اقبال اشہر کی سالگرہ
معصوم مرادآبادی
آج ممتاز شاعر اقبال اشہر کا یوم پیدائش ہے۔انھوں نے میرو غالب کے شہر دہلی میں 26/اکتوبر 1965کو آنکھ کھولی اور اسی دلی کے گلی کوچوں میں جوان ہوئے۔ یہیں ان کی تعلیم وتربیت بھی ہوئی۔حالانکہ ان کا خمیر مصحفی کی سرزمین امروہہ کا ہے، جس کے بارے میں امروہہ ہی کے ایک مجذوب شاعرجون ایلیا نے کہا تھا کہ ”امروہہ شہر تخت ہے، گزراں یاں کی سخت ہے، جو چھوڑے وہ کم بخت ہے۔۔۔“ یہ حقیقت ہے کہ جون ایلیا نے تقسیم کے ہنگاموں میں امروہہ چھوڑکر کراچی کا رخ کیا تھا، لیکن انھیں پوری زندگی امروہہ اور اس کی مٹی سے بچھڑنے کا غم ستاتا رہا۔مگر اقبال اشہر نے امروہہ کو چھوڑا نہیں بلکہ اس کی اعلیٰ شعری روایات اور آہنگ کو اپنے وجود کا حصہ بنایا۔ آج مشاعروں کی دنیا میں جو چند شعراء سکہ رائج الوقت کی حیثیت رکھتے ہیں ان میں اقبال اشہر کانام سرفہرست ہے۔ ان کی نظم ’اردو ہے مرا نام’ اتنی مقبول ہوئی کہ سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں اس کے اشعار کوٹ کئے۔ اس سے پہلے یہ نظم بی بی سی کی اردو سروس نے اپنے سرنامے کے طورپر استعمال کی تھی۔ اقبال اشہر جب اپنے مخصوص اور دھیمے ترنم کے ساتھ مشاعرہ پڑھتے ہیں تو سامعین کو اپنے سحر میں گرفتار کرلیتے ہیں۔

وہ شاعری کے میدان میں مقبولیت کی بلندیوں پر ہیں، لیکن ان کی ایک خاص ادا یہ ہے کہ وہ زمین پر کبھی اتراکر نہیں چلتے۔ہمارا معاملہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی شاعر مشاعروں کے حوالے سے مقبول ہوجاتا ہے تو سب سے پہلے اس کا رشتہ اپنی زمین سے کٹتا ہے اور اس میں ایک خاص قسم کی نرگسیت پیدا ہوجاتی ہے، لیکن اقبال اشہر کے یہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہے اور وہ آج بھی اپنی جڑوں سے مضبوطی کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ان کی شعوری زندگی کے ابتدائی ایام میری طرح پرانی دلی کے گلی کوچوں میں گزرے ہیں اور یہاں کے چائے خانوں میں انھوں نے اپنی شاعری کا آغاز کیا۔بقول خود:
”میری زندگی کے ابتدائی تیس برس پرانی دلی میں گزرے۔ حلقہ احباب وسیع تھا اور گھر چھوٹا، سو میں گھر میں کم اور چائے خانوں میں زیادہ پایا جاتا تھا اور اس دور کے چائے خانے علم مجلسی حاصل کرنے کا سب سے آسان وسیلہ تھے۔ علماء، شعراء، مبلغین صحافی، میراثی، مدرسین، اطباء، وکلاء، تاجرین، کبوتر باز، پٹے باز، پہلوان، فٹ بالر۔۔۔قصہ مختصر یہ کہ پرانی دلی کے چائے خانے مختلف فنون اور مختلف لتوں سے وابستگی رکھنے والوں کے لیے مرکزی دفتر کی حیثیت رکھتے تھے۔ میں نے ان سبھی سے کچھ نہ کچھ سیکھا، کسی سے زبان تو کسی سے بیان۔“
یہ باتیں اقبال اشہر نے اپنی نثری کتاب ”مشاعروں کے قصے“ کے شروع میں لکھی ہے جس سے ان کی ذہنی تربیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ اس میں کیا شبہ ہے کہ پرانی دلی کے یہ چائے خانے کسی زمانے میں علم وادب اور شعر وشاعری کا مرکز ہوا کرتے تھے۔ان کی سب سے زیادہ تعداد تو شاہجہانی جامع مسجد کی سیڑھیوں کے نیچے تھی اور یہ بازاری زبان میں ’چنڈو خانے‘ کہلاتے تھے۔ میں جب 1977 میں ترک وطن کرکے دلی آیا تو جامع مسجد کی سیڑھیوں پر ایمرجنسی کا بلڈوزر چل چکا تھا اور یہ ’چنڈو خانے‘ بھی قصہ پارینہ بن چکے تھے، لیکن یاروں نے اس کمی کو یوں دور کیا کہ کچھ دوسرے ہوٹلوں کو اس کام کے لیے منتخب کرلیا، اس میں سب سے اہم کریم ہوٹل کی گلی میں واقع سلیمان ٹی اسٹال تھا، جہاں میں بھی اکثر وبیشتر جایا کرتا تھا۔ سلیمان ٹی اسٹال کی رونق عشاء بعد اس وقت بڑھتی تھی جب لال کنواں سے ایک رکشہ وہاں آکر رکتا تھا اور اس میں سے اپنی مخصوص وضع قطع کے دوشاعر سلیمان ٹی اسٹال میں لنگرانداز ہوتے تھے۔ یہ تھے قیصر حیدری اور مخدوم زادہ مختار عثمانی۔ ان دونوں میں استاد شاگردی کا رشتہ تھا اور دونوں ہی اس اعتبار سے تنہا تھے کہ قیصر حیدری کے بیوی بچے پاکستا ن چلے گئے تھے جبکہ مخدوم زادہ مختار عثمانی نے ایسی کوئی لت ہی نہیں پالی تھی۔ قیصر حیدری کی رہائش نیوپبلک پریس کے ایک کونے میں تھی جو ان کے انتقال کے بعد مخدوم زادہ مختار عثمانی کی کٹیا میں تبدیل ہوا۔ بات کررہا تھا اقبال اشہر کی اور وہ چنڈو خانوں کے حوالے سے کہاں پہنچ گئی۔
بہرحال یہ وہ دور تھا جب اقبال اشہر کو شاعر کے طورپر کوئی نہیں جانتا تھا اور وہ بھی ہماری طرح لال قلعہ اور ڈی سی ایم کے مشاعروں میں بطور سامع شریک ہوتے تھے۔ لال قلعہ اور ڈی سی ایم کے مشاعروں کی بڑی خوبی یہ تھی کہ ان دونوں میں اپنے عہدکے تمام بڑے شعراء شرکت کرتے تھے۔ ڈی سی ایم کے مشاعرے کا خاص کریز اس میں مقبول ترین پاکستانی شعرا ء کی شرکت ہوا کرتا تھا۔ اقبال اشہر نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ وہ اپنی نوجوانی کے دنوں میں جن شعراء کو بڑی حسرت بھری نظروں سے دیکھا کرتے ہیں ہ ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ وہ ان کے پہلو میں بیٹھ کرمشاعرے پڑھیں گے ۔بلاشبہ آج اقبال اشہر مشاعروں کی کامیابی کی ضمانت سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے فن کو یہ عروج گہری ریاضت اور محنت کے بعد حاصل ہوا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنے شعری آہنگ کی حفاظت بڑے سلیقے سے کی ہے۔ان کا پہلا شعری مجموعے ”دھنک ترے خیال کی“ کے بعد دوشعری انتخاب ”رت جگے“ اور ”غزل سرائے“ بھی شائع ہوچکے ہیں۔ ان کے علاوہ دیوناگری میں بھی ان کا ایک شعری مجموعہ ”اردو ہے میرا نام“ شائع ہوچکا ہے۔
مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ مشاعروں سے کامیاب وکامران گزرنے کے بعد انھوں نے اب نثر کی طرف پیش قدمی کی ہے۔ اب تک ان کی دونثری کتابیں منظرعام پر آچکی ہیں۔ پہلی کتاب تھی ”شاعروں کے قصے“ اور اب دوسری کتاب ”مشاعروں کے قصے“ کے عنوان سے منظرعام پر آئی ہے۔ پچھلے دنوں ان کا فون آیا تو مجھ سے میرا پتہ پوچھنے لگے۔ پتہ بتانے کے چند گھنٹوں کے اندر ہی پورٹر ان کی کتاب میرے ہاتھ میں تھماکر چلاگیا۔ جب کوئی شاعر اور وہ بھی مقبول شاعر نثر کے میدان میں قدم رکھتا ہے تو مجھے بڑی خوشی ہوتی ہے۔ میری نظر میں نثر نگاری شاعری سے زیادہ مشکل کام ہے۔ اسی لیے ہمارے ہاں شاعروں کی بہتات ہے اور نثر نگاروں کی بے حد کمی۔ لیکن اقبال اشہر نے اس کمی کوپورا کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس کتاب میں اقبال اشہر نے مشاعروں میں پیش آئے واقعات کو دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔ اس کتاب کی پشت پرممتاز پاکستانی شاعر عباس تابش نے لکھا ہے:
”اقبال اشہر کو مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ میں گزشتہ دودہائیوں سے ان کے ساتھ مشاعرے پڑھ رہا ہوں۔ مشاعرے باز شعراء کے برعکس وہ اپنی تہذیبی شخصیت کے ہالے میں دکھائی دیتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ مشاعرہ اگر آج ایک تہذیبی ادارے کے طورپر موجود ہے تو اس کا ایک سبب اقبال اشہر کی شاعری اور شخصیت ہے۔ انھوں نے مشاعرے پڑھے ہی نہیں بلکہ جئے ہیں۔“
عباس تابش کے یہ قیمتی الفاظ اقبال اشہر کے بارے میں میرے دلی جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں اورمیں اس مختصر تحریر کا اختتام اقبال اشہر کے اس شعر پر کرتا ہوں۔
مدتوں بعد کھلی وسعت صحرا ہم پر
مدتوں بعد ہمیں خاک اڑانی آئی









