انوار الحسن وسطوی: شخصیت اور ادبی کارنامے
✍️انور آفاقی دربھنگا
اردو، جو کبھی ہماری تہذیب و شناخت کی علامت تھی، آج ہمارے ہی معاشرے میں اجنبی بنتی جا رہی ہے۔ یہ وہ زبان ہے جس نے ہمیں محبت، شائستگی اور اظہار کا سلیقہ دیا، مگر افسوس کہ اب ہم ہی اس سے منہ موڑتے نظر آتے ہیں۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں، حتیٰ کہ اردو پڑھانے والے اساتذہ کے گھروں میں بھی، اس زبان کے لیے وہ جذبہ باقی نہیں رہا جو کبھی ان کے دلوں کی دھڑکن ہوا کرتا تھا۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اردو کے اکثر گھروں میں، یہاں تک کہ اردو کے اساتذہ کی میزوں پر بھی، انگریزی اور ہندی کے اخبارات تو ضرور مل جائیں گے، مگر اردو اخبارات شاذ و نادر ہی دکھائی دیتے ہیں۔ جب ان سے اس بے توجہی کی وجہ پوچھی جائے تو بے نیازی سے کہہ دیتے ہیں: "اردو اخبارات میں سوائے اشتہارات کے اور ہوتا ہی کیا ہے۔”
درحقیقت اس طرح کی سوچ ہماری ذہنی و فکری دیوالیہ پن کی علامت ہے، بلکہ اردو دشمنی کی پہچان ہے۔ ایسی سوچ ہمیں اور ہماری نسلوں کو اردو زبان سے متنفر کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ مگر اس تاریکی میں بھی کچھ باکمال شخصیات ایسی ہیں جو اردو کے چراغ کو بجھنے نہیں دیتیں۔ انہی شخصیات میں ایک نام جناب انوار الحسن وسطوی کا ہے — ایک ایسے مخلص اور متحرک انسان جو اردو کے نام پر ہمہ وقت سرگرم رہتے ہیں۔ عمر کی ستر بہاروں کے بعد بھی وہ اردو کے لیے نہایت مخلص، تازہ دم اور مستعد نظر آتے ہیں۔ اردو کی ترویج و اشاعت کے لیے وہ مسلسل کوشاں رہتے ہیں۔
زبان و ادب کے اس مجاہد اور ان کے پرخلوص جذبوں کو سلام، جو سچی محنت اور اخلاص سے چراغِ اردو کو روشن رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہتے ہیں۔
میری رائے میں جس طرح جھارکھنڈ میں پروفیسر ابوذر عثمانی کو مجاہدِ اردو کہا جا سکتا ہے، اسی طرح بہار میں انوار الحسن وسطوی کی شخصیت اس لقب کی مستحق ہے۔
انوار الحسن وسطوی صاحب سے میری پہلی ملاقات غالباً 13 جولائی 2018ء کو پٹنہ کے سفر کے دوران حاجی پور میں ہوئی تھی۔ جب ہم (میں اور منصور خوشتر) ان کے دولت کدے پر پہنچے تو وہ سراپا منتظر ملے۔ خلوص و محبت کے اس پیکر نے پہلی ہی ملاقات میں اپنی شخصیت کے سحر اور زبان کی مٹھاس سے مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا۔ اس لیے میں پورے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ جو شخص ان سے ایک بار مل لے، وہ بار بار ان سے ملنے کی تمنا رکھتا ہے۔
انوار الحسن وسطوی ابن محمد داؤد حسن بن محبوب حسن کی ولادت یکم نومبر 1954ء کو حسن پور وسطی، مہوا ضلع ویشالی میں ہوئی۔
ویشالی وہی قدیم اور تاریخی شہر ہے جس کے تعارف میں ایک ہندی ادیب نے کہا تھا:
"مہاویر کی جنم بھومی، بدھ کی کرم بھومی، جنتنتر کی جننی اور لچھوی راجاؤں کی راجدھانی — ویشالی۔”
اسی ویشالی کی خمیر سے اٹھنے والے جناب انوار الحسن وسطوی کی 280 صفحات پر مشتمل ایک عمدہ کتاب "تاثرات” میری نگاہوں کے سامنے ہے۔
یہ کتاب مختلف ادبا، شعرا اور اہم شخصیات کی تصانیف پر اظہارِ خیال پر مبنی ہے۔ اس میں کل 52 کتابوں پر وسطوی صاحب کے تحریر کردہ تاثراتی و تبصراتی مضامین شامل ہیں، جو مصنف نے خود مطالعہ کے بعد تحریر کیے ہیں۔
یہ بات میں اس لیے واضح کر رہا ہوں کہ ہمارے یہاں ایسے تبصرہ نگاروں کی کمی نہیں جو دوسروں کے لکھے ہوئے تبصروں کو کاٹ چھانٹ کر اپنی تحریر کے طور پر پیش کر دیتے ہیں۔
کتاب کے مشمولات پر نگاہ ڈالنے سے پہلے "پیش لفظ” سامنے آتا ہے، جو خود مصنف نے تحریر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
"میں نے اپنی تحریروں میں حتی الامکان ادبی بددیانتیوں سے بچنے کی پوری کوشش کی ہے۔ مجھے اپنے تبصروں کے متعلق یہ بھی گمان ہے کہ میں کتاب کے تعلق سے مثبت باتیں لکھنے کی کوشش کرتا ہوں تاکہ قارئین اصل کتاب پڑھنے کی جانب راغب ہوں۔”
یہ باتیں وسطوی صاحب کے خلوص اور دیانتِ فکر کی مظہر ہیں۔
ایک اچھے تبصرہ نگار کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ قارئین کو کتاب کی جانب متوجہ کرے، جبکہ خامیوں کی نشاندہی ناقدین کا کام ہے۔
کتاب میں مختلف "گوشے” شامل کیے گئے ہیں، جیسے:
گوشہ قرآن کریم —
اس میں دو مضامین شامل ہیں: "قرآن پاک کی اردو تفاسیر” اور "قرآن کریم سے مکالمہ”۔
گوشہ نعت پاک —
اس میں چار نعتیہ مجموعوں پر تبصرے شامل ہیں:
"نقشتاب” (قوس صدیقی)، "ازہارِ مدینہ” (پروفیسر فاروق احمد صدیقی)، "نبیوں میں تاج والے” (پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی) اور "چمنستانِ نعت” (پروفیسر فاروق احمد صدیقی)۔
قوس صدیقی کے نعتیہ مجموعے پر وسطوی صاحب فرماتے ہیں:
"قوس صدیقی کی نعتوں کے یہ اشعار جہاں ان کے ایمان و عقیدے کی پختگی کے مظہر ہیں، وہیں عشقِ رسول کے عکاس بھی ہیں۔ ان کی نعتیں اہلِ ایمان پر روحانی و ایمانی کیفیت طاری کرتی ہیں۔”
گوشہ تحقیق و تنقید —
اس میں 15 تبصراتی مضامین شامل ہیں۔
ڈاکٹر عابدی کی کتاب "آزادی کے بعد بہار کے ادبی رسائل” پر وہ لکھتے ہیں:
"ڈاکٹر عابدی کی یہ تحقیقی کاوش قابلِ تعریف ہے۔ ان کی اس بات سے مجھے بھی اتفاق ہے کہ اس کتاب میں آزادی کے بعد بہار کے بیشتر ادبی رسائل کا تذکرہ پہلی بار ہوا ہے۔”
گوشہ مونوگراف و رسائل —
اس میں سات کتابوں پر تبصرے ہیں۔
پروفیسر عبدالمغنی پر ڈاکٹر ریحان غنی کے لکھے مونوگراف کے بارے میں وسطوی صاحب لکھتے ہیں:
"مونوگراف کا اختتام ’کاروانِ اردو کے ٹوٹے ہوئے تارے‘ کے عنوان سے ہوا ہے، جس میں 83 مرحومین کے نام شامل ہیں جنہوں نے اردو کے فروغ کے لیے گرانقدر خدمات انجام دیں۔”
گوشہ شاعری —
اس میں چار شعری مجموعے زیرِ بحث ہیں: "سمندر بانٹتا ہے” (اثر فریدی)، "ہم عصر شعری جہات” (بدر محمدی)، "گلستانِ غزل” (نسرین اظہری)، اور "پئے تفہیم” (مظہر وسطوی)۔
بدر محمدی کی کتاب کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:
"بدر محمدی کی تصنیف ’ہم عصر شعری جہات‘ ان کی ناقدانہ بصیرت کا عمدہ نمونہ ہے۔ انہوں نے اپنے عہد کے 24 شعرا کی خدمات پر بڑی کشادہ دلی سے اظہارِ خیال کیا ہے۔”
گوشہ یادِ رفتگاں و قائمہ —
اس میں چھ کتابوں پر تبصرے شامل ہیں، مثلاً:
"مردِ صحافت شمس الہدیٰ استھانوی” (ڈاکٹر اسلم جاویداں)، "ضیائے ولی” (مولانا قمر عالم ندوی)، "نقوشِ حیات” (محمد شکیل استانوی) وغیرہ۔
گوشہ ادبِ اطفال —
اس گوشہ میں چار کتابوں ( بچوں کی کتابیں تعارف و تذکرہ، ڈاکٹر عطا عابدی ، ” بچوں کے سنگ” ڈاکٹر احسان عالم ، "بہار میں بچوں کا ادب کل اور آج ” ڈاکٹر منصور خوشتر، اور ” آؤ بچوں تمہیں بتائیں ” ڈاکٹر احسان عالم) کا ذکر ہے، جن میں "آؤ بچوں تمہیں بتائیں” (ڈاکٹر احسان عالم) خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔ وسطوی صاحب لکھتے ہیں:
"یہ کتاب گرچہ بچوں کے لیے لکھی گئی ہے، لیکن اسے پہلے ان کے سرپرستوں اور اساتذہ کو پڑھنے کی ضرورت ہے۔”
گوشہ مصاحبہ —
اس میں تین کتابوں پر گفتگو ہے، مثلاً "انطباق” (نثار احمد صدیقی)، "دو بدو” (انور آفاقی) اور "اکبر رضا جمشید: ایک کثیرالشخصیت انسان” (ڈاکٹر اے کے علوی)۔
آخری کتاب میں اکبر رضا جمشید کا 40 صفحات پر مشتمل طویل انٹرویو شامل ہے۔
گوشہ صحافت —
اس میں سہیل انجم کی کتاب "جدید اردو صحافت کا معمار: قومی آواز” پر تبصرہ شامل ہے۔
گوشہ متفرقات —
اس میں مختلف علمی و فکری کتابوں پر گفتگو کی گئی ہے، مثلاً مفتی محمد ثنااللہ قاسمی کی "آدھی ملاقات”, ڈاکٹر منظور احمد اعجازی کی "کھٹی میٹھی یادیں”, مولانا شمساد رحمانی کی "جنرل نالج”, مولانا صدر عالم ندوی کی "ازدواجی زندگی” اور اشرف عظیم آبادی کی "بیکٹیریا سے ویل تک”۔

آخر میں، میں یہ کہنا چاہوں گا کہ انوار الحسن وسطوی صاحب کی کتاب "تاثرات” نہ صرف موجودہ وقت میں بلکہ مستقبل میں بھی ایک اہم اور قابلِ قدر تصنیف ثابت ہوگی۔ یہ کتاب تحقیق کے طلبہ اور ادب فہم قاری دونوں کے لیے ایک رہنما دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔









