بادشاہِ زبان و قلم حضرت مولانا نسیم اختر شاہ قیصرؒ

 تحریر: بدرالاسلام قاسمی

جغرافیائی اعتبار سے تو ’’دیوبند‘‘ایک چھوٹا سا قصبہ ہے، لیکن اسلامیانِ ہند کے لیے یہ قصبہ کسی دینی دارالحکومت سے کم نہیں، ایک طرف یہ عقیدتوں کا مرکز ہے تو دوسری طرف کئی تاریخی تحریکات کا سرچشمہ، جہاں اس کے دامن سے بہت سی عبقری شخصیات وابستہ ہیں تو دوسری جانب یہاں سے نکلے ہوئے ہزاروں داعیانِ دین اس کی اہمیت کے گواہ ہیں، اور ان تمام عقیدتوں اور امتیازات کا اگر کوئی سبب ہے تو وہ صرف ایک ہے ’’دارالعلوم دیوبند‘‘ ۔ یہ دارالعلوم دیوبند کیا ہے! والد محترم(حضرت مولانا محمداسلام قاسمی شفاہ اللہ، استاذ حدیث دارالعلوم وقف دیوبند) اپنی کتاب ’’میرے اساتذہ، میری درسگاہیں: درخشاں ستارے ‘‘ میں رقم طراز ہیں:

’’جی ہاں! وہی دارالعلوم دیوبند جو ہندوستان میں مسلمانوں کی عظمت رفتہ کا نشان، علمی تحریک کا عنوان، دینی و روحانی پہچان، حق و باطل کی میزان اور اللہ کی جانب سے امت مسلمہ پر ایک احسان ہے جو تاریخ بھی ہے ، تاریخ ساز بھی، اور اسلامیان ہند کی اجتماعی آواز بھی، برصغیر ہند (ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش) میں اس کی علمی ضیا پاشیاں روز روشن کی طرح اس کا ثبوت، پھر تمام برّاعظموں میں اس کے فرزندوں کے علمی و دینی کارنامے اس کی بیّن دلیل ہیں۔ اس عظیم الشان علمی تحریک اور اس کے افراد کی خدمت کا اعتراف انفرادی طور پر بھی ہے اور اجتماعی طریقے پر بھی، عالم اسلام نے اس کی تاریخی عظمت کو تسلیم کیا تو غیر مسلم اہل علم کے حلقوں نے بھی اس کی اہمیت، افادیت اور عالمگیریت کا اقرار کیا۔‘‘(ص:۵۸)

بادشاہِ زبان و قلم حضرت مولانا نسیم اختر شاہ قیصرؒ
بادشاہِ زبان و قلم حضرت مولانا نسیم اختر شاہ قیصرؒ

دارالعلوم وقف دیوبند کا ابتدائی دور

۱۹۸۳ء میں دارالعلوم دیوبند کے دو لخت ہونے کے بعد میرکارواں، ترجمانِ مسلک دیوبند، لاثانی منتظم ، اکابر دیوبند کی گوناگوں خصوصیات کے حامل، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب علیہ الرحمہ کی قیادت میں اسّی (۸۰)سے زائد افراد نے دارالعلوم دیوبند کو خیرآباد کہہ دیا، جن میں ایک طرف سالہا سال کا تجربہ رکھنے والے اساتذۂ کرام بھی تھے تو دوسری جانب کچھ نوجوان اساتذہ و کارکنان بھی، ان کے علاوہ مختلف دفاتر و شعبوں سے وابستہ وہ افراد بھی جن کا دور دور تک تدریس کی سعادت سے واسطہ نہ تھا، نیز بہ ظاہر دارالعلوم وقف سے وابستگی اپنے مستقبل کو ایسی تاریکی میں دھکیلنے کے مترادف تھا جہاں حالات کی بہتری کی فی الحال دور تک کوئی امید نہ تھی، چہار جانب مایوسی اور پروپیگنڈوں کی بنیاد پر بد سے بدترحالات۔ ایسی صورت حال کے باوجود اس ادارے سے وابستگی کا مقصد جھوٹ اور فریب کے مقابلے میں سچ اور حقیقت پسندی ، نیز مکاروں و فریب دہندوں کی جمعیت و جماعت کے بالمقابل حق پرستوں اور مظلومین کا ساتھ دینے کے علاوہ اور کیا ہو سکتا تھا۔اس دور میں نہ تو دارالعلوم وقف کے پاس اپنی جگہ تھی، نہ اپنی چھت، نہ درس گاہیں اور نہ قیام گاہیں، پڑھنے کے لیے نہ تپائیاں دستیاب تھیں اور نہ ہی بیٹھنے کے لیے چٹائیاں فراہم، ان سب کے باوجود بس ایک جذبہ تھا کہ ہمیں ’’حق‘‘ کا ساتھ دینا ہے، نتیجہ خواہ کچھ بھی ہو، بقول نواز دیوبندی ؎

انجام اس کے ہاتھ ہے، آغاز کرکے دیکھ

بھیگے ہوئے پروں سے ہی پرواز کر کے دیکھ

اور پھر تاریخ نے دیکھا اور اپنے سینے میں محفوظ کیا کہ یہ لٹا پٹا قافلہ، جس کے بچے کھچے سرمائے کو بھی بعض لوگوں نے اپنے طنزیہ جملوں، پُرفریب تقریروں اور تلبیس سے لبریز تحریروں کے ذریعہ لوٹنے کی کوشش کی، یہ قافلہ ابتداء ً حکیم الاسلام کی سرپرستی میں چلا، پھر خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی ، فخرالمحدثین حضرت مولانا سیّد انظر شاہ کشمیری، استاذ الاساتذہ حضرت مولانا خورشید عالم صاحب دیوبندی، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد نعیم صاحب دیوبندی وغیرہ کی شبانہ روز جدوجہد اور بے مثال و لازوال خدمات کی بنیاد پر اس نے ملک بھر میں اپنی حیثیت کو تسلیم کرایا۔ ان بڑی اور عبقری شخصیات کے ساتھ یقیناً بہت سے نوجوان و جوشیلے اساتذہ کرام ایسے تھے جو ادارے کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار رہتے تھے، مہینوں تنخواہ نہ ملتی، بعض گھروں میں فاقے رہتے، مسائل و مصائب جھیلتے، لیکن ادارے کو ترقّی دینے کے لیے سفر بھی کرتے، درس بھی دیتے، مخالفین کا جواب بھی دیتے اور پھر بھی ماتھے پر کوئی شکن ابھرنے نہ دیتے۔ اُن اساتذہ میں والد محترم حضرت مولانا محمد اسلام قاسمی شفاہ اللہ، حضرت مولانا جمیل احمد سکروڈویؒ، حضرت مولانا مفتی محمد واصف صاحبؒ، حضرت علامہ سیّد حسن باندویؒ، حضرت مولانا مفتی انوار الحق دربھنگویؒ، حضرت مولانا غلام نبی کشمیریؒ، حضرت مولانا فریدالدین صاحبؒ، حضرت مولانا مفتی مشتاق احمد صاحبؒ، حضرت مولانا عبداللطیف صاحب قاسمیؒ وغیرہ جیسے کئی افراد شامل تھے جن کا اوڑھنا بچھونا فقط ’’دارالعلوم وقف‘‘ تھا، گویا ان حضرات نے اپنی زندگی اسی ادارے کے لیے ’’وقف‘‘ کر رکھی تھی، ان ہی لوگوں میں ایک نام ہے حضرت مولانا سیّد نسیم اختر شاہ قیصر علیہ الرحمہ کا، جو اپنی ذاتی صلاحیت و ذہانت، خاندانی نسبت اور کئی سرکاری ڈگریوں کے باوجود دارالعلوم وقف سے وابستہ رہے،خدمت دین اور حکیم الاسلام کے اس شجر کو انھوں نے اپنے خونِ جگر سے سینچا اور تاحیات اسی نسبت کو اپنا قیمتی سرمایہ گردانتے رہے۔

موجودہ اور آئندہ نسل کو اگر دارالعلوم وقف اپنی زمین پر قائم ایک مضبوط و مستحکم ادارہ معلوم ہوتاہے، عالی شان عمارتیں، عمدہ دارالاقامہ، پُرشکوہ مسجد اور پُرسکون لائبریری وغیرہ ان کے علمی سفر کا ایک پڑائو لگتی ہیں تو یقین جانیے کہ موجودہ اربابِ انتظام کی شاندار قیادت اور بہترین انتظامی صلاحیت کے بھرپور اعتراف کے ساتھ اس ادارے کی بنیاد کے کئی پتھر ایسے ہیں جنھوں نے اخلاص و للہیت اور خالص رضائے الٰہی کے حصول کے پیش نظر اسی ادارے کی ترقی اور استحکام کو اپنا مقصد ِ زندگی بنائے رکھا ۔ اگر دارالعلوم وقف کو یہ دیوانے، پروانے، عشاق وار اخلاص کے بندے میسر نہ آتے تو بظاہر آج اس کا وجود باقی نہ ہوتا اور ’’یارانِ قدیم‘‘ اسے ایک ناکام تجربہ کا عنوان دے کر یہ باب بند کر دیتے۔

والد محترم کے خصوصی احباب

والد محترم حضرت مولانا محمد اسلام قاسمی چوں کہ دارالعلوم وقف دیوبند سے روزِ اوّل سے وابستہ رہے، ادارے کے قیام کا پس منظر اور جملہ عروج و زوال ان کی نگاہوں کے سامنے تھے، اس لیے اُن کے حلقۂ احباب میں کثرت دارالعلوم وقف سے وابستہ افراد کی ہی تھی، تاہم بعض قدیم تعلقات نظریاتی اختلاف کے باوجود وہ اُسی سابقہ گرم جوشی کے ساتھ آج تک قائم و دائم ہیں، والد صاحب کے حلقۂ احباب میں دو نام ہمیں بچپن سے سنائی دیے ۔ ایک نام تھا مولانا سیّد احمد خضر شاہ کا، اور دوسرا مولانا نسیم اختر شاہ قیصر کا۔ ہم نے بچپن سے اب تک بارہا دیکھا کہ جب بھی والد صاحب کو یا ان دونوں حضرات کو کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو ضرور باہم مشورہ کرتے، اور ایک دوسرے کو گراں قدر رائے سے نوازتے۔ ہم یہاں دیوبند میں پردیسی ہیں، وطن اصلی بہار (موجودہ جھارکھنڈ) ہے، لیکن ان جیسے حضرات نے ہمیں کبھی بھی دیوبند میں اجنبیت کا احساس نہ ہونے دیا، ہر مشکل وقت میں یہی مخلصین ہمارا سہارا بنے اور ہر خوشی و غم کے موقع پرساتھ کھڑے رہے، کسی بھی موقع پر پردیسی ہونے کا احساس نہ ہونے دیا۔

مولانا کی آمد و رفت

مولانا نسیم اختر شاہ قیصر صاحبؒ کی ہمارے گھر آمد و رفت ان کے معمولِ زندگی کا حصہ تھی، جیسے والد صاحب ان کے آستانے پر پابندی سے تشریف لے جاتے تھے۔ بارہا دہلی، فیض آباد وغیرہ سے والد صاحب کے قدیم احباب دیوبند آتے تو ہمیں معلوم ہوتا کہ فلاں فلاں مہمان آج کھانے پر تشریف لا رہے ہیں اور ساتھ میں مولانا نسیم اختر شاہ صاحب تو ہوں گے ہی، گویا کہ وہ ہمارے گھر کا ہی ایک حصہ تھے۔

سادگی و تواضع

دیوبند میں رہنے کے جہاں بہت سے فائدے ہیں تو کچھ نقصانات بھی ساتھ لگے ہوئے ہیں، فائدے تو بالکل ظاہر ہیں کہ علمی سرزمین ہے، ہمہ وقت تعلیم و تعلّم کا ماحول میسر ہے، اس حوالے سے کبھی کوئی پریشانی محسوس ہی نہیں ہوتی، البتہ نقصان یہ ہوتا ہے کہ ہر شخص کے معمولات سامنے رہتے ہیں، کس کا ظاہر و باطن یکساں ہے اور کون دیوبند میں رہتے ہوئے صحت مند اور یہاں سے نکلتے ہی عصا کا محتاج ، یہاں رہتے ہوئے تیزرفتار بائیک سوار اور حلقۂ مریداں میں پہنچتے ہی چلنے پھرنے سے قاصر بلکہ عقیدت مندوں کے کندھوں پر سوار۔ ایسے بہت سے تماشے ہم یہاں دن رات دیکھتے ہیں، چند ہی لوگ ہیں جو تواضع و انکساری اور ظاہر و باطن کی یکسانیت کی خوبی سے متصف ہیں اور ان کو دل جھک کر سلام کرتا ہے، ان ہی میں مولانا نسیم اختر شاہ قیصر صاحب بھی تھے، جن کا ظاہر و باطن بالکل یکساں تھا، جیسی جلوت ویسی ہی خلوت، سادگی و تواضع مثالی، ہر ایک سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملاقات،گھر کے ہر کام کاج کو از خود انجام دینے کی کوشش، سودا سلف لانا ہو یا بچوں کی ٹافیاں، سبزی خریدنی ہو یا گوشت، دودھ لینا ہو یا کتابیں، ہمیشہ خود ہی یہ کام انجام دیتے، حتی کہ راقم نے بارہا دیکھا کہ اپنے گھر کا روز مرّہ کا کوڑا کرکٹ بھی خود ہی ڈال کر آتے، حالاں کہ جس عظیم خانوادے سے ان کو نسبت تھی اور جس عالمی شہرت یافتہ ادارے سے وہ وابستہ تھے وہ اگر چاہتے تو خدام کی ایک قطار اپنے آگے پیچھے رکھ سکتے تھے، جو نہ صرف یہ کہ ان کی خدمت کو اپنے لیے سعادت سمجھتے بلکہ عوام میں ان کی شخصیت کو بھی بلند و بالا مقام عطا کرا دیتے، لیکن انھوں نے ان چیزوں کو کبھی حیثیت نہیں دی۔

بے تکلفی اور معاشرت کے حقوق

دوست و احباب کی مجلس میں مولانا کی بے تکلفی مثالی تھی، وہ بے دریغ چائے ناشتہ کے لیے پیسے خرچ کرتے اور موقع ہوتا تو احباب سے بھی خوب خرچ کرواتے، بچوں میں بچے بن جاتے تو بڑوں میں بڑے، اہل علم کے درمیان سنجیدہ تو اہل زبان و قلم کے درمیان ماہر فن۔ اس کے علاوہ حقوقِ معاشرت کو نبھانے میں بھی وہ طاق تھے، چناںچہ دور پَرے کے کسی انتقال کی خبر ملتی تو مولانا جنازے میں موجود، کسی ادنیٰ تعلق رکھنے والے شخص کی ناسازیٔ طبع کا علم ہوتا تو مولانا عیادت کنندگان میں شامل۔

یہ الگ بات کہ خاموش کھڑے رہتے ہیں

پھر بھی جو لوگ بڑے ہیں وہ بڑے رہتے ہیں

 زبان کی سلاست اوررَ وانی

بیرونِ دیوبند کے بیشتر مسلمان اس قصبہ کو فقط ایک مدرسہ کے نام سے جانتے ہیں اور وہ ہے ’’دارالعلوم دیوبند‘‘، البتہ اس مادرِ علمی کے علاوہ یہاں چھوٹی بڑی بہت سی درسگاہیں اپنے دائرۂ کار اور وسعت کے مطابق خدمتِ دین کا فریضہ انجام دے رہی ہیں، چناںچہ ان کی جانب سے چھوٹی بڑی تقریبات اور سالانہ جلسے وغیرہ راقم نے بچپن سے دیکھے ہیں، اُن میں بطور مقرّر و مہمانِ خصوصی بارہا جناب مولانا نسیم اختر شاہ قیصر صاحب کو سننے کا موقع ملا، مولانا بولتے تو بس بولتے ہی جاتے، زبان میں ایسا تسلسل کہ جس کی نظیر کم ہی میسر ہوتی ہیں، اُس تسلسل و روانی میں بھی مترادف الفاظ اور عمدہ تعبیرات کا ایسا ذخیرہ کہ اردو زبان و ادب سے دلچسپی رکھنے والا ہر فرد مولانا کی تقریر سے کافی کچھ لے کر اٹھتا۔ یہی تسلسل و روانی اُن کی کتابوں میں نظر آتی ہیں جو آئندہ نسلوں کو اُن کی زبانی مہارت و ادبی قدرت کا گواہ بنائیں گی۔

معہد الانور سے تعلق

راقم نے تکمیل حفظ کے بعد ابتدائی عربی جماعت میں اُس وقت کے ایک نوخیز ادارے ’’معہدالانور‘‘ (موجودہ جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند) میں داخلہ لیا، یہ ادارہ فخرالمحدثین حضرت مولانا سیّد انظر شاہ کشمیری علیہ الرحمہ نے قائم کیا تھا، جس کے قیام کا بنیادی مقصد امام العصر حضرت علامہ انور شاہ کشمیری علیہ الرحمہ کے علوم و معارف اور نوادرات کو اردو زبان میں منتقل کرنا تھا جو اَب تک عربی و فارسی کتابوں یا مخطوطات وغیرہ کی شکل میں تھے۔ اسی اکیڈمی کا نام ’’معہدالانور‘‘ تھا جس کی شروعات استاذ محترم حضرت مولانا صغیراحمد پرتاپ گڑھی (استاذ حدیث جامعہ امام محمد انور شاہ ) کی آمد سے ہوئی، گویا وہ پہلے آئے اور ان کی آمد پر ادارہ قائم ہوا، رفتہ رفتہ شاہ صاحب کی اس علمی تحریک میں مختلف صلاحیت رکھنے والے نہایت بااستعداد علماء کی ایک ٹیم شامل ہو گئی اور یہ ایک علمی و تحقیقی کارواں بن گیا جس نے بہت قلیل عرصے میں ملک و بیرون ملک میں اپنی ایک منفرد شناخت قائم کر لی۔

معہد کے تقریباً ہر چھوٹے بڑے پروگرام میں مولانا نسیم اختر شاہ قیصر ؒ کی شرکت لازمی تھی، انجمن کواکب انور کا سالانہ اجلاس ہو یا کوئی اعزازی و استقبالیہ نشست، مولانا ہر پروگرام میں اپنی معروف سادگی کے ساتھ تشریف لاتے اور طلبہ و سامعین کو اپنی مرصع اور شستہ و شگفتہ اردو سے لبریز خطاب سے محظوظ فرماتے۔یہ سلسلہ اُس وقت سے تاحیات قائم رہا ۔ چناںچہ ختم بخاری شریف کے عنوان سے شب ِ برأت میں ہونے والے عظیم الشان اجلاسِ عام میں بھی مولانا کا اہم خطاب ہوتا، جس میں مولانا اپنی پُرجوش خطابت کے جلوے بکھیرتے۔

معہد سے مولانا کا تعلق فقط یہیں تک نہ تھا، بلکہ اس ادارے کے ہر نشیب و فراز سے وہ واقف رہتے، عروج وزوال کی ہر داستان ان کے سامنے ہوتی،اگر ادارہ کسی مشکل مرحلے سے گزرتا تو وہ بے چین ہو اٹھتے، نیز ہر ترقیاتی قدم سے مولانا کو سکون محسوس ہوتا۔ ادارے کے ہر استاذ حتی کہ چھوٹے بڑے ملازمین سے بھی کافی تعلق رکھتے۔

مسجد خانقاہ میں خطابت کا سلسلہ

مولانا کے گھر کے سامنے ہی محلّہ خانقاہ کی قدیم مسجد واقع ہے، پچھلے چند سالوں سے اہل محلّہ کی جانب سے قبل از جمعہ کسی بڑے عالم کے خطاب کا سلسلہ شروع ہوا تھا، جس میں کبھی حضرت مولانا ریاست علی بجنوریؒ منبر پر رونق افروز ہوتے تو کبھی دارالعلوم کے صدر مفتی حضرت مولانا حبیب الرحمٰن صاحب خطاب فرماتے، اسی طرح وقتاً فوقتاً جناب مولانا نسیم اختر شاہ قیصر صاحب علیہ الرحمہ بھی مختصر اور جامع خطاب فرماتے، جس سے نہ صرف کہ طلبہ بلکہ اہل محلّہ کو کافی فائدہ ہوتا۔ مولانا کے انتقال کے بعد دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث حضرت مولانا مفتی عبداللہ معروفی صاحب نے انکشاف فرمایا کہ ’’مولانا مرحوم کی تقریر سننے کی غرض سے ہی میں اِس مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے حاضر ہوتا تھا۔‘‘

دارالعلوم وقف میں شعبۂ صحافت

غالباً ۲۰۰۷ء میں دارالعلوم وقف میں شعبۂ صحافت کا آغاز ہوا، جس میں طلبہ کے لیے صحافت کی ابتدائی تعلیم اور مضمون نگاری کی بنیادی مشق و تمرین کا نظم تھا، یہ مضمون اختیاری تھا، چناںچہ عشاء کے بعد اس کے اسباق شروع ہوئے، اس شعبہ کی مکمل ذمہ داری حضرت مولانا ہی سے متعلق تھی، راقم نے بھی چند دنوں اُن اسباق میں شرکت کی تھی ،اگرچہ اُن کی کتابوں ، مضامین اور تقریروں سے میں نےزندگی کے بہت سے سبق سیکھے، تاہم میرا اُن سے شاگردی کا تعلق اسی شعبۂ صحافت کے چند اسباق کی بنیاد پر تھا۔

مرکز نوائے قلم

دیوبند میں دارالعلوم، دارالعلوم وقف، معہد الانور اور دیگر اداروں کے ہزارہا طلبہ ہمہ وقت موجود رہتےہیں، یقیناً اُن میں ہر قسم کے اور ہر طرح کی استعداد رکھنے والے ہوتے ہیں، بعض کو عربی تمرین و انشاء کا شوق ہوتا ہے تو کچھ کو کمپیوٹر و انگریزی سے ذہنی مناسبت ہوتی ہے، بعض کو تحریر و خطاطی سے دلچسپی ہوتی ہے تو کچھ کو کسی معاشی ہنر سیکھنا ہوتا ہے، ان میں ایک تعداد اردو مضمون نگاری کی شوقین طلبہ کی بھی ہوتی ہے۔ مولانا مرحوم نے ایسے ہی طلبہ کے ذوق کی تسکین اور ان کو اس فن سے آراستہ کرنے کے لیے ’’مرکز نوائے قلم‘‘ نامی ایک ادارہ اپنی بیٹھک میںقائم فرمایا۔ جہاں بہت سے طلبہ سے نقطے سے کالم اور مضمون و مقالہ لکھنے کا سلیقہ سیکھا اور آج وہ اپنے اپنے حلقے میں نام وَر قلم کار ہیں، کئی رسالوں کے مدیر ہیں اور ان کے مضامین دلچسپی سے پڑھے جاتے ہیں۔

احباب کی مجلس

قلم و قرطاس اور کتب بینی سے بے پناہ تعلق ہونے کے باوجود مولانا مرحوم ایک مجلسی شخصیت کے طور پر معروف تھے، چناںچہ مضمون نگاری، تدریس، تقریر اور مضمون نگاری کی تمرین و انشاء کے علاوہ احباب کی یہ مجلسیں بھی مولانا کی زندگی کا لازمی حصہ تھیں، عموماً بعد مغرب کسی نہ کسی دوست کے یہاں یہ مجلس لگتی تو دن بھر کی تھکان اور ذہنی الجھنیں احباب کی اس ہمراہی اور پُرمزاح بے تکلف محفل کی برکت سے کافور ہو جاتیں۔

رسم اجراء کی باوقار تقریبات

دیوبند میں دینی تقریبات کا انعقاد کوئی انو کھی بات نہیں، کبھی یہ تقریب سیمینار کی شکل میں تو کبھی دینی و اصلاحی اجلاس، کبھی رابطہ مدارس کے عنوان سے علماء کا اجتماع تو کبھی طلبہ کی انجمنوں کے سالانہ پروگرام کی رونقیں، کبھی سیاسی بازیگروں کی آمد و رفت تو کبھی کوئی فقہی مجلس و مذاکرہ۔ ان سب کے درمیان تقریب کی ایک قسم تھی ’’تقریب رسم اجراء‘‘ دیوبند میں اکثر و بیشتر دو شخصیات کو خاص طور پر اپنی کتابوں کے تعلق سے اس طرح کی تقریبات منعقد کرتے ہوئے پایا، ایک مولانا مرحوم اور دوسرے مولانا ندیم الواجدی۔یہ تقریبات ہم طلبہ کے لیے علمی استفادے کا سبب بنتیں، مختلف الخیال افراد اس میں شرکت کرتے اور مولانا کی تصنیفات اور ذاتی امتیازات پر اپنے اپنے مخصوص انداز میں روشنی ڈالتے۔

 ’’لاک ڈاؤن ‘‘ جس نے پوری دنیا کو معطل کر کے رکھ دیا تھا، اس میں جہاں اکثر افراد ہاتھ پر ہاتھ دھرے قسمت کا شکوہ کر رہے تھے تو علم دوست افراد کے لیے یہ موقع بھی کسی نعمت غیرمترقبہ سے کم نہ تھا، چناںچہ حضرت مولانا نے بھی اس فرصت سے خوب فائدہ اٹھایا اور چھوٹی بڑی سات کتابیں تیار کر دیں ، جن کی رسم اجراء کے موقع پر حسب سابق ایک وقیع تقریب کا انعقاد کیا گیا۔

والد گرامی سے تعلق

والد محترم حضرت مولانا محمد اسلام قاسمی صاحب مدظلہٗ سے مولانا نسیم اختر شاہ قیصر کا تعلق کافی قدیم اور گہرا تھا، یہ تعلق تقریباً پینتالیس سے پچاس سالوں پر مشتمل اور زندگی کے ہر عروج و زوال اور نشیب و فراز میں باہمی مخلصانہ ربط، ایک دوسرے کی خبرگیری و خیرخواہی، مثالی دوستی اور سفر و حضر کی بہت سی یادوں سے عبارت ہے۔ ہم نے ہر موقع پر ان دونوں حضرات کے مخلصانہ و خیرخواہانہ رابطے کو محسوس کیا ۔ چناںچہ والد محترم پر چار سال قبل جو لقوہ کا حملہ ہوا اور اس کے بعد مسلسل یکے بعد دیگرے اسی مرض کی خفیف و شدید صورتیں سامنے آتی رہیں ، جس کی وجہ سے گذشتہ چار ماہ سے تو والد محترم صاحب ِ فراش ہی ہیں، اس دوران مولانا نسیم اختر شاہ قیصر پابندی سے والد صاحب کے پاس تشریف لاتے، ان کی مزاج پُرسی کرتے اور حوصلہ افزا باتوں سے والد صاحب کی بیماری کے اثرات کو کم کرنے کی پیہم کوشش کرتے۔ کسے معلوم تھا کہ والد صاحب کو شفا کی امید دلانے والے اور اپنی حوصلہ افزا باتوں سے ہمیشہ احباب کی محفل کو قہقہہ زار کرنے والے یوں اچانک داغِ مفارقت دے جائیں گے۔

ضابطہ خداوندی کے تحت حضرت مولانا اپنی عمر کے متعینہ سال و ماہ گزار کر ۱۱؍ستمبر ۲۰۲۲ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے، لیکن وہ اپنی تصنیفات و تالیفات،دوہزار سے زائد مطبوعہ مضامین، اندازِ تحریر و تقریر، پُرجوش و سحرانگیز خطابت، اردو زبان و ادب کی مہارت، بے مثال حاضرجوابی، وفاشعاری اور تواضع و سادگی کی وجہ سے ایک لمبے زبانے تک یاد رکھے جائیں گے۔ کل من علیہا فان

کتابوں کا تعارف

مولانا مرحوم نے تقریباً دو درجن کتابیں تحریر فرمائیں، جن میں سے چند اہم کتابوں کا ان کے مشمولات کے اعتبار سے مختصر تعارف پیش خدمت ہے:

’’لوگ‘‘ سیریز:میرے عہد کے لوگ ،جانے پہچانے لوگ ،اپنے لوگ ،خوشبو جیسے لوگ ، کیا ہوئے یہ لوگ ۔ سوانحی مضامین کے یہ پانچ مجموعے ہیں۔ جن میں علماء، ادباء ، شعراء، احباب و اقارب، بزرگانِ دین اور معزز شخصیات پر نہایت ہی شستہ و شگفتہ اردو ، بہترین تعبیرات و عمدہ انداز میں مضامین ہیں۔

علامہ کشمیری اور ان کے فرزندان پر:اپنے دادا علامہ کشمیری پر ایک کتاب ’’امام العصر حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ- زندگی کے چند روشن اوراق‘‘ لکھی، اپنے والد محترم پر دو مجموعے ترتیب دیے ’’سید محمد ازہر شاہ قیصرؒ: ایک ادیب ایک صحافی ‘‘ اور ’’رئیس القلم مولانا سید محمد ازہر شاہ قیصرؒ-زندگی کے چند روشن اوراق‘‘ ، چچا جان پر تین کتابیں ’’جانشینِ امام العصرؒ ‘‘، ’’شیخ انظر‘‘ اور فخرالمحدثین حضرت مولانا سید انظر شاہ مسعودیؒ- زندگی کے چند روشن اوراق ‘‘ ۔ نیز ایک کتاب ایسی جس میں اپنے والد اور چچا دونوں کے ادبی پہلوئوں کو نمایاں کیا ہے،کتاب کا نام ہے ’’دو گوہر آبدار ‘‘

اسلامیات:معاشرے کی اصلاح اور قرآن و حدیث کے بنیادی احکامات پر تین مجموعہ مضامین شائع ہو چکے تھے’’اسلام اور ہمارے اعمال ،’’اعمالِ صالحہ ‘‘ اور ’’اسلامی زندگی ‘‘۔

بچوں کا تعارف

مولانا مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کے فضل و کرم سے نوازا تھا، ایک طرف وہ جہاں عالی نسبت تھے تو دوسری طرف تواضع کی دولت سے مالامال، تحریر و تقریر کے بادشاہ تھے تو ایک مقبول مدرّس کی صفات بھی ان میں بخوبی جمع تھیں، درجنوں تصنیفات و تالیفات ان کے قلم سے منصہ شہود پر آئی تھیں تو دوسری طرف معاشرتی حقوق کو پورا کرنے میں بھی پیش پیش۔ فضل و کرم کی ان تمام صورتوں کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے انھیں کثیرالعیال بھی بنایا تھا۔ چناںچہ ان کے تین فرزند اور چھ بیٹیاں تھیں، بڑی بیٹی بچپن میں ہی داغِ مفارقت دے گئی تھی۔ یہاں پر ان کے فرزندان کا مختصر تعارف مقصود ہے۔

۱- مفتی عبیدانور شاہ : خانوادۂ کشمیری کی نسبی شرافت اور علمی کمالات کے عکاس، صلاحیت و صالحیت کے پیکر، خلیق و نرم مزاج، درسیات میں پختہ استعداد کے مالک، خارجی مطالعہ مضبوط، ہر فن مولا شخصیت کے حامل۔ عصری و دینی علوم سے بہرہ ور۔ ابتداء بارہویں جماعت تک عصری تعلیم حاصل کی، اس کے بعد معہدالانور میں کسب ِ فیض کیا، پھر دارالعلوم دیوبند میں ایک نمایاں اور ہر امتحان میں عمدہ نمبرات و پوزیشن حاصل کرنے والے طالب علم کی حیثیت سے اپنی منفرد شناخت قائم کی۔ تکمیل افتاء کے بعد تخصص فی الحدیث بھی کر چکے ہیں اور اب کئی سالوں سے جامعہ امام محمد انور شاہ کے نہایت مقبول استاذ ہیں۔ اپنے جد امجد کے نام سے ’’مکتبہ الانور‘‘ بھی قائم کر چکے ہیں اور متعدد معیاری علمی مطبوعات اس ادارے کی شناخت ہیں۔

۲-عزیر انور شاہ قیصر:نہایت ذہین و فطین، والد محترم کی طرح حاضر جواب، اعلیٰ عصری تعلیم حاصل کرکے انجینئر بنے، سرکاری ملازمت مل چکی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے جد امجد کی اصلی جانشینی یعنی علم دین سے اتنا شغف اور اس کے حصول کے اتنے شوقین کہ اس ملازمت کی تھکادینے والی مصروفیات کے ساتھ ساتھ عربی تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں، میری معلومات کے مطابق عربی چہارم تک کی کتابیں پڑھ چکے ہیں۔ بایں ہمہ اردو زبان وادب کا بہت شاندار ذوق رکھتے ہیں، بہت عمدہ اور معیاری اشعار کہتے ہیں، مقامی مشاعروں اور ادبی محفلوں میں بڑوں سے سند ِ تحسین حاصل کر چکے ہیں۔

۳-خبیب انور شاہ قیصر: حافظ قرآن ہیں اور عربی سوم کے طالب علم، ذہین ہیں، مضمون نگاری بھی کرنے لگے ہیں۔

 اللہ تعالیٰ ان سب بھائیوں کو ہر طرح کے شرور و فتن سے محفوظ رکھے اور گھر کی جملہ ذمہ داریوں کو عمدہ طریقے سے نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

کچھ بہترین تعبیرات و جملے

یوں تو مولانا مرحوم کی ہر تحریر ادبی حسن اور معیاری تعبیرات سے سے پُر ہوتی ہے، تاہم افادۂ قارئین کے لیے مولانا کی کتابوں سے منتخب کچھ تعبیرات و جملے پیش خدمت ہیں۔

کسی ایسی شخصیت پر قلم اٹھانا جس کے روشن و تاریک اور مثبت و منفی دونوں گوشوں سے آپ واقف ہوں، بڑا مشکل کام ہے، لیکن مولانا مرحوم نے ایسی ہی ایک شخصیت پر مضمون کی ابتدا جس انداز سے کی ہے وہ نسلِ نو کے لیے ایک مشعل راہ ہے:

’’ زندگی کے کئی رخ ہیں، ایک رخ سے میںنے آنکھیں بند کر لی ہیں اور اس دروازے کو بھیڑ دیا ہے جس سے تیز و تند ہوائیں آ رہی ہیں، البتہ وہ کھڑکیاں اور روشن دان کھلے رکھے ہیں جہاں سے خوشگوار ہوائوں کے جھونکے قلب و روح کی پاکیزدگی کا سامان بنے ہیں۔‘‘(جانے پہچانے لوگ، ص۴۱)

’’علم مستقل اپنے ٹھکانے بدلتا اور دولت گردش میں رہتی ہے، یہ دونوں چیزیں کسی کی اجارہ داری قبول نہیں کرتیں، نہ علم کو سکون، نہ دولت کو قرار، دونوں کے پیروں میں چکر، آج کسی کے گھر کی رونق تو کل کسی کے گھر میں اجالا، دونوں اپنے مزاج اور فطرت کے اعتبار سے تغیرپذیر ، یعنی آج کسی پر مہربان تو کل کسی کے گلے کا ہار۔‘‘ (اپنے لوگ، ص۴۷)

’’میاں بیوی کا تعلق ایک امانت ہے جس کا اظہار دوسرے پر کرنا بے حسی کی ہی علامت نہیں ،بلکہ میری نظر میں بے انتہا کمینگی اور ذلالت ہے۔‘‘ (اعمالِ صالحہ ،ص۱۷)

’’حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمدطیب صاحبؒ کی مقناطیسی شخصیت اور مثالی زندگی کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، ملکوتی صفات کی ماکل یہ ہستی اپنی ذات میں اکابر کی زندگی کا کامل نمونہ تھی۔ وہی ادائیں، وہی سلوک، وہی رویہ، ہر ہر قدم پر اسلاف کی یادیں تازہ کرتے، انہیں معاصرین بھی محبت اور الفت کی نظر سے دیکھتے، ادب و احترام کا معاملہ کرتے۔‘‘ (مولانا سیّد محمد ازہر شاہ قیصر، زندگی کے چند روشن اوراق، ص۶۴)

’’انسانی زندگی رشتوں کے درمیان بٹی ہوئی ہے، ماں باپ اور اولاد کا رشتہ، بھائی بہن کا رشتہ، شوہر بیوی کا رشتہ یہ تمام رشتے محترم بھی ہیں اور قابلِ عزّت بھی، ان رشتوں کے سرے انسان کو ڈھونڈنے اور تلاش کرنے سے مل جاتے ہیں، مگر دنیا کا ایک رشتہ ایسا بھی ہے جس کا چلن عام ہے اور جس کو استاذ اور شاگرد کا رشتہ کہا جاتا ہے، لیکن تلاشِ بسیار کے بعد بھی اس کا سرا ہاتھ نہیں آتا، دنیا کے اس کونے سے لے کر ا س کونے تک زندگی کے ہر شعبہ اور ہر میدان میں استاذ اور شاگرد کا یہ تعلق قائم ہے ۔ ‘‘(اکابر دیوبند، اختصاصی پہلو، ص:۷۵)

’’اقوال و اعمال کے اثرات ہیں، اگر ادویہ میں کچھ خاص تاثیرات ہیں اور یقیناً ہیں تو یاد رکھیے اعمال و اقوال میں بھی ضرور اثر ہے۔ آپ اگر کسی شخص کو برا کہہ دیں تو وہ آپ سے کیوں خفا ہو جاتا ہے، اس کی تعریف کردیں تو ہو آپ سے کس لیے خوش ہوتا ہے، ہمارے نیک معاملہ سے دوسرا ٓدمی مطمئن ہو اور برے طرزِ عمل سے اس کو تکلیف پہنچے۔‘‘ (مولانا سیّد محمد انظر شاہ مسعودی، زندگی کے چند روشن اوراق، ص:۸۸)

’’تاریخی ادوار کے مطابق دہلی، لکھنؤ، جونپور وغیرہ نے اسلامی علوم کے مراکز کی حیثیت سے آخری سانسیں لیں تو اللہ نے دارالعلوم دیوبند کو وجود بخش کر اس سلسلے کو زندگی عطا کی۔‘‘ (علامہ سیّد محمد انور شاہ کشمیری، زندگی کے چند روشن اوراق، ص:۱۶)

’’آپ ﷺ کی سیرت کا ہرگوشہ ایک سبق ہے، ایک نمونہ ہے، ایک راہِ عمل ہے، زندگی سنوارنے اور کامیاب بنانے کی بہترین تجویز اور کامیاب نسخہ ہے، خالقِ کائنات کی خوشنودی اور رضا حاصل کرنے کا ایک آسان اور سہل راستہ ہے، معبودِ برحق کی عبودیت اور اپنی عبدیت و غلامی کا خوبصورت اظہار ہے۔‘‘ (سیرت آقائے نامدار، ص:۵)

’’اُس (اللہ) کے ایک اشارے پر کائنات وجود میں آئی اور اسی کے حکم سے یہ موت کے آغوش میں سر ٹیک دے گی، پیدا اُسی نے کیا، موت بھی وہی دے گا، جِلائے گا بھی وہی، اُسی کے حکم سے موت آتی ہے اور پھر اسی کے فرمان پر انسان زندہ ہوں گے، وہی مالک یوم الدین ہے، وہی باز پُرس کرے گا، فیصلے کا حق صرف اسے ہے۔‘‘ (وہ قومیں جن پر عذاب آیا، ص۷)

’’تنزل اخلاق کا ہو یا کردار کا، سوچ کا ہو یا فکر کا، صدق کا ہو یا دیانت کا، معاملات کا ہو یا روایتوں کا، سب جگہ زوال ہے اور یہ زوال تیزی کے ساتھ ہماری زندگی کے تمام نقوش مٹاتا چلا جا رہا ہے، نہ روایتیں ہیں نہ اقدار ہیں، نہ تہذیب ہےاور نہ تمدن، ہر گوشہ اور ہر حلقہ اندھیروں میں ڈوبا ہوا اور سسکیاں لیتا ہوا۔‘‘ (اسلامی زندگی، ص:۷۱)

’’فطرت شناس اسلام نے اپنے ماننے والوں کو کسی کی بھی گوشۂ زندگی میں رہنمائی سے محروم نہیں رکھا، وہ جلوت سے لے کر خلوت تک، اجتماعی صورتوں سے لے کر انفرادی حالتوں تک، اپنی ذات سے لے کر دوسروں سے روابط و تعلقات تک سب کو اس انداز میں بیان کرتا اور لے کر چلتا ہے کہ دنیا کے کسی مذہب نے اس طور پر رہبری کا فریضہ انجام نہیں دیا۔‘‘ (اسلامی زندگی، ص:۱۹۹)

’’ہماری اور ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی کمزوری اور بڑا عیب یہ ہے کہ ہم نتائج اور عواقب پر نظر ڈالے بغیر اور اس سے بے پرواہ ہو کر کہ انجام کیا ہوگا اور کن مسائل سے ہم دوچار ہوںگے غیروں کی تقلید اور ان کی نقل میں دلچسپی ہی نہیں لیتے بلکہ اتنا آگے بڑھ جاتے اور غلو کرتے ہیں کہ جن کی نقل ہم نے کی وہ بھی حیران نظروں سے ہمیں دیکھتے لگتے ہیں۔‘‘ (اسلام اور ہمارے اعمال، ص:۲۲۴)

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare