جمہوریت کے چہرے پر ایک اور داغ!

الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری پر سوالیہ نشان

از: عبدالحلیم منصور

ملک میں چیف الیکشن کمشنر (CEC) کی تقرری ہمیشہ سے جمہوری عمل کی شفافیت اور غیرجانبداری کے لیے اہم سمجھی جاتی ہے۔ حالیہ دنوں میں گیانیش کمار کی بطور چیف الیکشن کمشنر تقرری نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ رات کے اندھیرے میں ہونے والا یہ متنازع فیصلہ ملک کے سیاسی مستقبل کی تاریکی کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ ملک میں جمہوریت کے بنیادی اصولوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس طرح کے فیصلے مسلط کیے جا رہے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کا یہ عمل، جس میں چیف جسٹس آف انڈیا کو شامل نہ کرنا، حکومت کے اختیارات کو مزید مضبوط کرنے اور انتخابی نظام کی غیرجانبداری پر سوالیہ نشان کھڑا کرنے کے مترادف ہے۔
جمہوریت کے چہرے پر ایک اور داغ!
جمہوریت کے چہرے پر ایک اور داغ!
یہ محض ایک تقرری نہیں بلکہ ایک خطرناک نظیر ہے، جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ کس طرح اداروں کی خودمختاری کو محدود کرکے سیاسی قوتیں جمہوری اصولوں کو اپنی مرضی کے تابع کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں پر بڑھتی ہوئی عالمی تنقید، بین الاقوامی فنڈز کی منسوخی، اور حزب اختلاف کی بے بسی ایک ایسے مستقبل کی نشاندہی کر رہی ہیں جہاں شفافیت اور غیرجانبداری محض کاغذی نعروں تک محدود ہو جائیں گی۔
جمہوری اقدار پر سوالیہ نشان
جمہوریت ایک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے
جمہوری نظام کی روح شفافیت اور اجتماعی مشاورت میں مضمر ہے، لیکن حالیہ دنوں میں چیف الیکشن کمشنر کی راتوں رات تقرری نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ کیا یہ فیصلہ ایک آئینی عمل تھا یا محض حکومت کا یکطرفہ اقدام؟ حیرت انگیز طور پر، سپریم کورٹ کی واضح ہدایات کے باوجود، تقرری کے عمل میں وہ شفافیت نظر نہیں آئی جس کی جمہوری نظام میں توقع کی جاتی ہے۔یہ معاملہ صرف ایک فرد کی تقرری کا نہیں بلکہ جمہوریت کے وسیع تر اصولوں کا ہے۔ اگر پارلیمنٹ محض رسمی ادارہ بن جائے اور اپوزیشن لیڈر کی رائے کو نظر انداز کر دیا جائے، تو کیا اسے جمہوری عمل کہا جا سکتا ہے؟ یہ سوال ہر اس شہری کے ذہن میں اٹھ رہا ہے جو جمہوریت کو صرف ایک انتخابی عمل تک محدود نہیں دیکھنا چاہتا بلکہ اسے ایک وسیع اور شفاف نظام کے طور پر برقرار رکھنے کا خواہاں ہے۔وزیر اعظم کے پاس اختیارات کا ہونا ایک آئینی حقیقت ہے، لیکن کیا یہ اختیار اس حد تک وسیع ہونا چاہیے کہ وہ کسی بھی آئینی ادارے کی تشکیل میں پارلیمنٹ یا عدلیہ کی سفارشات کو مکمل طور پر نظر انداز کر سکیں؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب وقت کے ساتھ سامنے آئے گا، لیکن فی الحال، یہ معاملہ جمہوری رویوں اور شفافیت پر ایک بڑی بحث کو جنم دے چکا ہے۔جمہوریت کا بنیادی اصول—عوام کی مرضی سے حکومت کا قیام—محض ایک رسمی کارروائی بن کر رہ جائے گا۔یہ صورتحال ہر اس شہری کے لیے لمحۂ فکریہ ہے جو بھارت کو ایک حقیقی جمہوری ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے، نہ کہ اکثریت کی آمریت کے طور پر۔ اگر جمہوری ادارے کمزور کیے جاتے رہے، تو انتخابی عمل پر عوامی اعتماد کا بحران پیدا ہو سکتا ہے، جو کسی بھی جمہوری ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہوتا ہے۔سوال یہ ہےکہ کیا ہم ایک آزاد، خودمختار اور شفاف انتخابی نظام چاہتے ہیں، یا پھر جمہوریت کو محض ایک رسمی ڈھانچے میں تبدیل ہوتا دیکھنے کے لیے تیار ہیں؟
جہاں تک گیانیش کمار کا تعلق ہے ،وہ 1988 بیچ کے کیرالہ کیڈر کے ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر ہیں۔ انہوں نے وزارت داخلہ میں اہم عہدوں پر خدمات انجام دی ہیں۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی اور رام جنم بھومی ٹرسٹ کے قیام کے دوران ان کا کردار قابلِ ذکر ہے۔ حال ہی میں، انہیں وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امت شاہ، اور قائد حزب اختلاف راہل گاندھی پر مشتمل سلیکشن کمیٹی نے چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا ہے۔ تاہم، راہل گاندھی نے اس تقرری پر اختلافی نوٹ درج کیا ہے، جس کی وجہ حکومت کے نئے قانون کے تحت سلیکشن کمیٹی میں چیف جسٹس آف انڈیا کی عدم شمولیت ہے۔یہ تنازع اس وقت شدت اختیار کر گیا جب سپریم کورٹ نے 2023 میں ایک آئینی بینچ کے ذریعے فیصلہ دیا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر اور دیگر انتخابی کمشنرز کی تقرری کے لیے ایک غیرجانبدار کمیٹی ہونی چاہیے، جس میں چیف جسٹس آف انڈیا بھی شامل ہوں۔ تاہم، حکومت نے اس فیصلے کو نظرانداز کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں ایک نیا قانون پاس کیا، جس میں چیف جسٹس کو کمیٹی سے خارج کر دیا گیا۔
حکومت کے نئے قانون کے مطابق، چیف الیکشن کمشنر اور دیگر کمشنرز کی تقرری کے لیے سلیکشن کمیٹی میں وزیر اعظم، وزیر داخلہ، اور اپوزیشن لیڈر شامل ہوں گے۔ اس سے پہلے، سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ اس کمیٹی میں چیف جسٹس آف انڈیا کی شمولیت ضروری ہے تاکہ تقرری کا عمل شفاف اور غیرجانبدار رہے۔ حکومت نے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے نیا قانون متعارف کرایا، جسے حزب اختلاف "جمہوریت پر حملہ” قرار دے رہی ہے۔
بین الاقوامی سطح پر، معروف صنعتکار ایلون مسک نے بہت پہلے ہی الیکٹرانک ووٹنگ مشینز کی ساکھ پر سوال اٹھائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ناقابلِ اعتبار ہیں اور انہیں ہیک کیا جا سکتا ہے۔ اس پر سابق مرکزی وزیر راجیو چندر شیکھر نے جواب دیا تھا کہ ہندوستانی EVMs محفوظ ہیں اور انٹرنیٹ سے منسلک نہیں، اس لیے ہیکنگ کا خطرہ نہیں ہے۔ یہ بحث ملک کے انتخابی نظام کی شفافیت پر عالمی توجہ مبذول کراتی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں بھارت کو ملنے والی 21 ملین ڈالر کی امداد منسوخ کر دی ہے، جو بھارتی انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ بڑھانے کے لیے مختص تھی۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ بھارت ہم پر سب سے زیادہ ٹیکس لگاتا ہے، اور وہاں ووٹر ٹرن آؤٹ کے لیے پیسے ہم کیوں دیں؟ اس فیصلے پر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اسے داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیا، جبکہ کانگریس نے حکومت کی خارجہ پالیسی پر تنقید کی۔ یہ اقدام بھارت کے جمہوری عمل اور بین الاقوامی تعلقات پر گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن معاملے پر سماعت مقرر کی ہے، جو آنے والے دنوں میں ایک اہم فیصلہ دے سکتی ہے۔ اگر عدالت حکومت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتی ہے تو یہ الیکشن کمیشن کی خودمختاری کے تحفظ کے لیے ایک سنگ میل ہوگا۔ تاہم، اگر حکومت کے حق میں فیصلہ آتا ہے، تو اس کا مطلب ہوگا کہ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری مکمل طور پر حکومت کے ہاتھ میں ہوگی، جو مستقبل میں انتخابات پر سنگین اثرات ڈال سکتا ہے۔
یہ معاملہ نہ صرف رواں سال چند ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات بلکہ 2029 کے عام انتخابات کے تناظر میں انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ اگر الیکشن کمیشن پر حکومتی کنٹرول مضبوط ہو جاتا ہے، تو یہ انتخابات کی ساکھ کو متاثر کر سکتا ہے۔ آزادانہ انتخابات جمہوریت کی بنیادی شرط ہوتے ہیں، اور اگر انتخابی عمل پر انگلیاں اٹھنے لگیں، تو بھارت کی عالمی سطح پر جمہوری حیثیت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
یہ سوال اب محض ایک مفروضہ نہیں بلکہ ایک تلخ حقیقت بنتا جا رہا ہے۔ ایسے فیصلے اگر بغیر کسی موثر مزاحمت کے نافذ ہوتے رہے تو ملک کا جمہوری نظام رفتہ رفتہ آمریت کی صورت اختیار کر سکتا ہے، جہاں اکثریت کی حکومت ہی سب کچھ طے کرے گی اور اقلیتوں، حزب اختلاف، اور دیگر اداروں کے لیے کوئی موثر آواز باقی نہیں رہے گی۔
یہ وقت ہے کہ عوام، سول سوسائٹی، اور جمہوری ادارے اپنی ذمہ داری نبھائیں۔ اگر جمہوریت کو شفافیت، غیرجانبداری، اور مشاورت کی بنیاد پر نہیں چلایا گیا، تو یہ آہستہ آہستہ اپنی اصل روح کھو دے گی۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب جمہوری ادارے کمزور کیے جاتے ہیں، تو قوموں کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔ کیا ہندوستان بھی اسی راہ پر گامزن ہے؟۔
ملک میں جمہوری اداروں کی آزادی اور شفافیت کو برقرار رکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کا موجودہ طریقہ کار اگر جاری رہا، تو یہ انتخابات پر عوامی اعتماد کو متزلزل کر سکتا ہے۔ جمہوریت کا اصل حسن آزادانہ اور منصفانہ انتخابات میں ہے، جہاں ہر شہری کو یقین ہو کہ اس کا ووٹ ایک طاقتور جمہوری عمل کا حصہ ہے۔ اس معاملے پر سپریم کورٹ کا فیصلہ جمہوریت کی بقا کے لیے نہایت اہم ثابت ہوگا۔
جمہوریت کی بنیاد شفافیت، غیرجانبداری، اور عوام کے اعتماد پر ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری میں غیرشفافیت، انتخابی نظام پر عالمی سطح پر اٹھنے والے سوالات، اور اپوزیشن کی بے بسی اس بات کا اشارہ دے رہے ہیں کہ بھارت میں جمہوریت کو درپیش چیلنجز سنگین ہو چکے ہیں۔ اگر ادارے حکومتی دباؤ میں آ کر کام کریں، تو پھر انتخابات کی غیرجانبداری پر بھی سوالات اٹھیں گے، جو بالآخر جمہوریت کو ایک رسمی عمل میں تبدیل کر سکتے ہیں۔
آج سوال یہ نہیں کہ گیانیش کمار کتنے اہل ہیں، بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا ان کی تقرری ایک آزاد اور شفاف طریقۂ کار کے تحت ہوئی؟ اگر جمہوری ادارے اپنی خودمختاری کھو دیں اور محض حکومتی احکامات کی تکمیل کا ذریعہ بن جائیں، تو پھر "عوام کی حکومت، عوام کے لیے، عوام کے ذریعے” محض ایک نعرہ بن کر رہ جائے گا۔
"جمہوریت میں طاقت عوام کے پاس ہوتی ہے، لیکن جب ادارے کمزور ہو جائیں تو عوام کی طاقت بھی محض ایک خوش فہمی بن جاتی ہے۔”
یہ صورتحال ہر اس شہری کے لیے لمحۂ فکریہ ہے جو بھارت کو ایک حقیقی جمہوری ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے، نہ کہ اکثریت کی آمریت کے طور پر۔ اگر جمہوری ادارے کمزور کیے جاتے رہے، تو انتخابی عمل پر عوامی اعتماد کا بحران پیدا ہو سکتا ہے، جو کسی بھی جمہوری ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہوتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہم ایک آزاد، خودمختار اور شفاف انتخابی نظام چاہتے ہیں، یا پھر جمہوریت کو محض ایک رسمی ڈھانچے میں تبدیل ہوتا دیکھنے کے لیے تیار ہیں؟
اب کے بھی خواب بیچ کے خریدار آ گئے،  
اب کے بھی بے خبر تھے، سو پھر ہار آ گئے

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare