ایجوکیشنل بک ہاؤس کی ایک صدی
معصوم مرادآبادی
علی گڑھ کی شہرہ آفا ق شمشاد مارکیٹ میں کتابوں کی ایک پرسکون دکان کا نام ’ایجو کیشنل بک ہاؤ س‘ ہے۔جو لوگ اس سے واقف نہیں ہیں، ان کے لیے یہ کتابوں کی ایک عام دکان جیسی ہے، لیکن جنھوں نے علی گڑھ کی تاریخ وتہذیب کو جانا اور پہچانا ہے، ان کے لیے ایجوکیشنل بک ہاؤس کتابوں کا ایک خزانہ ہے جہاں سے اردو کے بڑے بڑے ادیب وشاعر ہی فیض یاب نہیں ہوئے بلکہ ہزاروں غریب طلباء نے بھی فیض اٹھایا۔آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ اس تاریخ سازاشاعت گھر نے اپنے قیام کی ایک صدی مکمل کرلی ہے۔

ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی علمی و ادبی تاریخ کا ایک ناگزیر حصہ ہے اس سے اردو شعر وادب کی ہزار داستانیں وابستہ ہیں۔ اس بے مثال ادارے کا آغاز اے ایم یو کالج کے ایک سابق طالب علم عبدالشہید خاں نے 1925میں کیا تھا۔ ان کا وطنی تعلق میرٹھ سے ضرور تھا مگر وہ پوری طرح علی گڑھ کی تہذیب میں رچے بسے تھے۔اس ادارے کی ابتداء تصویر محل کے پاس فلر روڈ سے ایک معمولی اسٹیشنری شاپ کی صورت میں ہوئی تھی اور بعد کو یہ ترقی کرتے کرتے ایک ایسے شاندار ادارے میں تبدیل ہوا جس نے علی گڑھ ہی نہیں پورے ملک میں اردو شعر وادب کی کتابوں کا جال بچھادیا۔
خاص بات یہ ہے کہ سوبرس پہلے اس ادارے کی بنیاد جس دیانت اور ایمانداری پر رکھی گئی تھی اس پر وہ آج بھی پوری طرح قائم ودائم ہے۔ اس کا ذاتی تجربہ مجھے گزشتہ دنوں خود ہوا۔ایک روز میں علی گڑھ کے سفر کے دوران ایجوکیشنل بک ہاؤس پراس کے مالک دوم احمد سعید خاں کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ ایک طالب علم وہاں آیا اور اس نے پچاس برس پرانی ایک کتاب طلب کی۔ بڑی مشکل سے کتابوں کے انبار سے یہ کتاب نکالی گئی۔ طالب علم نے قیمت پوچھی تو وہی بیس روپے طلب کی گئی جو پچاس برس پہلے لکھی گئی تھی۔قیمت سن کر طالب علم نے جذباتی انداز میں کہا کہ”اس کتاب کی مجھے اتنی شدید ضرورت تھی کہ اگر آپ مجھ سے ایک ہزارروپے بھی مانگتے تو میں اداکردیتا۔“
یہ دراصل اس ادارے کی ایمانداری اور دیانت داری کی معمولی مثال ہے ورنہ جاننے والے جانتے ہیں کہ اس ادارے نے اپنا سوسال کا یہ سفر اسی تاجرانہ دیانتداری اور ایمانداری کے ساتھ پورا کیا ہے۔درحقیقت اس تاریخ سازاشاعتی ادارے کے قیام کا بنیادی مقصد طلباء کو معیاری اور سستی کتابیں فراہم کرنا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ آج مہنگائی کے اس دور میں بھی جتنی ارزاں قیمت پر کتابیں ایجوکیشنل بک ہاؤس فراہم کرتا ہے اتنی شاید ہی کوئی پرائیویٹ ادارہ کرتا ہو۔علی گڑھ کے ہزاروں طلباء اس بات کی گواہی دیں گے کہ کس طرح ایجوکیشنل بک ہاؤس نے ان کی ضرورتوں کا خیال رکھا ہے۔ اگر کسی طالب علم کے پاس پیسے نہیں ہوئے تو اسے یاتو ادھار یا پھر مفت میں کتاب فراہم کی گئی تاکہ اس کی تعلیم میں خلل نہ پڑے۔
آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ اس ایجوکیشنل بک ہاؤس پر آکر اپنی علمی پیاس بجھانے والوں میں پروفیسر رشید احمد صدیقی، پروفیسر آل احمد سرور، علی سردار جعفری، معین احسن جذبی اور عصمت چغتائی جیسی اردو ادب کی نابغہ روزگار شخصیات شامل رہی ہیں۔ ان سبھی لوگوں کی نادرونایاب کتابوں کے پہلے اڈیشن ایجوکیشنل بک ہاؤس نے ہی شائع کئے اوران کی اشاعت کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ کئی اداروں نے اس ادارے کے نام سے ملتے جلتے نام رکھ کر ترقی پانے کی کوشش کی لیکن وہ ایجوکیشنل بک ہاؤس جیسا وقار اور مرتبہ حاصل نہیں کرسکے۔
ایجوکیشنل بک ہاؤس کی مطبوعات کی تعداد 900 سے زائد ہے۔ اس ادارے نے معیاری درسی، علمی وادبی کتابیں شائع کرکے اردو زبان وادب کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اس کے موجودہ مالک اسدیار خاں اپنی پیرانہ سالی کے باوجودہر روز سہ پہر کو یہاں آکر بیٹھتے ہیں اور ان کے چھوٹے بھائی احمدسعید خاں دن بھر ڈیوٹی دیتے ہیں۔یہاں ہر آنے والے کا بڑی خندہ پیشانی سے خیرمقدم کیا جاتا ہے اوراس کی ضرورت کی کتابیں فراہم کرنے میں کوئی تکلف نہیں کیا جاتا۔کتاب بیزاری کے اس دور میں یہ دونوں بھائی اردو کتابوں کے فروغ میں ایمانداری اور دیانت داری کے ساتھ جوغیرمعمولی خدمات انجام دے رہے ہیں، وہ بلاشبہ لائق تحسین ہیں۔ایجوکیشنل بک ہاؤس کی ایک صدی مکمل ہونے پر اپنے کرم فرما اسدیار خاں اور احمد سعید خاں کو مبارکباد اور تہنیت پیش کرتا ہوں۔