جناب محمد راوت صاحبؒ ، امیرِ تبلیغی جماعت، زامبیا

بقلم: خورشید عالم داؤد قاسمی

جناب محمد راوت صاحبؒ –رحمۃ اللہ علیہ– زامبیا کی تبلیغی جماعت کے امیر تھے۔  وہ نہایت ہی ضعیف تھے۔ عمر کی نویں دہائی مکمل کرنے کے باوجود، ان کی قوتِ سماعت اور بصارت قابلِ رشک حد تک درست تھی۔ آپ تقویٰ، پرہیزگاری اور اخلاص کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔ آپ علما و صلحا سے بڑی محبت کرتے اور ان کی مجالس میں حاضر ہوتے۔ آپ کا دل محبت و شفقت سے لبریز اور دوسروں کے دکھ اوردرد کا غمخوار تھا۔ یہ فکر ہمیشہ آپ کو دامن گیر رہتی کہ دین کی بات ہر خاص و عام تک پہنچے، مقامی لوگ بھی دین سے روشناس ہوں اور وہ دین کی راہ پر چلیں۔ جو شخص آپ سے ملاقات کے لیے پہنچتا، آپ اس سے اس کے حالات دریافت کرتے، اس کے بچوں کی خیریت پوچھتے اور دلچسپی سے اس کے علاقے کی دینی سرگرمیوں کی روداد سنتے۔ مساجد و مکاتب کی کارگذاری اور وہاں کی دینی محنت سن کر خوش ہوتے اور حوصلہ افزائی فرماتے۔ آپ کی گفتگو میں ہمیشہ دین کا درد، اخلاص کی خوشبو اور محبت کی گرمی محسوس ہوتی تھی۔

جناب محمد راوت صاحبؒ ، امیرِ تبلیغی جماعت، زامبیا
جناب محمد راوت صاحبؒ ، امیرِ تبلیغی جماعت، زامبیا

لوساکا کے اولین امیر سے تاحیات "امیر صاحب” تک:

ابتدائی دنوں میں ہی آپ لوساکا میں تبلیغی جماعت کے امیر منتخب ہوئے۔ ایک عرصہ کے لیے آپ ہندوستان تشریف لے گئے؛ تو اس دوران امارت کی ذمہ داری جناب احمد صاحبؒ کے سپرد کی گئی۔ وطنِ ثانی زامبیا واپس آنے کے بعد، دوبارہ آپ ہی کو یہ منصب سونپا گیا اور پھر تاحیات آپ امیر رہے اور لوگ آپ کو محبت و احترام سے”امیر صاحب” کے لقب سے پکارا کرتے تھے۔ آپ کی زندگی کا بیشتر حصہ تبلیغی جماعت کی خدمت اور مکاتب و مساجد کی تعمیر وآبادی کی فکر میں گزرا۔ آپ کی مجلس میں دین کی محنت کا ذکر ہی اصل موضوع ہوتا۔ آپ ہر وقت اس سوچ میں رہتے کہ اللہ کا پیغام زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچے اور دینی ماحول پروان چڑھے۔

آخری یادگار ملاقات:

امیر صاحبؒ سے اس راقم الحروف کی کئی مواقع پر ملاقات رہی؛ مگر سالِ رواں، جنوری 2025 کے آخری عشرہ میں، مخلص دوست مولانا مبشر صاحب مہتا حفظہ اللہ(استاذ: جامعہ اسلامیہ، لوساکا) کی معیت میں ہونے والی ملاقات خاص طور پر یادگار بن گئی؛ کیوں کہ یہ آخری ملاقات ثابت ہوئی۔ اس نشست میں راقم الحروف نے اپنی کتاب "فلسطین: قبضہ اور مزاحمت” ان کی خدمت میں پیش کی۔ انھوں نے کتاب کو دیکھا، خوشی کا اظہار کیا اور حوصلہ افزائی فرمائی۔ انھوں نے ساتھ ہی یہ ہدایت بھی دی کہ فلسطین جیسے اہم موضوع پر مسلسل قلم اٹھاتے رہیں اور جو بھی تحریر لکھیں اسے شائع ضرور کریں؛ تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔

امیر صاحبؒ سے گفتگو کے دوران مختلف موضوعات زیرِ بحث آئے اور راقم الحروف کو ان کے قیمتی ملفوظات سے استفادہ کا موقع ملا۔ امیر صاحبؒ نے خاص طور پر مکاتب، مساجد اور علما کے بارے میں دریافت کیا اور کئی سوالات بھی کیے۔ انھوں نے یہ بھی پوچھا کہ مون ریز ٹرسٹ کے تحت کتنے مساجد و مکاتب قائم ہیں، وہاں مسلمانوں کی آبادی کتنی ہے اور ان کے دینی حالات کس سطح پر ہیں وغیرہ۔ ان کے سوالات سے صرف معلومات حاصل کرنا مقصد نہیں ہوتا؛ بلکہ دین کی خدمت کا حقیقی جذبہ جھلکتا تھا۔

تبلیغی جماعت کے فائدے:

امیر صاحبؒ نے تبلیغی جماعت کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالی نے اس کام میں بہت سے فائدے رکھے ہیں۔ پھر انھوں نے ایک عالم کا قول نقل کرتے ہوئے فرمایا: "تبلیغ کا کام اگر اصول و آداب کے ساتھ چلے گا؛ تو چار بڑے فائدے ہوں گے۔ مسجد کو نمازی ملیں گے، مکتب کو طلبہ ملیں گے، بیت اللہ کو حجاج ملیں گے اور مشائخ کو مریدین ملیں گے”۔ یہ حقیقت ہے کہ اس جملے میں بڑی سچائی پوشیدہ ہے۔ جب کوئی شخص تبلیغی جماعت، مسجد اور دین سے وابستہ ہوتا ہے؛ تو مسجد نمازیوں سے آباد ہوتی ہے۔ وہ شخص اپنے دین کی اہمیت کو سمجھتا ہے اور اپنے بچوں کو مکاتب و مدارس میں بھیجتا ہے؛ تاکہ وہ دین سیکھیں، اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کو پہچانیں اور دین پر عمل کرنے والے بنیں۔ پھر جب اللہ تعالیٰ اس شخص کو مال و دولت سے نوازتا ہے اور وہ دین سے جڑا رہتا ہے؛ تو اس کے دل میں بیت اللہ کی زیارت کی تمنا اور حج و عمرہ کی ادائیگی کا شوق پیدا ہوتا ہے۔ یوں بیت اللہ حاجیوں سے آباد ہوتا ہے۔ آج ہم اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھ رہے ہیں کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنھیں اللہ نے بے پناہ مال و دولت عطا کیا ہے؛ مگر دین سے دوری کی وجہ سے وہ حج و عمرہ جیسے فرائض سے غافل رہتے ہیں؛ جب کہ حج ان پر فرض ہوچکا ہوتا ہے۔

زامبیا میں دینی بیداری کا سفر:

امیر صاحبؒ نے فرمایا کہ جب وہ سن 1953 میں زامبیا آئے، اُس وقت لوساکا میں صرف ایک مسجد تھی۔ مسلمان تعداد میں تو زیادہ نہ تھے؛ لیکن کچھ مسلمان ضرور موجود تھے۔ افسوس کہ ان کی وضع قطع غیر اسلامی تھی: لباس غیر اسلامی انداز کا، چہروں پر داڑھی کا نام و نشان نہیں اور نماز کی پابندی بھی کم ہی دیکھنے کو ملتی تھی۔ سن 1966 میں ہندوستان سے پہلی جماعت اس علاقے میں آئی۔ اس سے قبل پاکستان سے ایک جماعت سن 1965 میں اس علاقے میں آچکی تھی۔ پھر اس علاقے کا پہلا تبلیغی اجتماع سن 1966 میں، ملاوی میں ہوا۔یہی وہ موڑ تھا جہاں سے لوگوں کا دین اور تبلیغی جماعت سے تعلق مضبوط ہونا شروع ہوا۔ آہستہ آہستہ مسلمان نماز کے پابند ہوئے، ان کے چہروں پر داڑھی کی رونق نظر آنے لگی اور لباس و پوشاک میں اسلامی شان پیدا ہوئی۔ اس کے بعد ان کے بچے مکاتب و مدارس کا رخ کرنے لگے اور آج، الحمدللہ، علما اور حفاظ کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ درجنوں مساجد تعمیر ہوچکی ہیں، اور ما شاء اللہ، اکثر مساجد نمازیوں سے آباد رہتی ہیں۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل اور دین کی محنت کی برکت کا نتیجہ ہے۔

تبلیغ کی محنت میں عمر بھر کا سفر:

امیر صاحبؒ جوانی ہی میں تبلیغی جماعت سے وابستہ ہوگئے اور اس کام سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ آپ نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ اسی کام کے لیے وقف کر دیا۔  آپ اس عمر میں بھی تبلیغی جماعت کے اعمال، مثلا: گشت،بیان، مشورہ وغیرہ میں پابندی سے شرکت کرتے۔ پنجگانہ نماز تکبیر اولی کے ساتھ ادا کرتے۔ تبلیغی جماعت کی نسبت سے آپ نے نہ صرف زامبیا میں دعوت و تبلیغ کا سفر کیا؛ بلکہ کئی دوسرے افریقی ممالک جیسے ملاوی، تنزانیہ، زمبابوے، موزمبیق، کینیا، ساؤتھ افریقہ اور گانا کا دورہ کیا۔ اس کے علاوہ آپ نے براعظم افریقہ سے باہر نکل کر، امریکہ اور کینیڈا تک کا سفر کیا، جہاں بھی گئے دین کی محنت اور دعوتِ الی اللہ کا پیغام پہنچاتے رہے۔

ابتدائی زندگی اور زامبیا آمد:

امیر صاحبؒ  کا تعلق ہندوستان کے صوبہ گجرات کے ضلع بھروچ کے قصبہ جیتالی سے تھا۔ آپ کی ولادت سات نومبر 1934 کو ہوئی۔ ابتدائی تعلیم آپ نے اپنے گاؤں کے مکتب میں حاصل کی، جہاں آپ کے استاد جناب حافظ احمد صاحبؒ تھے۔  امیر صاحب نے اسکول میں بھی داخلہ لیا اور میٹرک تک کی تعلیم مکمل کی۔ پھر آپ نے برودہ یونیورسٹی میں داخلہ لیا، جہاں آپ سال اوّل کے طالب علم رہے۔ تاہم، تعلیم کا سلسلہ منقطع کر کے سن 1953 میں زامبیا تشریف لے آئے۔ اس وقت آپ کی عمر محض انیس برس تھی۔ آپ پانی کے جہاز کے ذریعے زامبیا تشریف لائے اور پھر یہی آپ کا مستقل مسکن بن گیا۔ اُس وقت یہاں مسلمانوں کی آبادی نہایت قلیل تھی اور ہندوستانی نژاد مسلمان تو اور بھی گنے چنے تھے۔

زامبیا میں امیر صاحبؒ کی زندگی کاآغاز:

جس زمانے میں امیر صاحبؒ زامبیاآئے تھے، اس وقت یہ ملک برطانوی حکومت کے زیرِ تسلط تھا۔ برطانوی حکومت کا معمول تھا کہ بیرونِ ملک سے آنے والے آدمی کا ایک امتحان لیا جاتا۔ اس امتحان کے لیے زامبیا کے شہر لیونگ اسٹون جانا پڑتا تھا؛ کیوں کہ برطانوی حکومت کا دفتر وہیں واقع تھا۔ امتحان میں کامیابی کی صورت میں، اگر نووار کے پاس کوئی کام نہیں ہوتا؛ تو حکومت اسے کوئی روزگار مہیا کرتی اور پہلے سال میں 25 پاؤنڈ ماہانہ تنخواہ دیتی۔امتحان کا طریقہ کار کچھ یوں تھا کہ برطانوی افسر انگریزی کی ایک کتاب سے الفاظ پڑھتا اور امیدوار سے انھیں املا لکھوانا ہوتا۔ اسی طرح وہ کوئی کتاب امیدوار کو دیتا اور اسے پڑھنے کے لیے کہتا۔ اگر امیدوار املا اور ریڈنگ میں کامیاب ہوجاتا؛ تو وہ امتحان پاس کر لیتا۔ امیر صاحبؒ نے بھی برطانوی حکومت کا امتحان دیا اور اس میں کامیاب ہوئے۔ شروع میں آپ نے تقریبا پندرہ سال تک کام کیا اور پھر آپ نے اپنی دکان شروع کی اور تاجر کے طور پر مصروف عمل رہے۔

خاندانی زندگی اور اولاد:

امیر صاحبؒ کی شادی سن 1957 میں محترم جناب قاسم بدات صاحب مرحوم کی صاحبزادی سے ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین صاحبزادیوں اور تین صاحبزادے: جناب یوسف راوت، حضرت مولانا و حافظ رشید راوت، حضرت مولانا و حافظ اسماعیل راوت حفظہم اللہ سے نوازا۔آپ کے بڑے صاحبزادے، جناب یوسف صاحب، ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے کاروبار میں مصروف ہو گئے۔ دوسرے اور تیسرے صاحبزادے، حضرت مولانا حافظ رشید راوت اور جناب مولانا حافظ اسماعیل راوت صاحبان، دار العلوم فلاح دارین، ترکیسر، گجرات کے فضلاء ہیں۔ امیر صاحبؒ کے صاحبزادگان تعلیمی اور تبلیغی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ، کاروبار میں مصروف ہیں۔ حضرت مولانا رشید راوت صاحب مون ریز ٹرسٹ کے ٹرسٹی بھی ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے کاروباروں میں برکت دے اور انھیں دین و دنیا کی کامیابیاں عطا فرمائے!

دعائے مغفرت اور یادگار خدمات:

چند دنوں قبل یہ دکھ بھری خبر موصول ہوئی کہ امیر صاحبؒ  کی طبیعت ناساز ہے اور وہ طبی علاج و معالجے کی نذر ہیں۔ یہ خبر ان کے چاہنے والوں اور دینی حلقوں کے لیے ایک شدید صدمے کی حیثیت رکھتی تھی؛ کیوں کہ امیر صاحبؒ کی شخصیت نے کئی دہائیوں تک تبلیغ اور خدمتِ دین کے میدان میں اپنی محنت اور خلوص کی روشنی پھیلائی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت و مشیت کے تحت گیارہ اگست 2025 کی علی الصبح اپنے اس  مخلص بندے کو اپنے جوارِ رحمت میں بلا لیا۔ یہ زامبیا کے مسلمانوں کے لیے ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ یہ ایک ایسا خلا جو آسانی سے پر نہیں کیا جا سکتا۔ ہم سب دل کی گہرائیوں سے دعا گو ہیں کہ اللہ رب العزت امیر صاحبؒ کی تمام دینی خدمات، ان کی تبلیغی محنت اور امت مسلمہ کے لیے ان کے بے لوث کارنامے قبول فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو نور سے بھردیں، درجات بلند کریں اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائیں! ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے اہلِ خانہ، اولاد اور تمام عزیز و اقارب کو صبر جمیل اور سکونِ قلب عطا فرمائیں! اللہ تعالیٰ انھیں اس غم کی گھڑی میں استقامت دے تاکہ وہ اس مصیبت کو صبر اور رضا مندی کے ساتھ برداشت کر سکیں!

یہ یاد رکھنا چاہیے کہ امیر صاحبؒ کی زندگی اور خدمات ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں، جن سے سبق حاصل کر کے ہم اپنے دین کی خدمت جاری رکھیں۔ اللہ ہمیں اس دکھ کو صبر و تحمل کے ساتھ قبول کرنے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے! آمین!

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare