعہ تھا۔ یہ محض کوئی کاروباری اشاعت گھر نہیں تھا بلکہ اس نے مواد کے اعتبار سے انتہائی قیمتی کتابیں ارزاں قیمت میں شائع کیں اور لاکھوں لوگوں کے ذہن وشعور کو سیراب کیا۔ مکتبہ جامعہ نے خلاق ذہنوں کی اہم تصنیفات کے علاوہ طلبا ء کی نصابی ضرورتوں کے مطابق درسی کتابیں بھی شائع کیں۔ ’معیاری سیریز‘ کے عنوان سے مختصر مگر جامع کتابوں کی اشاعت کا منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچایا۔ حقیقت یہ ہے کہ آج بھی اہل علم ودانش اور طلباء مکتبہ جامعہ کی مطبوعات سے تعلق خاطر رکھتے ہیں۔ درس گاہوں اور دانش گاہوں میں اس کی مطبوعات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ جامعہ کے ساتھ ساتھ مکتبہ جامعہ نے بھی ترقی کی منزلیں طے کیں اور یہ جامعہ کے بازو کے طور پر ایک ایسا ادارہ بن گیا جو ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم تھے۔ جامعہ کی لائبریری کو بھی مکتبہ جامعہ سے بہت تقویت حاصل ہوئی۔ لیکن گزشتہ ایک عرصہ سے مکتبہ جامعہ کا اشاعتی کاروبار ٹھپ ہے۔ نہ تو وہاں سے کوئی نئی کتاب شائع ہوئی ہے اور نہ ہی اس ادارے کے تاریخ ساز جریدوں ’کتاب نما‘ اور ’پیام تعلیم‘ کی اشاعت باقی رہی ہے۔ کتابوں کے وہ پرانے ٹائیٹل جن کی اردو والوں میں ہمیشہ مانگ رہی ہے اور جو مکتبہ جامعہ کی شناخت سمجھے جاتے ہیں، ناپید ہیں اور دور دور تک ان کی اشاعت کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔

ماضی میں جائیے تو مکتبہ جامعہ پر پہلا ستم یہ ہوا کہ پروفیسر مشیرالحسن کے دور میں گل مہر پارک میں واقع مکتبہ کی عمارت پر بلڈوزر چلاکر یہاں ارجن سنگھ کے نام پر فاصلاتی تعلیم کا ایک ادارہ قائم کردیا گیا اورمکتبہ جامعہ کو جامعہ کالج کے پیچھے جھونپڑیوں میں منتقل کردیا گیا۔ اسی دور میں مکتبہ جامعہ سے شاہدعلی خاں بھی علیحدہ ہوئے، جنھوں نے اپنی انتھک کوششوں سے ادارے کو بام عروج تک پہنچایا تھا۔ مکتبہ جامعہ کی عمارت جن جھونپڑوں میں منتقل ہوئی تھی وہاں ان قیمتی کتابوں کو بری حالت میں دیکھا گیا۔ اس کے بعد مکتبہ انصاری ہیلتھ سینٹر کی عمارت میں منتقل ہوا اور اس طرح وہ ایک یتیم بچے کی طرح ادھر ادھر بھٹکتا رہا۔ آج ہزاروں قیمتی کتابیں شائع کرنے والا یہ تاریخ ساز ادارہ اپنی حالت پر ماتم کناں ہے۔ چند سال قبل قومی اردوکونسل (این سی پی یو ایل) نے مکتبہ جامعہ کی دوسونایاب کتابیں اپنے صرفہ پر شائع کیں۔ یہ کام پروفیسر خالد محمود کی کوششوں سے عمل میں آیا، جو اس وقت مکتبہ کے منیجنگ ڈائریکٹرتھے۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عروج وزوال دنیا کا دستور ہے اور آج اردو اشاعتی صنعت مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ لوگوں میں کتابیں خریدنے اور انھیں اپنی آنکھوں کا سرمہ بنانے کا رواج دم توڑرہا ہے۔ لیکن وہ ادارے ضرور ترقی کررہے ہیں جن کی وابستگی مستحکم اور مضبوط اداروں کے ساتھ ہے۔ مکتبہ جامعہ ایسا ہی ادارہ ہے جس کی وابستگی جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسی مرکزی دانش گاہ کے ساتھ ہے۔ مکتبہ جامعہ کو نئی زندگی دینے کے لئے جامعہ کو ٹھوس منصوبہ بنانا چاہئے۔ اگر فوری طور پر مکتبہ جامعہ پر توجہ نہیں دی گئی توایک صدی تک لوگوں کے ذہنوں کو منور کرنے والا یہ تاریخ سازاشاعتی ادارہ دم توڑدے گا اور اس کا سب سے بڑا نقصان اہل علم ودانش کو پہنچے گا۔

Leave a Reply