وقف کی حقیقت و اہمیت

بقلم : اشتیاق احمد قاسمی

مسلمان آخرت کے ثواب کے لیے وقف کرتا ہے ، وہ اسی نیت سے اپنی ملکیت اللہ تعالی کے سپرد کر دیتا ہے ، وقف کے معنی ہیں روکنا اور اصطلاحی اعتبار سے اسلام میں وقف یہ ہے کہ اصل چیز کو اللہ تعالی کی ملکیت میں اس طرح سے روکنا کہ اس چیز کا فائدہ بندوں کو پہنچتا رہے ، وقف میں اصل چیز باقی رہتی ہے ، اس کو روک کر رکھا جاتا ہے اور اس سے ہونے والے نفع کو وقف کرنے والے کی منشا کے مطابق مستحقین پر خرچ کیا جاتا ہے ۔

وقف کی حقیقت و اہمیت 
وقف کی حقیقت و اہمیت

وقف اور عام صدقات میں فرق یہی ہے کہ صدقات کا مال مستحق کے قبضے میں دے دیا جاتا ہے اور مستحق اس کا مالک بن جاتا ہے ؛مگر وقف میں مالک نہیں بنایا جاتا ، مالک بنانے کی گنجائش اس میں نہیں ہے ، وقف پر نہ تو وقف کرنے والے کی ملکیت رہتی ہے اور نہ ہی متولی وقف کا مالک ہوتا ہے اور نہ وہ لوگ مالک ہوتے ہیں ، جن کو وقف سے نفع اٹھانے کا مستحق قرار دیا گیا ہے ، وقف کی چیز براہ راست اللہ تعالی کی ملکیت میں ہوتی ہے قران پاک کے چوتھے پارے کی پہلی آیت میں اپنی پسندیدہ چیزوں کو اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے کہ بندہ نیکی کا ثواب اس وقت تک نہیں پا سکتا ، جب تک کہ وہ اللہ کے راستے میں ایسی چیز خرچ نہ کرے جو اسے خود پسند ہو۔

جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابۂ کرام رض کے اندر اپنے مال کو خرچ کرنے کا جذبہ عروج پر چڑھ گیا ؛ چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے خیبر کی زمین کو اللہ کے لیے خرچ کرنے کا ارادہ کیا ، جو ان کو حاصل ہوئی تھی ، اس میں کھجور کا ایک باغ تھا ، جس کا نام ثمغ تھا ، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے اور حضور سے مشورہ کیا کہ میں اس باغ کو اللہ کے راستے میں خرچ کرنا چاہتا ہوں ،اس لیے کہ یہ باغ مجھے بہت محبوب ہے ، میں اللہ تعالی کی رضامندی حاصل کرنا چاہتا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

إن شِئتَ حبّستَ أصلها وتصدّقت بها . ( صحيح مسلم)

اس کا مطلب یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر سے ارشاد فرمایا کہ اگر تم چاہو تو ایسا کر سکتے ہو کہ اصل زمین کو روکے رکھو اور اس سے حاصل ہونے والے فائدے اور نفع کو صدقہ کر دو!

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے اس وقف کو نزول قرآن مجید کے بعد کا سب سے پہلا وقف کہا جاتا ہے ۔ صاحب فتح الباری نے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کا یہ قول نقل کیا ہے :

اولُ صدقةٍ اي موقوفةٍ كانت في الاسلام صدقةُ عمر رضي الله عنه .

یعنی اسلام میں سب سے پہلا صدقہ جو وقف کیا گیا ، یہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا صدقہ ہے ، یعنی یہ وقف صدقہ صدقۂ جاریہ ہے ۔ (فتح الباری 5/476 )

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے اس باغ کو وقف کیا یعنی اس باغ کو اپنے اہل قرابت ، رشتہ دار ، غلام ، مسافر ، فقراء اور مہمانوں پر وقف فرما دیا ساتھ ہی اس میں سات شرطیں لگائیں ، یہ وقف نامہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا پہلا وقف نامہ ہے اور بہت سے مسائل اس وقف نامے سے مستنبط ہوتے ہیں :

1 ۔ انہوں نے پہلی شرط یہ لگائی کہ اصل زمین کو فروخت نہ کیا جائے ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رہنمائی فرمائی تھی۔

2 ۔ دوسری شرط یہ لگائی کہ اسے کسی کو ہبہ نہ کیا جائے ، یہ بھی اصل کو باقی رکھنے کی ایک قسم ہے۔

3 ۔ تیسری شرط یہ لگائی کہ اس وقف میں وراثت جاری نہیں ہوگی ۔

یہ صراحت ضروری تھی تاکہ ورثہ بعد میں آپس میں تقسیم نہ کر لیں ۔

4 – چوتھی شرط یہ لگائی کہ وقف کا جو متولی ہوگا اسے رواج کے مطابق وقف میں سے کھانے کی اور دوستوں کو کھلانے کی اجازت ہے ۔

5 – پانچویں شرط میں یہ وضاحت فرمائی کہ متولی کو جمع کرنے کی اجازت نہیں ہوگی ۔

6 – متولی ہونے کے سلسلے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ بھی ارشاد فرما دیا تھا کہ ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا اس کی متولی ہوں گی ۔

7 – ساتویں وضاحت یہ بھی فرمائی کہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے بعد ان کے خاندان کے اہل رائے یعنی سوجھ بوجھ رکھنے والے مسلمان متولی ہوں گے ۔ ( ان ساری شرطوں کو مسلم شریف اور فتح الباری میں دیکھا جا سکتا ہے) ۔

اعلاء السنن میں یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ غالباً حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد اس موقوفہ باغ کے متولی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے لڑکے حضرت عبداللہ ہوئے تھے ؛ چنانچہ وہ اس باغ میں سے حضرت عبداللہ ابن صفوان کو بھی تحفہ دیا کرتے تھے ۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی صراحت سے یہ بھی سمجھ میں آیا کہ وقف کرنے والا اپنی زندگی میں خود متولی بن سکتا ہے اور اگر وہ چاہے تو متولی کی حیثیت سے کسی دوسرے کو منتخب کر سکتا ہے اور اپنی زندگی کے بعد بھی جسے چاہے وہ متولی بنا سکتا ہے ، متولی میں وقف کرنے والے کی شرطوں کا لحاظ کرنے کی صلاحیت ہو قران پاک احادیث نبویہ فقہائے کرام کے بیان کیے ہوئے اصول و ضوابط سے وہ اچھی طرح واقف ہو ۔ اس سے بھی یہ سمجھ میں آگیا کہ جو ادمی قران و سنت پر ایمان نہیں رکھتا اور شریعت کو نہیں سمجھتا وقف کی اہمیت سے وہ واقف نہیں ہے تو ایسے ادمی کو وقف کا متولی نہیں بنایا جا سکتا اور وقف کمیٹی کا رکن بھی کوئی غیر مسلم کو نہیں بنایا جا سکتا ، کسی غیر مسلم کو وقف کے معاملے میں دخل دینے کی اجازت ہرگز نہیں ؛ اس لیے کہ وقف کا معاملہ براہِ راست قران پاک سے ، سنتِ نبوی سے ، صحابہ کرام کے عمل سے ، تابعین اور تبع تابعین کے عمل سے اور ان کے قول سے ثابت ہے ۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے وقف کرنے کے علاوہ دوسرے صحابۂ کرام کے سلسلے میں بھی روایت ملتی ہے کہ ان سب نے اللہ کے راستے میں اپنی اپنی زمینیں ، مکانات ، کنویں ، باغ اور دیگر جائیدادیں وقف کی تھیں ۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ حضرات صحابۂ کرام میں سے کوئی باحیثیت صحابی ایسا نہیں ہے جس نے وقف نہ کیا ہو ، وقف پر صحابۂ کرام کا اجماع ہے ، متعدد کتابوں میں لکھا ہوا ہے :

1۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنا گھر اپنے لڑکے پر وقف کیا تھا۔

2.حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنا ایک گھر جو مروہ کے پاس تھا اسے اپنے لڑکوں پر وقف کیا تھا ۔

3 – حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی زمین وقف کی تھی ۔

4-حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے مکہ مکرمہ اور مصر میں اپنا مکان وقف کر دیا تھا اور مدینہ منورہ میں جو مال تھا اسے اپنے بچوں پر وقف کر دیا تھا

5-حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ نے مدینہ منورہ میں اپنا ایک مکان وقف کر دیا تھا اور مصر میں ان کا ایک مکان تھا ، جسے انہوں نے اپنے بچوں پر وقف کیا تھا ،

6 – حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے بیر رومہ کو خرید کر تمام مسلمانوں کے لیے وقف کیا تھا ، حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے اتنا وقف کیا تھا کہ آج بھی اوقاف کے کھاتے میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کا نام درج ہے اور ان کی طرف سے فقراء غرباء اور مساکین پر آمدنی خرچ کی جاتی ہے ۔

7- حضرت عمر بن العاص رضی اللہ عنہ اور حضرت حکیم ابن حزام رضی اللہ عنہ سے بھی مختلف جائدادوں کا وقف کرنا ثابت ہے۔ ( صحیح بخاری ، جامع ترمذی اور دیگر کتابوں میں یہ تفصیلات موجود ہیں) ۔

اللہ کے لیے اپنی زمین اور اپنا مال وقف کرنے کی ابتداء آج کی نہیں ہے ؛ بلکہ جب سے حضرت آدم علیہ السلام اور انبیاء کرام علیہم السلام تشریف لائے تب سے ان سب نے عبادت گاہیں بنائیں اور صرف اللہ کے لیے بنائیں ، عبادت گاہوں سے فائدہ اٹھانے کی اجازت سب کو دی ؛لیکن کوئی عبادت گاہ کسی انسان کی ملکیت میں نہیں رہی خانۂ کعبہ اور بیت المقدس اس کی واضح مثال ہے ۔

آخری شریعت کے ماننے والوں کی تاریخ کا مطالعہ کیجیے تو معلوم ہوگا کہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت نے بہت ساری جائیدادیں وقف کی ہیں ، صحابۂ کرام کے دور میں بھی تابعین کے دور میں بھی تبع تابعین کے دور میں بھی اور بہت سے اوقاف بادشاہوں نے وقف کی ہیں ، مسجدیں بنوائیں ، عید گاہیں بنوائیں ، قبرستان وقف کیے ، درگاہیں بنوائیں ان پر اخراجات کے لیے زمینیں وقف کیں، یتیم خانے بنوائے ، مسافر خانے بنوائے ، بیماروں ، معذوروں اور محتاجوں کے لیے شفا خانے بنوائے ؛خلاصہ یہ کہ مسلمانوں نے بہت زیادہ جائیدادیں وقف کی ہیں ، ان کا مقصد رضائے الٰہی تھا ، غریبوں کی کفالت تھی ، بے سہاروں کی دستگیری تھی ۔

وقف میں امداد باہمی کا طریقہ پایا جاتا ہے ، وقف کے مال میں دائمی انتفاع کو یقینی بنایا جاتا ہے ، عوامی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بھی وقف کرنا نیکی کی بڑی اچھی شکل ہے اور وقف خالص اللہ تعالی کے لیے ہوتا ہے ۔

وقف کی شرطیں :

وقف کی چند شرطیں ہیں ، پہلی شرط یہ ہے کہ وقف کیا جانے والا مال شریعت کی نظر میں متقوم ہو ، یعنی قیمت رکھنے والا ہو ، دوسری شرط یہ ہے کہ وقف کی ہوئی چیز معلوم اور متعین ہو ، تیسری شرط یہ ہے کہ وقف کرنے والے کی ملکیت میں موقوفہ چیز ہو ، چوتھی شرط یہ ہے کہ وقف کی جانے والی چیز تنہا وقف کرنے والے کی ملکیت ہو اور اگر چند لوگ مل کر کے وقف کر رہے ہوں تو ان سب لوگوں کی ملکیت ہو اور وقف کرنے پر سب کا اتفاق ہو ، پانچویں شرط یہ ہے کہ وقف کی جانے والی چیز کی اصل کو باقی رکھتے ہوئے اس کے منافع سے فائدہ حاصل کرنا ممکن ہو ، چھٹی شرط یہ ہے کہ وقف کی جانے والی چیز غیر منقول ہو ، یعنی وہ ایک جگہ ٹھہری ہوئی ہو اسے منتقل نہ کیا جا سکتا ہو لیکن یہاں پر فقہائے کرام نے خصوصا فقہائے احناف نے یہ کہا ہے کہ منقول اور غیر منقول دونوں طرح کی چیزوں کا وقف درست ہے ، بس شرط یہ ہے کہ منقول چیزوں کے وقف کا رواج اور عرف ہو ، مثال کے طور پر مسجد میں رکھا جانے والا قرآن مجید اور دوسری دینی کتابیں ، قبرستان میں قبر کھودنے کے آلات اور جنازہ اٹھانے کی چارپائی اور جنازہ میں استعمال ہونے والی دوسری چیزیں ، اسی طرح سے ہسپتال میں استعمال ہونے والی چیزیں ، تو ان چیزوں کا وقف ہو سکتا ہے ؛ کیونکہ ان چیزوں کے وقف کا رواج ہے۔

وقف کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ فی الفور اسے وقف کر دیا جائے اور وقف فی الحال قابل نفاذ ہو ، اگر کوئی ادمی یوں کہے کہ ائندہ میں وقف کروں گا تو ائندہ کہنے کی وجہ سے وقف نہیں ہو سکتا ، اسی طرح سے وقف کے لیے ہمیشہ ہمیش ہونا بھی شرط ہے ، محدود مدت کے لیے وقف نہیں کیا جا سکتا ۔

وقف کرنے والا جو بھی شرط لگائے ، اس کی شرط کا پورا پورا لحاظ کیا جائے گا ، الاشباه والنظائر میں لکھا ہوا ہے :

شرطُ الواقفِ كنصِ الشارع ( الاشباه والنظائر ص 169) .

یعنی وقف کرنے والے کی شرط شارع کی نص کی طرح ہے ، یعنی وقف کرنے والے کی شرطوں کو سمجھنے میں بھی انہیں اصول و قواعد کو ملحوظ رکھا جائے گا ، جن کا لحاظ نصوص کی تفہیم و توضیح میں رکھا جاتا ہے ۔ اس کا دوسرا مطلب بھی فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ وقف کرنے والے کی شرط کا احترام واجب ہے ، جس طرح سے شریعت کے نصوص کا احترام واجب ہے ۔

چند وضاحتیں :

یہاں چند وضاحتیں کرنا ضروری ہیں ۔

1- سب سے پہلی وضاحت یہ ہے کہ وقف کمیٹی کا رکن مسلمان ہی ہو سکتا ہے کوئی غیر مسلم نہیں ہو سکتا ،اس لیے کہ غیر مسلم وقف کرنے والے کی شرطوں کا لحاظ ان اصول کے مطابق نہیں کر سکتا جو اصول فقہائے کرام نے لکھے ہیں اور اتنا احترام نہیں کر سکتا ، قران و سنت کا جتنا کوئی مسلم کر سکتا ہے اور یہاں احترام سے مراد قران و سنت کے ضابطے کو سمجھنا اور قران و سنت کے مسئلے سے واقف ہونا بھی ہے ۔

2- دوسری وضاحت یہ ہے کہ اگر کسی وقف کا دستاویزی ثبوت نہ ہو ؛ لیکن اس کا وقف ہونا مشہور ہو اور معتبر لوگ اس کے وقف ہونے کی تصدیق کریں تو اس وقف کو ثابت مان لیا جائے گا ، محض کاغذات مکمل نہ ہونے کی بنا پر کسی مشہور وقفی جائیداد کے وقف کو ختم کرنا شریعت کے اصول کے خلاف ہے۔ ( رد المحتار 6/619).

3 – جس طرح غریبوں کے لیے اور کار خیر کے لیے وقف کیا جاتا ہے اسی طرح اسلام میں اپنی اولاد ، اولاد در اولاد اور اپنی آنے والی نسل پر بھی وقف کرنا درست ہے ، اپنے عزیزوں اور قریبوں کے لیے بھی وقف کرنا درست ہے ، اس کی صراحت بھی فقہ و فتاوی کی کتابوں میں موجود ہے ۔

مجوزہ ترمیمی بل کی خامیاں :

ہندوستان میں وقف کا قانون پہلے سے موجود ہے اور اس قانون میں وقف کی جائیداد کے لیے تحفظات موجود ہیں ، وقف کے قانون کو بدلنا بہت خطرناک اقدام ہے ، وقف کے اصول و ضوابط کو جو آج بدلا جا رہا ہے اس میں تین بنیادی خرابیاں ہیں :

1- پہلی خرابی یہ ہے کہ بہت سے معاملات میں فیصلہ کرنے کے اختیارات مقامی کلیکٹر کو دے دیے گئے ہیں ۔

2-دوسری خرابی یہ ہے کہ مرکزی صوبائی اور علاقائی کمیٹیوں میں غیر مسلم اراکین مقرر کرنے کی گنجائش اس میں رکھی گئی ہے ۔ جو یقیناً اسلامی اصول کے خلاف ہے اور جو چیز قران و سنت اور اسلام کے خلاف ہو اسے مسلمان کبھی قبول نہیں کر سکتا ۔

3- اس میں تیسری خرابی یہ ہے کہ واقف کے لیے وقف کرنے سے پہلے کم از کم پانچ سال کی دینداری والی زندگی کی قید لگائی گئی ہے ، یہ قید بھی اسلام کے اصول کے خلاف ہے ، اس لیے کہ اسلام میں کوئی بھی آدمی وقف کر سکتا ہے ، چاہے اس نے اسلام کو ابھی قبول کیا ہو یا چند دنوں پہلے قبول کیا ہو ، یا خاندانی مسلمان ہو یا نو مسلم ہو ہر ایک کو وقف کرنے کی پوری اجازت اسلام میں موجود ہے ؛ اس لیے 2024 کا مجوزہ ترمیمی بل کسی بھی ہندوستانی مسلمان کو تسلیم نہیں ۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare