بامبے ۱۸۹۶ ء : طاعون کی وبا ء سے چھ سال سفر حج بند

سعید حمید

ہم نے کرونا دور میں دیکھا کہ مسجدیں بند ہوئیں ، مسجدوں پر تالے لگ گئے ، یہاں تک کہ حج بھی موخر ہوا ، اور کوئی حاجی حج نہیں کرسکا ، ایسی صورتحال 1896 ء میں پیدا ہوئی تھی جب طاعون کی وبا ء پھیل جانے کی وجہ سے باب مکہ کہلائے جانے والے بامبے شہر سے بحری جہازوں کے ذریعہ سفرحج کی روانگی کا سلسلہ ۱۸۹۶ ء میں روک دیا گیا تھا ۔ سفر حج پر چھ سال تک یہ پابندی عائد رہی ۔ بامبے سے تمام ممالک کو بحری جہازوں کی روانگی پر پابندی تھی اور کسی بھی باہری بحری جہاز کا بامبے آنا ممنوع تھا ۔ طاعون کی وبا ء کو پھیلنے سے روکنے کیلئے یہ قدم اٹھایا گیا تھا ۔ بامبے سے انڈیا ہی نہیں بلکہ کئی سنٹرل ایشیائی ممالک کے مسلمان بھی حج کیلئے جاتے تھے ، وہ بار بار بامبے آتے تھے ، کہ مکہ جائیں لیکن ہر بار انہیں واپس کردیا

بامبے ۱۸۹۶ ء : طاعون کی وبا ء سے چھ سال سفر حج بند
بامبے ۱۸۹۶ ء : طاعون کی وبا ء سے چھ سال سفر حج بند

جاتا تھا ۔ طاعون کا مرض بامبے میں ہی پہلی بار پھوٹ پڑا تھا ۔ مانڈوی میں پریکٹس کرنے والے ایک یہودی ڈاکٹر نے بامبے میں طاعون کا سب سے پہلا کیس دریافت کیا تھا ۔ حکام نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ چوہوں کے ذریعہ یہ مرض پھیلتا ہے ، جس کا اس وقت کوئی علاج نہیں تھا ۔ جدہ ، مکہ ، مدینہ کے حکام نے اس ڈر سے کہ کہیں حاجیوں اور دیگر بحری جہازوں سے چوہے وہاں نا آجائیں او ر طاعون کی بیماری وہاں بھی نا پھیل جائے ، بامبے سے حاجیوں کے جہاز کی روانگی پر پابندی عائد کردی تھی ۔

اس دوران ڈاکٹر ہیفکن (Dr. Waldemar Haffkine) نامی ایک روسی BACARIOLOGIST

کو ممبئی مدعو کیا گیا ، انہوں نے بامبے کے گرانٹ میڈیکل کالج ، جے جے اسپتال کے ایک حصہ میں اپنی لیباریٹری قائم کی ، انہوں نے طاعون کی روک تھام کیلئے وہاں ایک ویکسین ایجاد کی ۔ یہ ہیفکن انسٹیٹیوٹ کی ابتدائی شکل تھی ، جو جے جے اسپتال میں پلیگ ریسرچ لیباریٹری کے نام سے ۱۸۹۹ ء میں قائم کی گئی تھی ۔ پلیگ یا طاعون پر قابو پانے میں تقریباً پانچ ، چھ برس لگے ۔

آخر کار سرکاری طور پر طاعون کی وبا ء پر قابو پانے کا اعلان ہوجانے کے بعد ۱۹۰۲ ء میں حج کیلئے بحری سفر کا بامبے سے آغاز کیا گیا ۔اس پابندی کے ختم ہوتے ہی سب سے پہلے ایک ہزار حاجی بامبے آئے تاکہ سفر حج کیلئے جاسکیں اور برٹش انڈیا کے صوبوں سے تعلق رکھنے والے تین ہزار ۳۷۶ حاجی واپس اپنے گھروں کو روانہ ہوئے ، جو حج کرکے واپس آئے تھے ۔

اس طرح طاعون کی وبا ء نے جس طرح برٹش انڈیا کے مسلمانوں کا سفر حج کا سلسلہ بندکردیا تھا ، اور جس کی وجہ سےمسلمانان ہند میں شدید مایوسی تھی ، غصہ بھی تھا ، وہ سفر حج کے دوبارہ شروع ہونے سے ختم ہوا ۔جس سال حج دوبارہ شروع ہوا ، اس سال بہت کم حاجی بامبے آئے اور حج کیلئے روانہ ہوئے ۔

۱۹۰۲ ء میں تو حج کے لئے جانے والے حجاج کرام کی اس سال تعداد بہت ہی کم تھی ۔لیکن اس کے دوسرے سال یعنی ۱۹۰۳ ء میں حج کے لئے جانے والے عازمین کی تعداد میں بڑا اضافہ ہوا ۔ اس سال آٹھ ہزار سات سو مسلمان حج کیلئے روانہ ہوئے تھے ۔

البتہ ، ۱۹۰۴ ء میں بامبے سے حج کیلئے جانے والے برٹش انڈیا کے مسلمانوں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا ۔ ۱۹۰۴ ء میں سولہ ہزار ۵۹۳ عازمین بامبے سے حج کیلئے روانہ ہوئے تھے ۔

بامبے کے پولس کمشنر ( جو بھارت کی پہلی حج کمیٹی کے چیرمین بھی تھے )نے جن کے ذمہ حجاج کرام کے سفر حج کی ذمہ داری تھی ، حاجیوں کی تعداد میں اس اضافہ کا سبب یہ بتایا کہ ۱۹۰۴ ء کا حج در اصل حج اکبر تھا ، ہر دس سال میں حج اکبر ہوا کرتا تھا ، اس لئے حج اکبر میں فریضہ حج ادا کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہوگئی ۔

لیکن اعداد و شمار کے مطابق حج اکبر سے بھی قطع نظر ، ہر سال حاجیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا ۔۱۹۰۵ ء میں انیس ہزار حجاج کرام حج کیلئے جدہ روانہ ہوئے تھے ، اور ان میں سے صرف چوہ ہزار واپس آئے ۔ اس طرح ۱۹۰۶ ء میں بندرگاہ بامبے سے چوبیس ( ۲۴ ) ہزار تین سو عازمین حج کیلئے گئے اور صرف سولہ ہزار واپس آئے ۔ جو حجاج کرام بامبے سے جارہے تھے ، ان میں برٹش انڈیا کے حاجیوںکے علاوہ سیلون، جاوا، بخارہ ، ترکستان اور سنٹرل ایشیا کے دیگر ممالک کے مسلمان بھی شامل تھے ۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare