اردو ’ کٹھ ملاّ ‘ کی نہیں آنند نارائن ‘ ملاّ ‘ کی زبان ہے۔

معصوم مرادآبادی

اردو سے متعلق یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا وہ بیان آج کل سرخیوں میں ہے، جس میں انہوں نے اردو کو ‘کٹھ ملّوں’ کی زبان قرار دیا ہے۔ اپوزیشن نے جب ایوان کی کارروائی میں دیگر زبانوں کے ساتھ اردو کو بھی شامل کرنے کا مطالبہ کیاتو وزیراعلیٰ بھڑک اٹھے۔ انھوں نے اپنے عہدے کے وقار کو پس پشت ڈال کرکہا ہے ”اردو پڑھ کر لوگ کٹھ ملا اور مولوی بنتے ہیں، ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔“یوگی آدتیہ ناتھ نے یہ بیان اسی لکھنؤ میں دیا ہے، جہاں کسی زمانے میں اردو کاجادو سر چڑھ کربولتا تھا۔ جہاں ہندوؤں اور مسلمانوں نے اس زبان کو اپنے خون جگر سے سینچا تھا۔ حالانکہ آج صورتحال ویسی نہیں ہے، لیکن لکھنؤ کو آج بھی تہذیب و شائستگی کا شہر اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے درودیوار میں اردو زبان اور اس کے کلچر کی بوباس موجود ہے۔وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اردو کا نام سن کر جو کچھ کہا،وہ دراصل ان کی ذہنیت کی بھرپور عکاسی ہے۔ جب اپوزیشن لیڈر ماتا پرشاد پانڈے نے مطالبہ کیا کہ انگریزی کی بجائے اردو کو ایوان کی زبان بنایا جائے تو اس پر وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے بہت تیکھے تیور میں کہا کہ ”سماجوادی پارٹی کے لوگ اپنے بچوں کو انگریزی اسکول میں پڑھائیں گے اور دوسروں سے کہیں گے کہ اپنے بچوں کو اردو پڑھاؤ، یہ لوگ انھیں کٹھ ملا اور مولوی بنانا چاہتے ہیں، لیکن اب یہ نہیں چلے گا۔“

اردو ’ کٹھ ملاّ ' کی نہیں آنند نارائن ' ملاّ ' کی زبان ہے۔
اردو ’ کٹھ ملاّ ‘ کی نہیں آنند نارائن ‘ ملاّ ‘ کی زبان ہے۔

ہمیں وزیراعلیٰ کے منہ سے ’کٹھ ملا‘ کا لفظ سن کر اردو کے شاعراور اور ادیب جسٹس آنند نارائن’ملا‘بہت یاد آئے، جنھوں نے ایک بار کہا تھا کہ”اردو میری مادری زبان ہے، میں اپنا مذہب چھوڑ سکتا ہوں مگر مادری زبان نہیں چھوڑ سکتا۔“

آنند نارائن ملا اسی لکھنؤ میں پیدا ہوئے تھے، جہاں وزیراعلیٰ یوگی نے اردو کے خلاف بیان دیا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ان کانام سنا ہے یانہیں؟ اگر یوگی جی ان سے واقف ہوتے تو یقینا اردو سے متعلق اتنی شدت پسندی کا مظاہرہ نہیں کرتے، کیونکہ اردو کے شیدایوں میں میرانیس اور میردبیر کے ساتھ پنڈت دیا شنکر نسیم اور برج نارائن چکبست بھی ہیں۔ علی سکندر جگر مرادآبادی کے ساتھ رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری بھی ہیں۔ منشی پریم چند اور کرشن چندر بھی ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اس گنگا جمنی تہذیب کو پروان چڑھایا ہے جس کے ساحل پر آج کل صدی کا سب سے بڑا کمبھ اشنان ہورہا ہے۔

آگے بڑھنے سے پہلے ہم جسٹس آنند نارائن ملا کے بارے کچھ اور آپ کو بتانا چاہیں گے۔ ہم نے انھیں کئی بار یہاں دہلی میں دیکھا اورسنا ہے۔وہ کشمیری الاصل تھے، لیکن ان کے اجداد لکھنؤ آکر بس گئے تھے اور یہیں پنڈت جگت نارائن ملا کے یہاں 24/ اکتوبر1901کو ان کی پیدائش ہوئی۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ پنڈت آنند نارائن ملاکی ابتدائی تعلیم’فرنگی محل‘ میں ہوئی جو ایک مدرسہ تھا۔ ان کے استادکا نام برکت اللہ فرنگی محلی تھا۔اس کے بعد انھوں نے قانون کی تعلیم حاصل کی اور 1955میں لکھنؤ ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے۔بطور جج ان کا وہ تبصرہ بہت مشہور ہوا تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ”پولیس،جرائم پیشہ لوگوں کا سب سے منظم گروہ ہے۔“

جسٹس آنند نارائن ملا نے سبکدوشی کے بعد سیاست میں قدم رکھا اور 1967کے لوک سبھا الیکشن میں لکھنؤ سے آزاد امیدوار کے طورپر کامیاب ہوئے۔ بعدازاں 1972میں راجیہ سبھا کے ممبر منتخب ہوئے۔ وہ انجمن ترقی اردو ہند کے صدر بھی رہے۔ان کا انتقال 12/جون1997کو دہلی میں ہوا۔

جسٹس آنند نارائن ملا کے تعارف میں یہ سطریں ہم نے اس لیے لکھی ہیں کہ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ یہ جان سکیں کہ اس ملک میں اردو زبان اور تہذیب کی نمائندگی صرف ’مسلمان‘ ہی نہیں کرتے بلکہ وہ لوگ بھی کرتے ہیں جو اعلیٰ ذات کے ہندو تھے اور وہ اپنی مادری زبان اردو کی خاطر اپنا مذہب چھوڑنے تک کو تیار تھے۔ آنند نارائن ملا کی تعلیم بھی ایک مدرسے میں ہوئی تھی جو یوگی جی کی نگاہ میں شدت پسندوں کی آماجگاہ ہے۔ اگر مدرسوں میں شدت پسندی کی تعلیم دی جاتی تو وہاں سے آنند نارائن ملاجیسا روشن خیال انسان پیدا نہیں ہوتا۔ ضرورت اس بات کی ہے یوگی جی اپنی ریاست کی گنگا جمنی تہذیب اور تاریخ کا مطالعہ کریں۔ انھیں دور جانے کی ضرورت نہیں۔ اسی لکھنؤ میں منشی نول کشور بھی ملیں گے، جنھوں اپنی تمام زندگی اردو اور فارسی زبان کو فروغ دینے میں گزاری۔نول کشورنے اردو اخبارہی شائع نہیں کیا بلکہ اردو اور فارسی کی سیکڑوں کتابیں اپنے مطبع سے شائع کیں۔ اتنا ہی نہیں انھوں نے قرآن پاک بھی شائع کیا۔ جب ان کے پریس میں قرآن پاک کی طباعت ہوتی تو اس کے تقدس کا اتنا خیال رکھا جاتا تھا کہ مشینوں سے گزرنے والا پانی نالی میں نہ جانے پائے بلکہ اسے کسی دوسری دوسری جگہ محفوظ کیا جائے۔

ظاہر ہے یہ مذہبی ہم آہنگی اور خیر سگالی اس دور کی بات ہے جب یہاں سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا اور ذہنوں میں فرقہ واریت نے ڈیرے نہیں جمائے تھے۔ یوگی جی دراصل جس سیاسی نظریہ کے ترجمان ہیں، اس میں مذہبی منافرت بنیادی عنصر ہے۔ اگرچہ وہ خود ایک مذہبی شخص ہیں اور زعفرانی لباس بھی زیب تن کرتے ہیں، لیکن جہاں کہیں مسلمانوں اور اردو زبان کا ذکر آتا ہے، وہاں ان کی تیوریاں چڑھ جاتی ہیں۔ جس وقت وہ اسمبلی کی کارروائی میں اردو کو شامل کرنے کی مخالفت کررہے تھے تو انھوں نے اس حقیقت کو فراموش کردیا تھا کہ ابھی پچھلے ہی ہفتہ ملک کی پارلیمنٹ میں خود اسپیکر اوم بڑلا نے یہ اعلان کیا ہے کہ پارلیمنٹ کی کارروائی میں اردوکو بھی شامل کیا جارہا ہے۔اوم برلا نے کہا تھاکہ’’اب بوڈو، ڈوگری، میتھلی، منی پوری، سنسکرت اور اردو زبان میں پارلیمنٹ کی کارروائی کا اردو ترجمہ ہوگا۔“حالانکہ پارلیمنٹ میں پہلے ہی سے اردو میں کام ہوتا ہے اور وہاں باقاعدہ اس کا عملہ موجود ہے، لیکن اسپیکر نے یہاں اردو کا نام لینا ضروری سمجھا۔ جبکہ یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ایوان کی کارروائی میں انگریزی کی جگہ اردو کو شامل کئے جانے کے مطالبہ پر اتنا شدید ردعمل ظاہر کیا کہ اس سے اردو کے تئیں ان کی مخاصمت پوری طرح عیاں ہوگئی۔

یوپی اسمبلی میں اردوزبان کی مخالفت کوئی نئی بات نہیں ہے۔کئی بار ایسا ہوا ہے کہ یہاں اردومیں حلف لینے کا مطالبہ کرنے والے ممبران اسمبلی کواس سے بازرکھنے کی کوشش کی گئی ہے اور یہ معاملہ عدالت تک پہنچا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ1989 میں جب آنجہانی وزیراعلیٰ نارائن دت تیواری نے ریاست میں اردو کو ریاست کی دوسری سرکاری زبان بنانے کا بل پیش کیا تھا تو اس کی کتنی شدید مخالف ہوئی تھی۔ خود ان کی کابینہ کے ایک وزیرواسودیو سنگھ نے اردو کے خلاف تقریر کی تھی۔اس موقع پر بدایوں میں فساد بھی پھوٹ پڑا تھا اور درجنوں بے گناہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس فساد کی وجہ دراصل زعفرانی عناصر کا اردو مخالف احتجاج تھا جس میں نعرہ لگایا گیا تھا کہ ”اردو تھوپی لڑکوں پر تو خون بہے گا سڑکوں پر۔“میں نے اس فساد کی چشم دید رپورٹنگ کی تھی۔

بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں اس وقت اردو بستر مرگ پر ہے۔مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ موہن یادو نے اعلان کیا ہے کہ وہ ایسے تمام گاؤوں کے نام تبدیل کررہے ہیں، جو اردو میں ہیں۔دوسری طرف راجستھان میں اردو اسکول بند کئے جارہے ہیں اور وہاں اردو کی جگہ سنسکرت ٹیچر بھرتی کئے جارہے ہیں۔سہ لسانی فارمولے میں اردو کی جگہ سنسکرت کو شامل کرلیا گیا ہے۔جبکہ2011 کی مردم شماری کے مطابق ملک میں صرف 73ہزار لوگ ہی سنسکرت بولتے ہیں، جبکہ 2012 کی مردم شماری کے مطابق اردو بولنے والوں کی تعداد چھ کروڑ ہے، لیکن اس کے باوجود اردو کو تہہ تیغ کیا جارہا ہے۔ یہ دراصل خود ہماری بے حسی کا نتیجہ بھی ہے۔ اترپردیش میں ملائم سنگھ کے دور میں جن اردو اساتذہ اور مترجمین کی بھرتی ہوئی تھی، وہ دوسرے کام کررہے ہیں کیونکہ ہم اپنے بچوں کو اردو میڈیم اسکولوں کی بجائے انگلش میڈیم اسکولوں میں بھیج رہے ہیں۔ ہماری اس بے حسی نے ہی اردو کو اس مقام تک پہنچایا ہے۔کاش ہم اپنے بچوں کو اردو پڑھاکر اپنی تہذیب اور ثقافت کو باقی رکھنے کے بارے میں سوچ سکیں۔ یہ لمحہ فکریہ ہے۔

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare