گجرات کا سفر اور کچھ مدارس و مکاتب کا تذکرہ

(دوسری اور آخری قسط)

تحریر : بدر الاسلام قاسمی 

بڑودہ” صوبہ گجرات کا ایک مرکزی اور اہم شہر ہے، یہاں سے احمد آباد 110 کیلو میٹر، سورت ڈیڑھ سو کیلو میٹر اور بھروچ تقریباً 80 کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے، ملک کے موجودہ وزیر اعظم کا یہ شہر بی جے پی اور آر ایس ایس کے شدت پسند نظریات کے تعلق سے بھی شہرت رکھتا ہے، کچھ سالوں پہلے کے سروے کے مطابق یہاں کی آبادی 22 لاکھ ہے، جس میں پورے گجرات کی طرح تقریباً دس فیصد مسلمان ہیں، مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر یہاں بستے ہیں، بریلوی، دیوبندی، جماعت اسلامی، غیر مقلدین اور شیعہ(بوہرہ)، سب کی اپنی اپنی عبادت گاہیں اور اپنے اپنے مراکز. تبلیغی جماعت کے کافی اثرات اور علماء کا عوام سے مضبوط رابطہ۔

ہمارے میزبان کے والد حضرت مولانا سید قمر الدین قاسمی علیہ الرحمہ کا قدیم گھر شہر کی مرکزی جگہ مانڈوی کے محلہ مغل واڑہ میں واقع تھا، یہ علاقہ گھنی آبادی اور گنجلک رستوں پر مشتمل ہے، اس لیے کچھ سالوں قبل انھوں نے بڑودہ کے مسلم اکثریتی علاقے "تاندلجہ” میں نیا گھر تعمیر کیا، ویسے تو یہ علاقہ کافی قدیم ہے، پرانی آبادی میں کچے پکے مکانات، تنگ گلیاں اور قدیم طرز کی بہت سی تعمیرات دیکھنے کو ملتی ہیں لیکن گزشتہ کچھ سالوں میں یہاں کافی ترقی ہوئی اور مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد یہاں منتقل ہوئی ہے، تقریباً 95 فیصد مسلم علاقے میں جگہ جگہ مساجد، اسکول، ہاسپٹل اور زبانی چٹخاروں کے شوقین افراد کے لیے مغلئی اور چائنیز وغیرہ ہر طرح کے چھوٹے بڑے ہوٹل موجود ہیں۔

اسی محلہ میں ہمارا قیام "المکہ ٹاور” نامی سوسائٹی میں تھا، جہاں مولانا سید وحید الدین قاسمی کی رہائش گاہ ہے، اس سے بالکل متصل "طائف نگر مسجد” ہے جہاں وہ چھوٹے بچوں اور بچیوں کو قرآن کریم اور اردو کی تعلیم دیتے ہیں، اس سوسائٹی سے نکل کر چند قدموں کے فاصلے پر "مسجد ابراہیم” واقع ہے جہاں وہ فجر اور مغرب کے امام ہیں، یہاں سے تقریباً پون کلومیٹر کے فاصلے پر واقع "مسجد عمر” میں وہ عصر اور عشاء کی نماز پڑھاتے ہیں، یہ بات یہاں عام ہے کہ الگ الگ نمازوں کے لیے الگ الگ امام، مسجد کے ذمہ داران اپنی، مقتدیوں اور ائمہ کی ضرورت اور مصلحت کے پیش نظر ایسا کرتے ہیں، تنخواہ بھی فی نماز کے اعتبار سے دی جاتی ہے، اضافی ذمہ داریوں کا وظیفہ الگ ہوتا ہے. ہر مسجد میں کچھ بوکس نظر آئے جن میں زکاۃ، صدقہ اور للہ لکھا ہوا تھا کہ نمازی حسبِ مصرف اپنا تعاون یہاں جمع کر سکیں. مسجد ابراہیم سے متصل "سلور ولاز” (silver villas) میں مولانا مفتی سید مصباح الدین قاسمی صاحب کی رہائش گاہ ہے، جو ان کے والد گرامی نے اپنی حیات میں ہی تعمیر کرا دی تھی۔

اس علاقے کا ماحول راقم کو بڑا پر سکون محسوس ہوا، ہر جہت میں مسجد، ہر نماز میں نمازیوں کی بڑی تعداد، ہر مسجد میں بعد نماز ظہر مکتب کا منظم اور کامیاب نظام، جہاں اسکولی طلبہ و طالبات کے لیے کئی کئی درس گاہیں لگتیں۔

ہر گھر کو مسجد، اذان، وہاں ہونے والے صبح و شام کے دینی بیانات اور کتابی تعلیم سے مربوط کرنے کے لیے گھروں میں وائرلیس اسپیکر موجود ہے، جس سے پنج وقتہ اذان کی آواز گھروں میں آتی ہے، نیز فجر اور عصر کے بعد ہونے والی دینی تعلیم جس میں مختلف کتابوں کا درس ہوتا ہے، جمعہ کا خطاب اور مکتب کے تحت ہونے والے دینی پروگرام وغیرہ کے بیانات، خواتین خانہ بآسانی ان سے مستفید ہوتی ہیں، گویا خواتین کو گھر سے نکلے بغیر ہی وہ مسجد، بیانات اور دیگر دینی امور سے مربوط ہیں۔

علاقے کے مختصر تعارف کے بعد ان اداروں اور مقامات کا تذکرہ پیش خدمت ہے جہاں راقم کو جانے کا موقع مل سکا۔

دارالعلوم بڑودہ

یہ اس شہر کا سب سے بڑا دینی تعلیمی ادارہ ہے، چونکہ تاندلجہ نامی علاقے میں واقع ہے اس لیے مقامی باشندے اس کو دارالعلوم تاندلجہ بھی کہتے ہیں، ٹھیک اسی طرح جیسے دارالعلوم کراچی کو اہل کراچی دارالعلوم کورنگی کہتے ہیں. کچھ سالوں پہلے اس ادارے کا نام تبدیل کرکے "جامعہ عبداللہ ابن مسعود” رکھ دیا گیا ہے، اس کی وجہ راقم کو معلوم نہ ہو سکی۔

اسی ادارے میں حضرت مولانا سیّد قمر الدین محمود علیہ الرحمہ اخیر عمر میں شیخ الحدیث رہے. مدرسے کے مین گیٹ پر دربان نے حسب ضابطہ باز پرس اور واردین کے رجسٹر میں مکمل اندراج کے بعد ہمیں اندر جانے کی اجازت دی، مدرسے کی عمارتیں نہایت دیدہ زیب تھیں اور خالی جگہوں پر ہریالی اور پیڑ پودے ان کی رعنائی میں اضافہ کر رہے تھے. اس کے مہتمم حضرت مولانا مفتی محمد عارف صاحب مد ظلہ ہیں، افسوس کہ ان سے شرف ملاقات حاصل نہ ہو سکا کہ وہ کسی ضروری سفر پر نکلے تھے. البتہ نوجوان عالم دین، محترم جناب مفتی محبوب صاحب سے ملاقات ہوئی جو اسی ادارے کے عربی درجات کے مدرس ہیں، عربی زبان و ادب کا عمدہ ذوق رکھتے ہیں اور آس پاس کے معتبر اداروں میں علمی مسابقو‍ں میں بطور حکم جاتے رہتے ہیں. انھوں نے ادارے کا معائنہ کرایا اور ہر عمارت و شعبے کا عمدہ تعارف بھی، دارالاقامہ اور درسگاہوں پر مشتمل دو منزلہ عمارت کا ایک حصہ اس اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے کہ یہاں پر قرآن کریم کا دنیا کا سب سے بڑا نسخہ موجود ہے، اگرچہ راقم نے اس کی زیارت چند سالوں قبل بھی کی تھی، تاہم آج دوبارہ بھی اس کی دید سے محظوظ ہوا، 1783ء میں یہ قرآن کریم بڑودہ ہی کے ایک بزرگ سید محمد غوث نے تحریر فرمایا تھا، اس وقت چونکہ آج کی طرح کے کاغذ بھی دستیاب نہ تھے اس لیے یہ کاغذ بھی انھوں نے اپنے رفقاء کے تعاون سے تیار کیا، پھر اس پر نہایت خوبصورت و دلکش انداز میں قرآن کریم تحریر کیا، ساتھ میں تفسیر حسینی سے ماخوذ فارسی ترجمہ و تفسیر بھی اس کا حصہ ہے. اس کی جلد 15 جلدیں ہیں اور ہر جلد دو پاروں پر مشتمل ہے، یہ عظیم نسخہ سالہا سال شہر بڑودہ کی جامع مسجد میں رکھا رہا، یہ وہی مسجد ہے جس کے مؤذن سابق ہندوستانی کرکٹرز یوسف پٹھان و عرفان پٹھان کے والد تھے، بعد میں یہ نسخہ یہاں منتقل کیا گیا جس کی زیارت کے لئے لوگ یہاں آتے رہتے ہیں۔

اسی عمارت کے سامنے مدرسہ کا مطبخ اور ایک بڑا ہال ہے جس میں طلبہ کو اجتماعی طور پر کھانا کھلایا جاتا ہے، یہ نظام گجرات کے اکثر مدارس میں رائج ہے۔

مطبخ سے متصل ایک نئی عمارت ہے جسے ہم "غسل گاہِ میّت” کا نام دے سکتے ہیں، یہاں میت کو غسل دینے کے لیے بہت عمدہ کمرہ بنایا گیا ہے، واقعی بڑے شہروں میں جہاں لوگوں کو چھوٹے چھوٹے گھروں بلکہ کمروں، اور کئی کئی منزلہ فلیٹ میں زندگی گزارنی پڑتی ہو وہاں غسلِ میت میں بہت سے مسائل پیش آتے ہیں، ایسے میں یہ کمرہ اہل علاقہ کی ایک اہم ضرورت کی تکمیل ہے۔

دارالاقامہ کے سامنے اور مسجد کے درمیان وسیع میدان کی ہریالی فرحت بخش ہے، اس کے بعد مدرسہ کی نہایت وسیع و عریض اور عظیم الشان مسجد میں جانا ہوا جو اپنی وسعت و نظافت میں مثالی معلوم ہوتی ہے، اسی سے متصل مدرسہ کا مہمان خانہ ہے۔

مدرسے میں ابتدائی تعلیم سے لے کر مکمل عالمیت کا نظم ہے، کورونا وائرس کے دور کے بعد جب دارالعلوم دیوبند اور اس کے قرب و جوار تک میں واقع مدارس کو طلبہ کی تعداد میں کمی کا سامنا کرنا پڑا تھا تو ہندوستان کے دیگر مدارس کا متاثر ہونا بھی فطری سی بات ہے، یہاں بھی اس کا اثر ہوا لیکن رفتہ رفتہ تعداد بڑھنے کی امید ہے۔

مدرسہ کے تحت اسکول کے دو بڑے نظام جاری ہیں، ایک گجراتی میڈیم ہے جس کا نام ہے "ھدی اسکول” جب کہ انگلش میڈیم اسکول کا نام ہے "رائٹ وے” ان دونوں اسکولوں کو 12 ویں جماعت تک سرکاری منظوری مل چکی ہے، انتظامیہ عصری تعلیم کے اپنے دائرے کو وسعت دینے کے لیے میڈیکل کالج کا بھی منصوبہ رکھتی ہے. اللہ اس ارادے کو قبول فرمائے اور اس میں ملت کے لیے فلاح مقدر کرے. آمین

جامعہ انوار القرآن، تاندلجہ

بعد نماز مغرب ہمارا اس نوخیز ادارے میں جانا ہوا کہ جس کے نظام تعلیم کو دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی، اس ادارے کے ذمہ دار محترم جناب قاری محمد ساجد صاحب ہیں جو چھوٹے بچوں کو قاعدہ اور قرآن کریم پڑھانے کا طویل تجربہ رکھتے ہیں، چند سال قبل انھوں نے یہ علمی پودا لگایا جو آج پورے تاندلجہ میں اپنی نیک نامی اور نظام تعلیم کے تعلق سے منفرد و ممتاز ہے، ابتدا کرائے کی چھوٹی سی جگہ سے ہوئی، لیکن جب مقامی افراد نے قاری صاحب کی محنت اور لگن دیکھی، نیز اپنے نونہالوں کی زبان سے عمدہ انداز میں قرآن کریم کی تلاوت سنی تو ایک صاحب خیر نے عاریتاً اپنا دو منزلہ مکان ہی اس خدمت کے لیے دے دیا، چنانچہ اب اس ادارے میں 6 اساتذہ 150 بچوں اور بچیوں کو قرآن کریم پڑھاتے ہیں. راقم نے مختلف درجات کا مشاہدہ کیا، چھوٹے چھوٹے بچوں کو حضرت مولانا سید شمس الدین بڑودوی علیہ الرحمہ کا مرتب کردہ "احسن القواعد” اس انداز میں زیر نصاب دیکھا کہ چھوٹے چھوٹے بچے بلیک بورڈ پر سبق دہراتے ہیں، گویا کہ بچوں کے وقتی معلم و معلمہ بن کر ان کو یہ ابتدائی اسباق ذہن نشین کرا دیے جاتے ہیں، پورا احسن القواعد اسی طرح پڑھایا جاتا ہے، حفظ کی درس گاہ میں جانا ہوا تو دیکھا کہ اکثر بچے اسکول جاتے ہیں، بعد ظہر و مغرب حفظ کرتے ہیں، علی الصباح فجر سے پہلے آ کر سبق سناتے ہیں، اساتذہ بھی بلا ناغہ فجر سے پہلے تشریف لاتے ہیں۔

ہر بچے کی ایک کاپی ہے جس میں اسباق و آموختہ کا یومیہ ریکارڈ درج ہوتا ہے اور ہر ہفتے والدین کی خدمت میں بچے کی کارکردگی پیش کر دی جاتی ہے تاکہ وہ حسب ضرورت ترغیب و ترہیب کا فریضہ انجام دے سکیں۔

بانی مدرسہ کی ایماء پر کچھ بچوں اور بچیوں کا قرآن کریم سنا، یقین جانیں کہ انھوں نے جتنے عمدہ انداز میں قرآن کریم کی تلاوت کی، تجوید اور لہجے کو جس پیارے طرز میں ملحوظ رکھا، نیز تجوید کے مختلف سوالات کا کھٹا کھٹ جواب دیا راقم حیران و ششدر تھا، ایک بچے نے تو اتنے پیارے انداز میں تلاوت کی کہ سماں ہی بندھ گیا، معلوم ہوا کہ اس بچے کے تین یا چار پارے ناظرہ ہوئے ہیں. اللہ اکبر کبیرا. ناظرہ میں ایسا لہجہ راقم کے تصور میں بھی نہ تھا. اس انداز کے مکاتب کی کامیابی میں جہاں ایک طرف بلا شبہ اللہ کا فضل و کرم، حضرات اساتذہ کی مخلصانہ جدوجہد، طلبہ و طالبات کی محنتوں کا دخل ہے، وہیں دوسری جانب ان طلبہ کے والدین کی کامل توجہ اور بھرپور نگرانی بھی کافی اہمیت کی حامل ہے، بچوں کو وقت پر پابندی سے بھیجنا، ان کے اسباق کی نگرانی اور اساتذہ کے کہنے پر مدرسہ جا کر احوالِ تعلیم کی خبر گیری قابلِ تعریف بلکہ قابلِ تقلید ہے. کاش کہ مکاتب کا ایسا سلسلہ دیگر صوبوں میں بھی اسی عمدگی اور خوش اسلوبی کے ساتھ جاری ہوتا۔

جامعہ تعلیم الاسلام آنند

بڑودہ سے تقریباً 45 کلومیٹر شہر "آنند” واقع ہے، ویسے تو دنیاوی اعتبار سے اس کی شہرت امول ڈیری سے ہے، پورے ہندوستان میں اپنی ذائقہ دار آئس کریم، دودھ، گھی اور دیگر پروڈکٹس کی وجہ سے شہرت رکھنے والی یہ کمپنی یہیں پر واقع ہے، اسی لیے اس کا نام amul ہے، یعنی anand milk union limited، یہ کمپنی 1946 میں شروع ہوئی تھی جس کی پوری تاریخ یہاں بتائی جاتی ہے، ویسے اس سفر میں امول فیکٹری میں جانا نہ ہو سکا، گزشتہ سفر جو تقریباً پانچ چھ سال پہلے ہوا تھا تب یہاں آنا ہوا تھا۔

خیر! بات کہیں اور جا نکلی، ہم دوپہر کے وقت گجرات کے قدیم ترین دینی ادارے "مدرسہ تعلیم الاسلام آنند” پہنچے، یہ بالکل مین روڈ پر بھیڑ بھاڑ کے درمیان واقع ہے، دراصل یہ اس کی نئی عمارت ہے، مدرسہ کے گیٹ پر تحریر تاریخ سے معلوم ہوا کہ اس ادارے کی ابتدا شہر کی جامع مسجد میں سن 1919ء میں ہوئی تھی، اس کے بعد آج سے تقریباً چالیس سال قبل ادارہ اپنی نئی جگہ پر متنقل ہوا ہے، سرخ اور زرد رنگ کی ہوئی عمارتیں اور درمیان میں ہریالی بڑی دلکش معلوم ہوتی ہیں، مین گیٹ سے گھستے ہی دائیں جانب دفتر اہتمام اور درس گاہیں موجود ہیں، جب کہ اس کی پشت پر شاندار مسجد ہے، دفتر اہتمام کے سامنے حفظ و ناظرہ کی درس گاہیں اور اس کی پشت پر دارالاقامہ کی کافی بڑی بلڈنگ، چونکہ یہ وقت دینی مدارس میں چھٹیوں کا ہے اس لیے مہمانانِ رسول کی رونق ہمیں کہیں میسر نہ آ سکی، دارالاقامہ کے قریب مدرسہ ہی کا دو منزلہ اسکول ہے جس کو عنقریب سہ منزلہ کرنے کا ارادہ ہے. مدرسے کے پاس کافی وسیع خطہ اراضی ہے، دفتر اہتمام میں موجودہ مہتمم اور دیگر کارکنان سے اچھی ملاقات رہی۔

یہ ادارہ اس اعتبار سے بھی تاریخی اہمیت کا حامل ہے کہ گجرات کی معروف و معتمد تنظیم "اصلاح المسلمین” کی بنیاد یہیں پر پڑی تھی، نیز سالہا سال تک اس کا دفتر بھی یہیں تھا جس میں اس کے بانی حضرت مولانا مفتی سید محمد شمس الدین بڑودوی علیہ الرحمہ کی وفات ہوئی تھی۔

اسی ضلع کے تحت "ناپا” نامی بستی ہے، چہار جانب کیلے اور تمباکو کے کھیت ہیں، مسلمانوں کی اکثریت والی اس بستی میں 7 مساجد ہیں، ساتھ ہی مدرسہ اور مکاتب کا ایک نظام بھی، ہم چاروں لوگ (راقم، مفتی سید عبید انور شاہ، مفتی سید مصباح الدین اور مولانا سید وحید الدین) یہاں ولیمے کی ایک تقریب میں مدعو تھے، اسی بستی میں آخر الذکر دونوں بھائیوں کا ننیہال ہے، جب کہ مولانا وحید الدین کی شادی بھی یہیں ہوئی ہے. اس وقت کسی نے مزاحاً یہ کہا تھا کہ "یہاں شادیاں عموماً بستی میں ہی ہوتی ہیں، اس لیے رشتے داریاں نوڈلس کی طرح ایک دوسرے میں الجھ گئی ہیں، کسی نو وارد کے لیے تو ان کا سمجھنا بھی بڑا دشوار ہوتا ہے۔”

شادی بیاہ کے رواج اور کھانا پینا ہر علاقے میں کچھ نہ کچھ انفرادیت کا حامل ہوتا ہے، مقامی رواج اور تہذیب کا اثر ہر جگہ الگ الگ انداز میں ظاہر ہوتا ہے، چنانچہ یہاں ہم چاروں کو ایک جگہ بٹھا کر درمیان میں بڑی سی پلیٹ رکھ دی گئی اور کھانے میں سب سے پہلے زردہ پیش کیا گیا، یہ زردہ یوپی بہار کی طرح چاول کا نہیں تھا، بلکہ سوئیاں کا زردہ تھا جسے نہایت عمدہ طریقے پر ڈرائی فروٹس وغیرہ ڈال کر بنایا گیا تھا، اس کے بعد روایتی کھانا "دال پلاؤ” پیش کیا گیا، نام سے واضح ہے کہ چاول میں چنے کی دال تھی جسے دیوبند میں "کابُلی” اور عوامی زبان میں "کبولی” کہا جاتا ہے، دال پلاؤ پلیٹ میں ڈال کر بالکل بیچ میں ایک کٹوری رکھ دی گئی جس میں گوشت پروسا گیا، اب منظر کچھ یوں تھا کہ چار لوگوں کے درمیان ایک بڑی پلیٹ، اس میں چاروں طرف چاول، درمیان میں سالن کی ایک کٹوری، اب باری باری اپنی جانب سالن ڈالتے جائیں اور کھاتے جائیں. بہر حال! یہ روایتی دعوت بھی خوب رہی،البتہ مرد و خواتین کے کھانے کی مجلس اگر جدا جدا ہوتی تو اور بہتر تھا۔

اس کے بعد ہم بستی میں ایک چھوٹے سے مکان میں گئے جہاں مقامی شخص حافظ زاہد صاحب نے ہمارا استقبال کیا، حافظ صاحب نے بتایا کہ کورونا کے زمانے میں انھوں نے دارالایمان نام سے مکتب شروع کیا تھا، جس میں اسکولی بچوں اور بچیوں کے لیے تعلیم کا نظم تھا، چند بچوں سے شروع ہونے والے اس چھوٹے سے مکتب نے آج اتنی وسعت اختیار کر لی ہے کہ اب اس میں تقریباً 350 بچے ہیں، جن کی تدریس و تربیت کے لئے 12 اساتذہ خدمت انجام دے رہے ہیں. حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس مکتب سے پڑھنے والے اپنی عصری تعلیم جوں کی توں جاری رکھتے ہیں، چنانچہ ایک نوعمر طالب علم ہمیں ایسا بھی ملا جس نے حفظ کے بعد ایک سال میں پچاس دور کیے تھے، ساتھ ہی دسویں کا امتحان بھی دیا، نہ اِدھر سُستی اور نہ اُدھر حق تلفی. شوق کا بھی کمال اور مخلص اساتذہ کا جذبہ بھی قابلِ قدر۔

یہاں سے فارغ ہو کر ہم اسی بستی میں واقع "مدرسہ مفتاح الاسلام” میں جانا ہوا، اس مدرسے میں چونکہ ابتدائی ناظرہ و حفظ کی تعلیم ہوتی ہے اس لیے اس مدرسہ کا دوسرا نام "بچوں کا گھر” ہے. مدرسہ میں داخل ہوتے ہی عالی شان مسجد ہے، مسجد کے عقب میں نہایت وسیع و عریض تعمیرات، جن میں دفتر اہتمام، مہمان خانہ، درس گاہیں، اسکول اور اس کے لوازمات، دارالاقامہ، گودام، کچن وغیرہ ہیں. مدرسے کے بانی و مہتمم صاحب سے ملاقات ہوئی جو کچھ عرصے سے لقوہ کے مرض میں مبتلا ہیں، البتہ اب رو بہ صحت ہیں اور کسی حد تک ما فی الضمیر ادا کر لیتے ہیں. ان کے پوتے جو کارگزار مہتمم بھی ہیں انھوں نے پورے مدرسے کا معائنہ کرایا، اسکول کے نظام کا تعارف کرایا اور کچھ انتظامی امور بھی بتائے. مثلاً مدرسے میں کل 72 کارکنان ہیں، جنہیں سالانہ 13 ماہ کی تنخواہ دی جاتی ہے، رمضان میں تنخواہ ڈبل ہوتی ہے، جسے ہم رمضان کا بونس بھی کہہ سکتے ہیں. اس کے علاوہ ہر سال لائبریری کے لیے کتابوں کی خریداری کا ایک نظام ہے جس کے انتخاب میں اساتذہ کی رائے کافی اہم سمجھی جاتی ہے۔

دارالعلوم ویگا، ڈبھوئی

اس ادارے کا ذکر پہلی قسط میں آ چکا ہے۔

ایک مصنف اور مقرر سے ملاقات

اس سفر میں ہماری ملاقات محترم جناب مولانا مفتی محمد شفیق شاہ بڑودوی سے ہوئی، صبح صبح ان کی قیام گاہ "صدیقی منزل” پر حاضری ہوئی، رفیق سفر مفتی سید عبید انور شاہ صاحب اور مفتی سید مصباح الدین ساتھ تھے، ان سے ملاقات بڑی عمدہ رہی اور انھوں نے اپنی تصنیف "گلدستۂ احادیث” پیش کی۔

واضح رہے کہ ہمارے حلقے میں اس سے قبل اردو زبان میں حدیث کے دو سیٹ مقبول ہیں، ایک ترجمان السنۃ (مؤلفہ حضرت مولانا بدر عالم میرٹھی) اور دوسرا معارف الحدیث (مؤلفہ حضرت مولانا محمد منظور نعمانی) یہ دونوں تصنیفات علم حدیث کے ذخیرے میں اپنی نمایاں خصوصیات کی بنا پر اہمیت کی حامل ہیں، اول الذکر خالص علمی اور تحقیقی ہے جس سے گہرا اور ٹھوس علم رکھنے والے استفادہ کر سکتے ہیں، یہ ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس سیٹ کی دو جلدوں میں تلخیص بھی ہو چکی ہے، یہ عظیم کارنامہ شیخ طریقت حضرت مولانا محمد قمر الزمان الہ آبادی دامت برکاتہم نے انجام دیا ہے. واضح رہے کہ گلدستہ احادیث کے مصنف حضرت الہ آبادی دامت برکاتہم کے مجاز بیعت بھی ہیں۔

ترجمان السنۃ کے بالمقابل معارف الحدیث کی زبان نہایت آسان اور سہل الاستفادہ ہے، اس کی تالیف کا مقصد بھی عوام کو تعلیماتِ حدیث سے قریب کرنا ہے، ائمہ اور واعظین میں احادیث کے یہ دونوں مجموعے حسبِ مراتب مقبول ہیں. 7 جلدوں پر مشتمل گلدستۂ احادیث اس سلسلے میں ایک نہایت مفید اضافہ ہے، یہ دراصل مصنف کے اُن دروسِ حدیث کا مجموعہ ہے جو انھوں نے اپنی زیر تولیت مسجد "محمدی مسجد، مہاولی پورم، تاندلجہ، بڑودہ” میں سالہا سال پابندی سے دیے ہیں. انداز درس ایسا ہے کہ واعظین و مبلغین کے لیے گنج گراں مایہ ہے، جب کہ اردو داں عوام بھی اس کے مطالعہ سے احادیث کی تعلیمات اور اس کی روح سے قریب ہو سکتی ہے. کتاب پر اکابر امت کے تائیدی و توثیقی کلمات اس کی معتبریت اور مصنف پر ان کے اعتماد کو ظاہر کرتے ہیں. اگرچہ اس کی اشاعت سالہا سال سے ہوتی رہی، تاہم اب اس کا تصحیح و تنقیح شدہ ایڈیشن دیوبند کے مشہور اشاعتی ادارے "کتب خانہ نعیمیہ” سے شائع ہو کر مقبول ہو چکا ہے. مصنف کتاب بڑودہ کے سب سے بڑے تعلیمی مرکز "دارالعلوم بڑودہ” میں بیس سال تک تدریسی خدمت انجام دے چکے ہیں، تاہم اب دعوتی و اصلاحی اسفار اور تالیفی مشغولیات کے پیش نظر خود کو فارغ کر لیا ہے۔

دوران ملاقات انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ واعظین و مقررین کو اپنی تقریر اور ناصحانہ کلمات کے لئے باقاعدہ تیاری کرنی چاہئے، غیر معتبر احادیث سے کلی اجتناب موجودہ وقت کی بہت بڑی ضرورت ہے، قدیم زمانے کی بات اور تھی، لیکن اب زمانہ بدل چکا، تب تحقیق و تدقیق کے اتنے وسائل نہ تھے، اب ہمیں ان وسائل کو استعمال کرکے اپنی خدمات کو مزید مستحکم کرنا چاہیے۔

یہ ہے اس سفر کی مختصر سی روداد، اس کے علاوہ بھی کچھ چیزوں کا ذکر ہو سکتا تھا، مثلاً شہر بڑودہ کے قلب میں واقع چار قدیم دروازے جو مسلم حکمرانوں کے تعمیر کردہ ہیں، ہر گیٹ سے متصل ایک مسجد بھی ہے، سیاحتی مقام چڑیاگھر اور عجائب خانہ بھی دیکھنے اور وقت گزرانے کی اچھی جگہ ہے۔ مسجدوں اور مدرسوں کے بورڈ، حتی کہ دعاؤں وغیرہ وغیرہ کے لئے تقریباً ہر جگہ فقط گجراتی تحریر کچھ عجیب محسوس ہوئی، یقیناً یہ ان کی اپنی زبان ہے، عوام کے لئے سہل الاستفادہ ہے، تاہم اس کے ساتھ اہم مقامات پر عربی یا اردو تحریر ہوتی تو شاید عوام و خواص کو ان زبانوں کی "دینی و مذہبی” حیثیت کا شعور کچھ زیادہ ہوتا۔

رمضان کو بس دو دن بچے ہیں، اس لیے یہ سفر نامہ یہیں مکمل ہوتا ہے۔

Leave a Reply