بہار اسمبلی انتخاب – حقیقی صورت حال
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
انتخاب سر پر سوار ہے،پورے ہندوستان کی نگاہ اس وقت بہار پر لگی ہوئی ہے، مختلف پارٹیوں نے اپنے امید واروں کے ناموں کو آخری شکل دیدی ہے، جنہیں ٹکٹ ملا، وہ شاداں و فرحاں ہیں اور جنہیں نہیں ملا ان میں سے کچھ روپیٹ کر، گڑگڑا کر اپنی بربادی کا ماتم کر کے رہ گیے، کچھ نے احتجاج، دھرنے اور مخالفت میں نعرہ بازی کی راہ اپنائی، ان کے باغیانہ تیور سے سیاسی پارٹیاں پریشان ہیں، بغاوت کرنے والے دوسروں کے ساتھ ساتھ پارٹی سر براہان کے گھر کے لوگ بھی ہیں، گویا مخالفت اندر سے بھی ہو رہی ہے اور باہر سے بھی، سیاسی رہنماؤں کا ایک طبقہ وہ بھی ہے، جنہیں بہار کی سیاسی جماعتوں سے مایوسی ہوئی تو انہوں نے آزاد امیدوار بننا پسند کیا اور بغاوت کے علم بردار ہوگیے، غریبوں کا سہارا لے کر کچھ خود رو پارٹیاں اور امیدوار بھی میدان میں ہیں، ایک اور پارٹی مسلمانوں کے نام پر سیمانچل اور بہار میں کود پڑی ہے، اس طرح آثار یہی ہیں کہ حسب سابق ماضی کی طرح سیکولر کہے جانے والے ووٹ منتشر ہو جائیں گے، انتشار پارٹیوں ہی میں نہیں، ان کے نصب العین اور منشور میں بھی ہے، سیکو لر کہی جانے والی پارٹیوں کی شبیہ عوام میں یہی بنی ہے کہ یہ سب اپنے خاندان کو سیاست میں آگے لے جانا چاہتے ہیں، بیٹا، بیوی، بہو، بھائی، بھابی کابول بالا ہے۔

سیاست کی پچ پر بیٹے، بیٹیوں اور رشتہ داروں کو اتارنے میں سبھی سیاسی پارٹیاں بہت دیالو اور دلدار واقع ہوئی ہیں، سب سے زیادہ رشتہ دار امیدوار جدیو اور راجد کے ہیں، اعداد وشمار کے اعتبار سے دیکھیں تو بی جے پی میں 14، جدیو میں 19، ہم میں 4، راشٹریہ لوک مورچہ میں 3، ایل جے پی آر میں 3، آر جے ڈی میں 19، وی آئی پی میں 02، کانگریس میں 03، بھاکپا میں 01، جن سوراج میں 02 امیدوار رشتہ دار ہیں، دوسری طرف کئی خاندان ایسے ہیں جن کی سیاسی وراثت پر زوال آیا ہے، اوشا سنہا، راما سنگھ، رمنی رام وغیرہ کے خاندان سے کوئی بھی انتخابی میدان میں نہیں ہے، چند نامور سیاسی لوگوں کی بات کریں تو بوچہاں سے نو (9) بار رکن اسمبلی لالو، رابڑی اور نتیش کمار کی حکومت میں وزیر کی حیثیت سے کام کرنے والے رمئی رام کا خاندان بھی انتخابی دوڑ سے باہر ہوگیا ہے، انہوں نے اپنی بیٹی گیتا کماری کو ایم ایل سی بنوایا تھا، جو بی جے پی میں شامل ہوگئی تھیں، اب کی بار یہ سیٹ لوجپا کے کھاتے میں چلی گئی، اس طرح رمئی رام کا خاندان غائب ہوگیا، 1967 کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ رمئی رام کی سیاسی پچ بوچہاں ان کے ہاتھ سے نکل گئی ہے، لکھی سرائے سے پلادیادو کے خاندان کا بھی صفایا ہوگیا ہے، ایک زمانہ میں لکھی سرائے کی سیاست کے مرد میدان سمجھے جانے سورج گڑھ سے رکن اسمبلی پرملاد یادو 30 سال بعد خیاؤ باہر ہیں 2024 میں اسمبلی آر جے ڈی سے پالاد کی بی جے پی کے خیمہ میں آنے والے پلاد یادو پہلی بار 1995 میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے جیت حاصل کر آر جے ڈی میں شامل ہوگیے تھے، 2025 کے انتخاب میں این ڈی اے اور انڈیا اتحاد دونوں میں سے کسی نے ٹکٹ نہیں دیا اور وہ کلین سوپ ہوگیے، یہی حال سیوان میں اوما شنکر سنگھ کے خاندان کا ہوا، سیوان میں اوما شنکر سنگھ کے لڑکا جتندر سوامی ان کے خاندان کے سیاسی وارث تھے، اس بار انہوں نے دونوں اتحاد پر ٹکٹ بیچنے کا الزام لگاکر انتخاب سے دوری بنالی ہے، ویشالی سے راجندر رائے کی بیوی کا ٹکٹ کٹنے کی وجہ سے ان کی دوری سیاست سے بڑھ گئی گو ان کی بہو ابجا یادو محی الدین نگر سے آر جے ڈی امیدوار ہیں، لیکن سیاسی چمک اور رونق ختم ہوگئی ہے، مدھے پورا سے شرد یادو کی سیاسی وراثت بیٹی سبھاشنی اور بیٹا شانتو مندیلا کے ذریعہ جاری تھی، اس بار دونوں رن آؤٹ ہوگیے ہیں، کھگڑیا کے رام شرن یادو اور رن ویر یادو کا خاندان بھی امسال پچاس سال بعد کیک آؤٹ ہوگیا ہے، حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ شیخ پورہ سے بہار کے پہلے وزیر اعلیٰ ”بہار کیسری شری کرشن سنگھ کا خاندان بھی سیاست میں اپنی شناخت کے لیے تگ ودو کر رہا ہے، 2015 میں ان کے پر پوتے انیل شنکر سنہا نے این سی پی سے بر بگہا سے چناؤ لڑا تھا، لیکن انہیں صرف 4420 ہی ووٹ ملے تھے، اس بار ہر پارٹی نے ان کو باہر رکھا ہے۔
اس موقع سے بڑے پیمانے پر آیا رام، گیا رام بھی خوب ہوا ہے، اور حسب سابق سیاسی پارٹیوں نے ٹکٹ دے کر اس رویہ کی حوصلہ افزائی کی ہے،اس کا مطلب ہے کہ ہمارے رہنماؤں میں قدروں کے تحفظ کا احساس ختم ہوتا جا رہا ہے اور کسی بھی طرح کسی بھی قیمت پر اسمبلی پہونچنے کی حرص وہوس شباب پر ہے، دوسری طرف مقابل پارٹی کا صرف ایک ایجنڈا ہندوتو اہے، جس کے سہارے وہ اس ملک کو ہندو راشٹربنانا چاہتی ہے، گو اس کا زکو دنیا کی واحد ہندو ریاست نیپال کے ہندو راشٹرنہ بننے اور آئینی طور پر اسے مسترد کرنے کے نتیجے میں سخت دھکا لگا ہے، لیکن اتنی مایوسی بھی نہیں ہے کہ اس نعرہ سے فرقہ پرست طاقتیں باز آجائیں، دوستانہ مقابلے اور ووٹوں کو گول بند کرنے اور مقصد کے حصول کے لیے حلیف اور معاون پارٹیاں بھی کم سے کم جگہوں پر دوستانہ مقابلہ کے نام سے آمنے سامنے ہیں، ہر پارٹی اپنے ماڈل کی بات کر رہی ہے،
کوئی بہار کو گجرات ماڈل بنانا چاہتا ہے اور کوئی یوپی ماڈل، بہار میں ممبئی کی چکاچوند لانے کی بات بھی کہی جا رہی ہے اور ان نعروں میں ” بہاریت“کہیں گم ہوتی جا رہی ہے، ”بہاریت “ کا مطلب علاقائی تعصب نہیں، اس کا مطلب بہار کے مفادات سے ہے،بہار کی اپنی تہذیب ہے، اپنے مسائل ہیں، اپنی ضرورتیں ہیں، اپنا جینے کا انداز ہے اور ترقی کے اپنے منصوبے ہیں، جو نہ گجرات ماڈل سے پورا ہونے کو ہے اور نہ یوپی ماڈل سے، خصوصاََ جب ان ماڈلوں میں مسلمانوں کی نسل کشی، سینکڑوں فسادات میں بہے خون، ماؤں بہنوں کی لٹتی عصمتیں، نیزوں پر اچھالے گیے بچے، ان کا ؤنٹر(In Counter) کے نام پر قتل کیے گیے جوان، خاکستر دکانیں، قید و بند کے نام پر جیلوں میں سڑ رہے بے قصور مسلمان اور ان سب کی کربناک چیخیں کانوں میں گونج رہی ہوں، گودھرا، سورت، بڑودڑہ، مراد آباد، مظفر نگر، بھاگلپور اور اس جیسے کتنے قصبات وشہر اس خونیں تاریخ کے گواہ ہیں، ایسے میں بہار کے رائے دہندگان نہ گجرات ماڈل کی طرف جائیں گے، نہ یوپی ماڈل کو پسند کریں گے، ان حالات میں رائے دہندگان کو انتہائی ہوشیاری سے اپنی رائے کا استعمال کرنا چاہیے، کیونکہ فرقہ واریت سے متأثر پارٹیوں نے انتہائی منصوبہ بندی کے ساتھ اپنے مہرے بساط پر لگا دیے ہیں، اس منصوبہ بندی کا حاصل یہ ہے کہ اسی فی صد ووٹوں کو ایک خاص پارٹی کے نام پر گول بند اور متحد کر لیا جائے، اور بیس فی صد ووٹ کو کسی بھی طرح کسی بھی قیمت پر منتشر کر دیا جائے، ایک ذات اور ایک مذہب کے کئی کئی آزاد امیدوار کو میدان میں اتار دیا جائے، انہیں کثیر رقم فراہم کرائی جائے، تاکہ ہارنے کے بعد بھی سالوں وہ اپنی معاش کے لیے محتاج نہ ہوں اور اگر تیز طرار ہوں تو آگے زیادہ ووٹ کاٹنے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کر لیں، ان سازشوں اور مکر جالوں سے کس طرح بچا جائے اور کس طرح ان سازشوں کو ناکام کیا جائے، وہ ہر حلقۂ انتخاب کے لوگوں کو اپنے اپنے طور پر سوچنے کی چیز ہے، کیونکہ امید واروں کے اعتبار سے ہر حلقے میں حکمت عملی ایک نہیں ہو سکتی،
اس حکمت عملی کی تشکیل میں ایک بات مشترک ہو سکتی ہے کہ سیکولرزم کا نعرہ لگانے والے جس حلقے میں جوامید وار جیتنے کی پوزیشن میں ہوں، خواہ وہ کسی پارٹی کے ہوں اور کسی نشان سے امید وار ہوں، اس کو جتانے کی جد وجہد کی جائے اور ووٹ کاٹنے والے امید واروں کی اتنی حوصلہ شکنی کی جائے کہ آئندہ وہ اس قسم کی حرکتوں کے لیے حوصلے نہ جٹا پائیں، چند ایسے حلقے بھی ہو سکتے ہیں، جہاں کے امیدوار نے ایمانداری سے حلقہ میں ترقیاتی کام کیا ہوگا اور وہ حالات کی ستم ظریفی سے نمدہ کی طرح کسی کی دم سے لٹک گیے ہوں، ان کے کاموں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اور انہیں بھی کامیاب کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
جہاں تک مسلمانوں کی حصہ داری کا سوال ہے تو واقعہ یہ ہے کہ ہر پارٹی نے مسلمانوں کے ساتھ ٹکٹ دینے میں نا انصافی سے کام لیا ہے، اور انہیں مناسب نمائندگی نہیں دی گئی ہے۔جب ٹکٹ ہی نہیں دیے گیے تو آبادی کے اعتبار سے انہیں جیتنے اور اسمبلی میں جانے کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے؛ بلکہ ماضی کی تاریخ بتاتی ہے کہ جو ٹکٹ مسلمانوں کو دیے جاتے ہیں، پارٹی عام حالات میں ان کی جیت کو یقینی بنانے کی جد وجہد نہیں کرتی اور کئی ایک کو شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں سب پارٹی کے مسلم امید وار جیت کر مجموعی طور پر اسمبلی نہیں پہونچ سکتے اور اگر تمام پارٹیوں کے مسلم امید وار جیت کر اسمبلی پہونچ جائیں تو بھی آبادی کے تناسب سے ان کی نمائندگی کم ہی رہے گی۔
اس اجمال کی تھوڑی تفصیل یہ ہے کہ عظیم اتحاد میں 2020 کے بہار اسمبلی انتخاب میں پانچ پارٹیاں شامل تھیں، اس بار سات پارٹیاں شامل ہیں، 2020میں عظیم اتحاد نے 32 مسلم امیدوار اتارے تھے، سی پی آئی کے کل چھ اور سی پی آئی ایم کے چار امیدوار میدان میں تھے، اول الذکر میں مسلمانوں کی 1.06 اور ثانی الذکر میں 0.71 مسلمانوں کا حق تھا، مگر ان دونوں نے پورا حق مسلمانوں کا مار لیا، 2025 میں عظیم اتحاد کی سات پارٹیوں میں سے چار نے ایک بھی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیا ہے اور مسلمانوں کا پورا حق غائب کردیا، اس کا مطلب ہے کہ وی آئی پی کے کل پندرہ امیدوار میں 2.65 مسلمانوں کا حق تھا جو انہوں نے نہیں دیا ان کے امیدوار جو مغربی چمپارن کے سگولی حلقہ سے تھے، ششی بھوشن سنگھ نام تھا، ان کی امید واری تکنیکی وجوہات سے قبول نہیں ہوئی، اس طرح اب ان کے چودہ امیدوار میدان میں ہیں، سی پی آئی کے کل نو امیدوار میں 1.59 مسلمانوں کا حق تھا، جو نہیں دیا گیا، سی پی آئی ایم کے چار امیدواروں میں 0.71 اور انڈین انکلوزیو پارٹی کے تین امیدواروں میں مسلمانوں کا 0.51 حق تھا جو اسے نہیں مل سکا، سی پی ایم آئی ایل (کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسٹ، لیننٹ کے امیداروں میں 3.54 مسلمانوں کا حق تھا، اس نے صرف دو مسلمانوں کو اپنی پارٹی سے امیدوار بنایا اور 56.50فی صد ہی مسلمانوں کا حق دیا، جب کہ ان کے امیدواروں کی تعداد 20 ہے، انڈین نیشنل کانگریس نے 62 امیدواروں میں 10 مسلمانوں کو ٹکٹ دیا، یہ فی صد کے اعتبار سے 91.16 ہے، راشٹریہ جنتا دل نے 2025 کے انتخابی دنگل میں 143 امیدوار اتارے، اس میں مسلمانوں کا حق 72.8 بنتا ہے، اس پارٹی سے انیس ٹکٹ پانے میں مسلمان کامیاب ہوئے، اس طرح راجد نے مسلمانوں کو 75.7 فی صد ہی حق دیا، کیمور کے موہنیا سے شویتا سمن کی امیدواری رد کردی گئی ہے، اس طرح اب اس پارٹی کے 142 امیدار میدان میں رہ گیے ہیں۔
یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ بہار میں مسلمانوں کی آبادی 17.7 فی صد ہے، اس حساب سے انڈیا اتحاد کو پر مجموعی طور پر 43 امیدواروں کو ٹکٹ دینا چاہیے تھا، جو وجود پذیر نہیں ہوا، مسلمان امیدواروں کی تعداد صرف 31 ہے، چند سیٹوں پر انڈیا اتحاد کی پارٹیاں دوستانہ مقابلہ پر ہیں، اس طرح انڈیا اتحاد کے امیدواروں کی تعداد 255 ہوگئی ہے، اس نقطۂ نظر سے کم از کم پینتالیس امیدوار مسلمان ہونے چاہیے۔
این ڈی اے سے مسلمانوں کو نہ پہلے امید تھی اور نہ اب ہے، اگر امیدواروں کا ذات برادری کی بنیاد پر تجزیہ کریں تو معلوم ہوگا کہ این ڈی اے نے 35 فی صد بڑی ذات والوں کو ٹکٹ دیا ہے، جب کہ انڈیا اتحاد نے 45% فی صد دلت اور پچھڑوں پر ٹکٹ دینے میں توجہ مرکوز رکھی ہے، مجلس اتحاد المسلمین مسلمان، مسلمان کہہ کر غیرمسلموں کو ٹکٹ دینے میں آگے رہی، سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ ڈھاکہ مشرقی چمپارن کی خاص مسلم سیٹ پر راجد کے فیصل رحمان کے مقابل رانا رنجیت سنگھ کو اتارا ہے، مطلب یہ ہے کہ جو مسلمانوں کو اس کا حق دلانے کے لیے آئی تھی، وہ خالص مسلم سیٹ پر بھی مسلمانوں کا حق مارنے پر تُلی ہوئی ہے۔
مالی اور معاشی طورپر مضبوط امیدواروں کو جاننا چاہیں تو دس کروڑ اور اس سے زائد مالیت رکھنے والے امیدوار انڈیا اتحاد میں 28 اور این ڈی اے میں 22 ہیں، سرفہرست رہنے والے مالدار امیدواروں میں این ڈی اے سے ڈاکٹر کمار پشینج جدیو بربگہا، 71.57 کروڑ، منور مادیوی جدیو بیلاگنج 45.8کروڑ، سدھارتھ سوربھ بی جے پی بکرم 42.87 کروڑ، اور انڈیا اتحاد میں دیو کمار چورسیا راجد حاجی پور 67 کروڑ، دیپک یادو راجد نرپت گج 42 کروڑ، ارونا گپتا راجد برہریا 40.9کروڑ، مالیت کے ساتھ سب سے اوپر ہیں، علمی قابلیت کے اعتبار سے بھاجپا کے 9 پی ایچ ڈی امیدوار میدان میں ہیں، جب کہ راجد کے تین امیدوار ایم بی اے اور پانچ پی ایچ ڈی ہیں، ٹکٹ پانے میں این ڈی اے سے 35 اور انڈیا اتحاد سے 32 خواتین کامیاب رہی ہیں۔ حسب سابق امیدواروں میں صاف ستھری شبیہ کے لوگ کم اور داغدار زیادہ ہیں، صرف پٹنہ ضلع کی بات کریں تو ہر دو میں سے ایک امیدوار پر مقدمہ درج ہے اور ایک نہیں کئی کئی ہے، مکامہ سے جدیو کے اننت کمار سنگھ میدان میں ہیں،28مقدمات ان پر درج ہیں، اسی طرح باڑھ کے کرن ویر سنگھ یادو، راجد پر 15، داناپور سے امت لال رائے راجد پر 11، پالی گنج سے سُنیل کمار لوجپا (آر) 11، بکرم سے سدھارتھ سوربھ بھاجپا پر 07 مقدمات درج ہیں، اب گیند عوام کے پالے میں ہے، جمہوریت میں اسی کا فیصلہ آخری ہوا کرتا ہے۔









