تاریخ کا سبق : اتحاد سے عروج، انتشار سے زوال
تکلف برطرف ۔ سعید حمید
قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ وقت کے قلم اور اقوام عالم کے اتحاد یا انتشار کی روشنائی اور سیاہی سے لکھی جاتی ہے۔

اگر اتحادکی روشنائی سے لکھی گئی ، تو عروج ؛
اگر انتشار کی سیاہی سے لکھی گئی ، تو زوال ؛
اس آئینہ میں ہم اپنی قوم کا حال دیکھ لیں ؛سمجھ لیں ،
اور غور کریں ، اپنے ہی ہاتھوں سےہم نے قوم کی کیا حالت کردی ہے ؟
ایک وہ بھی مسلمان تھے ، جو اس دھرتی پر آئے تب مٹھی بھر تھے ۔
لیکن۔ اخلاق ، کردار اور اتحاد کی دولت سے مالا مال تھے ۔
اس زمانے کی مقامی قومیں ان اثاثوں سے محروم تھیں، اسلئے محکوم بن گئیں ۔
اس زمانے میں مسلمان مٹھی بھر اور بیرونی ہوتے ہوئے بھی حاکم بن گئے ۔
آج تو کوئی لیڈر پانچ برس کیلئے ہی پرائم منسٹر بن جائے تو بڑی بات ہے ،
کئی مسلم بادشاہوں نے جن میں سے کئی ایک کو آج بلاوجہ بدنام کیا جاتا ہے ،
پچاس برس تک اس ہندوستان پر حکومت کی تھی ، جو حقیقی معنوں میں اکھنڈ بھارت تھا ۔
آج کے حساب سے وہ بھارت کئی ممالک پر مشتمل ایک ملک تھا ۔
جس پر مسلمانوں نے ایک ہزار سال تک حکمرانی کی تھی ۔
ظاہر ہے ایک ہزار سال تک صرف تلوار کے زور پرحکومت نہیں کی جاسکتی تھی ۔
یہ اخلاق ، کردار اور اتحاد کی اصلی طاقت تھی ، جس نے ان کے ہاتھوں میں اس طویل عرصہ تک اتنے بڑے ملک کا اقتدار سونپ کر رکھا تھا ۔
لیکن۔جیسے جیسے مسلمانوں کے اخلاق و کردار میں زوال آتا گیا ،
جیسے جیسے مسلمانوں کا اتحاد انتشار میں تبدیل ہوتا گیا ، مسلمان زوال پذیر ہوتے چلے گئے ۔
انگریز آئے ، انہوں نے ہماری اخلاق و کردار کی کمزوری کو نشانہ بنایا، اورہماری صفوں میں انتشار پیدا کیا ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ آج تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھے جائیں ،
تاریخ کا تجزیہ کیا جائے ، اور تاریخی واقعات سے سبق حاصل کیا جائے ۔
نواب سراج الدولہ کو کیا انگریزوں نے شکست دی تھی؟
جی نہیں ۔ نواب سراج الدولہ کی شکست سے ہندوستان میں برٹش کی پیش قدمی ، مسلم اقتدار و ملت اسلامیہ ہند کے زوال اور ملک کی غلامی کا آغاز ہوا ۔
ملت کے زوال کا وہ سلسلہ جو ۱۷۵۷ ٔسے شروع ہوا ، (۲۶۱ ) سال بعد آج بھی جاری ہے ۔
نواب سراج الدولہ کے نانا علی وردی خان جو پہلے بہار کے گورنر اور پھر بنگال کے نواب بن گئے ،
ان کی وراثت ۲۳ سال کی عمر میں نواب سراج الدولہ کے ہاتھ لگی۔
وہ اپنے نانا نواب آف بنگال علی وردی خان کے انتقال پر نواب آف بنگال بنے ۔
تب تک ایسٹ انڈیا کمپنی جو مغل باشاہوں کے زمانے سے ملک میں تجارت کے مقصد سے داخل ہوئی تھی ، ہندوستان پر حکومت کے خواب دیکھنے لگی۔
اور اس خواب کو پورا کرنے میں اس زمانے میں مسلمانوں میں جنم لینے والے آپسی اختلافات ، انتشار ، اخلاقی زوال، حسد ، کینہ ،بغض ،جلن ،غداری ، دولت و اقتدار کی لالچ وغیرہ وغیرہ نےانگریز کی بھر پور مدد کی ۔
نواب آف بنگال علی وردی خان نے اپنے نواسے سراج الدولہ کو اپنا جانشین مقر کیا تب ہی سے مسلم طبقات میں داخل ہونے والی خرابی اپنا رنگ دکھانے لگی ۔
نواب سراج الدولہ۱۰ ۔اپریل ۱۷۵۶ ٔ کو نواب کیا بنے ، آپسی انتشار کا فتنہ پھٹ پرا ۔
نواب سراج الدولہ کی انتہائی امیر اور بااثر خالہ مہرالنسا بیگم (عرف گھسیٹی بیگم) ، خالہ زاد بھائی شوکت جنگ اور میر جعفر نے ( جو اس زمانے میں بخشی کے عہدے پر فائز تھے) اپنا رنگ دکھانا شروع کیا ۔
اس ملت کا فتنہ مال رہا ہے ، اور اقتدار حصول مال کا ایک بڑا ذریعہ بن گیا ، اسلئے مال اور اقتدار کیلئے مسلمانوں نے اپنا کردار گروی رکھ دیا ۔
دو سو اکسٹھ برس سے ہمارا کردار روبہ زوال ہے ، اس لئے آج بھی ہمارا وہی حال ہے ۔
انگریز نے ہمارے آپسی اختلافات دی ، ہمیں آپس میں جنگ اور غداری کیلئے اکسایا ۔
نواب سراج الدولہ انگریزوں کی حکمت عملی اورسازشوں سے اچھی طرح واقف تھا ۔
اس کو یہ خبر تھی کہ اس کے دربار میں لالچی اور ابن الوقت لوگوں کو غداری کیلئے اکسایا جا رہا تھا ، انہیں بغاوت کیلئے لالچ دی جا رہی تھی ۔
انگریزوں نے نواب سراج الدولہ کے ان افسران و عہدیداروں کو بھی پناہ دینا شروع کیا جن پر بدعنوانی کے الزام تھے ۔
ایسے کرپٹ لوگ بھی برٹش کمپنی کا مہرہ بن گئے ۔
اور جب پلاسی میں نواب سراج الدولہ کی انگریزوں سے جنگ ہوئی ، تب میر جعفر کی غداری اور دغا بازی اپنا کام کرگئی ۔
۱۷۵۷ ٔ اور جنگ پلاسی صرف ہندوستان میں انگریزوں کے اقتدار کا عروج نہیں،بلکہ ہندوستانیوں اور ہندوستانی مسلمانوں کے زوال کا بھی آغاز ہے۔
اتحاد میں طاقت ہے ،
اتحاد زندگی ہے ،
اختلاف شرمندگی ہے ،
اس کا نظارہ ہم کئی صدی سےکر رہے ہیں،
شیر میسور ٹیپو سلطان کو کبھی شکست نہیں ہوتی ، اگر میر صادق غداری نہیں کرتا ۔
آخری مغل بادشاہ ظفر کے آخری ایام کی کہانی بھی الم ناک ہے ۔
۱۸۵۷ ٔ کے آتےآتے ہندوستانی معاشرہ اورخاص طور پر ہندوستانی مسلمانوں میں جو اخلا ق و کردار کا زوال نمایاں ہوا ،
اور معاشرتی خرابیاں پیدا ہو گئی تھیں، اس نے مسلم اقتدار کی تاریخ کا آخری صفحہ تحریر کر دیا ۔
اور برٹش راج دہلی تک پہنچ گیا ۔
ہندوستان مکمل طور پر غلام بن گیا ۔
پھر ہم تاریخ کا وہ سبق بھی جانتے ہیں کہ جب سارے ہندوستانی متحد ہوئے ، تب ملک میں برٹش راج کے قدم کانپنے لگے ۔
اتحاد کی طاقت سے بوکھلائے ہوئے انگریز نےپھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کی گندی اور اوچھی پالیسی اختیارکی ،
ہندوؤں اور مسلمانوں میں خلیج پیدا کی ، فرقہ وارانہ منافرت پیدا کی ،
انہیں آپس میں لڑوانے کیلئے فرقہ وارانہ فسادات کو بھی ہوا دی ۔
آج بھی انگریزوں کے ایجنٹ انہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔
لیکن اتحاد کی طاقت کے آگے کوئی بھی ٹک نہیں سکتا ۔
برٹش بھی نہیں ٹک سکےاور انہیں ۱۹۴۷ ٔ میں بوریا بستر لپیٹنا اور بھاگنا ہی پڑا ۔
البتہ ، ان دو تین صدیوں میں ہندوستانی مسلمانوں میں جو خرابیاں پیدا ہوئی تھیں، وہ دور نہیں کی جاسکیں ، اس لئے مسلمانوں کو آزادی سے کچھ خاص فائدہ نہیں ہوا ۔سچر کمیٹی رپورٹ ، رنگناتھ مشرا کمیشن رپورٹ، منڈل کمیشن رپورٹ ، ڈاکٹر گوپال سنگھ کمیشن رپورٹ ، ڈاکٹر محمود الرحمان کمیٹی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ کسی زمانے میںملک کے پسماندہ اقوام جہاں تھے ، آج ہندوستانی مسلمان وہاں کھڑے ہیں۔
یہ پسماندگی ، یہ مجبوری ، یہ پشیمانی ، یہ شرمندگی، یہ سب ہمارے آپسی اختلافات اور انتشار کا نتیجہ ہے ۔
یہ انتشار بھی چوطرفہ ہے ۔
الیکشن وسیاست سے لیکر عید و رمضان کے چاند تک ، مسلم پرسنل لا ٔسے لیکر مسلک و فر قہ کے معاملات تک ،
ہم ایسے انتشار کے شکار ہیں کہ ہماری قوم کا یہ انتشار قوم کیلئے اجتماعی و انفرادی سطحوں پر شرمندگی کا سبب بن گیا ہے ۔
کیا عجیب بات ہے کہ دیگر اقوام جو ہزاروں ذاتوں میں ، خانوں میں تقسیم ہیں ،
انہوں نے کچھ تہواروں کو اپنے اتحاد کا عنوان بنالیا اور ایک قرآن ، ایک کلمہ کی بات کرنے والی قوم تہواروں اور چاند کے نام پر ایک نہیں ہوتی ہے ، اور خانوں ، خانوں میں بٹ کر آپسی نفرت کو بڑھاوا دیتی ہے ۔
جمہوریت میں کسی اقلیتی فرقہ کی آپسی لڑائی ان سب کیلئے مہلک ہے ۔
قوم ایک دوسرے کو کافر قرار دینے میں منقسم ہوتی چلی جائے اور پھر جب الیکشن آئیں ، تو پھر مسلم ووٹوں
کی یا مسلم ووٹ بنک پاور کی اور مسلم امپاورمنٹ کی بات کیسے کی جا سکتی ہے ؟
اس کا تو ہم خود ہی شیرازہ بکھیرتے رہتے ہیں ۔
۱۷۵۷ ء میں ہم نے انتشار و اختلاف کا انجام دیکھا لیکن آج بھی شائد کوئی سبق نہیں لیا ۔
آج بھی ہم میں میر جعفر ہیں ، میر صادق ہیں، آج بھی ہم منتشر ، منتشر ہونے کے لئے آمادہ رہتے ہیں ۔
یہ انتشار ہماری ذلت ، رسوائی ، تباہی ، بربادی کا سبب ہے ۔
کیااب بھی ہم اس سے نجات کا راستہ تلاش نہیں کریں گے ؟