”کلیات قیصر“پر ایک نظر
معصوم مرادآبادی
برسوں پہلے کسی گلوکارکی گائی ہوئی ایک غزل سنی تھی۔یوں تو اس کے تمام ہی اشعار بہت دلکش تھے، لیکن پہلا شعر بڑا معنی خیز تھا۔یہ ہماری نوجوانی کا دورتھا۔ اس دورمیں شاعر اور گلوکار سے زیادہ شعروں سے سروکار ہوتا تھا، اس لیے یہ جانے بغیر کہ شعر کس کا ہے اور کس نے اپنی خوبصورت آواز میں اسے گایا ہے، ہم اسے گنگنانے لگے ؎
دیواروں سے مل کر رونا اچھا لگتا ہے
ہم بھی پاگل ہوجائیں گے ایسا لگتا ہے
بعد کوجب ہم شعور کی منزلوں تک پہنچے تو معلوم ہوا کہ یہ شعر قیصر الجعفری کاہے، جو بمبئی میں رہتے ہیں اور ان کا شمارہمارے عہد کے بڑے شاعروں میں ہوتا ہے۔اسی دور میں بشیر بدر کا بھی ایک شعر گردش میں تھا ؎
تم مجھے چھوڑ کے جاؤگے تو مرجاؤں گا
یوں کرو جانے سے پہلے مجھے پاگل کردو
عشق میں پاگل ہونے اور خود کو برباد کرنے کی آرزو کتنی شدید ہوتی ہے‘یہ کسی عاشق اور شاعرسے بہترکون جان سکتاہے۔ اسی دور میں والی آسی نے کہا تھا ؎
توُ اگر عشق میں برباد نہیں ہوسکتا
جاتجھے کوئی سبق یاد نہیں ہوسکتا
آج جب قیصر الجعفری کی کلیات میرے ہاتھ آئی ہے تو ذہن میں ان کی برسوں پرانی وہی غزل اور اس کا پہلاشعر گونج رہا ہے۔ قیصر الجعفری ہمارے عہد کے ایک معتبراورممتاز شاعر تھے۔ اس کے ساتھ وہ ایک محنت کش اور بہترین انسان بھی تھے۔انھوں نے ریلوے میں ملازمت کی اور پوری عمر رزق حلال کی جستجواور یافت میں گزاری، جس کی پاکیزگی ان کے اشعار میں بھی نظر آتی ہے۔ان کی شعر گوئی کاہنر اپنے ہم عصروں میں شاید سب سے زیادہ منفردتھا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی مقبولیت کے لیے بیساکھیوں کا سہارا نہیں لیا۔ قیصر الجعفری کے جدید انداز تکلم اور ان کے شعور کی گہرائی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انجم فوقی بدایونی لکھتے ہیں:
”اس میں کوئی شک نہیں کہ قیصر الجعفری کے شعر کا جدید انداز، ان کے شعور کی گہرائی، فکر کی ہلکی ہلکی تپش‘ روایت کے خوبصورت ورثہ میں نئے لہجے کی آمیزش، لفظوں کی سادگی، خیال وکیفیت کی فنکارانہ شعرتراشی اور سب سے بڑھ کر ان کے جسم وجاں میں چھپے ہوئے غم کی ایسی آفاقی خلش جو اہل دل کے چہروں پر موج انبساط وروح پرور آنسوؤں کی تراوش کا سبب بن جائے، یقینا قابل ذکر بھی ہے، لائق ستائش بھی۔“(کلیات قیصر)
557 صفحات پر پھیلی ہوئی ”کلیات قیصر“ میں ان کے تین مجموعوں ”رنگ حنا“(1964) ”سنگ آشنا“ (1977)”دشت بے تمنا“(1987)اور ”اگر دریا ملا ہوتا“(2005)کے علاوہ ان کی نظمیں اور کچھ غیرمطبوعہ کلام شامل ہے۔ا س کو مرتب کرنے کی ذمہ داری ان کے لائق فرزند برادرم عرفان جعفری نے نہایت سلیقے اور ذمہ داری سے نبھائی ہے۔ عرفان جعفری ازخود ایک اچھے شاعر اور نفیس انسان ہیں۔ میں نے انھیں اب سے کوئی18 برس پہلے مقدس سرزمین سعودی عرب میں دریافت کیا تھا۔ موقع تھاجدہ میں منعقدہ عالمی اردو کانفرنس کا اس موقع پر انڈین کونسلیٹ کا سالانہ مشاعرہ بھی تھا۔ عرفان جعفری مشاعرے میں مدعو تھے اور وہیں ان سے تفصیلی ملاقاتیں ہوئیں اور ان کا کلام بھی سنا۔یہ بڑی سعادت کی بات ہے کہ انھوں نے اپنے والد کی کلیات شائع کی۔ اس کا خواب تو خود قیصرالجعفری مرحوم نے دیکھا تھا، لیکن اس کو تعبیر عطا کرنے کا کام عرفان جعفری کے حصہ میں آیا۔یہ ان کی خوش بختی ہے۔یوں تو قیصرالجعفری کے تمام ہی مجموعے قابل قدر ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ1977 میں شائع ہونے والے مجموعہ کلام ”سنگ آشنا“ نے انھیں مقبول شاعروں کی صف میں کھڑا کیا۔ اس مجموعہ کی تمام ہی غزلیں ہٹ ہوئیں اور سب سے زیادہ مقبولیت ان کی اس غزل کو ہی ملی۔
تمہارے شہر کا موسم بڑا سہانہ لگے
میں ایک شام چرالوں اگر برا نہ لگے
اس غزل نے قیصر الجعفری کے شاعرانہ مزاج کو دور دور تک پہنچایا۔یہ غزل یوں تو پہلے بھی معروف تھی، لیکن استاد رئیس خاں نے اسے اپنی خوبصورت آواز میں گاکر شاعری کے دلدادہ لوگوں کو قیصر الجعفری کا گرویدہ بنادیا۔
قیصر الجعفری کی پیدائش سنگم کی سرزمین الہ آباد میں 14/ستمبر1926کو ہوئی تھی اور انھوں نے 5/اکتوبر 2005کو کوسہ ممبرا میں وفات پائی۔انھوں نے اپنی شاعری میں زندگی کے تجربات کو بڑے لطیف پیرائے میں بیان کیا ہے۔وہ زندگی کے مسائل سے نبرد آزماتو نظر آتے ہیں، لیکن اس کے آگے سپر نہیں ڈالتے۔ان کے اندرون میں جو تلاطم برپا تھا، اسے انھوں نے زبان عطا کی
یاروں کو کیا ملا میرا چہرہ کرید کر
جو زخم تھا وہ روح کی گہرائیوں میں تھا
ان کے ہاں ضبط غم کی ایک عجیب کیفیت دیکھنے کو ملتی ہے۔ وہ اپنے غم کو شعری لباس تو عطا کرتے ہیں، لیکن اس احتیاط کے ساتھ کہ وہ صحیح معنوں میں غزل بن جاتی ہے
یہ محبت ہے ذرا سوچ سمجھ کررونا
ایک آنسو بھی جو ٹوٹا تو سنائی دے گا
ممتازترقی پسند شاعرعلی سردار جعفری نے ان کی شاعری میں غم ذات اور غم کائنات کا سراغ لگاتے ہوئے لکھاتھا کہ
”اردو شاعری کے لیے یہ عہدکچھ بہت سازگار نہیں ہے، فلمی گیتوں کی وجہ سے اردو شاعری کی مقبولیت بہت بڑھ گئی ہے اور اردو تعلیم کی کمی کی وجہ سے اردو شعر کا علم کم ہوگیا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج وہ نظمیں اور غزلیں زیادہ مقبول ہیں، جن پر محبوب کا جسم حاوی ہے، جن میں محبوب کے لیے احترام کی کمی ہے اور وسواخت کا انداز زیادہ ہے۔ اس سے گریز کرکے سنجیدہ شاعروں ایک گروہ جو زیادہ ترنئی نسل سے تعلق رکھتا ہے، غم ذات میں مبتلا ہوگیا ہے۔ یوں تو غم ذات کے بغیر غم کائنات کا احساس کسی شاعرکے لیے ممکن نہیں ہے، لیکن غم کائنات سے فرار کرکے غم ذات کے قلعہ میں اسیر ہوجانا شاعری کے لیے نیک فال نہیں ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ قیصرالجعفری کی شاعری اس تاریک حلقہ کی گرفت سے باہر ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس میں زندگی کے مسائل سے دست وگریباں ہونے کی طاقت اور صلاحیت ہے۔ان میں غم ذات بھی ہے اور غم کائنات بھی، جو دونوں ایک دوسرے کے گلے میں بانہیں ڈالے ہوئے ہیں۔“(کلیات قیصر)
”کلیات قیصر“اچھی اور سچی شاعری کے دلدادگان کے لیے ایک تحفے سے کم نہیں ہے۔ نہایت عمدہ کاغذ اور روشن طباعت کے ساتھ شائع ہوئی اس کتاب کو حاصل کرنے کے لیے مرتب عرفان جعفری (9987792355)سے رابطہ قایم کیا جاسکتا ہے۔