یونس دہلوی کی یاد میں
یوم وفات (7فروری پر خصوصی)
معصوم مرادآبادی
آج معروف فلمی و ادبی رسالے ’شمع‘ کے ایڈیٹر یونس دہلوی کا یوم وفات ہے۔ انھوں نے 7فروری 2019کو دہلی سے متصل گڑگاؤں میں آخری سانس لی۔ ’شمع‘ کی بنیاد یوں تو 1939میں حافظ یوسف دہلوی نے ڈالی تھی لیکن اس کو بلندیوں تک لے جانے کا کام ان کے بڑے فرزند یونس دہلوی نے انجام دیا۔ اپنے مزاج کی نفاست، ذوق لطیف، پیشہ ورانہ مہارت کی مدد سے انھوں نے ’شمع‘ کو خوب سے خوب تر بنایا۔ میں نے چونکہ دہلی میں اپنے کیریئر کا آغاز ادارہ ’شمع‘ سے ہی کیا تھا، اس لیے وہاں کی پوری تصویر میرے ذہن میں محفوظ ہے۔ میں نے مہینوں ’شمع‘ کے ہرے بھرے خاندان اور اس کی کامیابیوں کو بڑی حسرت بھری نگاہوں سے دیکھاتھا۔ میری یادوں میں آج بھی 45 سال پہلے کے ’شمع‘ کے دفتر کی بہت سی دلکش چیزیں محفوظ ہیں۔ ’شمع‘ نے برصغیر کی فلمی وادبی صحافت میں اپنی مقبولیت اور ہر دلعزیزی کا ریکارڈ قائم کیاتھا۔ ہندوستان ہی نہیں پاکستان میں بھی ’شمع‘ کو مقبولیت حاصل تھی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ لاہور اور کراچی ایئرپورٹ پر جس کسی ہندوستانی کے پاس سے ’شمع‘ برآمد ہوتا تھاتو اسے کسٹم افسران گرین چینل سے جانے کی اجازت دیتے تھے۔ پاکستان میں ’شمع‘ کی نقل میں کئی ماہنامے شائع ہوئے لیکن وہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکے۔ ’شمع‘ کی مقبولیت کا مقابلہ اردو کا کوئی رسالہ آج تک نہیں کرسکا۔ اپنے دور کی بڑی بڑی فلمی وادبی شخصیات ’شمع‘ میں شائع ہونے کو اپنے لئے باعث افتخار سمجھتی تھیں۔ کچھ فنکار ایسے بھی تھے جنہیں شمع نے ہی قارئین سے روشناس کرایا تھا۔ ان میں ایک نمایاں نام حیدرآباد کی افسانہ نگار واجدہ تبسم کا ہے جنہوں نے یہ اعتراف کیا تھا کہ ’شمع‘ نے ان کی شہرت اور دولت دونوں میں اضافہ کیا۔
1977 میں جب میری عمر محض 16برس کی تھی عمر میں نے تو سب سے پہلے یومیہ مزدوری ادارہ ’شمع‘ میں ہی کی تھی۔اس کام میں برادرم اصغرکمال بھی میرے ساتھ تھے۔ ہمارا کام ’شمع‘ ادبی معموں کو چیک کرنے کا تھا۔ بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی کا معاوضہ ساڑھے بارہ روپے ملتا تھا، جو اس زمانے میں ہم جیسے ضرورت مندوں کے لئے بڑی رقم ہوا کرتی تھی اور اس سے جیب خرچ پورا ہوجاتا تھا۔ لیکن یہ ڈیوٹی مہینے میں چند روز اس وقت ہی ملتی تھی، جب ’شمع‘ ادبی معمے کا نتیجہ آؤٹ ہوتا تھا۔ بوروں میں بھرے ہوئے معمے کھولے جاتے تھے اور انہیں ترتیب سے لگاکر ہم لوگ صحیح اور غلط حل کی نشان دہی کرتے تھے۔ معمے کا صحیح حل سب سے پہلے ہم ہی تک پہنچتا تھا۔ اس کام میں ہم جیسے درجنوں لوگ شامل ہوتے تھے۔ دوپہر کا کھانا اور شام کا ناشتہ ادارہ ’شمع‘ کی جانب سے مہیا کرایا جاتا تھا۔ یہ ’شمع‘ کے عروج کا زمانہ تھا اور آصف علی روڈ کی ایک وسیع عمارت کی پہلی منزل پر واقع ’شمع‘ کے دفترمیں بہترین ادیبوں، فنکاروں، آرٹسٹوں اور کاتبوں کی پوری کہکشاں موجود تھی۔ اسی دفتر میں ہماری نشست سے کچھ دور ایک بڑے کمرے میں ایک شخص ہمہ وقت اپنے کام میں مصروف نظر آتا تھا۔ لیکن اس کی شکل دیکھنے میں دشواری ہوتی تھی چونکہ اس کی بہت بڑی میز پر لاتعداد کاغذوں، تصویروں اور قارئین کے خطوط کا انبار لگاہوتا تھا۔ اسی انبار کے پیچھے چھپی ہوئی شخصیت یونس دہلوی کی تھی جو ’شمع‘ کے مدیر تھے۔ مدیراعلیٰ کے طورپر تو ’شمع‘ میں یوسف دہلوی کا نام شائع ہوتا تھا اور مدیران کے طورپر ان کے تینوں بیٹوں یونس دہلوی، ادریس دہلوی اور الیاس دہلوی کے نام تھے۔ لیکن ان میں ادارتی اور انتظامی ذمہ داریاں سب سے زیادہ یونس دہلوی کے کاندھوں پر تھیں اور شاید اسی لئے ان کے کاندھے کسی قدر خمیدہ بھی ہوگئے تھے۔ ان کے برابر والے دو کمروں میں ادریس دہلوی اور الیاس دہلوی بیٹھتے تھے۔ ادریس دہلوی عموماً بمبئی کے سفر پر رہتے تھے جبکہ الیاس دہلوی وہیں نظر آتے تھے۔ ’شمع‘ میں کام کرنے والوں کی تعداد اس وقت سیکڑوں میں تھی اور وہاں اشاعتی صنعت کے بہترین ماہرین جمع تھے۔
’شمع‘ کے دفتر میں ہر وقت بڑی رونق اور چہل پہل رہا کرتی تھی۔ اکثر ’شمع‘ کے بانی حافظ یوسف دہلوی کی بلند آواز دفتر میں سب کی توجہ اپنی طرف مرکوز کرتی تھی۔ وہ اپنے تینوں بیٹوں کو یونس، ادریس اور الیاس کہہ کر پکارتے تھے۔ سفید کرتے پاجامے میں ملبوس حافظ یوسف دہلوی کی شخصیت بڑی رعب دار تھی اور کوئی بھی ان کا سامنا آسانی سے نہیں کرسکتا تھا۔ وہ اکثر دفتر میں کام کرنے والوں کی نگرانی کرتے ہوئے نظر آتے تھے۔ یوسف دہلوی، دہلی کی مسلمان پنجابی سوداگران برادری کے ایک اہم فرد تھے اور انہوں نے ’شمع‘ کا آغاز پرانی دہلی کے پھاٹک حبش خاں سے کیا تھا۔ حالانکہ بعض گھروں میں ’شمع‘ کو اس کے فلمی سیکشن کی وجہ سے کبھی پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھاگیا۔ بعض لوگ اسے گھروں میں لے جانا پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ اس زمانے میں روایتی خاندانوں میں فلم اور فلمی اداکاروں کو اچھا نہیں سمجھاجاتا تھا۔
یونس دہلوی 1930میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ وہ حافظ یوسف دہلوی کی سب سے بڑی اولاد تھے۔ انہوں نے دہلی کے باوقار سینٹ اسٹیفن کالج سے 1953 میں فلسفے میں ماسٹر ڈگری حاصل کی اور خود کو اشاعتی صنعت میں پوری طرح جھونک دیا۔ 1960 سے 1990تک کا زمانہ ’شمع‘ کے عروج کا زمانہ تھا اور اس کی تعداد اشاعت ایک لاکھ سے زیادہ ہوگئی تھی۔یونس دہلوی مرحوم کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ انہوں نے اپنی محنت اور جدوجہد سے ’شمع‘ کو نہ صرف مواد کے اعتبار سے ایک منفرد رسالہ بنایا بلکہ اسے تجارتی اعتبار سے بھی بہت مضبوطی عطا کی تھی۔ ’شمع‘ رنگین طباعت سے نہایت عمدہ کاغذ پر شائع ہوتا تھا۔ یونس دہلوی نے ’شمع‘ کوہر اعتبار سے ایک کامیاب رسالہ بنانے کے جتن کئے۔ ’شمع‘ اکلوتا رسالہ تھا جسے ملک کے تمام بڑے تجارتی اداروں کے رنگین اشتہارات ملا کرتے تھے۔تجارتی دنیا میں ’شمع‘ کی عزت ووقعت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ1969میں یونس دہلوی ہندوستان میں اخبارات وجرائد کی سب سے بڑی تنظیم انڈین نیوز پیرس سوسائٹی (INS) کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ کسی اردو رسالے کو یہ اعزاز پہلی مرتبہ حاصل ہوا تھا اور شاید آخری بھی۔ اتنا ہی نہیں وہ اخبارات وجرائد کی سرکولیشن کا سرٹی فکیٹ دینے والی سب سے معتبر تنظیم آڈٹ بیورو آف سرکولیشن (ABC) کی ایکزیکٹیو میں بھی شامل تھے۔ وہ اخبارات وجرائد کی کئی عالمی تنظیموں سے بھی وابستہ رہے۔وہ 1999 میں اردواخبارات وجرائد کی سب سے قدیم تنظیم آل انڈیا اردو ایڈیٹرس کانفرنس کی سلورجوبلی کے موقع پر اس کے جنرل سکریٹری چنے گئے۔ اس موقع پر راقم الحروف کو بھی کانفرنس کا سکریٹری منتخب کیاگیا تھا۔ اس طرح یونس دہلوی کو دوسری بار قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ وہ کم گو، سنجیدہ، باوقار اور مہذب انسان تھے۔ چائے کے مقابلے میں گرم پانی کو ترجیح دیتے تھے۔ وہ صحیح معنوں میں دہلوی تہذیب کے علمبردار تھے۔ ان کی ذہانت، کاروباری مہارت اور اعلیٰ تعلیمی لیاقت کے سبب ہر کوئی ان سے متاثر تھا۔
یونس دہلوی نئی دہلی میں سردار پٹیل روڈ پر واقع ایک شاندار کوٹھی میں اپنے دیگر اہل خانہ کے ساتھ رہتے تھے۔ جو ’شمع گھر‘ کہلاتی تھی۔ اب اس کوٹھی کی ملکیت بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایاوتی کے پاس ہے۔ ایک زمانے میں یہ کوٹھی فلمی وادبی شخصیات کا سب سے بڑا مرکز ہوا کرتی تھی۔ ’شمع گھر‘ میں آنے والوں میں دلیپ کمار، اشوک کمار، راج کپور، آشاپاریکھ، نوتن، نرگس، راج کمار، سنجیو کمار، محمد رفیع، ملکہ پکھراج کے نام قابل ذکر ہیں۔ یہاں شعروشاعری کی محفلیں سجتی تھیں اور فلمی ہستیوں کی خاطر تواضع کی جاتی تھی۔ فلمی ہستیوں سے اتنے قریبی تعلقات ہونے کے باوجود یونس دہلوی اصول پسند انسان تھے۔ فلموں کی کامیابی یا ناکامی کا دارومدار ’شمع‘ کی تحریروں پر بھی ہوتا تھا۔ ہدایت کار محبوب نے جب فلم ’ہمایوں‘ بنانے کا اعلان کیا تو اس پر ’شمع‘ نے تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ جس طرح کہانی نویس نے تاریخ کے ساتھ ناانصافی کی ہے اسی طرح محبوب بھی کہانی کے ساتھ انصاف نہیں کر پائیں گے۔تنقید شائع ہوتے ہی ہلچل مچ گئی اور ’شمع‘ کے اشتہارات بند کرانے کی دھمکی دی گئی۔ ’شمع‘ کے مالکان کو رشوت دینے کی بھی کوشش ہوئی۔ لیکن یونس دہلوی اپنے فیصلے پر قائم رہے۔ ہر شمارے میں ’ہمایوں‘ پر تبصرہ شائع ہوتا رہا اور فلم آخر کار ناکام ہوگئی۔ یونس دہلوی بذات خود قلم کار نہیں تھے لیکن وہ ادب کے اچھے پارکھ تھے۔ ’شمع‘ میں شائع ہونے والی کہانیوں کا انتخاب وہ خود کرتے تھے جبکہ شعری تخلیقات کے انتخاب کے لئے مولاناعلیم اختر مظفرنگری اور بسمل سعیدی کی مدد لی جاتی تھی۔یونس دہلوی نے ہی ’شمع‘ میں شائع ہونے والے تخلیق کاروں کو معاوضہ دینے کی روایت شروع کی ورنہ اس سے قبل اردو میں لکھنے والوں کو معاوضہ نہیں ملتا تھا۔
’شمع‘ میں کرشن چندر، عصمت چغتائی، راجندر سنگھ بیدی، خواجہ احمد عباس، حفیظ جالندھری، حسرت جے پوری، قتیل شفائی، سلام مچھلی شہری، رضیہ سجاد ظہیر، راجہ مہدی علی خاں، ساحر لدھیانوی، رام لعل، سراج انور، شفیع الدین نیر، جیلانی بانو، نریش کمار شاد اور واجدہ تبسم کی تخلیقات مسلسل شائع ہوتی تھیں۔ تمام سرکردہ ادیب ’شمع‘ میں شائع ہونے کو فوقیت دیتے تھے۔ کہاجاتا ہے کہ ایک زمانے میں اداکارہ میناکماری اور نرگس نے بھی ’شمع‘ کو اپنی تحریروں سے نوازا تھا۔ دلیپ کمار سمیت تمام بہترین اداکاروں کے انٹرویوز ’شمع‘ میں شائع ہوا کرتے تھے۔ ’شمع‘ کا ایک انتہائی مقبول کالم سوال وجواب کا تھا۔جس میں قارئین کے سوالات کے انتہائی دلچسپ اور معلوماتی جوابات دیئے جاتے تھے۔ ہر جواب میں ایک دلچسپ قصہ، لطیفہ یا حکایت ضرور نقل کی جاتی تھی۔ سوال وجواب کا کالم میرے ہم وطن مرحوم جلیس عبدی کے ذمے تھا جو ایک گوشہ نشین قسم کے انتہائی کم گو انسان تھے۔ ’شمع‘ کا دفتر آصف علی روڈ پر اجمیری گیٹ اور ترکمان گیٹ کے درمیان جس بلند وبالا عمارت کی پہلی منزل پر تھا۔ وہاں آج بھی ’شمع‘، ’کھلونا‘ اور ’بانو‘ کے بورڈ آویزاں ہیں۔ لیکن مقدمے بازی کے سبب یہ عمارت اب کھنڈر میں تبدیل ہوچکی ہے۔
کھنڈربتارہے ہیں کہ عمارت عظیم تھی