اردو صحافت کا کردار اور موجودہ صورتِ حال
غضنفر
حیات و کائنات میں وقوع پزیر ہونے والے واقعات و سانحات اور رونما ہونے والے تجربات و تغیّرات جن موثر لسانی وسیلوں سے سماعت و بصارت تک پہنچتے ہیں ان میں صحافت بھی ایک ہے۔

صحافت کیا ہے۔ صحافت نام ہے سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہنے کا۔دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنے کا۔ تختۂ دار پر بھی حق بات بولنے کا۔حضرتِ یزداں میں بھی چُپ نہ رہنے کا۔ راکھ سے چنگاری کرید لینے کا، دریا کی تہہ سے موتی نکال لانے کا۔ریت سے پانی نچوڑ لینے کا۔
صحافت آنکھیں پھیلاتی ہے توپتلیوں میں ساری دشائیں سمٹ آتی ہیں۔ آنکھیں اوپر اٹھاتی ہے تو بلندیاں نیچے اتر آتی ہیں۔ آنکھیں نچاتی ہے تو دھرتی ناچ جاتی ہے ۔ آنکھیں دکھاتی ہے، تو فضائیں تھرّا جاتی ہیں ۔ ہوائیں کانپ اٹھتی ہیں ۔ دبیز گھٹائیں پھٹ جاتی ہیں۔کالی بلائیں ہٹ جاتی ہیں۔دھند کی پرچھائیاں چھٹ جاتی ہیں۔ سچ کو باندھ کر رکھنے والی آہنی زنجیریں کٹ جاتی ہیں۔
صحافت نام ہے اس طلسمی کیمرے کا جو منظر کا عکس اس طرح اتارے کہ پس منظر اور پیش منظر بھی منعکس ہو جائیں ۔پنہاں ، پوشیدہ اور پردے میں رہنے والی سچائیوں کی تصویریں بھی کھنچ جائیں۔ مصلحت کی گٹھریوں میں بندھی حقیقتیں بھی کھل کر باہر آ جائیں ، بصارتوں کو جو بصیرتیں درکار ہیں ، وہ مل جائیں۔ کانوں کو جو سُرتال چاہئیں،وہ سماعتوں میں گھل جائیں۔ دماغوں کو جو در اور دریچے چاہئیں ، وہ کھل جائیں۔ جن حقیقتوں کو اجاگر ہونا ہے وہ اُبھر جائیں۔ جن شور و شراور شرارتوں کو بکھرنا ہے ، وہ بکھر جائیں۔ جن سازشوں کو مرنا ہے ،وہ مر جائیں۔
صحافت وہ چشم ہے کہ پتلیاں پھیلاۓ تو منظر پیکر میں تبدیل ہو جاۓ ۔ مورت صورت میں بدل جاۓ۔ پلکوں کو جنبش دے تو پایۂ تخت ہل جاۓ ۔ تزک و احتشام خاک میں مل جاۓ۔ بھنویں چڑھاۓ تو تہلکہ مچ جاۓ ۔
صحافت وہ زبان ہے کہ کھلے تو دہر کے توپوں کے دہانے بند ہو جائیں ۔ شرپسند اور شہ زور آندھیاں بھی سو جائیں ۔ صحافت وہ احساس ہے کہ کرب کو دائرے میں لاۓ تو درد کو درماں مل جاۓ۔ وہ ادراک ہے کہ تدبیرِ اندمال سوچے تو زخم سِل جاۓ۔
صحافت وہ ناقوس ہے جو لب ہلاۓ تو دیدے چونک جائیں۔ سرُ سناۓ تو فضاؤں میں صورِ اسرافیل پھُنک جاۓ۔ جس کے الاپ سے پتھروں کا دل بھی دھڑک جائے ۔ برف کا انجماد بھی پگھل جاۓ۔ فالج زدہ نظامِ حکومت بھی حرکت میں آ جاۓ۔
مگر صحافت کا یہ لسانی وسیلہ موثر تب ہوتا ہے جب زبان کو تلوار کی دھار ، برق کی رفتاراور آتش کی خوۓ شرر بار میسّر آتی ہے اور یہ خوبیاں اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب صحافی قلندر بن جاتا ہے۔ فقر و استغنا کے اوصاف سے متصف ہو جاتا ہے ۔صبر و استقلال کی دولت سے مالا مال ہو جاتا ہے۔ جو اپنے آپ میں مست رہتا ہے۔ جب فاقہ میں بھی فکر مندی پریشان نہیں کرتی۔ طمع پاس نہیں پھٹکتا۔ حرص و ہوس ذہن میں ڈیرا نہیں ڈالتے ۔ جب وہ کسی کے دباؤ میں نہیں آتا، کسی کے آگے سر نہیں جھکاتا ، ہاتھ نہیں پھیلاتا ۔جس کے متعلق اردو کے ایک جید صحافی، ایک دور اندیش سیاست داں،ایک عظیم مدبرّ اورایک زمانہ شناس مفکّر مولانا ابوالکلام آزاد فرما گئے ہیں :
"۔۔۔۔۔ اخبار نویس کے قلم کو ہر طرح کے دباؤ سے آزاد ہونا چاہیے۔اور چاندی سونے کا سایہ بھی اس کے لیے سمِ قاتل ہے۔جواخبار نویس رئیسوں کی فیّاضیوں اور امیروں کے عطیّوں کو قومی عطیہ اور اسی طرح کے فرضی ناموں سے قبول کر لیتے ہیں وہ بہ نسبت اس کے کہ اپنے ضمیر اور نورِ ایمان کو بیچیں،بہتر ہے کہ درویزہ گری کی جھولی گلے میں ڈال کر اور قلندروں کی کشتی کی جگہ قلم دان لے کر رئیسوں کی دیوڑھیوں پر گشت لگائیں اور ہر گلی کوچہ میں ” کام ایڈیٹر کا ” کی صدا لگا کر خود کو اپنے تئیں فروخت کرتے رہیں۔ "
مولانا تحریری صحافت کے وسیلوں کے متعلق کچھ اور بھی فرماتے ہیں :
” اخبار شر اور بد بختی کی کھائیوں اور کمین گاہوں سے بچانے کی غرض سے خبر دے کر خیر اور سعادت، نیک بختی،اور بصیرت کی شاہراہوں کا راستہ بتاتا ہے تاکہ قوم بری راہ نہ چلے اور صراط المستقیم سے منزلِ مقصود تک پہنچ جاۓ۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” اخبار در اصل ایک زندہ ہادی ہے جو ہر قسم کی باتوں میں ہدایت کرتا ہے۔ بری باتوں سے تنفر دلاتا ہے اور عمدہ باتوں کی جانب مائل کرتا ہے۔
پست ہمتوں کے بر انگیختہ کرنے اور مردہ دلوں کو زندگی بخشنے کے لیے ملک کی دلچسپ ترقیات اور حالات کو صالحین کے کارناموں کو نہایت شیریں اور موثر الفاظ میں بیان کرتا ہے۔اور ان کے عمدہ خصائل کو بیان کرکے قوم کو ان کی تقلید پر آمادہ کرتا ہے۔ "
مولانا کے ان بیانات کی روشنی میں اگر ہم آج کی صحافت کا جائزہ لیتے ہیں اورمعروضی نقطہ نظر سے پرکھتےہیں تو ہمیں خاصی مایوسی ہوتی ہے۔ ویسے تو پوری صحافت نگاری ہی آئینہ زوال ہے مگر ہماری زبان یعنی اردو میں ہونے والی صحافت تو اور بھی بدحال اور کنگال ہے ۔
صحافت کی زبان خواہ خبر نگاری کی ہو ، خواہ کالم نگاری کی۔ اداریہ نگاری کی ہو چاہے مضمون نگاری کی، عنوانات کی ہو ، یا اشتہارات کی ، ٹھہر کر اطمینان سے لکھی گئی نگارش ہو یا ہنگامی حالات اور عجلت میں لکھی گئی تحریر ہو،ان میں سے زیادہ تر بے توجہی کی شکار ہوتی ہیں۔ کسی میں بھی اب وہ شستگی،شائستگی،شگفتگی اور برجستگی نہیں ہوتی جو کبھی ہوا کرتی تھی۔ صحافت کی تحریروں میں جو دریا کی روانی، موسمِ بہار کی جوانی ، حقائق کی کہانی اور شفاف وسفاک بیانی ہوتی تھی،اب
نہیں ملتی ۔صحافتی تحریروں سے دل و دماغ کو جو جولانی,تابانی اور شادمانی ملتی تھی ، اب حاصل نہیں ہوتی۔ جن کو پڑھتے وقت، رگوں میں جو چاشنی، آنکھوں میں جو روشنی، اور روح میں جو چاندنی گھلتی تھی،اب نہیں گھلتی ۔ جن کی صوت وصدا سےنغمگی،صداقتوں سے آگہی، لب و لہجے سے دلکشی اور زورِ بیان سے جذبوں کو جو شعلگی حاصل ہوتی تھی،اب حاصل نہیں ہوتی۔
اس تبدل کے ویسے تو بہتیرے اسباب گنوائے جا سکتے ہیں مگر مگر جو کافی اہم اور نمایاں ہیں ان میں سے ایک تو یہ کہ اردو زبان بے سرو سامانی کی شکار ہے۔ بے یارو مددگار ہے۔ غیروں کی ستم ظریفی اور اپنوں کی سرد مہری سے بیزار ہے۔ اردو اخباروں کے پاس سرماۓ کی کمی ہےتو ہے ہی، اس مد میں امداد دینے والوں کی آنکھ میں اس زبان کے تئیں کجی بھی ہے ۔کم مائگی کے باعث
نامساعد حالات اور شہ زور مزاحم قوتوں سے ٹکرانے یا ٹکّر لینے کے لیے جو دم خم ہونا چاہیے وہ بھی نہیں ہے۔ یعنی خبروں تک پہنچنے کے لیے پیروں کے نیچے پیسوں کے پہیے چاہیے، جو زیادہ تر اردو اخبارو کے پاس نہیں ہیں اور جن اخباروں کے پاس پہیے ہیں بھی تو وہ اتنے زنگ خوردہ ہیں کہ چلتے کم ہیں رکتے زیادہ ہیں ۔ دوڑتے کم ہیں لہراتے زیادہ ہیں۔ ان میں تیل وقت پر نہیں پڑ پاتا کہ ان کے پاس کے تِلوں میں تیل نہیں ہے۔ معاشی کمزوری یا مالی ضعف کے سبب چوں کہ اردو صحافی خبروں کو گرتے پڑتے اٹھاتے ہیں، اس لیے خبریں زمین سے پوری طرح اٹھ نہیں پاتیں، پہیوں کی رفتار کم ہونے سے نہ خبریں وقت پر ہاتھ لگ پاتی ہیں اور نہ ہی وقت پر سماعت اور بصارت تک پہنچ پاتی ہیں اور چوں کہ یہاں خبریں کمزور وسیلوں سے حاصل کی جاتی ہیں ، اس لیے ان پر اعتماد بھی کم ہی کیا جاتا ہے۔ ولی دکنی نے سچ ہی کہا ہے :
مفلسی سب بہار کھوتی ہے
مرد کا اعتبار کھوتی ہے
یعنی صاف اور شفّاف بات یہ ہے کہ اردو کے اخبار اندر باہر دونوں طرف سے کمزور ہیں۔ نہ ان کی اپنی زمینوں میں کوئی خزانہ گڑا ہے اور نہ ہی دوسری زمینوں سے ان کے پاس کوئی معقول مالیاتی کمک آ پاتی ہے، جسے نہ بھر پور امداد مل پاتی ہے اور ،نہ ہی بڑے اشتہارات ہاتھ لگ پاتے ہیں۔ ایسے میں بھلا اس غریب زبان پر کیسے کرے کوئی اعتبار۔ کیسے بچے کسی کا وقار ۔کیوں نہ پڑے اس پر وقت کی مار۔
دوسرا سبب یہ ہے کہ اردو والے اپنی زباں کے تیئں خود بھی احساس کمتری کے شکار ہیں، اپنی زبان کو پس ماندہ لوگوں کی زبان سمجھنے لگے ہیں۔ اسے گری پڑی زبان تصور کرنے لگے ہیں یا پھر یہ احساس ان کے دل و دماغ میں گھر کر چکا ہے کہ اردو کا اخبار پڑھنے یا اسے اپنے آس پاس رکھنے کے پاداش میں کہیں وہ پا بہ زنجیر نہ کر لیے جائیں، کسی نا گہانی مصیبت میں نہ پھنس جائیں۔ ظاہر ہے ایسے احساس کا نتیجہ یہی ہوگا کہ اس کے رنگ روپ کے نکھار پر توجہ نہ کی جاۓ، اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جاۓ۔
ایک سبب یہ بھی ہے کہ اردو کے زیادہ تر نامہ نگار یعنی رپورٹر سست رو ہوتے ہیں۔
ان میں جوش ،جذبہ اور حوصلے کی کمی بھی دکھائی دیتی ہے ۔ اخبار کا وہ حصہ بھی جس کے لیے کم محنت کی ضرورت ہوتی ہے اور جس میں جوکھم بھی نہیں ہوتا، اس کو بھی وہ تن دیہی، دل جمعی اور دلچسپی سے انجام نہیں دے پاتے۔ مثلاً جو درس گاہوں اور مختلف تہذیبی اداروں اور تنظیموں کے زیرِ اہتمام ادبی اور ثقافتی نوعیت کے پروگرام ہوتے ہیں ان کو بھی وہ انہماک اور دلچسپی کے ساتھ کور نہیں کر پاتے۔ ایک تو وہ خود جا کر کور نہیں کرتے , فون پر منتظمین سے کچھ خاص خاص باتیں پوچھ لیتے ہیں یا انھیں سے رپورٹ لکھوا کر منگوا لیتے ہیں۔ اوپر سے یہ گوارا بھی نہیں کرتے کہ ذرا ان کی نوک پلک درست کرلیں یا ان میں جو غیر ضروری باتیں ہیں ،انھیں حذف کردیں اور کچھ نہیں تو ترتیب ہی بدل دیں ۔زبان و بیان کو تو چھوڑیے عبارت کو اخبار کے تقاضے کے مطابق بھی تو نہیں بدل پاتے۔جس طرح رپورٹ بن کر آتی ہے ویسے ہی اسے اڈجسٹ کر دیتے ہیں۔ کچھ صحافی ان کی طرف توجہ ضرور کرتے ہیں مگر ان کی تعداد بہت کم ہے۔
آج کے ماحول میں جب کہ زیادہ کمپیٹیشن ہے اور ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی ہوڑ لگی ہوئی ہےاور اپنے پاس سرماۓ کی بھی کمی ہے۔ ساتھ ہی قلم پر کئی طرح کے دیکھے ان دیکھے پہرے بھی لگے ہوۓ ہیں، ہیڈن کیمرے بھی چاروں طرف سے نگرانی کر رہے ہیں، ایسے میں ایک غریب زبان کی صحافت سے یہ توقع کرنا کہ وہ بہتر کار کردگی دکھا سکے گی اور عمدہ پیش کش کا مظاہرہ کرسکے گی،شاید مناسب بھی نہیں ہوگا۔
پھر بھی ہم اتنا توقع تو کر ہی سکتے ہیں کہ زبان پر محنت کی جاے۔
صاف ستھری ،صحیح اور پر اثر زبان لکھی جاۓ۔ اس کے لیے اخبار سے جڑے ہر سطح کے کارکنان و افسران کے لیے ایک شارٹ ٹائم ریفریشر کورس کا اہتمام کیا جاے جس میں خاص طور سے کمیونیکیشن کے پہلو کی بہتری پر زور دیا جاۓ۔
تحریر کے آخر میں جی چاہتا ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد کا یہ بیان بھی سنا دوں :
” پس سفر سے پہلے زادِ راہ کی فکر کرلو اور طوفان سے پہلے کشتی بنا لو کیوں کہ سفر نزدیک ہے اور طوفان کے آثار ظاہر ہو گئے ہیں۔ جن کے پاس زادِ راہ نہ ہوگا وہ بھوکے مریں گے اور جن کے پاس کشتی نہ ہوگی وہ سیلاب میں غرق ہو جاییں گے۔”









