بین مذاہب مکالمہ کی ضرورت و معنویت
عبدالحمید نعمانی
ملک اور عالمی سطح پر جس طرح سائنسی ترقی اور تعلیم و ابلاغ میں حیرت انگیز انقلابی تبدیلیوں کے باوجود، انسانی سماج مختلف قسم کے مذہبی، سماجی و تہذیبی مسائل سے دوچار ہے اور مذہب و شناخت کی بنیاد پر کئی طرح کے تنازعات و شدت پسندی و عدم برداشت نے مقامی و عالمی سطح پر امن و فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خطرے میں ڈال دیا ہے اس سے ایسے سوالات کھڑے ہو گئے ہیں جن پر سنجیدہ غور و فکر کر کے دیرپا حل نکالنے کی ضرورت از حد ہو گئی ہے، بہت سے تعلیم یافتہ افراد بھی تنازعات اور کشمکش کی جڑ میں مذہب کی کارفرمائی دیکھتے ہیں،

گزشتہ دنوں مولانا آزاد نیشنل یونیورسٹی حیدرآباد میں امن و ہم آہنگی، مذہبی تناظر میں، کے عنوان پر 8/9/اکتوبر 2025 کو دوروزہ بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی تھی، اظہار خیال کے لیے "امن و ہم آہنگی کے قیام میں بین المذاہب مکالمہ کا کردار”کا عنوان ہمیں بھی دیا گیا تھا، ہم نے محدود وقت میں مکالمے کے ضروری نکات و شرائط اور ضرورت و معنویت پر اسلام اور دیگر مذاہب اور منکرین مذاہب کے حوالے سے روشنی ڈالی، بدھ مت کے نمائندے، راجیش چندر نے امن و ہم آہنگی کے قیام میں مذاہب کے رول سے واضح الفاظ میں انکار کردیا، ہمارے مطالعہ و تحقیق کے مطابق مذاہب اور ان کے روحانی و مابعد الطبعیاتی امور کے انکار سے انسان کو درپیش بہت سے معاملات و سوالات، حل و جوابات طلب رہ جاتے ہیں اس تعلق سے کچھ عرصہ پہلے کنبھ میلے میں منعقد مذہبی ہم آہنگی کے عالمی کانفرنس میں بدھ مت کے نمائندوں کے سامنے ہم نے کئی بنیادی سوالات و نکات رکھے تھے، لیکن انہوں نے کانفرنس کے منتظم کرشن مہاراج کی توجہ و دعوت دینے کے باوجود کوئی جواب نہیں دیا تھا، اس کے باوجود ہم اب تک یہی مانتے ہیں کہ مکالمے کے دائرے میں اہل مذاہب و منکرین مذاہب دونوں کو لا کر امن و ہم آہنگی کے قیام کی راہ ہموار کرنے کی ضرورت ہے، ایک دوسرے سے تعارف و رابطہ قائم کر کے قرب و یگانگت کا بہتر وسیلہ و ذریعہ مکالمہ کے سوا کوئی اور نہیں ہے اور یہ کوئی خاص وقت اور چند معاملے تک محدود نہیں ہے بلکہ مکالمے کے دائرے میں وہ تمام مسائل و امور آ سکتے ہیں، جن سے انسانی سماج کو سامنا و سابقہ پڑتا ہے اور مستقبل میں پیش آ سکتے ہیں،
اہل مذاہب اور منکرین مذاہب کے درمیان مکالمے کا دائرہ الگ الگ اور زیر مکالمہ مسائل میں درجہ بندی ضروری ہے تاکہ باتیں گڈ مڈ ہو کر بے نتیجہ و بے معنی نہ ہو جائیں، اہل مذاہب سے ابتدائی مرحلے میں عقائد کے اختلافی امور کے بجائے مذاہب کے احکامات و تعلیمات کے مشترکہ امور کے تعلق سے قرپ و یگانگت اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی و امن کے قیام کے سلسلے میں مکالمہ ہوگا، جب کہ منکرین مذاہب سے مذہبی مسائل کے بجائے ایسے تہذیبی و سماجی و معاشی امور کے حوالے سے مکالمہ ہوگا، جو سماج میں امن و ہم آہنگی کے قیام میں معاون ہوں گے، عموما دیکھا جاتا ہے کہ بدھ مت والے میانمار اور سری لنکا وغیرہ میں بدھوں کی طرف سے فرقہ وارانہ تصادم کو نظرانداز کر کے باتیں کرتے ہیں، وہاں کے کئی بدھ لیڈر فرقہ پرست ہندوتو وادی عناصر کی طرح نفرت انگیز زبان کا استعمال کرتے ہیں، بریلی واقعہ پر کئی لیڈر ،بجرنگ دل، وشو ہندو پریشد وغیرہ کے ساتھ کھڑے نظر آئے، اس سلسلے میں مذہب کا حوالہ راست رویہ نہیں ہے، دونوں عالمی جنگ عظیم میں بھی اصل مذہب کا براہ راست کوئی عمل دخل نہیں ہے، مذہب کا غلط استعمال اور اس کے نام پر اپنے تفوق کے لیے جنگ اور تشدد، سیاسی تفوق پسندی کا حصہ ہے نہ کہ مذاہب کی اصل تعلیمات کا حصہ، جو لوگ، سماج اور انسانی زندگی میں مذاہب کے رول کے منکر ہیں ان کے لیے مذاہب پر بحث و گفتگو کا زیادہ جواز نہیں ہے ،مذہب کا اثبات و انکار کو لے کر بحث، مناظرہ ہے نہ کہ امن و ہم آہنگی کے قیام کے لیے تعمیری و مثبت مکالمہ، مکالمہ میں جدال و مناظرانہ طرز اپنانا پوری طرح غلط اور مکالمہ کے آداب و شرائط اور موضوعات کے خلاف ہے، امن و فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے قیام میں منفی و جارحانہ طرز اختیار کرنا ،اصل مقاصد مکالمہ کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے، اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ دنیا میں مذاہب اور ان کے ماننے والوں کے درمیان اختلافات ہیں، ان سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے اگر اختلافات اپنے حدود میں رہیں تو فکر و تشویش کی کوئی بات نہیں ہے کہ اختلافات فطری ہیں، لیکن یہ اختلافات مخالفت و عداوت میں نہ بدل جائیں اور باہمی تصادم، قتل و غارت گری اور فسادات کی شکل نہ اختیار کر لیں، اس کے لیے تعمیری و مثبت مکالمہ کی بڑی ضرورت ہے، پر امن و صالح معاشرے کی تشکیل و تعمیر، مہذب انسانی طبقے کا نصب العین رہا ہے، صالح معاشرے کی تشکیل کے صالح احساس نے ہمیشہ سے باہمی صلح و امن کے قیام کے لیے بین مذاہب مکالمہ کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے، اس کی ضرورت، ملک و معاشرہ کی سطح پر بھی ہے اور عالمی سطح پر بھی، تاہم یہ مطلق نہیں ہے بلکہ اس کے کچھ آداب و اصول اور شرائط و حدود ہیں، مکالمہ بین المذاہب والناس کے بہتر نتائج و اثرات اسی وقت مرتب و برآمد ہوں گے، جب حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے باہمی اختلافات کے حق آزادی کو کشادہ دلی اور وسعت ذہن کے ساتھ قبول کر کے ایک دوسرے کو آزادانہ زندگی گزارنے اورجیو و جینے دو کی راہ پر چلا جائے اور کسی بھی عقیدہ و عمل کو ترک و اختیار کی پوری آزادی ہو اور اس سلسلے میں کسی طرح کا غلط دباؤ و جبر کا کوئی عمل دخل نہ ہو، آج کے بھارت میں بھی اس کے لیے ماحول بنانے کی بڑی ضرورت ہے، گزشتہ دنوں آر ایس ایس کے صدسالہ دہلی اجلاس اور ناگپور اور دیگر جگہوں پر اس کے سربراہ ڈاکٹر بھاگوت کے خطابات و بیانات سے پیدا شدہ حالات اور اسی حلقے سے تعلق رکھنے والے لیڈروں کے فرقہ وارانہ نفرت انگیز بیانوں سے پیدا صورت حال میں مختلف حلقوں میں باہمی مکالمات و مذاکرات کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے، لیکن بیشتر لوگوں کے ذہن میں مکالمے کے موضوعات و دائرے کو لے کر کوئی واضح نکات نہ ہونے کی وجہ سے وہ تذبذب و کنفیوژن میں مبتلا ہیں، مختلف مواقع و اوقات میں انفرادی اور کسی حد تک وفد کی شکل میں بھی تبادلہ خیالات و مکالمات بھی ہوئے ہیں لیکن ان کے کوئی بہتر ثمرات و اثرات سامنے نہیں آئے ہیں، دیکھا جا رہا ہے کہ گزرتے دنوں کے ساتھ، ہندوتو وادی عناصر میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت و جارحیت میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے، کہیں کہیں تھوڑی بہت مثبت تبدیلی بھی نظر آتی ہے، کئی سارے غیر مسلم، اسلام اور مسلمانوں کے متعلق اختیار کردہ رویہ و روش پر تنقید کے ساتھ ان کا دفاع بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں تاہم یہ کچھ باتوں کے متعلق اپنے تحفظات کا بھی اظہار کرتے ہیں ایسی حالت میں ذی علم مسلم رہ نما و نمائندے رابطہ و تبادلہ خیال کر کے غلط فہمیوں کو دور کر کے ایسا ماحول پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں جس میں نتیجہ خیز مکالمہ کی راہ ہموار ہو سکے، ابھی تک سنگھ سربراہ سے بات چیت میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور متحدہ قومیت کی تھوڑی بہت بات سامنے آئی ہے، ضرورت تو اس کی ہے کہ دیرپا فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور امن کے قیام کے لیے تمام متنازعہ مسائل کو زیر بحث و مکالمہ لایا جائے، یہ امر بھی انتہائی قابل توجہ ہے کہ بہتر ثمر آور مکالمہ، فریقین کے عقائد و روایات کو جاننے سمجھنے کے بعد ہی ہو پائے گا، ڈاکٹر بھاگوت کئی طرح کے مذہبی و تہذیبی مسائل پیش کر کے سامنے والے کو ایک مخصوص سمت میں لے جانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں، جب کہ جو مسلم دانش ور ڈاکٹر بھاگوت سے تبادلہ خیالات کے لیے جاتے ہیں ان کے ذہن میں کچھ الگ قسم کے چند مسائل ہوتے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے دیگر مسائل کو لے کر بھی کوئی زیادہ دقت نہیں ہے، ان کی پوزیشن بھارت سے وطنی وابستگی اور قومیت کو لے کر بالکل واضح ہے، اس سلسلے میں سنگھ والے اور دیگر ہندوتو وادی عناصر، بے مسئلہ کو مسئلہ بنا کر اصل مسائل سے سماج اور ملک کی توجہ ہٹانے کا کام کرتے ہیں، رام، کرشن وغیرہ مسلمانوں کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے، اس کے برعکس یہودی، عیسائی اور ہندو سماج ایک حصے نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو مسئلہ بنا لیا ہے، مسلمان تمام عظیم شخصیات کو بہ نظر احترام دیکھتے ہیں، موجودہ صورت حال میں بھی مسلم قیادت کے لیے مکالمہ کا انکار مفید نہیں ہے، اس سے اسلام اور مسلم مخالف رجحان والے، ان کو امن و ہم آہنگی کا مخالف قرار دے کر مشترکہ سماج کو بھٹکانے کا کام کریں گے، ویسے بھی مسلمانوں کے لیے مکالمہ، مذاکرہ اور معاہدہ امن کوئی نئی و اجنبی بات نہیں ہے، اس کی مثال و نمونہ اسلامی تاریخ و سیرت میں میثاق مدینہ، صلح حدیبیہ اور نجران کے عیسائیوں سے معاہدہ کی شکل میں موجود و مندرج ہے، طریقہ کار کی نشاندہی، قرآن مجید نے ولا تجالوا اھل الکتاب الا بالتی ھی احسن(سورۃ عنکبوت آیت 46)سے کر دی ہے، یعنی جدال کے بجائے مکالمہ کے احسن طریقے کو اختیار کیا جائے، تاہم بعد کے دنوں میں مکالمہ کی قیادت مسلم سماج سے نکل کر عیسائی کمیونٹی کے پاس چلی گئی ہے، تقریبا دو صدی پہلے مشرق و مغرب کے درمیان ٹکراؤ کے حالات پیدا ہوئے تو ضرورت محسوس ہوئی کہ مختلف مذاہب کے حاملین ایک جگہ جمع ہو کر امن عالم کی بحالی اور ایک دوسرے کو جاننے سمجھنے کی کوشش کی جائے، اس احساس کے تحت 1893 میں امریکہ کے شکاگو میں ایک عالمی مذہبی کانفرنس منعقد کی گئی، جس میں مسلم، عیسائی رہنماؤں کے علاوہ دیگر مذاہب کے نمائندے بھی شامل ہوئے، ہندو دھرم کے نمائندے کے طور پر سوامی وویکا نند شریک ہوئے تھے، اس کے بعد سے مکالمہ بین المذاہب کا سلسلہ شروع ہوا، اس کے باوجود کہ مکالمہ بین المذاہب کی قیادت عیسائی کمیونٹی کے ہاتھوں میں رہی، یہ فائدہ ضرور ہوا کہ مغرب و یورپ میں اسلام، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی جو حد سے زیادہ منفی و مکروہ شبیہ بنا دی گئی تھی ،اس میں کمی و تبدیلی کا آغاز ہوا اور کسی حد تک سنجیدگی و ہمدردی سے غور و فکر کا سلسلہ شروع ہوا، اس میں مسلم اہل علم کا خاصا دخل ہے، اس تناظر میں 1962/1965کا درمیانی دور بہت اہم اور قابل توجہ ہے، جس میں ویٹیکن سٹی کونسل نے جدید دنیا سے رشتہ استوار کرنے کے ساتھ دیگر مذاہب والوں سے مکالمہ کو ضروری قرار دیتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں کا ذکر خاص طور سے کیا ،اس تناظر میں جب مسلم اہل علم کی پروگراموں میں شرکت کا سلسلہ شروع ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ان کے اصرار و توجہ سے کلیسا کے قدیم موقف میں تبدیلی آئی، اس سے واضح طور سے مکالمہ کی ضرورت و معنویت ثابت ہوتی ہے، اس کا نمونہ مانو یونیورسٹی حیدر آباد میں بھی نظر آیا، حالات کے مد نظر پہلے مرحلے میں مذاہب کے تہذیبی و سماجی و اخلاقی مسائل کو موضوعات مکالمہ میں شامل کرنا زیادہ نتیجہ خیز ہو گا، عقائد اور مذاہب کی طرف منسوب کتابوں کی حیثیت پر بحث و گفتگو، بعد کے مرحلے میں رکھنا ہی بہتر ہو گا،