اشفاق اللہ خاں
تحریر: معصوم مرادآبادی
” اگر مجھے ہزار بار پھانسی دی جائے اور میں ایک ہزار دفعہ مرمر کے دوبارہ پیدا ہوں تو بھی وطن کے لئے مرمٹنے کا میرا جذبہ اسی طرح تروتازہ رہے گا۔“
یہ الفاظ شہید وطن اشفاق اللہ خاں نے تختہ دارکو بوسہ دینے سے قبل اپنی ماں کے نام آخری خط میں لکھے تھے۔ وطن کے لئے مرمٹنے والوں کی داستان میں یہ جملے آج بھی سنہرے الفاظ میں لکھے ہوئے ہیں۔ اس سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ ہندوستان کو غلامی سے نجات دلانے کے لئے جن لوگوں نے فخر کے ساتھ اپنے سروں کا نذرانہ پیش کیا’ ان میں وطن کی محبت اور وطن کے لئے اپنی عزیز جان کو قربان کردینے کا جذبہ کتنا مقدس اور بیش قیمت تھا۔
آج جولوگ آزاد ہندوستان کی کھلی آب وہوا میں سانس لے رہے ہیں، ان میں سے بے شمار لوگ ایسے ہیں جنہیں اشفاق اللہ خاں جیسے عظیم انسانوں کی قربانیوں کا کوئی علم ہی نہیں ہے۔ اشفاق اللہ خاں ان چند جانبازوں میں سے ایک تھے جنہوں نے اس ملک کی آزادی اور سروخروئی کے لئے ناقابل فراموش قربانی دی تھی۔

شہید وطن اشفاق اللہ خاں، ہندوستان کی جنگ آزادی کے سورماوں میں دوسروں سے اس لئے ممتاز اور محبوب ہیں کہ ان کی رگوں میں جو خون دوڑ رہا تھا وہ اس کا ایک ایک قطرہ مادر وطن پر قربان کرنے کا جذبہ صادق دل میں رکھتے تھے۔ وہ شاید دنیا کے ان چند جاں بازوں میں سے ایک تھے جنہوں نے کھلی آنکھوں سے پھانسی کے پھندے کو چوماتھا اور تختہ دار پر چڑھتے ہوئے اپنے آبدیدہ عزیزوں کو یہ کہہ کر خاموش کرنے کی کوشش بھی کی تھی کہ ”خوشی کے دن رویا نہیں کرتے۔‘
اشفاق اللہ خاں کی پیدائش شاہجہاں پور ( یوپی) کے ایک خوشحال گھرانے میں 22 اکتوبر 1900 کو ہوئی تھی۔ان کے والد کا نام شفیق اللہ خاں اور والدہ کا نام مظہرالنساءتھا۔ وہ ایک بہن اور چاربھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے، سبھی کے چہیتے اور لاڈلے۔ ان کی تعلیم کا بھی بروقت اور معقول انتظام ہوا تھا لیکن انہوں نے نویں جماعت کے بعد تعلیم کا سلسلہ ختم کردیا۔ وہ عالم شعور کو پہنچ چکے تھے اور ان کے دل میں وطن کو آزاد کر انے کی آرزو کروٹیں لے رہی تھی ۔ وہ 14 سال کی عمر میں انڈین ری پبلکن ایسوسی ایشن میں شامل ہوگئے جو انقلابیوں کی ایک سرگرم اور فعال تنظیم تھی۔ ان کے بڑے بھائی ریاست اللہ خاں، مشہور انقلابی رام پرساد بسمل کے ہم جماعت اور دوست تھے۔ ریاست بھوپال می ایک سرکاری عہدے پر ان کا تقرر ہوا تھا اور وہیں جابسے ۔
پشپال نے اپنی تصنیف ”بغاوت“ میں اشفاق اللہ خاں کا حلیہ اس طرح کھینچا ہے۔ ”اشفاق اللہ خاں ایک سچے اور فرائض دین کے پابند کھرے مسلمان تھے۔وہ کھلتے ہوئے گندمی رنگ کے ایک لمبے چوڑ ے اور وجیہ شخص تھے۔ ان کی موہنی آنکھیں اور سرخی مائل چہرہ ہر ایک کو اپنی طرف کھینچ لیتا تھا ۔ دراز قد ہونے کی وجہ سے جب وہ بھیڑ میں کھڑے ہوتے تو سب سے بلند نظر آتے۔‘’
ان کے ایک ساتھی کے حوالے سے نقل ہوا ہے کہ ”جب ہم لوگ روپوش ہوتے اور بندوق کو ساتھ لے کر نکلنے کی مجبوری ہوتی تواکثر کسی راجہ یانواب کی شکار پارٹی کا سوانگ رچانا پڑتا۔ تب ہم میں سے صرف اشفاق اللہ خاں راجہ صاحب بنتے اور ہم لوگ ان کے درباری یا نوکر چاکر۔ اس طرح ہم پولیس اور اس کے مخبروں کو چکما دے کر نکل جاتے۔ اشفاق اللہ خاں بڑے طاقتور تھے۔ تھکنا تو وہ جانتے ہی نہ تھے۔ ایک بار 55 یا 56میل لگاتار پیدل چلنے کے بعد ہم سب تھک کےچور ہوگئے۔ زبانیں باہر نکل آئیں اور بالکل نڈھال ہوگئے لیکن اشفاق اللہ خاں کے چہرے پر شکن تک نہیں آئی۔“
اشفاق اللہ خاں نہایت صلح جو، خوش مزاج اور سلجھی ہوئی طبیعت کے انسان تھے۔ وہ کشت وخون کو پسند نہیں کرتے تھے مگر جس راستے پر وہ چل رہے تھے وہاں انگریز، پی اے سی، آرمڈ کانسٹبلری اور پولیس سے جھڑپیں روزمرہ کی بات تھیں ۔ لہٰذا انقلاب کے اس راستے میں ان کی نرم مزاجی اور صلح جوئی بھی آڑے نہیں آئی۔
ہندوستان ری پبلکن ایسوسی ایشن کے اراکین انگریز سامراج سے سیدھا مقابلہ چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنی پارٹی کو منظم کرلیا تھا لیکن وسائل کی کمی کے سبب وہ اپنے فیصلوں کو عملی شکل دینے میں دشواری محسوس کررہے تھے۔ پارٹی کو اکثر پیسے کی قلت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ لہٰذا اس کمی کو پورا کرنے کے لئے ایک بڑی اسکیم تیار کی گئی اور طے پایا کہ لکھنوکے قریب سہارنپور لکھنوپسنجرکو روک کر اس میں آرہے سرکاری خزانے کو لوٹ لیاجائے۔
دس افراد پرمشتمل انقلابیوں کی ایک ٹیم تشکیل دی گئی اور وہ 9 اگست 1925 کو شاہجہانپور سے سہارنپور لکھنو پسنجر پر شام کے وقت سوار ہوئی۔ راجندر سنگھ لہری اس ٹیم کی قیادت کررہے تھے، جو اشفاق اللہ خاں اور سچندر ناتھ بخشی کے ساتھ سیکنڈ کلاس میں سوار ہوئے اور باقی لوگ تیسرے درجہ میں بیٹھے۔ جب گاڑی کاکوری سے عالم نگر اسٹیشن کی طرف بڑھی تو سیکنڈ کلاس کے ڈبے سے زنجیر کھینچی گئی۔ مسافروں کو ہوشیار کردیاگیا کہ نیچے نہ اتریں۔ وہ لوگ وقفہ وقفہ سے ہوائی فائر کرتے رہے۔ ان لوگوں کے پاس پستول، صندوق توڑنے کے لئے ہتھوڑا، چھینی اور کلہاڑی وغیرہ تھے۔ گاڑی رکتے ہی گارڈ نیچے اترآیا ۔ اس کے سینے پر پستول تان دی گئی۔ ایک جوان نے انگریز ڈرائیور کو کرسی سے گرادیا۔ دوآدمیوں نے بریک وین سے لوہے کے صندوق کو گرادیا۔ اشفاق اللہ خاں کے ہتھوڑوں کی چوٹ سے آہنی صندوق میں سوراخ ہوگیا اور اس میں سے روپے کے تھیلے نکال کر یہ لوگ چل دیئے۔کل 4679 روپے ہاتھ آ ئے ۔اس مہم میں اشفاق اللہ خاں کے علاوہ راجندر ناتھ لہری، سچندر ناتھ بخشی، چندر شیکھر آزاد، من متھ ناتھ گپتا، بنارسی لال اور روشن سنگھ شامل تھے۔
کاکوری کے اس واقعہ کے بعد انقلابیوں کی گرفتاری کا سلسلہ شروع ہوا۔ شاہجہانپور، کانپور، وارانسی اور الٰہ آباد میں چالیس سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیاگیا لیکن اشفاق اللہ خاں گرفتار نہیں کئے جاسکے۔ وہ اپنے شہر سے ایک میل دور گنّے کے کھیتوں میں چھپے رہے۔ وہاں سے وہ بہار گئے اور ڈالٹن گنج میں ایک انجینئرنگ فرم میں ملازم ہوگئے۔ ان دنوں اشفاق نے متھرا کے ایک کایستھ کا بھیس بدل لیا تھا۔ اشفاق اللہ ایک اچھے شاعر بھی تھے، جس آفس میں وہ ملازم تھے وہاں کے ایک اعلیٰ آفیسر کو شاعری کا بہت شوق تھا۔ ایک مشاعرے میں اشفاق اللہ نے اپنی نظمیں سنائیں جن کو دیگر لوگوں کے ساتھ ساتھ اشفاق اللہ کے آفیسر نے بھی پسند کیا۔ اشفاق اللہ کی شاعری سے وہ اس قدر متاثرہوا کہ اس نے ان کی تنخواہ میں اضافہ کرکے انہیں ترقی دے دی۔ وہیں پر انہوں نے ہندی اور بنگالی زبان میں اس قدر مہارت حاصل کی کہ ان دونوں زبانوں میں بھی شاعری شروع کردی۔
ڈالٹن گنج می وہ آٹھ دس مہینے رہے ہوں گے کہ وہاں کی زندگی سے تنگ آگئے اور نوکری چھوڑ کر دہلی پہنچ گئے۔ دہلی میں قیام کے دوران انہیں اپنے بچپن کا ایک دوست مل گیا۔ اس نے بڑی خاطر مدارات کی۔ اپنے گھر لے گیا اور کھلاپلاکر ہوٹل میں چھوڑ آیا۔ اشفاق اللہ نے رات ہوٹل میں آرام سے گزاری۔ دوسرے روزیعنی 8 ستمبر 1926 کو علی الصبح انہیں کمرے کے باہر کچھ گڑبڑ کا احساس ہوا۔ جیسے ہی انہوں نے کمرے کا دروازہ کھولا وہاں پولیس کو کھڑا پایا۔ اشفاق گرفتار ہوگئے۔ ان کی گرفتاری کے لئے انگریز سرکار نے بڑے انعام کا اعلان کیا تھا۔ اسی کے لالچ میں ان کے بچپن کے ایک ساتھی نے ان کو گرفتار کروادیا ۔گرفتاری کے بعد پولیس انہیں لکھنو لے گئی۔ آپ کا مقدمہ ڈپٹی کلکٹر عین الدین کی عدالت میں پیش ہوا۔ اس کے بعد یہ مقدمہ سیشن جج کے سپرد ہو۔
6اپریل 1927 کو لکھنو کے سیشن جج مسٹر ہملٹن نے اشفاق اللہ خاں کو پھانسی کی سزا سنائی۔ ان پر 5دفعات لگائی گئی تھیں۔ جن میں دو دفعات کے تحت تاعمر کالا پانی کی سزا اور تین دفعات کے تحت سزائے موت دی گئی تھی۔ اشفاق اللہ خاں جب سزائے موت کا اعلان سن کر عدالت سے باہر آئے تواپنے دوستوں اور رشتے داروں کو روتا دیکھ کر کہا ”رونا دھونا ٹھیک نہیں۔ آپ کو فخر کرنا چاہئے کہ خاندان کا ایک آدمی ظلم وجبر سے ٹکرلیتا ہوا تختہ دار پر چڑھ گیا۔“
جیل میں اشفاق کے ساتھیوں کا کہنا تھا کہ عدالت سے پھانسی کے فیصلے کے بعد وہ جیل میں اکثروبیشتر ہنستے ہوئے ملاقاتیوں سے پوچھا کرتے تھے ”دیکھنا اس دولہا میں کوئی نقص تو نہیں۔“ پھانسی کا فیصلہ سننے کے باوجود ان کے اطمینان اور سکون میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا۔ جیل کے ریکارڈ کے مطابق ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ کسی موت کے قیدی کا وزن بڑھ جائے۔ جس وقت اشفاق کو پھانسی کی سزا سنائی گئی اس وقت ان کا وزن 178 پونڈ تھا اور اس کے بعد جب پھانسی دی جانے والی تھی تو ان کا وزن 203 پونڈ ہوچکا تھا۔
اشفاق اللہ خاں کے جیل سے لکھے ہوئے دو خطوط دستیاب ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک خط اپنی بوڑھی ماں کے نام اور دوسرا ہم وطنوں کے نام۔ ماں کے نام اپنے خط میں انہوں نے لکھا ہے کہ ”میری پیاری امی! کل صبح سے پہلے مجھے پھانسی دے دی جائے گی۔ دیکھنا جب میرا خاکی جسم لا ش کی صورت میں تمہارے سامنے آئے تو آنسو مت بہانا بلکہ مجھے ایسے رخصت کرنا جیسے ماں اپنے بیٹے کو دولہا بناکر دلہن ساتھ لانے کے لئے بارات کے ساتھ بھیجتی ہے۔ ماں تمہارا بیٹا آزادی کی دلہن کو ضرور ساتھ لے کر آئے گا۔“
اپنے اسی خط میں اشفاق نے اپنے جذبہ حب الوطنی کا یوں اظہار کیا ہے۔
”پیاری امی! آپ سے بڑی ایک اور ماں ہے اور وہ مادروطن ہے۔ جب سب سے بڑی ماں کو دشمن نے زنجیروں سے جکڑرکھا ہوتو کوئی بیٹا کس طرح آرام سے بیٹھ سکتا ہے۔“
اشفاق اللہ خاں اردو کے ایک اچھے شاعر تھے اور حسرت وارثی ان کا تخلص تھا۔ جب 19دسمبر 1927 کو فیض آباد جیل میں انہیں پھانسی دینے کی تیاری ہورہی تھی تو جیل کے سپرنٹنڈنٹ نے ان سے کہاکہ ان کی کوئی آخری آرزو ہوتو بتائیں۔ اس کا جواب اشفاق اللہ نے اپنا ایک شعر سناکر یوں دیا تھا
کچھ آرزو نہیں ہے، ہے آرزو تو یہ ہے
رکھ دے کوئی ذرا سی خاک وطن کفن میں
مورخین نے لکھا ہے کہ پھانسی پانے والے دن وہ ہر روز سے کچھ پہلے بیدار ہوئے، غسل کیا، دھلے ہوئے کپڑے پہنے، نماز پڑھی اور قرآن شریف کی تلاوت کی۔ صبح 6بجے جیل کے افسران اشفاق اللہ کو لینے آئے۔ سفید کرتے کے اوپر بائیں کاندھے پر قرآن لٹکا ہوا تھا۔ وہ قرآنی آیات پڑھتے جارہے تھے۔ پھانسی گھر کی سیڑھیاں چڑھ کر جب وہ پھانسی کے پھندے پر جارہے تھے توپھانسی کی رسیوں کو چوم کر انہوں نے کہا۔ ”میرے ہاتھ کسی انسانی خون سے رنگین نہیں ہوئے۔ جو الزام مجھ پر لگایا گیا وہ غلط ہے۔ میرا انصاف اب خدا کے یہاں ہوگا۔“ یہ کہہ کر پھانسی کے پھندے کو خود اپنے گلے میں یوں ڈال لیا جیسے پھندا نہیں پھولوں کا ہار ہو۔









