تلنگانہ ہائی کورٹ کی مسلم پرسنل لا میں مداخلت
مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی
تلنگانہ ہائی کورٹ نے مسلم پرسنل لا میں مداخلت کرتے ہوئے خلع کو عورت کا یک طرفہ تسلیم کرلیا ہے اور اسے مرد کو ملے طلاق کے حق کے مماثل قرار دیا ہے، اس فیصلہ کے مطابق عورت یک طرفہ طورپر شوہر کے انکار اور عورت کی جانب سے شوہر کو اپنے حقوق میں کسی طرح کی معافی یاکچھ دیے بغیر خلع کرسکتی ہے، شریعت میں خلع کی حیثیت طلاق بالعوض کی ہے، اس کے بغیر خلع ممکن نہیں ہے، شوہر کو خلع میں طلاق دینا ہوتا ہے اور شرائط کی تکمیل ہر دو جانب سے ہوا کرتی ہے، جسٹس موشومی بھٹاچاریہ اور جسٹس بی آر مدھوسودھن نے اپنے فیصلہ میں لکھا ہے کہ ”مسلم خواتین کو خلع کے ذریعہ طلاق کا حق حاصل ہے اور اس کے لیے اسے شوہر کی منظوری کی ضرورت نہیں ہے، اگر بیوی مہر واپس کرنے سے انکار کردے تب بھی شوہر خلع سے انکار نہیں کرسکتا، کیوں کہ خلع عورت کا مطلق اور یک طرفہ حق ہے، جس کا موازنہ مرد کے طلاق کے حق سے کیا جاسکتا ہے“ عدالت کا یہ بھی کہنا ہے کہ ”اسلامی قانون میں کوئی ایسی شق نہیں ہے جس میں یہ بتایا گیا ہو کہ اگر شوہر بیوی کے خلع کے مطالبہ کو مسترد کرتا ہے تو اس پر عمل کیا جائے۔

مدعیہ کی شادی 2012 میں ہوئی تھی، پانچ سال بعد اس نے دارالقضاء میں جسمانی تشدد کا شوہر پر الزام لگاکر خلع کی درخواست دی، شوہر نے دارالقضاء کی حیثیت پر سوالات اٹھائے اور وہاں حاضری سے انکار کردیا، معاملہ تلنگانہ کورٹ پہونچا جو اس فیصلے کی بنیاد بنا، معزز جج صاحبان کا یہ فیصلہ اسلامی احکام وقوانین اور خلع کے سلسلہ میں شرعی اصول وضوابط کی کھلی خلاف ورزی ہے اور یہ ہمارے دین میں مداخلت کی ایک مثال ہے۔
اس لیے کہ یہ فیصلہ قرآن وسنت کے دلائل کی روشنی میں جمہور فقہاء کی متفقہ رائے کے خلاف ہے، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ ”فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّایُقِیْمَا حُدُوْدَ اللہ ِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْھِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ تِلْکَ حُدُوْدُ اللہ ِ فَلَاتَعْتَدُوْھَا وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللہ ِ فَاُوْلٰءِکَ ھُمُ الظٰلِمُوْنَ“ (البقرۃ:۹۲۲) اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ میاں بیوی میں اختلاف وشقاق اس قدر ہوجائے کہ وہ شریعت کے حدود اور زوجین کے متعینہ حقوق ادا نہ کرسکیں تو حرج نہیں ہے کہ عورت کچھ فدیہ دے کر شوہر سے طلاق لے لے، اس آیت میں ”اَلَّایُقِیْمَا حُدُوْدَ اللہ ِ“ اور ”فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْھِمَا“ دونوں میں تثنیہ کا صیغہ یہ بتاتا ہے کہ خلع کے لیے تراضی طرفین یعنی دونوں کی آپسی رضامندی ضروری ہوگی، یک طرفہ طورپر عورت خلع نہیں لے سکتی، اس کے علاوہ فدیہ کا لفظ موجود ہے، جس میں تراضی طرفین موجود ہوا کرتا ہے، فدیہ کا لفظ یہ بتاتا ہے کہ خلع بالعوض ہوگا۔
بخاری شریف میں حضرت ثابتؓ بن قیس کا واقعہ حضرت بن عباسؓ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ثابت سے خلع لینے کے لیے ان کے دیے گیے باغ کی واپسی کی بات کہی، حضرت جمیلہ نے اسے واپس کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا، نسائی شریف میں موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا پیام بر حضرت ثابتؓ کے پاس بھیجا اور انہیں باغ کی واپسی کی صورت میں طلاق دینے کا مشورہ دیا، حضرت ثابتؓ نے اس مشورہ کو مان لیا اور باغ واپس لے کر طلاق دیدیا، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خلع، بالعوض اور دونوں کی رضامندی سے ہوگا، یک طرفہ خلع کا انعقاد بغیر شوہر کی رضامندی اور بغیر عوض کے نہیں ہوسکتا، اسی لیے خلع کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ”زوجین کی باہمی رضامندی سے کسی عوض پر شوہر کا رشتہ نکاح کو ختم کرنا خلع ہے، خواہ لفظ خلع کے ذریعہ ہو یا مبارات کے ذریعہ یالفظ طلاق یااس کے ہم معنی الفاظ میں سے کسی لفظ کے ذریعہ“ (قوانین اسلامی،ص:۹۷۲)
اس عبارت کی تشریح کرتے ہوئے اسی کتاب میں لکھا ہے کہ ”خلع ایک طرح کا معاہدہ ہے، جس میں شوہر نکاح سے حاصل ہونے والے اختیارات کو کسی طے شدہ بدل کے عوض ختم کردیتا ہے، اس لیے یہ طلاق بائن کے حکم میں ہے اور چوں کہ اس میں عوض زوجہ کو ادا کرنا ہوتا ہے، اس لیے اس کی رضامندی ضروری ہے، خلع کی پیش کش زوجین میں سے کسی کی طرف سے بھی ہوسکتی ہے اور دوسرے کو اس کا قبول کرنا ضروری ہوگا“، معلوم ہوا کہ خلع میں طلاق کا عوض اور باہمی رضامندی کا ہونا ضروری ہے، عدالت نے قرآن واحادیث میں مذکور خلع سے متعلق نصوص سے عدم واقفیت کی وجہ سے ایسا فیصلہ دیا، جس میں شوہر کی رضامندی اور مہر کی معافی جو خلع میں عوض بن سکتا ہے، دونوں کو نظر انداز کر دیا ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس مداخلت کا نوٹس لیا ہے اور حیدرآباد میں وکلاء اور دانشوران کے ساتھ اس پر بات کی ہے اور اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے، امید ہے کہ عدالت اسلامی اصول وضوابط کو سامنے رکھ کر اس مداخلت کا دروازہ بند کرے گی۔