بیگم انیس قدوائی
معصوم مرادآبادی
بعض لوگوں کے لیے یہ سوال اہم ہوسکتا ہے کہ بیگم انیس قدوائی کون تھیں اور ان کا مشغلہ کیا تھا، لیکن جو لوگ اردو ادب اور آزادی کی تاریخ سے دلچسپی رکھتے ہیں، ان کے لیے یہ نام نیا نہیں ہے۔ بیگم انیس قدوائی مجاہد آزادی، اردو کی بہترین انشاء پرداز،مزاح نگار، خاکہ نگار اور تاریخ نویس تھیں۔ان کی تحریروں میں ایسی چاشنی اور دلکشی پائی جاتی ہے کہ انھیں پڑھ کر دیرتک لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے۔ان کے لکھے ہوئے بہترین خاکوں کا مجموعہ ”اب جن کے دیکھنے کو۔۔“جن لوگوں کی نظروں سے گزرا ہے، وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ وہ خاکہ نگاری میں اپنی مثال آپ تھیں اور ایسے بہترین کردار تراشتی تھیں کہ انھیں اپنے وجود میں اتارنے کو جی کرتا ہے۔انھوں نے بہترین طنزیہ اور مزاحیہ تحریریں لکھیں اور اردو ادب کو مالامال کیا، مگر المیہ یہ ہے کہ آج تک ان کی یہ تحریریں ارباب علم وادب کی توجہ حاصل نہیں کرسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا تعارف علمی اور ادبی حلقوں میں عام نہیں ہے۔ان کی سوانح عمری ترتیب دینے والے انور صدیقی کے لفظوں میں:

”حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ اردو ظرافت پر لکھنے والوں نے انھیں یکسر فراموش کررکھا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہم عرصے سے صرف پرْشور عظمتوں کی طرف متوجہ ہونے کے عادی ہوگئے ہیں اور معمولی کے غیر معمولی پن کو دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔یہ محرومی ہماری’اخلاقی ناخواندگی‘کا پتادیتی ہے۔ ہماری ادبی زندگی میں ادھر چندبرسوں میں انشائیہ میں دلچسپی کا احیا کم ہوا ہے۔ اس احیا کے نتیجے میں اچھے برے سبھی طرح کے انشائیہ نگاروں کی پرکھ کا کام خواہ وہ معیاری ہو یاغیر معیاری، ہوا ہے۔ ہماری ادبی تنقید کی یہ مجرمانہ غفلت کسی طرح بھی معاف نہیں کی جاسکتی کہ اس نے بیگم انیس قدوائی کے انشائیوں کو جن کے بغیر اردو انشائیے کا نسب نامہ مکمل نہیں کہا جاسکتا، نظرانداز کیا ہے۔ دیکھنا ہے کہ اتنا کچھ کہنے کے باوجود انیس ناشناسی کا دور کب ختم ہوتا ہے۔“ (انور صدیقی، ”غبارکارواں“ص11)
ان تاثرات کا اظہار انور صدیقی نے اب سے کوئی چالیس برس پہلے انیس قدوائی کی ناتمام خودنوشت ”غبارکارواں“ کے پیش لفظ میں کیا تھا، جو1983میں منظر عام پرآئی تھی، لیکن یہ صورتحال جوں کی توں برقرار ہے۔ نہ تو آج تک انیس قدوائی کی تحریروں کو ضابطہ تحریرمیں لایا گیا ہے اور نہ ارباب ادب نے ان کی ادبی حیثیت کا تعین کیاہے۔ یہ بیگم انیس قدوائی جیسی شائستہ ادیبہ کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔
انیس قدوائی 1906میں اترپردیش کے مردم خیز خطہ بارہ بنکی میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ولایت علی بمبوق اردو اور انگریزی کے بہترین مزاح نگار تھے، جن کا 33برس کی کم عمری میں ہیضہ سے انتقال ہوا۔ بیگم انیس قدوائی کی شادی نامور مجاہد آزادی رفیع احمد قدوائی کے بھائی شفیع احمد قدوائی سے ہوئی تھی،جو اترپردیش حکومت کے اعلیٰ افسر تھے اور جنھیں تقسیم کے دوران دہرہ دون میں فسادیوں نے بڑی بے دردی سے قتل کردیا تھا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی کے سابق وائس چانسلر انورجمال قدوائی ان کے چھوٹے بھائی تھے، جن کا سب سے بڑا کارنامہ جامعہ میں ابلاغ عامہ کے بہترین ادارے’اے جے کے ماس کمیونیکیشن ریسرچ سینٹر(ایم سی آرسی) کا قیام ہے۔ یہ ادارہ ان ہی کے نام سے منسوب ہے۔
بیگم انیس قدوائی کی پہلی تصنیف ”آزادی کی چھاؤں میں“ ملک کی تقسیم کی ہولنا کیوں کی رونگٹے کھڑے کردینے والی داستان ہے، جو کئی تکلیف دہ مراحل سے گزرنے کے بعد1974میں منظر عام پر آئی تھی۔ حالانکہ یہ 1949 میں ہی لکھ لی گئی تھی۔ میں نے اپنے زمانہ طالب علمی کے دوران درسی کتابوں کے علاوہ جو پہلی کتاب پڑھی تھی، وہ”آزادی کی چھاؤں“ میں تھی جس کی تاریخی اہمیت کے سبب نیشنل بک ٹرسٹ نے اسے شائع کیا تھا۔ اس کتاب کا انگریزی اور ہندی ترجمہ بھی شائع ہوا تھا۔یہ اپنے موضوع پر اپنی نوعیت کی اکلوتی کتاب ہے۔بیگم انیس قدوائی نے گاندھی جی کی ہدایت پر تقسیم وطن کی خانماں بربادخواتین کو جو ریلیف پہنچائی اس کی کوئی دوسری مثال موجود نہیں ہے۔ وہ سبھدرا جوشی اور مردولا سارا بائی کے شانہ بشانہ ان خواتین کی راحت رسانی میں پیش پیش رہیں، جن کا تقسیم وطن کے دوران سب کچھ لٹ گیا تھا۔”آزادی کی چھاؤں میں“دراصل ان تلخ تجربات کی داستان ہے، جو تقسیم کے دوران پیش آئے۔ ان میں سب سے بڑا سانحہ تو خود ان کے شوہر کا بہیمانہ قتل تھا اور یہ ایسا غم تھا کہ اسے لے کر وہ ساری زندگی گزار سکتی تھیں، مگر انھوں نے اپنے وجودکو غم کدہ بنانے کی بجائے اپنی پوری توانائی تقسیم کے خانماں بربادوں کی زندگی میں رنگ بھرنے اور قومی یکجہتی کے فروغ میں صرف کردی۔یہی اس دور کا سب سے بڑا تقاضہ بھی تھا۔
وہ1956سے 1962تک راجیہ سبھا کی رکن رہیں اور1982میں اپنے انتقال تک عوامی خدمت کے فرائض انجام دیتی رہیں۔ ”آزادی کی چھاؤں میں“کے علاوہ ان کی تین اور کتابیں شائع ہوئیں، جن میں بہترین انشائیوں کا مجموعہ ”نظرے خوش گزرے“(1976)،بہترین خاکوں کا مجموعہ ”اب جن کے دیکھنے کو“(1980)اور ان کی نامکمل آپ بیتی ”غبارکارواں“(1983) شامل ہیں۔میری خوش قسمتی یہ ہے کہ یہ چاروں کتابیں میرے ذاتی کتب خانہ میں موجود ہیں۔ میں نہ جانے کب سے ان پر قلم اٹھانے کی کوشش کررہا تھا، مگر درمیان میں ہمیشہ میری علمی کم مائیگی آڑے آتی رہی۔ آج بہت ہمت کرکے میں اس فریضے کو ادا کرنے بیٹھا ہوں تو وہی معاملہ درپیش ہے۔ بہرحال کوشش کروں گا کہ اس مضمون کے ذریعہ آپ بیگم انیس قدوائی اور ان کی ادبی خدمات سے روبرو ہوسکیں۔
بیگم انیس قدوائی کی شخصیت اورفن پر ایک اکلوتی تحریرانورصدیقی نے لکھی ہے جو ان کی آپ بیتی ”غبار کارواں“ کے مرتب بھی ہیں۔ انور صدیقی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں انگریزی ادبیات کے پروفیسر تھے اور اردو پر بھی عبور رکھتے تھے۔یہ تحریر ”غبارکارواں“ کے پیش لفظ کے طورپر شائع ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ ان کی شخصیت اور فن پر کوئی اور مضمون میری نظر سے نہیں گزرا۔یہ تحریر اب سے چالیس برس پہلے 1983میں شائع ہوئی تھی، اس کے بعد بہت گہراسناٹا ہے، میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ میرا یہ بے ترتیب مضمون اس سناٹے کو چیرنے کا کام کرے گا، لیکن اتنا ضرور ہے کہ مجھے بیگم انیس قدوائی کی تحریروں نے متاثر کیا ہے اور میں انھیں باربار پڑھتا ہوں۔یہ مضمون ان سے میری اسی عقیدت کا اظہار ہے۔
سب سے پہلے ان کے خاکوں کے دلچسپ مجموعہ ”اب جن کے دیکھنے کو“ سے رجوع ہوتے ہیں، جس کا پہلا خاکہ ان کے والد ولایت علی بمبوق سے متعلق ہے، جومولانا محمدعلی جوہر کے انگریزی اخبار ”کامریڈ“ کے مزاحیہ کالم نگار کے طورپر زیادہ معروف ہیں۔وہ لکھتی ہیں:
”آپ نے میرے والد ولایت علی بمبوق کے بارے میں پوچھا ہے۔ پہلے ایک ضروری تصحیح کردوں کہ ”میرولایت علی“ سرسید اور سیدمحمود کے دورکے علی گڑھ کالج میں استادتھے۔اور میرے والد”شیخ ولایت علی قدوائی“ وہاں ایک طالب علم کچی بارک علی گڑھ کے کھلنڈروں میں اپنی ذہانت، ظرافت اور تحریری شوخی کو ’بمبوق‘ کے فضول لقب میں چھپاکر ’کامریڈ‘ کے گپ کالم اور’نیوایرا‘ کے مزاحیہ کالم لکھا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہی کیا ہے جو بتاؤں۔ بارہ سال کی عمر میں سوا چند دھندلی یادوں کے اور مجھے ملا ہی کیا تھا۔ لیکن اس وقت یادوں کے ذخیرے میں سے ایک تندرست سرخ وسفید چہرہ ابھرتا ہے۔خوب اونچا قد، بھرا ہوا جسم۔ سرپر سیاہ کسی قدر گھنگھرالے بال اور سفید براق سا لباس۔ یہ ہیولا کبھی سفید انگرکھے اور دوپلّی چکن کی ٹوپی میں کبھی جامدانی اور جامہ وار کی شیروانی، ڈھیلی مہری کے پاجامے اور مخملی جوتے میں نظر آتا ہے، کبھی دوستوں کی محفل میں قہقہے لگاتے ہوئے، کبھی موکلوں کے ہجوم میں گھرے ہوئے اور کبھی زنان خانے میں ماں بہنوں کے جھرمٹ میں۔یہ تھے ولایت علی ’بمبوق‘۔ بس یہی حلیہ اس وقت نظروں میں ہے۔“
بیگم انیس قدوائی اس خاکے میں آگے لکھتی ہیں:
”قدامت پسند خاندان کے سخت ترین دستور کے مطابق میں اپنے باپ سے زیادہ بابا سے، چچاؤں سے اور چچیرے بھائیوں سے بے تکلف تھی۔باپ تو شاید میرے بڑھتے ہوئے قد سے بھی شرماتے تھے۔ لیکن کبھی کبھار بزرگوں کی غیرموجودگی میں مجھ سے بھی مخاطب ہوجاتے تھے، ورنہ میری ان سے گفتگو ہی بہت کم ہوتی تھی۔ لاڈ پیار کا کیا ذکر۔میں نے تو جو کچھ سنا، اپنی ماں سے، بزرگوں سے اور والد کے دوستوں سے سنا۔جولائی 1918 کی ایک رات ہیضے کی وبا نے ہمارے گھر سے برسوں کے لیے ہنسی، قہقہہ اور اطمینان سکون ختم کردیا اور شاید میری اٹھائیس سالہ بیوہ ماں کے لیے زندگی کے آخری لمحے تک۔دادی چونکہ دھوم دھام سے ان کی سال گرہ منایا کرتی تھیں، اس لیے ان ہی سے معلوم ہوا۔ اس وقت ان کی عمر صرف 33سال تھی۔“
اپنے والد اور خاندان کے بارے میں اسی خاکہ میں وہ لکھتی ہیں:
”شیخ زادوں کے اس قبیلے میں جن کا اپنے مورث اعلا قاضی قدوۃ الدین کی وجہ سے ”قدوائی“ لقب قرار پایا تھا، ممتاز علی صاحب زمین دار کے گھرغالباً 1884 یا 1885 میں ولایت علی صاحب پیدا ہوئے۔ اردو، فارسی، عربی کی تعلیم گھر پر ہوئی۔پھر گورنمنٹ اسکول بارہ بنکی سے انٹرنس پاس کیا اور اینگلو محمڈن کالج علی گڑھ سے انیس سال کی عمر میں بی اے میں کامیابی حاصل کی۔ اکیس یا بائیس سال کی عمر میں 1906میں ایل ایل بی مکمل کرکے بارہ بنکی میں آکر وکالت شروع کردی تھی۔“
”قدوائیوں کے اس خاندان نے سرسید کی تعلیمی تحریک سے متاثر ہوکر شاید بہت جلد انگریزی تعلیم شروع کردی تھی کیونکہ ’بمبوق‘ صاحب کے بڑے بھائی کسی ضلع میں تحصیلدار تھے اور ایک پھوپھی زاد پہلے سے بارہ بنکی میں وکالت کررہے تھے۔عورتوں کی تعلیم کے متعلق بھی اس خاندان کے خیالات بدل چکے تھے۔ اسی لیے’بمبوق‘کی شادی میں دشواری پیش آئی۔ پہلے انھوں نے بچپن کی منگیتر کے ساتھ شادی کرنے سے انکار کیا۔ پھر ایک راجا صاحب کے یہاں شادی پرراضی نہ ہوئے۔ اور آخرکار 1940 میں میری والدہ سے ان کی شادی ہوئی جو اس زمانے کی پڑھی لکھی خوبصورت لڑکی تھیں۔خوبصورت خط لکھتی تھیں اور اپنے ساتھ کتابوں کے کئی سیٹ جہیز میں لائی تھیں۔“
(”اب جن کے دیکھنے کو“ص7و8)
اس طویل اقتباس کو نقل کرنے کا مقصد یہ تھا کہ آپ بیگم انیس قدوائی کے والد، ان کے خاندان اور گھریلوحالات سے واقف ہوسکیں اور ان کی خاکہ نگاری سے بھی محظوظ ہوں۔ اس مجموعہ میں 13/ خاکے ہیں۔ ان میں اپنے والد کے علاوہ رفیع احمد قدوائی،مولانا محمدعلی، شفیق الرحمن قدوائی،چودھری محمد علی ردولوی،مرزاابوالفضل، ڈاکٹر کچلو(سیف الدین)اجتماع ضدین، مردولا سارا بائی، جواہر لال نہرو، قدسیہ زیدی، حافظ جمن،ڈاکٹر سیدعابد حسین جیسے لوگوں کے نہایت مرصع خاکے ہیں، جنھیں پڑھتے ہی رہنے کو جی چاہتا ہے۔’اجتماع ضدین“ ایک صاحب کا خاکہ ہے جن کا نام نہیں لکھا گیا ہے۔ وہ علی گڑھ میں ڈاکٹر سلیم الزماں کے کلاس فیلو رہ چکے تھے۔بیگم انیس قدوائی نے انھیں دہلی میں رفیع احمد قدوائی کی کوٹھی 6/ کنگ روڈ پر دیکھا تھا۔ ان کے بارے میں وہ لکھتی ہیں:
”تنہا اور تنہائی پسند۔انتہائی بے ضرر۔ بیوی بچوں اور خاندان سے مستغنی۔ مگراوقات اور معمول کے سختی سے پابند۔ دن کے چوبیس گھنٹوں میں تقریباً چھ گھنٹے ضرور غسل خانے میں گزارتے تھے۔ ان کی مسہری پر بستر بند میں بستر لپٹا ہوا لیٹا رہتا تھا۔صرف دوتسمے بندھے رہتے تھے۔رات میں جب وہ ہاتھوں کو غسل دے کر باتھ روم سے برآمد ہوتے تو آہستہ سے چٹکی پکڑ کر اس ہولڈال کا منہ کھولتے اور پیروں کے راستے اس میں گھس جایا کرتے۔پڑھتے بہت تھے۔باتیں کم کرتے تھے۔حتیٰ کہ سلیم صاحب کے بے تحاشا مذاق پر صرف دوایک بار اچھل کر پھدک کر ہنستے ہوئے باہر چلے جاتے کیوں کہ جواب نہیں بن پڑتا تھا۔دنیا کے تمام مذاہب کو مانتے تھے، مگر عمل کسی پر نہیں کرتے تھے۔“(’اب جن کے دیکھنے کو‘،75-76)
بیگم انیس قدوائی نے اوائل عمری میں لکھنا شروع کردیا تھا اور ان کا پہلا مضمون 1928 میں رسالہ ”عصمت“ دہلی میں شائع ہوا تھا، یہ مضمون اس دور کی مروجہ نثر سے ہم آہنگ تھا۔انھوں نے ڈرامہ نگاری میں بھی قدم رکھا اور اس دور میں ایک ڈرامہ ”جہالت کی شکست“ لکھا تھا جو اگست 1931ں رسالہ ”عصمت“ کے سالگرہ نمبر میں شائع ہوا تھا۔ اس ڈرامے میں اساطیری رنگ کے ایسے کردار ہیں جو تمثیلی اظہار کی سطح سے بلند نہیں ہوپاتے۔اس کے ایک سال بعد 1932میں انھوں نے ایک مختصر افسانہ بھی لکھا تھا جس کا عنوان تھا ”پیرجی ناراض ہوگئے“۔نقلی پیروں کے ہاتھوں سادہ لوح عوام کے استحصال کے موضوع پر مبنی یہ افسانہ دراصل ایک مکالمہ ہے جو ایک ذہین مسلمان عورت اور ایک پیر صاحب کے درمیان ہوتا ہے۔ اس میں افسانویت تو کم ہے مگر مکالموں میں تیزی اوررتندی کے علاوہ بلا کی دھار بھی ہے۔ ان دونوں تحریروں کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے افسانہ نگاری اور ڈرامہ نویسی کو باقاعدگی سے اپنایا ہوتا تو ان اصناف میں بھی اپنی انفرادیت کے نقوش ضرور چھوڑ جاتیں۔
”نظرے خوش گزرے“، ان کے مضامین اور انشائیوں کا پہلا مجموعہ تھا۔ اس میں شامل ایک انشائیے ”شوہروں کی قسمیں“کے بارے میں انور صدیقی کا خیال ہے کہ ”یہ اردو کے بہترین انشائیوں کے سخت سے سخت انتخاب میں جگہ پاسکتا ہے، مگر حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ اردو ظرافت لکھنے والوں نے اسے یکسر فراموش کررکھا ہے۔“
”نظرے خوش گزرے“ میں شامل انشائیے ”شوہروں کی قسمیں“ کا ایک اقتبا س ملاحظہ ہوں:
”سنکی تعلیم یافتہ بیوی سے جھگڑے میں ساری عمرصرف کرتا ہے اور جاہل کندہ ناتراش بیوی کو خرادنے میں زندگی گنوا دیتا ہے، لیکن مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں لگتا۔ کہتے ہیں کہ جب سقراط کو جب زہر کا پیالہ پینے کے لیے دیا گیا تو اس کی بیوی رونے لگی۔ سقراط نے کہا ”نیک بخت زہر میں پی رہا ہوں، تو کیوں روتی ہے۔“ بیوی نے جواب دیا۔”اس لیے روتی ہوں کہ تم بے گناہ مارے جارہے ہو۔“کہنے لگا”ہش پھر کیا تو چاہتی تھی کہ میں گنہگار مارا جاتا۔“ یہ تھی سب سے اعلیٰ قسم کے سنکی شوہر کی بیوی۔ بیوی کو اس وقت معلوم نہیں کیا کچھ یاد آرہا ہوگا۔ دنیا آنکھوں میں اندھیر معلوم ہوتی ہوگی۔ گناہ وبے گناہی کا فلسفہ کب یادآتا۔“(نظرے خوش گزرے“ ص201)
”نظرے خوش گزرے“ کے تمام مضامین انشائیہ کے زمرے میں نہیں آتے مگر ان میں مزاح کی چاشنی، شگفتہ نکتہ رسی اور خوش طبعی جیسے اوصاف بیگم انیس قدوائی کی شخصیت کا حصہ ہونے کی وجہ سے ان کے اسلوب کا سب سے اہم عنصر ہیں۔ یہی عناصر ان کے ادبی اسلوب کا شناس نامہ ہیں۔وہ خود بھی مزاح کو زندگی کے المیاتی احساس پر قابو پانے کا ذریعہ سمجھتی تھیں۔“
(’غبارکارواں‘،ص 11)
”نظرے خوش گزرے“ کے پیش لفظ میں وہ خود اپنی تحریروں پر یو ں اظہار خیال کرتی ہیں:
”مجھے نہیں معلوم، اردو ادب کو ان مضامین سے کتنا فائدہ ہوگا، کتنا نقصان!میرا لکھنے کو دل چاہا، میں نے لکھا بغیر سودوزیاں کے اندازے کے۔ جب جی گھبرایا، کچھ لکھ ڈالا۔۔۔زندگی کی حقیقتوں سے فرار کا یہی راستہ مجھے نظر آیا اور دلی سکون اسی سے حاصل ہوا، بہرحال خوش رہنے کا اس سے بہتر ذریعہ اور کون ہوسکتا تھا کہ کسی پر ہنسو، اپنے آپ پر ہنسو۔اپنے آپ پر اور دوسروں پر طنز ومزاح کے تیر چلاؤ اور پھر آہستہ آہستہ چوٹ کی کسک محسوس کرو۔“
(’نظرے خوش گزرے‘ص4)
بیگم انیس قدوائی کی چوتھی اور آخری کتاب ”غبارکارواں“ ہے جو ان کی نامکمل خودنوشت ہے۔ انھوں نے 72 سال کی عمر میں اسے لکھنا شروع کیا تھا اور وہ اپنی زندگی کی حکایت کو 1926 تک ہی لاپائی تھیں کہ ان کی صحت بگڑنے لگی اور انھوں نے اسے مکمل کرنے کا ارادہ ترک کردیا۔ ’غبارکارواں‘ کے مرتب انور صدیقی اس کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں:
”غبارکارواں‘صرف انیس آپا کی زندگی کی کہانی نہیں ہے، اس میں ہماری معاشرتی، تہذیبی اور سیاسی زندگی کے بہت سے ایسے نقوش ہیں جنھیں ان کے قلم نے بڑی خوبی اور خوبصورتی سے ابھارا اور محفوظ کیا۔ اسے آپFamily Sagaکے طورپر بھی پڑھ سکتے ہیں اورتہذیبی اورسیاسی تاریخ کی حیثیت سے بھی۔ اس میں آپ ایک جاتی ہوئی دنیا کا حسن بھی دیکھ سکتے ہیں اور ایک آتی ہوئی تہذیب کے قدموں کی چاپ بھی سن سکتے ہیں۔بیگم انیس قدوائی کے حوالے سے بات کروں تو کہوں گا کہ یہ ایک ادھورا رزمیہ ہے،مسلم متوسط گھرانے کی ایک عورت کا جو اپنی شناخت کے سفر پرنکلتی ہے اور طرح طرح کی مشکلات وموانع کے باوجود کامیاب وکامراں ہوتی ہے۔“
(’غبارکارواں‘ صفحہ19-20)
یہ تھی بیگم انیس قدوائی کی مختصر کہانی جسے میں نے ان کی کتابوں کی مدد سے ترتیب دیا ہے۔ 16/جولائی 1982 کو ان کی زندگی کا سفر ختم ہوا۔ یہ رمضان کا مہینہ اور جمعہ کا دن تھا۔ ان کی نامکمل آپ بیتی ”غبارکارواں“ کا انگریزی ترجمہ”ڈسٹ آف دی کارواں“کے عنوان سے ان کی بیٹی عائشہ قدوائی نے کیا ہے۔