ثروتِ حیرت

پروفیسر غضنفر

اکادمی اسٹاف کالج علی گڑھ کے زیر اہتمام منعقدہ ایک ریفریشر کورس میں تربیت پانے والے اساتذہ میں سے ایک نے پروگرام کوآرڈینٹر ڈاکٹر طارق چھتاری کو ایک دن اپنی ایک تحریر دکھائی۔ تحریر دیکھ کر طارق چھتاری کی نگاہیں چونک پڑیں۔ طارق چھتاری نے وہ تحریر مجھے بھی دکھائی۔ اسے دیکھ کر میری بھی آنکھیں پھیل گئیں۔ ہماری حیرت کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ ایک جاندار تحریر تھی بلکہ وجہ یہ تھی کہ اس طرح کی تحریر اس نے پہلی بار لکھی تھی۔ ہم دونوں نے اس تحریر کی دل کھول کر تعریف کی۔ طارق چھتاری نے تو اس میں ایک آدھ تخلیقی پھونکیں بھی ماریں اور صاحب ِتحریر کو ایسے افسانوی گر بتائے اور فنکارانہ ٹپس دیے کہ جن کی روشنی میں وہ تحریر ”سمرپن“ نام کی کہانی بن کر لاہور سے نکلنے والے جریدہ ”تخلیق“ میں شائع ہو گئی اور جو گیندر پال جیسے کہنہ مشق اور جید افسانہ نگار سے بھی داد وتحسین وصول کر لی۔

ثروتِ حیرت
ثروتِ حیرت

طارق چھتاری کی پرفسوں تعریف اور سحر کارانہ پذیرائی نے صاحب ِتحریر کو ایسا مسحور اور متحرک کیا کہ اس کا قلم جو صرف نصابی نوٹس بنانے تک محدود تھا اور ایک محدود گھیرے میں گھوما کرتا تھا، اب اس تنگ دائرے سے نکل کر تخلیق کی راہِ بے حصار پر بے روک ٹوک چلنے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کی رفتار نے ایسا زور پکڑا کہ کچھ دور جاتے جاتے اس نے کوئی درجن بھر افسانے لکھ ڈالے اور کچھ اور آگے بڑھ کر ایک ناول بھی صفحہ قرطاس پر اتار دیا۔ اس کی شورشِ فکر نے ایسا ہنگامہ برپا کیا کہ اس کا قلم تخلیق کے میدانوں کے علاوہ تنقید اور دانشوری کے علاقوں میں بھی سیر کرنے لگا۔ اس نئے سفر کے دوران اس کے قلم کی روشنائی ایسی چمکی کہ منزل تک جانے والے سارے اندھیرے پگ روشن ہو گئے۔

اس کی پہلی تحریر تو حیرت کن تھی ہی، اس کے نئے تخلیقی سفر کی فتوحات بھی کم حیرت انگیز نہیں کہ اس نے بالکل ایک نئے میدان میں وہ بھی بہت کم وقت میں کئی معرکے سر کر لیے۔ حیرانی کی بات یہ بھی ہے کہ یہ کام بلکہ کارنامہ کہنا چاہیے، پکی عمر کے ہاتھ میں آئے ایک کچے قلم نے انجام دیا۔ اس قلم نے جس کے لڑکھڑانے، بہکنے، پھسلنے، رک جانے اور ٹوٹ جانے کے قدم قدم پر قوی امکانات ہوتے ہیں مگر تعجب ہے کہ پکی عمر کے ہاتھ نے

اس کچے قلم کو اس طرح تھاما اور اسے اس احتیاط اور ہنر مندی سے چلایا جیسے کوئی سدھا ہوا شہ سوار رخِش خامہ کو ایڑ لگا رہا ہو۔

اس کے سفر کی کامیابی اس اعتبار سے بھی تعجب خیز ہے کہ اس صاحب ِقلم کا تعلق ایک ایسے شہر سے ہے جہاں نہ کوئی لسانی عیش باغ ہے اور نہ کوئی ادبی نشاط باغ اور نہ ہی کوئی فن دلشاد گارڈن۔ وہاں تو وہ ادبی اکادمیاں بھی نہیں جن کی آب پاشیاں تخلیقی زمینوں کو زرخیز اور ان کی فصلوں کو ثمردار اور فرحت انگیز بناتی ہیں۔ وہ شہر تو ریگستان میں بسا ایک ایسا خطہ ہے جہاں کا چپہ چپہ ریت سے اٹا پڑا ہے۔ اس سنگلاخ اور بے آب وگیاہ زمین پر بسنے والے کے تخلیقی وفور کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے جیسے اس کے وجود میں برسوں سے دبی کوئی آتش فشاں اچانک پھوٹ پڑی ہو اور اس کے اندر کا لاوا ادب پاروں میں متشکل ہو گیا ہو۔

دراصل اس کی کامیابی کا راز وہ دھن ہے جو علی گڑھ کے تربیتی سفر کے دوران اچانک اس پر سوار ہو گئی تھی۔ ٹھان لینے کی کیفیت پیدا کر دینے والی یہ دھن اسے روئی کی طرح دھنتی چلی گئی۔ گانٹھوں کو کھولتی، رکاوٹوں کو روندتی، تہوں کو ابھارتی اور گرد و غبار کو اڑاتی اسے نرم، ملائم، سبک اور صاف وشفاف گالا بناتی چلی گئی۔

یہ دھن اس پر ایسی سوار ہوئی کہ اس نے اپنے سفر میں نہ اپنوں کی جدائی کی پرواہ کی، نہ راستے کی خندق وکھائی کی اور نہ ہی کسی کی انگشت نمائی کی۔ مسلسل آگے بڑھتی ہوئی یہ دھن ایک ایسے جنون میں تبدیل ہو گئی جو قدم قدم پر نعرۂ مستانہ بلند کرتی گئی اور اس نعرہ ٔ

مستانہ کی گونج فضاؤں کو چیرتی ہوئی دور بہت دور تک پہنچ گئی۔ یہ وہی دھن ہے جو شہریار کے لفظوں میں امراؤ جان ادا کی محفل میں اس طرح بجی تھی

کہیے تو آسمان سے تارے اتار لائیں

مشکل نہیں ہے کچھ بھی اگر ٹھان لیجیے

گویا شہریار کے اس شعر کا سچ اس کے یہاں ایک پیکر اختیار کر گیا۔ بلاشبہ پکی عمر میں شروع کیے گئے کام کا پختہ رنگ روپ میں نظر آنا اور وہ بھی تخلیقی سفر کے اتنے مختصر وقفے میں آسمان سے تارے لانے سے کم نہیں ہے۔ ہاں! یہ بات ضرور ہے کہ اس دھن کو ادبی فضا کا حصہ بنانے میں راہ کے بہت سارے شجرِ سایہ دار کا بھی ہاتھ رہا ہے۔ یعنی اس سفر میں اسے بہتیرے ادیبوں کا ساتھ بھی ملا جنہوں نے اسے اودے پور کی اوبڑھ کھابڑ راہوں سے نکال کر ہندوستان کے میدانی حصوں میں جانے کا راستہ ہموار کیا اور سر کے اوپر سرپرستی کا سائبان بھی رکھا۔

اگر یہ سچ ہے کہ اس کی اس جنون آمیز دھن نے اسے اس سفر پر گامزن کیا اور اسے شجرِ سایہ دار کی طرح بہت سارے ادب کے تناور درختوں کا ساتھ ملا تو یہ بھی حقیقت ہے کہ جس چیز نے اس سفر میں سب سے زیادہ اہم رول ادا کیا اور اسے راہ میں کہیں رکنے نہیں دیا‘ وہ ہے اس کی شخصیت کا وہ جوہر جو اسے مردوں کے مجمع میں مردانہ وار لے گیا اور اسے وہ یارا عطا کیا کہ

چپ رہ نہ سکا حضرتِ یزداں میں بھی اقبالؔ

حالانکہ اس بندۂ گستاخ کا منہ بند کرنے کے لیے عورت اور مرد دونوں ٹولوں کی طرف سے کبھی زہر تو کبھی شہد میں ڈوبے طنز وتشنیع کے تیر بھی چلے جس کا ذکر اس نے اپنی کتاب (شورشِ فکر) میں ”ثروت کی کہانی میری زبانی“ کے عنوان سے بھی کیا ہے لیکن ان تیروں سے اس کی پرواز کہاں رکنے والی تھی۔ اس کے ذہن کو تو اقبال کا یہ شعر کہ ؎

میں کہاں رکتا ہوں عرش وفرش کی آواز سے

مجھ کو جانا ہے بہت اونچا حدِ پرواز سے

 مہمیز کر رہا تھا۔

اس کی شخصیت کے اس جوہر نے اس سے وہ وہ پڑھوایا جو عام طور پر عورتیں نہیں پڑھتیں اور وہ وہ کچھ لکھوایا جسے لکھتے وقت مردوں کے ہاتھ بھی کپکپا اٹھتے ہیں۔ اس کا یہ وصف اسے وہاں وہاں لے گیا جہاں جاتے ہوئے قدم قدم پر پاؤں میں کانٹے چبھتے ہیں اور پاؤں تو پاؤں دل و دماغ میں بھی چھالے پڑ جاتے ہیں۔ اس کے ذہن کے

اس پہلو نے اُسے ان منظروں کی جانب مبذول کیا جدھر جاتے ہوئے دل دہلتا ہے، دماغ ہلتا ہے اور آنکھیں جلتی ہیں۔ اگر اس کی شخصیت میں یہ وصف نہیں ہوتا تو وہ اپنے شریک ِسفر کو تنہا چھوڑ کر اس قدر اعتماد سے آج دہلی تو کل لکھنؤ اور پرسوں ممبئی کے سفر پر نہیں نکلتی اور اپنی ایسی خود نوشت ہرگز نہیں لکھتی جس میں وہ باتیں بھی قلم بند ہیں جو عام طور پر نوکِ کلک نہیں بن پاتیں یا جن سے بعض ذہنوں میں کردار کے مشکوک ہو جانے کا اندیشہ جنم لیتا ہے یا جو بسا اوقات بنے بنائے رشتوں کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیتی ہیں۔ اس کے اسی جوہر نے اس کے ذہن کو ان مسئلوں، مصنفوں اور ادبی کرداروں کو بہترین مضامین کے سانچوں میں ڈھال کر اس کی فہم کو طبقہ

نسواں اور معاصر اردو ناول، نئی عورت نئے مسائل، نسائی ادب کی سمت ورفتار اور چیلنجز، ترقی پسند افسانے میں نسوانی کردار، کرشن چندر کے افسانوں میں نسائی کرداروں کی معنویت، رشید جہاں کی فکر، رشید جہاں اور تانیثی افسانہ، اردو ادب کے تانیثی ادب میں طنز و مزاح، میرا کا تصورِ عشق اور اس کی معنویت، ایک چادر میلی سی میں لپٹی رانو وغیرہ کی طرف مبذول کیا جن کا تعلق خالصتاً نسائیت یا تانیثیت سے ہے۔ مگر اس کے اس تانیثی اپروچ کی وجہ بقول اس کے ”میرا عورت ہونا نہیں ہے بلکہ بحیثیت ایک مصنف کے کائنات میں اس صنف کے حوالے سے متضاد معاشرے کے متضاد رویے ہیں۔“ گویا اس کے اس جوہر تابدار پر اس کرب نے آب چڑھایا جو مرد کے شکنجے میں کسی ہوئی عورت کی پیڑا اور آہ و کراہ سے اس کے دل میں پیدا ہوا تھا۔

اس سفر میں وہ جس انداز سے ان موضوعات ومسائل کی طرف گامزن ہوئی اور جس ہمت وحوصلے کے ساتھ بعض معاشرتی، تہذیبی اور اخلاقی حد بندیوں کو توڑتے ہوئے عورت کے اندرون تک پہنچی اور جس طرح خاردار راستوں میں زخمی اور لہو لہان ہوئی‘اسے دیکھ کر اس پر کوئی یہ الزام نہیں دھر سکتا کہ فیمینزم کے اس سفر کا انتخاب اس نے فیشن پرستی یا فیشن زدگی کے زیر اثر کیا، جیسا کہ اس سفر کے مسافروں پر عموماً دھرا جاتا ہے۔

اس کی اس صف شکن والی رفتار اور بے باکانہ انداز سفر کا سہرا بہت حد تک اس کے شریک ِسفر کے سر بھی بندھتا ہے کہ جس نے ان ہوش ربا اور صبر شکن باتوں کی ذرا بھی پرواہ نہیں کی جو دورانِ سفر اڑائی گئیں یا اس کے سماعت تک مختلف وسیلوں سے پہنچائی گئیں اور جس مردِ آہن یعنی اس کے شوہر نے اس کے حوصلے کو بلند کرنے، اسے سفر کی تمازت سے بچانے اور اس کے فن کو جلا بخشنے میں گھر بیٹھے بیٹھے ایسے سائبان عطا کیے کہ شاید ویسے ساتھ میں رہ کر بھی نہ کیے جاسکیں۔

ان حیرتوں کے علاوہ ایک حیرت یہ بھی ہوئی کہ اس نے ایک ایسے علاقے کے مسائل کو موضوع بنایا جو اب تک اردو تخلیق کاروں کی نگاہ سے اوجھل رہا اور جس کے رنگ وآہنگ کو فضائے اردو میں موسم بہار کا ایک تازہ جھونکے کی طرح محسوس کیا گیا۔ حیرت تو اس پر بھی ہوئی کہ اس نے اپنے قلم کو یہ پرواہ کیے بنا تلوار کی طرح چلایا کہ اس کی زد میں کون کون آئے گا۔ اس کے زور سے کون کون تھرّائے گا اور ضرب سے کیسے کیسے لوگ کٹیں گے؟۔

حیرت کا سبب یہ بھی ہے کہ اس کی تحریریں یہ بھی احساس دلاتی ہیں کہ برگد تو اور گھنا ہو گیا ہے مگر اس کے نیچے بیٹھنے والوں کو اب بھی تمازت کی سوئیاں چبھتی ہیں۔ حق اور مساوات کی بات کرنے والا بھی درمیان میں لکیریں کھینچتا ہے۔

روشن خیالی کا ڈنکا پیٹنے والا بھی اکثر مولویانہ نظر سے دیکھتا ہے۔ بھائی بہن کو بہن تو سمجھتا ہے مگر اسے انسان نہیں سمجھتا۔ معاشرے کا حساس ترین انسان بھی بے حسی کا ثبوت دیتا ہے۔ اکیسویں صدی کے انسان کے اندر بھی پتھر یگ کا وحشی چوکڑیاں بھرتا ہے۔ مرد وہ نہیں جو کسی کا مذاق اڑاتا ہے بلکہ مرد وہ ہے جو اس مذاق کو ہوا میں اڑا دیتا ہے۔ یہ بات مردوں پر آئے نہ آئے اُس پر سوفیصد صادق آتی ہے۔

حیرتیں تو اور بھی ہیں کہ اس کی شخصیت میں اور بھی کئی ایسے حیرت انگیز پہلو ہیں جو ہمیں متحیر کرتے ہیں مگر ان حیرتوں کا اظہار ہم اگلے وقتوں کے لیے اٹھا رکھتے ہیں کہ اس کے متعلق اس کی میری اور آپ کی تینوں کی حیرتیں بنی رہیں کہ یہی حیرتیں ثروت کی ادبی ثروت ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare