یہ مسلم دشمنی کے سوا کچھ نہیں!

(حافظ)افتخاراحمدقادری

ہندو قوم پرست تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ(آر ایس ایس)سر سنگھ چالک موہن بھاگوت نے انیس دسمبر کو پونے میں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ رام مندر کی تعمیر کے بعد کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ نئی جگہوں پر ایسے مسائل اٹھا کر ہندوؤں کے لیڈر بن سکتے ہیں۔ ہر روز ایک نیا کیس کھڑا ہو رہا ہے۔ اس کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے؟ گزشتہ چند مہینوں سے ملک کی مختلف ریاستوں میں ہندو گروپوں کی جانب سے مساجد پر مندر ہونے کی دعویداری کا سلسلہ جاری ہے۔ اس میں مساجد کا سروے بھی شامل ہے۔ بھاگوت نے اس تحریک کی مخالفت کی اور انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ہر دن ہر مسجد کے نیچے مندر تلاش کرنا ناقابل قبول ہے۔ بھارت کو یہ دکھانے کی ضرورت ہے کہ ہم ساتھ رہ سکتے ہیں۔ جس دن سے بھاگوت نے یہ بیان دیا اس دن سے اب تک ان کے اس بیان کو لے کر بحث و مباحثہ جاری ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر بھاگوت کا بیان صداقت پر مبنی ہے اور وہ اپنے حامیوں فسطائی طاقتوں پر قدغن لگانا چاہتے ہیں تو ان کا خیر مقدم ہے مگر انہوں نے کئی مرتبہ اس سے پہلے بھی اپنے پروگراموں میں مسلمانوں کے تئیں نرم لہجہ میں بیان دے کر پزیرائی تو حاصل کی مگر ان کے بیان کا اثر کچھ دیکھنے میں نہیں آیا کہ فسطائی طاقتوں نے مسلمانوں کے خلاف اپنا رویہ تبدیل کر لیا ہو۔ اگر بھاگوت کا بیان صداقت پر واقعی مبنی ہے تو انہیں فوری طور پر مساجد میں مندروں کی تلاش و فسطائیت کی پالیسی پر قدغن لگانا چاہیئے۔

یہ مسلم دشمنی کے سوا کچھ نہیں!
یہ مسلم دشمنی کے سوا کچھ نہیں!

ملک میں بڑھتی فسطائیت کا اس وقت ذمہ دار کون ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ روز بروز مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ آئین و قانون کا حلف لے کر اعلیٰ عہدوں پر فائز شخصیات و وزارت کے عہدے پر فائز لوگ روز بروز مسلمانوں کے خلاف پروپگنڈہ کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کے عبادت گاہوں میں جہاں مندر کی تلاش کی جارہی ہے وہیں ان کو طرح طرح سے ہراساں کیا جارہا ہے۔ ملک کی سب سے بڑی اور فرقہ وارانہ طور پر حساس ریاست اترپردیش میں قدیم مندروں کی تلاش زور و شور سے جاری ہے۔ مسلم اکثریتی علاقوں میں تلاشی مہم کا اصل مقصد مندروں کی تلاش نہیں بلکہ مندروں کے بہانے مسلمانوں کے مذہبی مقامات کو نشانہ بنانا ہے۔ سنبھل کی تاریخی جامع مسجد اور اس کے اطراف کئی مقامات پر کھدائی اب بھی جاری ہے۔ اسی درمیان اب امیٹھی میں بھی یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ایک سو بیس سالہ قدیم شیو مندر پر دوسرے طبقہ نے قبضہ کر رکھا ہے۔ سنبھل کے بعد بدایوں کی جامع مسجد کے نیچے نیل کنٹھ مندر کا دعویٰ کیا گیا یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔ سنبھل میں بھی جگہ جگہ تیرتھ استھلوں اور کنوؤں کی تلاش جاری ہے۔ سنبھل کے چندوسی میں مسلم اکثریتی علاقہ لکشمن گنج میں ملبہ اور مٹی تلے دبی برسوں قدیم عمارت ملنے کی اطلاعات کے بعد اس کے اطراف کھدائی کی جارہی ہے۔ مسلمانان ہند کے مقدس مقامات بالخصوص مساجد کے نیچے مندروں کے دعوؤں اور کھدائی کے ذریعہ ان کی تلاش ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی، یکجہتی اور سالمیت کے لئے ایک بڑا خطرہ بن چکی ہے۔ غالباً اسی خطرہ کو بھانپتے ہوئے راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کے سربراہ بھاگوت بار بار متنبہ کر رہے ہیں کہ مسجدوں کے نیچے مندروں کی تلاش کا رجحان اور مذہبی شدت پسندی کا بدبختانہ سلسلہ ختم ہونا چاہئے۔

حالیہ چند دنوں پہلے بھاگوت نے واضح طور پر کہا کہ بابری مسجد کا مسئلہ آستھا کا مسئلہ تھا۔اس کی بنیاد پر اب دیگر مساجد کو نشانہ نہیں بنانا چاہئے۔ موہن بھاگوت نے گزشتہ ہفتہ ہی مذہبی شدت پسندی پر تنقید کرتے ہوئے اپنے پیرو کاروں کو تلقین کی تھی کہ وہ اعتدال پسند بنیں۔ مذہب میں انتہا پسندی و شدت پسندی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مذہب اعتدال کی تعلیم دیتا ہے۔ بھاگوت کے ان بیانات پر ملک گیر بحث بھی ہوتی رہی۔ کیا مسلمانان ہند کے مذہبی مقامات کے نیچے مندر تلاشی مہم سے ہی بھگوا بریگیڈ کی تہذیب و ثقافت محفوظ رہے گی؟ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سب دعوے لغو و بے بنیاد ہیں حقیقتاً یہ مذہبی غلبہ کی ہی لڑائی ہے۔ اگر تہذیبی انصاف کی جنگ ہے تو یہ مسلم عبادت گاہوں اور مسلم حکمرانوں کی پرشکوہ تعمیرات کے نیچے ہی کیوں دفن ہیں کسی دیگر فرقہ کے مذہبی مقامات کے نیچے کیا کوئی تہذیبی باقیات نہیں ہو سکتے؟ بلکہ اصل مسئلہ تو مسلمان ہیں اور یہ مسلم دشمنی کے سوا کچھ نہیں۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ موہن بھاگوت اس پر لب کشائی کریں۔اپنی نصیحت پر عمل کے لئے اپنے پیرو کاروں کو پابند بنائیں کہ وہ اب کسی مسجد کے نیچے مندر ڈھونڈنے سے باز آئیں تاکہ ملک کی یک جہتی و سالمیت پر آنچ نہ آسکے۔

ادھر یتی نرسنگھانند جیسے لوگ مسلمانوں کے خلاف ایک مہم شروع کر کے ان کے مذہبی رہنماؤں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ قانون کے محافظ ادارے پولیس و انتظامیہ ایسے افراد پر سخت قانونی کارروائی کرنے کے بجائے ان جیسوں کو مکمل تحفظ فراہم کر رکھا ہے۔ فسطائی طاقتوں پر کارروائی نہ ہونے کے سبب آج ان کے حوصلے بلند ہیں۔ سماج میں تفرقہ پیدا کرنے والوں اور ملک کی گنگا جمنی تہذیب و ثقافت کو پامال کرنے والوں پر آخر کیوں کوئی کارروائی نہیں کی جاتی؟ بھاگوت کا بیان درست ہے لیکن مسلمانوں کے خلاف تشدد و ہجومی تشدد، ان کے گھروں پر انہدامی کارروائی اور دیگر جابرانہ کارروائیوں کا کیا ہوگا جو آر ایس ایس کے نظریہ کی پیروی کرنے والوں کے جانب سے کی جاتی ہیں۔ ان پر قدغن لگانے کے لئے کوئی قانونی کارروائی کیوں نہیں کی جاتی ہے؟ بھاگوت کا بیان سننے میں ملک کی سالمیت والا بیان ہے مگر اس کا اثر کیا واقعی ہوگا؟ اس پر شبہ ہے۔ آر ایس ایس چیف اگر حقیقت میں ملک میں کچھ تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو انہیں سب سے پہلے نفرتی نظریات پر قدغن لگانا ہوگا اگر ایسا نہیں ہوتا تو ایسا بیان کوئی معنیٰ نہیں رکھتا۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare