جاوید حبیب کا "ہجوم”

معصوم مرادآبادی

پرانے اخبارات میں آج مرحوم جاوید حبیب کے منفرد ہفتہ وار "ہجوم” کی ایک 37 سال پرانی کاپی نکل آئی۔

جاوید حبیب یوں تو اپنی سیاسی و سماجی خدمات کیلئے جانے جاتے ہیں لیکن ان کی شخصیت اور کارناموں کا سب سے جلی عنوان صحافت ہے، جس کا ثبوت ان کی ادارت میں شائع ہونے والا ہفت روزہ ’ہجوم‘ ہے،جس نے اردو صحافت میں اپنی منفرد سرخیوں اور مواد سے جگہ بنائی۔1979 میں دہلی سے شائع ہونے والے اس انوکھے ہفت روزہ نے صحافت کی دنیا میں جو دھوم مچائی تھی وہ کم ہی اخباروں کا مقدر ہوتی ہے۔

جاوید حبیب کا "ہجوم"
جاوید حبیب کا "ہجوم”

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی طلباء یونین کے سابق صدر جاوید حبیب نے اپنی تحریری اور تقریری صلاحیتوں کا بھرپور اظہار زمانہ طالب علمی میں ہی کیا تھا۔ انہوں نے 18سال کی عمر میں ہی اندور سے شائع ہونے والے ’سفیر مالوہ‘ سے مضمون نگاری کا آغاز کردیا تھا۔ بعد ازاں وہ 1968 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلباء یونین کے ترجمان ’علی گیرین‘ کے مدیر رہے۔ اس دوران وہ اپنے اقامتی ہال محسن الملک کی میگزین ’محسن‘ کے بھی ایڈیٹر رہے۔ زمانہ طالب علمی میں انہوں نے علی گڑھ سے ’ذرات‘ اور ’سنگ ریزے‘ کے نام سے دو جریدے بھی نکالے۔ روزنامہ ’دعوت‘کو مکتوب علی گڑھ بھیجتے رہے۔ علی گڑھ سے شائع ہونے والے پندرہ روزہ معیاری جریدے ’خیر وخبر‘ میں بھی مضمون نگاری کی۔ لیکن ان کی صحافت کا اصل بانکپن ہفتہ وار ’ہجوم‘ کی اشاعت کے ساتھ سامنے آیا، جو 1979 میں دہلی سے شروع ہوا۔ ’ہجوم‘ کی اشاعت 1990 تک جاری رہی۔ اپنے عہد کے اس منفرد اور مکمل ہفتہ وار نے اردو اخبارات کے قارئین میں ایک نئی فکر اور سوچ کو جلا بخشی۔ خاص بات یہ تھی کہ ’ہجوم‘ میں اوریجنل رپورٹنگ شائع ہوتی تھی، جب کہ معاصر اخبارات انگریزی اخباروں کی خبروں کا چربہ شائع کرتے تھے۔ ’ہجوم‘ نے جذباتیت سے کنارہ کرکے سنجیدہ موضوعات کا انتخاب کیا۔ اس اخبار کی ایک خاص پہچان یہ تھی کہ یہ سیاسی، سماجی اور مذہبی شخصیات پر مثبت انداز میں تنقید کرتاتھا۔ ’ہجوم‘ کے ابتدائی شماروں میں ’سیاسی کرکٹ نمبر‘ کو خاص مقبولیت حاصل ہوئی۔

اردو کے جن عہد ساز صحافیوں سے جاوید حبیب بے حد متاثر تھے، ان میں ” عزائم ” کے ایڈیٹر جمیل مہدی اور ” دعوت ” کے مدیر محمد مسلم کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ ان دونوں بزرگ صحافیوں سے جاوید حبیب کا رشتہ شفقت اور محبت کا تھا۔ ہفتہ وار ’ہجوم‘ کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں اس زمانہ کے بڑے اہم قلم کار کالم لکھا کرتے تھے۔ صالحہ عابد حسین، پروفیسر شمیم حنفی، سید نقی حسن جعفری، پروفیسر الطاف احمد اعظمی، احمد رشید شیروانی کی تحریریں ’ہجوم‘ میں پابندی سے شائع ہوتی تھیں۔ جبکہ فرحت احساس اس کی ادارتی ٹیم میں شامل تھے۔

جاوید حبیب کی ذہنی تربیت مفتی عتیق الرحمان عثمانی، ڈاکٹر عبد الجلیل فریدی، مولانا محمد تقی امینی، مولانا افتخار فریدی جیسے بزرگوں اور مولانا محمد مسلم اور جمیل مہدی جیسے صحافیوں نے کی تھی ۔ ہفتہ وار ’ہجوم‘ کی اشاعت کے لئے انہوں نے صحافیوں اور قلم کاروں کو جو تربیت دی تھی اس نے ’ہجوم‘ کو اپنے دور کا مقبول اخبار بنا دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare