یوم وفات 27 جولائی پر خاص

ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام

معصوم مرادآبادی

زین العابدین نے اپنے ہاتھوں سے ایک کشتی بنائی اور اسے ماہی گیروں کو کرایہ پر دے دیا۔ اس کرایہ سے وہ اپنے بیٹے کی تعلیم کے اخراجات پورے کیا کرتے تھے۔ زین العابدین کا یہی بیٹا آگے چل کر ملک کے سب سے بڑے عہدے تک پہنچا۔ جی ہاں ہم بات کررہے ہیں ملک کے مایہ ناز دفاعی سائنس داں اور سابق صدرجمہوریہ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کی جنہوں نے 27 جولائی 2015 کو وفات پائی

ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام
ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام

ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کا تعلق جنوبی ہند کے ساحل پر آباد ماہی گیروں کے ایک غریب خاندان سے ہے۔ انہوں نے اپنی محنت، لگن، دلچسپی اور مقصد کے لئے مکمل خودسپردگی کے رہنما اصولوں کو اپنا کر ملک کو جس دفاعی خود کفالت سے ہمکنار کیا، اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ ہمارا ملک دفاعی سائنس کے میدان میں دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کی فہرست میں شامل ہوجائے۔

ڈاکٹر عبدالکلام کو دفاعی تکنیک کی جدید کاری اور سائنسی تحقیق کے میدان میں حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کرنے کے لئے 1997ء میں بھارت رتن کا اعزاز ملا۔ آنجہانی ہوموجی بھابھا کے بعد وہ ملک کے دوسرے سائنس داں تھے جنہیں اس اعزاز سے سرفراز کیاگیا ۔ موجودہ دور میں جب کہ دنیا کے امیر ترین اور ترقی یافتہ ممالک بھی دفاعی سائنس کے معاملے میں دنیا کی بڑی طاقتوں پر انحصار کرتے ہیں ہندوستان نے اس میدان میں اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر ایک ریکارڈ قائم کیا ہے اور یہ کامیابی ڈاکٹر عبدالکلام کی جدوجہد اور کوششوں کے نتیجے میں حاصل ہوئی ۔

دفاعی تحقیق وسائنس میں اعلیٰ ترین کامیابیاں حاصل کرنے والے ڈاکٹر عبدالکلام نے اپنی تعلیم ملک میں ہی حاصل کی۔ 1960کی دہائی میں چند ہفتوں کے لئے وہ امریکہ ضرور گئے جو ان کا پہلا اور آخری سفر تھا۔ انہوں نے دفاعی سائنس اور میزائل سازی کے میدان میں جو کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں وہ ملک میں دستیاب وسائل اور ان کی اعلیٰ ذہانت کی دین ہے۔ اسی لئے ان کے دوست انہیں بڑے فخر کے ساتھ ”200 فیصد ہندوستانی“ کہہ کر پکارتے تھے ۔ ڈاکٹر عبدالکلام وزارت دفاع کے سائنسی مشیر، محکمہ دفاعی تحقیق وترقی کے سکریٹری اور دفاعی تحقیق وترقی سے متعلق ادارے ڈی آر ڈی او کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ ڈاکٹر عبدالکلام کو اپنی قسمت آزمانے کاپہلا موقع 1983 میں اس وقت ملا جب آنجہانی وزیر اعظم مسز اندراگاندھی نے اینٹی گریٹیڈ میزائل ڈیولپمنٹ پروگرام شروع کرنے کی تجویز کو منظوری دے دی، مشہور نیوکلیئر سائنس داں ڈاکٹر راجہ رمنا نے اس پروگرام کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے ڈاکٹر عبدالکلام کو اپنا رفیق کار بنایا۔ یہاں انہیں اپنے جوہر دکھانے کا بھرپور موقع ملا۔ یہاں سے انہوں نے کامیابیوں کا جو سفر شروع کیا تھا وہ تاعمر جاری رہا ۔

ڈاکٹر عبدالکلام کی پیدائش 15اکتوبر 1931 ء کو تامل ناڈو کے روحانی مرکز رامیشورم میں ایک غریب مسلم خاندان میں ہوئی۔ ان کے اعزاء آج بھی اس ساحلی علاقے میں ماہی گیروں کاکام کرتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالکلام جب بڑے ہوئے تو رامیشورم ایک معمولی قصبہ تھا اور یہاں کوئی سیکنڈری اسکول بھی نہیں تھا اس لئے انہیں تعلقہ کے صدر مقام راماناتھ پورم کے ہائی اسکول میں داخلہ لینا پڑا، جہاں ذریعہ تعلیم تامل تھا اور انگریزی بطور مضمون پڑھائی جاتی تھی۔ اس وقت تک راماناتھ پورم میں کوئی کالج نہیں تھا۔ ہائر سیکنڈری کے بعد انہیں انٹرمیڈیٹ کرنے کے لئے تروچی جانا پڑا جہاں انہوں نے سینٹ جوزف کالج میں داخل لیا۔

ڈاکٹر عبدالکلام نے مدراس انسٹی ٹیوٹ برائے ٹیکنالوجی سے ایرو انجینئرنگ میں مہارت حاصل کی اور ابتداء 1958 ء میں ڈی آر ڈی او میں کام کیا اور بعد ازاں 1963 میں انڈیا اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن میں شامل ہوگئے۔ 1983 میں ایک بار پھر وہ حیدرآباد کی ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ لیباریٹری میں ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ انہوں نے بڑی محنت اور لگن کے ساتھ تعلیم حاصل کی اور اتنی ہی لگن سے دفاعی سائنس کے میدان میں قدم رکھ کر خود کو اس کے لئے وقف کردیا۔ منزل کو پانے کی جستجو اتنی شدید تھی کہ انہوں نے شادی بھی نہیں کی بقول خود ان کی شادی سائنس کے ساتھ ہوگئی تھی۔ ڈاکٹرعبدالکلام کی قیادت میں ہندوستان نے پانچ قسم کے میزائل پرتھوی، ناگ، آکاش، اگنی اور ترشول کی کامیاب تشکیل کی۔

ڈاکٹر عبدالکلام نے میزائل اور دفاعی سائنس کے تعلق سے کہا تھا کہ وہ 20برس کے اندر ملک کو اس میدان میں دیسی فارمولے سے ہی خود کفیل بنادیں گے، تب ایسے لوگوں کی کمی نہیں تھی جنہوں نے اس دعوے کو ڈاکٹر کلام کے بڑبولے پن سے تعبیر کیا تھا۔ لیکن ڈاکٹر عبدالکلام اپنی دھن کے اتنے پکے اور مادر وطن کے اتنے سچے سپوت ثابت ہوئے کہ انہوں نے محض 784 کروڑ روپے کے بجٹ سے شروع ہوئے میزائل پروگرام کے تحت صرف چودہ برسوں میں وہ سب کر دکھایا جسے دیکھ کر دنیا انگشت بدنداں تھی۔

اگر آپ اتنے کامیاب سائنس داں کی ذاتی زندگی کی طرف دیکھیں تو آپ کو مزید حیرت ہوگی۔ ڈاکٹر کلام اپنے مشن میں اس قدر مصروف اور منہمک رہتے تھے کہ ضروریات زندگی کی طرف ان کی توجہ برائے نام تھی۔ وہ نہایت سادہ کھانا کھاتے اور شاکاہاری تھے۔ انہوں نے کبھی مہنگا یا دیدہ زیب لباس نہیں پہنا۔ جولوگ ڈاکٹر کلام کو قریب سے جانتے تھے، انہیں ان کی سادگی دیکھ کر بڑا تعجب ہوتا ۔ اپنے سرکاری عہدے کے اعتبار سے وہ اس بات کے مستحق تھے کہ دہلی میں انہیں ایک عالیشان سرکاری بنگلہ ملے۔ حکومت نے انہیں بنگلہ دینے کی کوشش بھی کی لیکن وہ ایک سرکاری گیسٹ ہاؤس کے دوکمروں میں رہتے تھے، جہاں ان کی ذاتی لائبریری بھی تھی۔ وزارت دفاع کے ضابطے کے مطابق وہ عام کارکنوں کی طرح اپنے گلے میں اپنا شناختی کارڈ پہن کر آفس آتے تھے۔ اپنے رویہ سے بالکل عام آدمی نظر آنے والے منکسرالمزاج ڈاکٹر عبدالکلام کو پہلی نظر میں دیکھ کر کوئی اندازہ ہی نہیں کرسکتا تھا کہ یہ شخص ہندوستان کے میزائل پروگرام کا موجد ہوسکتا ہے۔ حقیقت پریقین رکھنے والے ڈاکٹرکلام کا ماننا تھا کہ خود کفالت ہی تحفظ کی واحد ضمانت ہوسکتی ہے اور طاقت سے ہی عزت ملتی ہے۔ اپنی اسی سوچ سے انہوں نے دفاعی سائنس کے میدان میں ہندوستان کا سربلند کیا ۔

یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ ڈاکٹر عبدالکلام کو میزائل سازی کی تحریک شہید وطن ٹیپو سلطان سے ملی۔ تامل زبان میں شاعری کرنے والے ڈاکٹر کلام نے اپنی ایک نظم میں اس کا خلاصہ کیا ہے ان کی نظم کا مفہوم ہے۔ ”دنیا کا پہلا راکٹ ہندوستان میں بنا تھا۔“ یہ راکٹ آج برطانیہ کے جنگی میوزیم میں رکھا ہوئے ہیں ۔ ان راکٹوں کے استعمال سے ہی برطانیہ کو شکست ہوئی تھی۔ انہوں نے اس نظم میں 1792اور 1799 کے دوران سرنگا پٹنم کی سرزمین پر لڑی گئی ان دوجنگوں کی طرف اشارہ کیا ہے جو ٹیپو سلطان اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے درمیان ہوئیں اور ان میں ٹیپو سلطان نے ان راکٹوں کو استعمال کیا۔

آج پورے ملک میں ڈاکٹر کلام کی خدمات کو سراہا جاتا ہے انہوں نے کسی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ نہیں کی۔ تاہم ہندوستان کی کئی اہم یونیورسٹیوں نے انہیں ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی ڈگری عطا کی۔ انہیں تمام قابل ذکر ایورڈ ملے۔ ان میں نیشنل ڈیزائن ایوارڈ، ڈاکٹر بیرن رائے اسپس ایوارڈ، اوم پرکاش بھسین ایوارڈ، نیشنل نہرو ایوارڈ، آریہ بھٹ ایوارڈ، پروفیسر وائی نایوٹ میموریل گولڈ میڈل، جی ایم مووی ایوارڈ برائے سائنس ایچ کے فرو دیا ایوارڈ شامل ہیں۔

ڈاکٹر عبدالکلام کو 1981 میں پدم بھوشن اور 1990 میں پدم وبھوشن کے قومی اعزاز عطا کئے گئے۔ ڈاکٹر عبدالکلام ایرو نوٹیکل سوسائٹی آف انڈیا کے نائب صدر، انڈین نیشنل اکیڈمی برائے انجینئر اور انڈین اکادمی آف سائنس بنگلور کے فیلو اور انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹرونکس ٹیلی کمیونکیشن کے اعزازی فیلو بھی رہے۔

ڈاکٹر عبدالکلام اپنی کامیابیوں کا سہرا اپنے والدین اور اساتذہ کے سرباندھتے تھے۔نہایت جذباتی انداز میں وہ کہتے تھے کہ ان کے والد زین العابدین 103 سال کی عمر تک زندہ رہے اور ان کے حوصلوں کو دوبالا کرتے رہے۔ ان کی ماں آسیہ بھی 93سال کی عمر تک حیات رہیں اور وہ آج جو کچھ بھی ہیں اس میں ان کے والدین کی قربانیوں کا سب سے زیادہ دخل ہے۔

بھارت رتن ڈاکٹر عبدالکلام کی زندگی سے نئی نسل کے لئے سیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ غریب خاندان کا ایک لڑکا جس نے محنت اور لگن سے تعلیم حاصل کی اور پھر اپنی منزل کی تلاش میں ا تنا غرق ہوگیا کہ باقی دنیااس کے لئے اجنبی بن گئی۔ جب اس نے منزل کو پالیا تو ساری دنیا اس کی طرف حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔ آج ہر ایک اسی کے نام اور کام سے واقف ہے لیکن کامیابیوں کی اس عظیم منزل پر پہنچنے کے بعد بھی آگے بڑھنے اور کچھ نیا کردکھانے کی اس کی جستجو میں کوئی کمی نہیں آئی ۔ ایک ستارہ جس کی چمک محدود تھی آفتاب بن کر روشنی تقسیم کرتا رہا اور 27 جولائی 2015 کو اس دنیا سے رخصت ہوا۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare