اردو سے متعلق سرکاری اداروں میں مدارس کی نمائندگی ضروری

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

اردو زبان وادب کے حوالے سے جب بات چلتی ہے تو ہرسطح پر یہ اقرار واعتراف کیا جاتا ہے کہ اگر اردو آج زندہ ہے تو مدارس اسلامیہ کے دم سے، وہ مدارس اسلامیہ جہاں اردو بولی جاتی ہے، پڑھی جاتی ہے، سمجھی جاتی ہے اور سمجھائی جاتی ہے، اساتذہ بھی اردو بولتے اور لکھتے ہیں اور طلبہ بھی ، اردو اخبارات ان کے گھر آتے ہیں اور وہ اپنے بچوں کو بھی انگلش میڈیم کی راہ نہیں دکھاتے ، اردو میڈیم میں پڑھاتے ہیں ، اس طرح اردو گھر گھر کی زبان بنتی جاتی ہے ، اردو میں جو کتابیں میں چھپ رہی ہیں، ان میں ایک بڑا حصہ مدارس اسلامیہ کے ذریعہ شائع شدہ کتابوں ، رسائل اور میگزین کا ہے، آج جب کہ سارے ادباء شعراء اور نقاد، قاری کی گمشدگی کی بات کرتے ہیں، مدارس اسلامیہ سے جو کتابیں میں شائع ہو رہی ہیں ، ان کو آج بھی قاری کی بڑی تعداد دستیاب ہے اور مہینوں کے فاصلے سے ہی ایڈیشن پر ایڈیشن نکالنے پڑ رہے ہیں ، ہندوستان میں کتابوں کی جو مارکیٹ ہے ، دہلی ، دیوبند اور بریلی ، وہاں جا کر دیکھیں ، اردو میں چھپی کتابیں کس قدر سرعت اور تیزی کے ساتھ نکل رہی ہیں اور تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی کسی قدر جاری وساری ہے۔

اردو سے متعلق سرکاری اداروں میں مدارس کی نمائندگی ضروری
اردو سے متعلق سرکاری اداروں میں مدارس کی نمائندگی ضروری

اردو کے سلسلے میں مدارس اسلامیہ کی اس زریں خدمات اور اردو کی نشونما ، ترویج و اشاعت میں مضبوط حصہ داری کے با وجود ، واقعہ یہ ہے کہ اردو سے متعلق سرکاری ، غیر سرکاری ادارے، تنظیمیں اور اکیڈمیوں میں انہیں ہر دور میں نظر انداز کیا جاتا رہا ہے، پورے ملک میں اردو کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کا جائزہ لیں تو اردو کی بے لوث خدمت کرنے والے مدارس اسلامیہ کے لوگ کہیں نظر نہیں آتے ، اس طرح اردو سے متعلق ایوارڈ بھی انہیں لوگوں کی جھولی میں جاتا ہے، جن کا اثر ورسوخ اور لابی مضبوط ہوا کرتی ہے، کبھی ان ایوارڈوں کے دینے میں جلب منفعت کا پاس رکھا جاتا ہے اور کبھی دفع ضرر کا ، ہر دو صورت میں اصل حق دار تک چیز نہیں پہونچتی ، یقیناً کبھی کبھی بعض اہل بھی فہرست میں داخل ہو جاتے ہیں ؛ لیکن ان کی حیثیت مستثنیات کی ہوتی ہے ، اردو کے نام سے عز و افتخار پانے والے بیش تر وہی لوگ ملیں گے، جن کے بچے انگلش میڈیم میں تعلیم پاتے ہیں اور وہ اس غیر ملکی زبان میں لکھنا بولنا ؛ بلکہ سوچنا تک وجہ افتخار سمجھتے ہیں ، ایک بار پروفیسر ثوبان فاروقی نے کہا تھا کہ اردو ایک زبان نہیں ، یہ ایک تہذیب ہے، ثقافت ہے، ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ اب ہم سوچتے بھی انگلش میں ہیں ، ہماری زبان پر انگلش کے الفاظ ہوتے ہیں، ہم اسے اردو میں منتقل کرتے ہیں واقعہ یہ ہے کہ ہماری بول چال کی زبان سے لے کر ہماری تحریر میں بھی بہت سارے الفاظ دوسری زبان کے آتے ہیں اور ہم اس کو اردو میں منتقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یقیناً دوسری زبانوں کے الفاظ کے قبول کرنے سے زبان کے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہوتا ہے لیکن ان الفاظ سے متأثر ہو کر اردو کے املا اور رسم الخط میں تبدیلی کی بات بھی کی جاتی رہی ہے؛ بلکہ عربی زبان کے جو الفاظ اردو میں داخل ہوئے ، ان کے رسم الخط میں تبدیلی اس کا خاندان ہی گم ہو کر رہ جائے گا، انگریزی کے سائلنٹ حروف پر جن کو اعتراض نہیں ہے وہ اردو میں واؤ معدولہ اور یائے معدولہ کوختم کرنے کی بات کرتے رہتے ہیں ، ان ساری تبدیلیوں سے اردو کو بچا کر اگر کسی نے رکھا ہے تو وہ مدارس اسلامیہ کے اساتذہ اور طلبہ ہیں، جن کے لیے اردو کے نام پر منعقد کسی سیمینار سمپوزیم اور اکیڈمیوں میں گنجائش نہیں ہے اور انہیں حاشیہ سے بھی باہر رکھا گیا ہے، حاشیہ پر رکھی چیزیں بھی دکھائی دیتی ہیں ، جب معاملہ حاشیہ سے باہر کا ہو تو اس کے داخلی وجود سے ان دیکھی کی بات سامنے آتی ہے جو اردو زبان وادب کے لیے کسی طرح بھی مفید نہیں ہے، اس لیے اگر اردو کو ہرسطح پر زندہ رکھنا ہے اور اس تحریک کو کامیابی سے ہم کنار کرانا ہے تو مدارس اسلامیہ کو اردو کی سرکاری وغیر سرکاری تنظیموں سے جوڑنا ہوگا، ان کی مختلف موقعوں سے حوصلہ افزائی کرنی ہوگی ؛ تاکہ ان کے کاموں میں تیزی آئے اور وہ زبان و ادب کو صیح سمت اور صحیح رخ پر لے کر چل سکیں ؛ کیونکہ اردو کو عوامی سطح تک لے جانے کے لیے ان کے پاس جتنی افرادی قوت ہے، وہ کسی بھی تنظیم، ادارے اور شعبوں کے پاس نہیں ہے، یونیورسٹی تک کے شعبہ اردو میں داخلے کے لیے طلبہ نہیں مل رہے ہیں ، چونکہ نیچے سے ہی اردو پڑھنے والوں کی تعداد کم رہتی ہے اور حالت یہ ہے کہ مولانا آزاد اردو یونیورسٹی کے بی ایڈ وغیرہ کی تدریس بھی بیش تر مراکز پر انگریزی زبان میں ہو رہی ہے یہ مضحکہ خیز ہے، ان یونیورسٹیوں میں بھی جو طلبہ داخل ہو رہے ہیں ان کی بڑی تعداد مدارس اسلامیہ ہی سے پڑھ کر آتی ہے، ان حالات کا تقاضہ ہے کہ مدارس اسلامیہ کے اساتذہ کو اہمیت دی جائے اور اردو اکیڈمی ، ڈائرکٹوریٹ اور اردو انجمنوں میں ان کی نمائندگی کو یقینی بنایا جائے، ورنہ جدیدیت ما بعد جدیدیت ،تشکیلیات ،ساختیات اور پس ساختیات کے نام پر زبان وادب کا جو حشر ہو رہا ہے وہ اظہر من الشمس ہے

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare