اقبال حسن آزاد کا افسانہ ’مردم گزیدہ‘

عشرت ظہیر

اقبال حسن آزاد بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں، لیکن دیگر اصناف ادب میں بھی طبع آزمائی کرتے ہیں۔ تنقیدی مضامین، تبصرے، انشائیے اور فن شاعری کے قابل لحاظ نمونے ان کے زنبیل ادب سے برآمد ہوتے ہیں۔ ان کی متعدد کتابیں اشاعت پذیر ہوکر مقبول ہوئی ہیں۔ افسانوں کے تین مجموعے” قطرہ قطرہ احساس“(دو ایڈیشن)،” مردم گزیدہ“ اور” پورٹریٹ“ کے علاوہ تحقیقی کتاب’ ’اردو نثر میں طنز و مزاح کی روایت‘ ‘اہمیت کی حامل ہیں۔

اقبال حسن آزاد کا افسانہ ’مردم گزیدہ‘
اقبال حسن آزاد کا افسانہ ’مردم گزیدہ‘

فی الوقت مجھے ان کے افسانہ ”مردم گزیدہ“ پر تجزیاتی نوٹ رقم کرنا ہے۔ لیکن کسی ایک افسانہ پر اظہار خیال مشکل امر ہے۔ جیسا کہ معروف و مقبول شاعر بدنام نظر اپنے مضمون ’اقبال حسن آزاد کا پورٹریٹ‘ میں لکھتے ہیں:

”ایک کہانی پر لکھنا کوئی آسان کام نہیں، کیونکہ شاعری کی طرح آج کی کہانیوں میں بھی کئی پرتیں ہوتی ہیں۔ ہر پرت کو کھولنا اور گہرائی سے اس کا مطالعہ کرنا سردست مجھ سے ممکن نہ ہوسکے گا۔“

زیرنگاہ افسانے کا عنوان دیکھ کر نہ جانے کیوں، غالب کا یہ شعر پردہ ذہن پر ابھر آیا؛ حالانکہ اس شعر کا افسانہ ’مردم گزیدہ‘ سے بظاہر کوئی علاقہ نہیں:

پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسد
ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں

ممکن ہے، یہاں بھی افسانہ کے عنوان کے لیے قرة العین حیدر کی طرح ’شعر سے محض استفادہ کی صورت ہو۔‘ فی الحال غالب کے اس شعر کو یہیں چھوڑتے ہیں۔

پہلی نظر میں افسانہ ’مردم گزیدہ‘ سادہ لیکن موثر بیانیہ میں ایک کامیاب افسانہ ہے۔ اس میں بتدریج وارد ہونے والے واقعے اور احساسات کو فطری اندازمیں، ہنرمندی اور خوش سلیقگی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔

یہاں سادہ بیانیہ کے توسط سے ایک عام سے واقعہ کا اظہار ہے۔ لیکن اس سادہ بیانیہ اور عام سے واقعے کے ذکر میں تہہ داری کے فکرانگیز پہلو اورہنرمندی کی مسحور کن فضا بندی، افسانہ نگار کے کمال فن کی غماز ہے۔

کوئی سوا سو سال کی مدت کے سفر میں فن افسانہ نے فنی تبدیلیوں اور رد و قبول کے مختلف مرحلے طے کیے ہیں۔ یہاں اس کی تفصیل کا موقع نہیں، لیکن یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ آج کا افسانہ موضوع کے ساتھ اظہار بیان کے کرب کو لیے ہوئے ہے۔ متذکرہ افسانہ ’مردم گزیدہ‘ میں بھی ایک خیال، ایک تصور اور ایک کیفیت کے اظہار میں سادہ بیانیہ انڈر کرنٹ کے روپ میں ہے۔

افسانہ کی فضابندی میں ناسٹلجک کیفیت اور تضاد کی دھندلی شبیہ اسے پرکشش اور Readable بھی بناتی ہے، اور انسان کی سرشت میں شامل تذبذب اور متضاد کیفیتوں کو بھی آشکار کرتی ہے۔

افسانے کا آغاز متوجہ کرتا ہے اور اس کا انجام گہرے استغراق میں مبتلا کرتا ہے۔ افسانے کی ابتدائی عبارت ملاحظہ ہو:

”گلی تھی کہ شیطان کی آنت… ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔“

اور اس عبارت کے بعد نشان منزل پر پہنچنے کے سلسلے میں بتائی گئی علامتوں کا دل آویز توضیحی منظرنامہ ابھرتا ہے، یہ منظرنامہ مشاہدے کی تپش سے حقیقت آمیز بھی ہے اور گویا قاری کی نظروں میں Running Commentary جیسا دلچسپ بھی ہے۔

اس افسانے میں زندگی کی کئی حقیقتیں تہہ در تہہ پیوست ہیں، جو مشاہدوں اور تجربوں کی بھٹی میں تپ کر کھری اور حقیقت افروز اندازمیں عکس ریز ہیں۔ مثلاً مالک مکان کی رعونت، محلے میں چائے خانوں پر بلا مقصد کھڑے افراد، سرراہ کتے، جانور، اور ’بوتو‘ کی منظرکشی دلچسپ بھی ہے اور حقیقت سے قریب بھی۔

افسانے کے مرکزی کردار کو کرایہ کے لیے مکان کی جستجو ہے کیونکہ اس کے موجودہ مالک مکان نے اسے عاجز کردیا تھا، اب وہ نئے مالک مکان سے ملنے اور مکان کے حصول کے لیے وقت مقررہ، صبح چھ بجے، نئے مکان تک پہنچنے کے لیے کوشاں تھا۔

نئے مالک مکان نے مکان تک پہنچنے کے لیے جس قدر نشانیاں اور علامتیں بتائی تھیں، افسانے میں ان کی منظرکشی نے ہنرمندانہ برجستگی اور سچی تصویرکشی کی ایسی رنگ آمیزی منعکس کی ہے، گویا قاری افسانے کی قراءت سے نہیں گزر رہا ہے، بلکہ مکان کی تلاش میں بتائی گئی نشانیوں، یعنی بڑی سڑک جہاں بازار کے لیے مڑتی، وہاں سے بائیں ہاتھ پر پھوٹتی ہوئی گلی سے گزر کر سیلون تک آگیا ہے اور پھر:

”کچھ آگے جاکر گلی کے بیچوں بیچ ایک چھوٹا سا مندر… مندر کیا بس ایک چھوٹا سا شولنگ گڑا ہے…“

یہاں گلیوں، شاہراہوں کے آس پاس شیولنگ، ہنومان کی سنگی مورتی یا دیگر دھارمک علامتوں سے چھوٹے چھوٹے مندروں کے روپ و رنگ کی تعمیرات تصورات میں ابھر آتے ہیں۔ افسانہ نگار کی ہنرمندی ہے کہ منظرکشی میں سادگی اور غیرجانبدارانہ اظہار تو ہے، لیکن بین السطور سے سماج کے بہتیرے رنگ ڈھنگ بھی جھانکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

تلاش منزل کے نشانات و جزیات کے دلچسپ اور پرپیچ سلسلوں سے گزرتے گزرتے افسانے کا مرکزی کردار ناسٹلجک ہوجاتا ہے اور بچپن میں:

”…ایسی ہی ایک گلی سے گزرتے وقت ایک کتے نے اس کی پنڈلی میں دانت گڑا دئیے تھے…“

کتے کے دانت گڑانے اور اس کے اثرات کے تذکرے، دراصل آنے والے واقعات کے لیے بطور Psycho analysis فضابندی کرتے ہیں اور اس کے اندر خوف کے جرثومے کے پنپنے کے اشارے ہیں اور وہ انھیں، خوف، تذبذب اور متضاد کیفیتوں کے درمیان مکان کے قریب پہنچتا ہے جہاں:

”…آٹھ دس کتے گلی کے بیچوں بیچ اس طرح آڑے ترچھے پڑے دکھائی دئیے کہ آگے کا راستہ بند ہوگیا…“

گلی میں کتوں کا اس طرح آڑے ترچھے اندازمیں پڑا رہنا عام سی بات ہے، یہ منظر ہم آئے دن دیکھتے ہیں، اور اس منظر کی خوف زدگی نے اس کے اندر آس پاس موجود افراد سے مدد کی آس جگائی، مگر کوئی اس کی مدد کو اپنی جگہ سے ہلا بھی نہیں۔سب تماشائی تھے۔

آس پاس کا منظر کچھ اس طرح ابھرتا ہے:

l ایک شخص پان کی دکان سے ٹیک لگائے سگریٹ پی رہا تھا۔

l ایک ادھیڑ عمر کا شخص لنگی باندھے ہینڈپمپ سے پانی بھررہا تھا۔

l اس سے ذرا ہٹ کر ایک عورت برتن صاف کررہی تھی۔

l ایک نوجوان لڑکا ہاتھ میں بلا پکڑے طرح طرح کے پوز بناتے ہوئے شاٹ کھیلنے کی نقل کررہا تھا۔

دنیا میں اکثر افراد محض تماشائی ہوتے ہیں، کوئی سڑک پر کیلے کے چھلکے سے پھسل کر گرجائے تو ہنستے ہیں۔ یہاں بھی گویا آس پاس کے یہ لوگ ہنسنے کے منتظر ہیں ۔

ماضی میں کتے کے کاٹنے اور علاج کی صعوبت اور اذیت کو جھیلنے کی یادوں نے تازہ جھونکوں کی طرح بالآخر اس میں قوت مدافعت جگا دی اور اس نے ڈھیلے مار مار کر بالآخر تمام کتوں سے راہ کو صاف کردیا، لیکن یہاں کہانی میں ایک ٹوئیسٹ (Twist)ہے۔ اسے مکان کی اشد ضرورت تھی، چونکہ اس کی بیوی حاملہ تھی لہٰذا وہ آباد محلہ اور بھری پری بلڈنگ میں رہائش پذیر ہونا چاہتا تھا تاکہ اس کی غیرموجودگی میں اس کی بیوی بے بس و بے سہارا نہ ہواور اب وہاں، اس وقت مکان مالک بالکنی میں کھڑے کھڑے ہاتھ ہلا کر کہہ رہا تھا:

”آجائیے، آجائے، اب خطرے کی کوئی بات نہیں۔ اوپر آجائیے۔“

لیکن:

”اس کے ہاتھ میں اب بھی چند ڈھیلے بچ رہے تھے، اس نے حقارت کے ساتھ ڈھیلوں کو سڑک کنارے پھینکا اور واپسی کے لیے مڑگیا۔“

کہانی کے پورے منظرنامے میں، ناسٹلجک صورت حال اور پیراڈوکس کی کیفیت پیش آئند واقعے کے معاون ہیں، لہٰذا نئے مکان میں منتقل ہونے کی صورت میں مسلسل تفکر اور خوف کی کیفیت کے طاری ہونے کے امکان کی شدت کے پیش نظر بجا طور پر کہانی کے مرکزی کردار کو پرانے مکان کی طرف لوٹنے میں زیادہ عافیت دکھائی دیتی ہے، کیونکہ نئے مکان کے آس پاس کا ماحول اور اردگرد افراد اسے کسی جذبہ انسانیت اور مثبت عمل سے پرے، لاپروا اور تماشائی دِکھے، اور یہاں گویا آئے دن کا خطرہ جاں تھا،لہٰذا افسانے کے مرکزی کردار کے واپس لوٹنے کا عمل افسانے کا تقاضائے حسن بھی ہے اور موثر اختتامیہ بھی، جو قاری کو گہرے استغراق میں مبتلا کرتا ہے۔

وہ سگ گزیدہ تھا لیکن اچانک گویا مردم گزیدہ کی صورت، منقلب ہوچکا تھا اور پان کی دکان پر ٹیک لگائے سگریٹ پیتے ہوئے شخص، ادھیڑ عمر، لنگی باندھے شخص، برتن صاف کرتی عورت، بلا پکڑے طرح طرح کے پوز بناتا ہوا نوجوان لڑکا اور خود مالک مکان سے وہ خوف زدہ تھا، اور صورت حال تھی:

پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسد
ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare