ایک جدید فرہنگ اقبالیات

طلحہ نعمت ندوی

علامہ اقبال کی شخصیت اور فکر وفن پر بہت کچھ لکھا گیا اور اس قدر کہ اب مزید کچھ لکھنا تحصیل حاصل معلوم ہوتا ہے ،لیکن ان کی ہمہ جہت شخصیت کے علم وفکر کا کوئی نہ کوئی نیا زاویہ اہل علم کے سامنے آتا ہی رہتا ہے ،اس لئے ان پر تحقیقات ومطالعات کاکام اقبالیات کا پورا کتب خانہ وجود میں آجانے کے باوجود اب تک رکا نہیں ہے۔

ایک جدید فرہنگ اقبالیات
ایک جدید فرہنگ اقبالیات

لیکن اقبالیات کا ایک پہلو اب بھی تشنۂ تحقیق معلوم ہوتا ہے ،اور وہ ہے ان کے کلام کی توضیح وتشریح ،اقبال کا کلام جس طرح بڑوں سے لے کر بچوں تک مقبول ہے ،اور باکمال فضلاء سے لے کر تعلیم یافتہ حضرات سب جس طرح اس سے مستفید ہوتے ہیں اس کو پیش نظر رکھا جائے تو ان کے کلام کی تشریح وتوضیح پر جو توجہ صرف ہونی چاہئے تھی اس میں کمی محسوس ہوتی ہے ۔

سب سے پہلے غالبا غلام رسول مہر نے جو اقبال سے والہانہ تعلق رکھتے تھے مطالب بانگ درا کے نام سے ان کے ایک مجموعہ کے اشعار کے مطالب بیان کئے ۔پھر یوسف سلیم چشتی نے ہر حصہ کی مکمل شرح لکھی ،لیکن ایک تو اس شرح میں غیر ضروری باتیں بہت زیادہ درآئی ہیں ،دوسرے وہ ایک علمی شرح کے بجائے درسی شرح بن گئی ہے ،اور درسیات کی شرح طلبہ کے لئے مفید کے بجائے اکثر مضر ہی ہوتی ہے ۔کسی کے فکر وفن کی عالمانہ توضیح وتشریح اور نقد وتجزیہ اور لفظی شرح دونوں میں فرق ہے ۔طلبہ کے لئے اس طرح کی شرحوں کے بجائے پیچیدہ مباحث کی توضیح زیادہ مفید ثابت ہوتی ہے ،اس لئے شرح سے زیادہ فرہنگ وکلام اقبال کی ڈکشنری کی ضرورت تھی ،اور یہ کام حضرت نسیم امروہوی نے بحسن وخوبی انجام دیا ہے ،اور اقبال کے چاروں مجموعوں کے علاوہ ان کی باقیات کا بھی احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اختصار کی وجہ سے وہ بھی بہت سے الفاظ واصطلاحات کی زیادہ تشریح نہیں کرسکے ۔

ابھی حال ہی میں پروفیسر سید امتیاز احمد علیگ کی حصہ بانگ درا کی فرہنگ اقبال منظر عام پر آئی ہے جوغلام رسول مہر کی مطالب بانگ درا کی طرح صرف حصۂ بانگ درا ہی کی تشریح وتوضیح تک محدود ہے ،جسے مرتب نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ایم فل کی سند کی تحصیل کے پیش کرکے اس کی سند حاصل کی ،بقیہ حصوں پر کام کرکے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کرنے کا بھی ارادہ تھا اور اس سلسلہ میں بال جبریل اورضرب کلیم پر کچھ کام ہوبھی چکا تھا لیکن پھر وہ تدریسی خدمت میں مشغول ہوگئے تو یہ سلسلہ رک گیا ،ان کی اس کتاب کی تیاری کا عرصہ بھی وہی ہے جو فرہنگ اقبال کے مصنف حضرت نسیم امروہوی کا ہے ،اس میں مرتب نے تصوف کی اصطلاحات ،شخصیات کے نام اور افکار وتحریکات کا جو مفصل تعارف کرایا ہے ،اور بعض جگہ اشعار کے پس منظر ذکر کئے ہیں وہ فرہنگ اقبال اور مطالب بانگ درا دونوں سے الگ ہے ،جس کی وجہ سے اس کی ضرورت واہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔

 پروفیسر سید امتیاز احمد ہندوستان میں صوفیہ وعلماء کے قدیم شہربہارشریف سے تعلق رکھتے ہیں ،جہاں ان کا خاندان صدیوں سے آباد ہے،ان کا نسلی تعلق سید علی ہمدانی کشمیری سے ہے ،جن کے اخلاف میں کوئی بزرگ اس شہر میں آکر مقیم ہوگئے تھے ،پھر ان کی نسل میں علماء ومشائخ پیدا ہوئے ۔موصوف نے ۱۹۴۴ میں اسی شہر میں آنکھیں کھولیں ،ابتدائی وثانوی تعلیم کے لئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی حاضر ہوئے ،اور وہاں کے اہل علم سے استفادہ کے بعد اردو میں ایم اے اور ایم فل کی سند حاصل کی ،معین احسن جذبی ،شہریار اور پروفیسر نادر علی خاں جیسے سرآمد روزگار ان کے اساتذہ میں ہیں ،انہوں نے یہ مقالہ جناب نسیم احمد کی نگرانی میں لکھا تھا اور مشہور ناقد آل احمد سرور نے اس کا امتحان لیا تھا ۔وہاں سے اپنے شہر واپس آئے ااور شہر کے ایک ڈگری کالج علامہ اقبال کالج میں پروفیسر ہوگئے ،اسے بخت واتفاق ہی کہیے کہ علامہ اقبال پر تحقیق نے علامہ اقبال کالج پہنچادیا جو نیا نیا ہی قائم ہوا تھا اور وہ اس کے اولین اساتذہ میں تھے،ورنہ وہ کسی بڑے کالج یا یونیورسٹی میں ہوتے تو علمی دنیا ان کے نام اور کام سے زیادہ واقف ہوتی ۔

موصوف بڑے کہنہ مشق شاعر ہیں اوربسیار گو بھی ،لیکن ان کا کلام رسائل میں بھی کم ہی شائع ہوا ہے ،اور خود بھی انہیں گمنامی ہی پسند ہے ،ان کی غزلوں کا ایک مجموعہ’’دل ہی تو ہے‘‘ کے نام سے دہلی سے شائع ہوچکا ہے ۔دوسرا مجموعہ ’’کچھ تو کہیے ‘‘ تیار ہے ،اور تیسرا مجموعہ منظومات اور رباعیات پر مشتمل ہے جو زیر ترتیب ہے ۔ان کا ایک روزنامچہ بھی شائع ہوچکا ہے ،جو ان کی بے تکلف اور رواں اسلوب کا عمدہ نمونہ ہے ۔

 موصوف کی شخصیت کا اصل امتیاز شعر وادب میں دسترس کے ساتھ ان کا دینی مزاج ،اعلیٰ اقدار وروایات ،ان کا وقار اوران کی وضعداری وشرافت ہے ،وہ علی گڑھ کی طالب علمی کے دور ہی سے دعوت وتبلیغ کے سرگرم اور ممتاز رکن رہے ،اور بڑوں کے ساتھ وہاں کے تبلیغی جماعت کے مرکز میں ان کی بھی بات ہوتی تھی جہاں کسی طالب علم کو یہ موقع نہیں دیا جاتا تھا ۔تکمیل تعلیم کے بعد انہوں نے اپنے وطن میں اس کا م کو فروغ دینے اور دعوتی خدمت انجام دینے میں انہماک سے مشغول رہے ،اس کے باوجود اپنے لئے گمنامی کی زندگی ہی پسند کی اور شہر کے باہر بڑے اجتماعات میں جانے اور مرکزی جگہوں پر نمایاں ہونے کی کبھی کوشش نہیں کی ۔

 موصوف کا دینی مزاج اس کتاب سے بھی ابھر کر سامنے آتا ہے ،انہوں نے مذہبی تعبیرات والفاظ اور قرآن وحدیث کے اقتباسات واشارات کی توضیح وتشریح میں وسعت سے کام لیا ہے ،جب کہ وہ مدرسہ کے طالب علم کبھی نہیں رہے ،لیکن تصوف وعرفان کی راہ کے وہ قدیم رہرو ہیں ،جس کی وجہ سے ان حقائق کی تشریح میں ایک معنویت پیدا ہوگئی ہے۔

Leave a Reply