انتخابی عمل میں مداخلت کا الزام، غیرجانبداری کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت!
سرفرازاحمدقاسمی حیدرآباد
عالمی سطح پر یہ قیاس تقویت حاصل کرتا جا رہا ہے کہ انتخابی عمل اور اس کے نتائج میں حکومتوں کی جانب سے مداخلت اور الٹ پھیر ہونے لگے ہیں، حکومتیں اپنے مفادات کی خاطر انتخابی عمل پر اثر انداز ہو رہی ہیں اور نتائج میں الٹ پھیر کیا جارہا ہے،ویسے بھی ہندوستان میں انتخابی عمل کے تعلق سے کئی طرح کے اندیشے ظاہر کئے جا رہے ہیں،یہ اندیشے یکسرمسترد بھی نہیں کئے جا سکتے،الیکشن کمیشن کی کارکردگی اور اسکے نتائج پر سوالات کا اٹھنا غیرمعمولی بات ہے،اسکی حساسیت کو سمجھنا ہوگا،بھارت میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں بے قاعدگیوں کی شکایت ملک کی کئی اہم سیاسی جماعتوں نے بھی کی ہے اور کچھ تنظیموں نے تو انتخابات میں اچھی کارکردگی دکھانے کے باوجود الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی مخالفت کی ہے، گویا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور اس کی کارکردگی اب مشکوک سمجھی جانے لگی ہے،ایسے میں یہ سوال فطری ہے کہ کیا شکست خورہ لوگ ناجائز و غلط طریقے سے اقتدار کی کرسی پر قابض ہیں اوراس سے چمٹے ہوئے ہیں؟کیا واقعی انتخابی عمل میں مداخلت اور اس کے نتائج سے چھیڑ چھاڑ کی جا رہی ہے؟کیا اتنے بڑے ملک میں اب شفاف الیکشن نہیں ہوسکتے؟

ابھی کل ہی سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے ای وی ایم کی تصدیق سے متعلق درخواست پر جواب داخل کرنے کو کہا ہے،ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز کی اس درخواست میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ الیکشن کمیشن سے ای وی ایم کی جلی ہوئی میموری کو چیک کرنے کے لئے ایک واضح پروٹو کول بنانے کو کہے،چیف جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس دیپانکر دتہ کی بنچ نے کہا ہے کہ اس کیس کی سماعت اگلے ماہ یعنی مارچ کے پہلے ہفتے میں ہوگی،عدالت نے یہ بھی کہا کہ الیکشن کمیشن کو نہ تو ان جگہوں کے ای وی ایم ڈیٹا کو حذف کرنا چاہیے،جہاں حال ہی میں انتخابات ہوئے ہیں اور نہ ہی اس میں نیا ڈیٹا لوڈ کرنا چاہیے،درخواست میں سپریم کورٹ کے گذشتہ سال دیے گئے ایک اہم فیصلے کا حوالہ دیا گیا ہے،اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے بیلٹ پیپر کے ذریعے انتخابات کا پرانا نظام بحال کرنے سے انکار کر دیا تھا،ساتھ ہی تمام وی وی پیاٹ سلپس کوشمار کرنے کا مطالبہ بھی مسترد کردیا گیا تھا،لیکن عدالت نے بہتر شفافیت کے لیے انتخابی نتائج کے اعلان کے ایک ہفتے کے اندر ای وی ایم کی جلی ہوئی میموری کو چیک کرنے کی اجازت دی تھی،26 مارچ 2024 کو دیے گئے اپنے اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ نتائج کے ایک ہفتے کے اندر دوسرے یا تیسرے نمبر پر آنے والا امیدوار دوبارہ امتحان کا مطالبہ کر سکتا ہے،ایسی صورتحال میں انجینئرز کی ٹیم کسی بھی پانچ مائیکرو کنٹرولرز کی جلی ہوئی میموری کو چیک کرے گی،اس ٹیسٹ کا خرچ امیدوار کو برداشت کرنا ہوگا،اگر کوئی بے ضابطگی ثابت ہوتی ہے تو امیدوارکو اس کی رقم واپس مل جائے گی،درخواست میں یہ بات کہی گئی، اے ڈی آر کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کا موجودہ معیاری آپریٹنگ طریقہ کار صرف ای وی ایم اور فرضی انتخابات کی بنیادی جانچ کے لیے فراہم کرتا ہے، کمیشن نے ابھی تک جلی ہوئی یادداشت کی تحقیقات کے لئے کوئی پروٹوکول نہیں بنایا،درخواست گزار نے مطالبہ کیا ہے کہ الیکشن کمیشن کو ہدایت دی جائے کہ وہ ای وی ایم کے چاروں حصوں یعنی کنٹرول یونٹ،بیلٹ یونٹ،وی وی پیاٹ،اور سمبل لوڈنگ یونٹ کے مائیکرو کنٹرولر کی جانچ کے لئے پروٹوکول کو نافذ کرے۔
گذشتہ دنوں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ جمہوریت میں حکومت کو انتخابی عمل میں غیر جانبداری سے کام کرنا چاہئے اور جب بھی وہ مداخلت کرتی ہے تو جمہوریت دم توڑنے لگتی ہے،مسٹر گاندھی نے کہا کہ صحت مند جمہوریت کے لئے حکومت کو انتخابی عمل میں کسی بھی طرح سے مداخلت نہیں کرنی چاہئے،اسے غیر جانبداری سے کام کرنا چاہئے،ان کا کہنا ہے کہ انتخابی عمل میں حکومتی مداخلت، جمہوریت کے لئے بالکل ٹھیک نہیں ہے،لیکن ہمارے ملک میں یہی سب چل رہا ہے،انتخابی عمل میں حکومتی مداخلت کا مطلب جمہوریت کا قتل ہے،یہ آئین کے معمار بابا صاحب امبیڈکر نے خود کہا تھا اور آج بدقسمتی سے ہندوستان میں یہی سب ہو رہا ہے۔
گذشتہ مہینے فیس بک کے بانی مارک زکربرگ نے بھی اسی طرح کا دعوی کیا تھا،اپنے دعوی میں انھوں نے کہا تھا کہ 2024 میں دنیا بھر میں کئی ممالک میں انتخابات ہوئے،ان میں ہندوستان بھی شامل ہے اور ان کے خیال میں حکومتوں نے انتخابی عمل میں مداخلت کی ہے اور بیشتر حکومتیں انتخابات میں شکست بھی کھا گئی ہیں،لیکن نتائج اس کے برخلاف ظاہر کئے گئے ہیں،زکر برگ کا مزید کہنا تھا کہ کورونا بحران کئی ممالک پر اثر انداز ہوا تھا، کورونا کی وجہ سے معاشی مشکلات پیش آئی ہیں،عوامی زندگی میں بہت ساری تبدیلیاں آئی ہیں،عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے،ان کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے، کئی ممالک میں عوام،حکومتوں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے،وہ کورونا بحران سے نمٹنے حکومت کی پالیسیوں سے کافی ناراض تھے،معاشی مشکلات کی وجہ سے انہیں حکومتوں سے ناراضگی لاحق ہو گئی تھی،ایسی کئی وجوہات تھیں جن کی وجہ سے عوام نے حکومتوں کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کیا تھا،یہ صورتحال ہندوستان تک محدود نہیں تھی بلکہ عالمی سطح پر بیشتر ممالک میں یہی رجحان دیکھنے کو ملا تھا،یہ حالات افراط زر کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے یا پھر حکومتوں کی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے عوام میں بیزاری پیدا ہو گئی تھی،یہی وجہ رہی کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں انتخابات میں حکومتوں کو عوام کی ناراضگی کی وجہ سے شکستوں کا سامنا کرنا پڑا تھا،ان میں ہندوستان بھی شامل ہے،ایساانہوں نے دعوی کیا ہے، ہندوستان میں 2024 میں ہوئے لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی نے 400 سے زائد نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے کی امید ظاہر کی تھی، لیکن وہ بمشکل تمام 240 تک ہی پہنچ پائی تھی اور اسے اپنے بل پر اقتدار بھی حاصل نہیں ہوا تھا،مارک زکربرگ کا دعوی اگر پیش نظر رکھا جائے تو ہندوستان میں یہ بات واضح دکھائی دیتی ہے کہ حکومت سے عوام کی ناراضگی ہی تھی جس کے نتیجے میں بی جے پی کی نشستوں کی تعداد میں خاطر خواہ کمی آئی تھی،اس کی حلیف جماعتوں نے بھی کوئی شاندار کارکردگی نہیں دکھائی تھی،سوائے ٹی ڈی پی اور جے ڈی یو کے،اس کے برخلاف اعلان کردہ نتائج کی روشنی میں اپوزیشن اتحاد کی جماعتوں کو عوام نے قدرے بہتر تائید فراہم کی تھی،اور ان کی نشستوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تھا،اب جب کہ زکر برگ نے یہ دعوی کیا ہے تو مرکزی حکومت نے اسکی تردید کردی ہے،مرکزی وزیر اشونی ویشنو نے اس پر اپنا ردعمل ظاہرکرتے ہوئے کہا کہ مارک زکر برگ کا دعوی حقائق کے برخلاف ہے، ویشنو کا کہناتھا کہ 2024 میں تیسری میعاد کےلئے نریندر مودی کی کا میابی انکی دو سابقہ میعادوں میں اچھی کارکردگی کا نتیجہ تھی،مرکزی وزیر کا یہ تردیدی بیان توقع کے عین مطابق ہی کہاجاسکتاہے۔
ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کانگرس لیڈر راہل گاندھی نے مہاراشٹر انتخابات میں دھاندلی کا دعوی کیا،انہوں نے مہاراشٹرا اسمبلی انتخابات میں ووٹرلسٹ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ مہاراشٹر میں ہمارے ووٹ کم نہیں ہوئے ہیں بلکہ بی جے پی کے ووٹ بڑھے ہیں،راہل گاندھی نے الیکشن کمیشن پر الزام لگایا کہ مہاراشٹر میں گذشتہ پانچ سالوں میں 32 لاکھ ووٹروں کا اضافہ کیا گیا،لیکن 2024 کے لوک سبھا اوراسمبلی انتخابات کے پانچ مہینوں کے درمیان 29 لاکھ ووٹروں کا اضافہ کیا گیا،انہوں نے سوال کیا کہ اسمبلی انتخابات سے پہلے اتنے ووٹر کہاں سے آئے؟ راہل گاندھی نے (این سی پی شرد پوار) لیڈر سپریہ سولے اور (شیوسینا یو بی ٹی )کے سنجے راوت کے ساتھ دہلی میں پریس کانفرنس کی،اس میں انہوں نے کہا کہ مہاراشٹر حکومت کے مطابق ریاست میں 9.54 کروڑ بالغ ہیں،الیکشن کمیشن کے مطابق مہاراشٹر میں 9.7 کروڑ ووٹر ہیں،اس کا مطلب ہے کہ کمیشن عوام کو بتا رہا ہے کہ مہاراشٹر میں آبادی سے زیادہ ووٹر ہے،یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ کامٹی اسمبلی سیٹ کا ذکر کرتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا کہ کانگریس کو لوک سبھا میں 1.36 لاکھ اور اسمبلی میں1.34لاکھ ووٹ ملے اورالیکشن جیتا،لیکن بی جے پی کا ووٹ 1.19لاکھ سے بڑھکر1.75لاکھ ہوگیا،یعنی نئے ووٹروں نے بی جے پی کو ووٹ دیا ہمیں دونوں انتخابات کے لئے ووٹر لسٹ کی تفصیلات درکار ہیں،انہوں نے الیکشن کمیشن پر انگلی اٹھائی اور کچھ حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے بتایا کہ انتخاب کو متاثر کیا گیا ہے،راہل گاندھی نے الیکشن کمیشن سے مہاراشٹرا میں ہونے والے لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات کے وقت کی تفصیلی فہرست طلب کی ہے اور کہاہے کہ اگر فہرست دستیاب نہیں کرائی گئی تواس معاملے کو عدالت میں چیلنج کیاجائے گا،جمعہ کو دہلی میں مہا وکاس اگھاڑی ایم وی اے کی رکن جماعتوں کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے راہل گا ندھی نے کہا کہ مہاراشٹرا کے ووٹرلسٹ میں بڑے پیمانے پر تضادات پائے گئے ہیں،اس لئے کانگریس اور ریاست کی تین اہم اپوزیشن جماعتوں نے مہاراشٹرا انتخاب کےلئے ووٹروں کی متفقہ اور حتمی فہرست(یونیفائیڈ ووٹرلسٹ) کا مطالبہ کیا ہے،جس پر لوک سبھا اور اسمبلی میں ووٹنگ ہوئی تھی،الیکشن کمیشن فوری طور پر یہ فراہم کرسکتاہے لیکن فراہم نہیں کیا جارہاہے،انھوں نے کہا کہ اگر یہ فہرست دستیاب نہیں کرائی گئی تو اس معاملے کو عدالت لے جایا جائے گا،الیکشن کمیشن میں شفافیت لانا کمیشن کا کام ہے۔
اس معاملے میں رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی طرح کے الزامات کا جواب تحریری شکل میں دے گا،الیکشن کمیشن نے یہ بیان سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر دیا ہے،آفیشل ایکس ہینڈل پر کئے گئے پوسٹ میں کمیشن نے لکھا کہ الیکشن کمیشن سیاسی پارٹیوں کو ایک اہم اسٹیک ہولڈر کی شکل میں دیکھتا ہے، ہمارے لئے ووٹر سب سے اہم ہے،لیکن ہم سیاسی پارٹیوں کے ذریعے دیے گئے کسی بھی مشورے اور اٹھائے گئے سوالات کو بھی اہمیت دیتے ہیں،ساتھ ہی الیکشن کمیشن نے کہا کہ کمیشن ملک بھر کے انتخابات میں یکساں طریقے سے اختیار کئے گئے پوری طرح سے دلائل اور عمل پر مبنی میٹرکس کے ساتھ سبھی سوالوں کا تحریری شکل میں جواب دے گا،پریس کانفرنس میں سنجے راوت نے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن کے پاس ضمیر ہے تو اسے راہل گاندھی کے سوالوں کا جواب دینا چاہئے،لیکن الیکشن کمیشن تو غلام کی طرح کام کر رہا ہے،اب یہ 29 لاکھ جعلی ووٹ بہار جائیں گے یہ تیرتے ووٹر ہیں، پہلے ہم بہار جائیں گے اور پھر یو پی جائیں گے، ہمیں مہاراشٹر میں شکست ہوئی، میں الیکشن کمیشن سے اپیل کروں گا کہ آپ کھڑے ہوں اپنے ارد گرد سے کفن ہٹائیں اور جواب دیں،این سی پی شرد پوار لیڈر سپریہ سولے نے کچھ سیٹوں پر دوبارہ پولنگ کا مطالبہ کیا ہے،ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ان حلقوں میں بھی بیلٹ پیپر پر دوبارہ انتخابات کرائے جائیں جہاں ہمارے امیدوار جیتے تھے،11 سیٹیں ایسی ہیں جہاں انتخابی نشانات کے درمیان کنفیوزن کی وجہ سے ہم الیکشن ہار گئے تھے، یہاں تک کہ اقتدار میں موجود پارٹی نے بھی اسے تسلیم کرلیا ہے ہم نے تو تاری سے نشان تبدیل کرنے کی کئی درخواستیں کیں، لیکن درخواست پر غور نہیں کیا گیا، ہم صرف الیکشن کمیشن سے منصفانہ ہونے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن اپوزیشن پارٹیوں کو مطمئن کرپائے گا اور تشفی بخش جواب دے پائے گا؟کیا واقعی الیکشن کمیشن ان سوالات کے تحریری جوابات دے گا؟جبکہ الیکشن کمشنر کی تقرری اور بحالی مرکزی حکومت من مانی طریقے سے کررہی ہو، ایسے میں کیا الیکشن کمیشن سب کو مطمئن کرپائے گا؟اور جہاں تک بات زکربرگ کے دعوی یا ان کے قیاس کی ہے تو اس کا تحقیقی اور تفصیلی جائزہ لینا بہت ضروری ہے اور انتخابات کے تعلق سے عوام میں جو اعتماد اور بھروسہ ہے اس کو متاثر ہونے سے بچانے کی ضرورت ہے،حقائق کا پتہ چلایا جانا چاہئے تاکہ انتخابات کو مذاق نہ بنایاجاسکے۔
انتخابات میں دھاندلی اوراسکے نتائج میں مداخلت کے ان دعوؤں سے متعلق کسی ثبوت کے منظر عام پر آنے کی کوئی امید تو نہیں ہے، لیکن اس طرح کے دعوؤں سے اندیشے مزید تقویت پاتے ہیں،ان حالات میں غیر جانبدار اور جمہوری عمل کے لئے متفکرشعبوں اور اداروں کو ایسے امور کا انتہائی باریک بینی سے اور مکمل غیر جانبداری سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے،ایسے دعوؤں کی سچائی کا پتہ چلانا بھی ملک اورعوام کی خدمت کے مترادف ہی ہوگا، ایسے دعوؤں کی تہ تک پہنچ کرحقیقت کا پتہ چلانے کی کوشش بھی ضرور کی جانی چاہیے،اس کے لیے ملک بھر کے دانشوران ،فکرمنداشخاص اورمختلف اداروں کو بہت سنجیدگی اور غیرجانبداری کے ساتھ ان چیزوں کا جائزہ لینا ہوگا،تاکہ انتخابی عمل سےلوگوں کا اعتماد متزلزل نہ ہو،عوام کا اعتماد اور بھروسہ اس پر قائم رہے،اسے کھلواڑنہ بنایاجائے جو جمہوریت کی روح اوراسکی بڑی نشانی ہے۔