جنگِ آزادی اور سیمانچل
احسان قاسمی
سیمانچل پرانے وقتوں سے حکومتِ بنگالہ کا ایک اہم خطہ رہا ۔ مالدہ کے قریب واقع بنگال کی راجدھانی گور یا لکھنوتی جسے بادشاہ ہمایوں نے جنت آباد کے لقب سے سرفراز کیا ، قدیم پورنیہ کا ہی ایک حصہ تھا ۔ بعد ازاں مرشد قلی خاں نے اپنے نام پر شہر مرشد آباد آباد کیا اور اسے بنگالہ کی راجدھانی مقرر کیا ۔

مرشد آباد سے پورنیہ کا گہرا تعلق رہا ہے ۔ مرشد آباد کے نواب علی وردی خان نے اپنے داماد سعید احمد خان صولت جنگ کو پورنیہ کا فوجدار مقرر کیا تھا جس کے انتقال کے بعد اس کا بیٹا نواب شوکت جنگ پورنیہ کا فوجدار بنا ۔ نواب علی وردی خاں نے اپنی چھوٹی بیٹی امینہ بیگم کے چھوٹے بیٹے سراج الدولہ کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا لیکن نواب علی وردی خان کے انتقال کے بعد شوکت جنگ نے مرشد آباد کے تخت پر اپنا دعوی’ پیش کیا ۔ دونوں خالہ زاد بھائیوں کے درمیان منی ہاری میں جنگ ہوئی جس میں شوکت جنگ مارا گیا ۔
مرزا سراج الدولہ 9 اپریل 1765ء کو محض 23 سال کی عمر میں بنگالہ کے تخت پر بطور نواب فائز ہوئے تھے ۔
نواب سراج الدولہ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نےانگریزوں کے خطرے کو محسوس کیا تھا ۔ انگریز رفتہ رفتہ بڑے شاطرانہ انداز میں اپنی طاقت بڑھاتے جا رہے تھے ۔ فورٹ ولیم قلعے کی بھی نئے سرے سے تعمیر و توسیع کا کام کیا جا رہا تھا جس کی اجازت نواب سے حاصل نہیں کی گئی تھی ۔ انگریز کسٹمز ڈیوٹی کی چوری میں بھی ملوث تھے اور ان کے ذریعہ حکومت کے مجرموں کو بھی پناہ دی جا رہی تھی ۔
لہذا نواب سراج الدولہ نے 16 جون 1765 ء کو فورٹ ولیم قلعے پر چڑھائی کر دی اور چار دنوں کے محاصرے کے بعد قلعہ فتح کر لیا ۔
سراج الدولہ چاہتا تو اسی دن انگریزوں کا قلع قمع کر ڈالتا لیکن وہ بنگال کا نواب تھا، شہنشاہِ ہند نہ تھا ۔ دربار شاہی سے انگریزوں کی دوستی اور قربت تھی اور اسی بنا پر انھیں تجارت کرنے کا اجازت نامہ اور دیگر مراعات حاصل تھیں ۔انگریزوں نے اگلے سال فورٹ ولیم پر دوبارہ تسلط قائم کر لیا ۔
حقیقتا” دیکھا جائے تو فورٹ ولیم پر دوبارہ انگریزوں کا تسلط مستقبل کے حالات و واقعات کا پیش خیمہ تھا ۔ ٘انگریزوں نے میر جعفر ،جگت سیٹھ، اومی چند وغیرہ کے اشتراک سے سازش رچ کر 23 جون 1757 ء کو پلاسی کے میدان میں نواب سراج الدولہ کو شکست فاش دی اور 2 جولائی 1757 ء کو میر جعفر کی ڈیوڑھی میں اس کا سر تن سے جدا کر دیا گیا ۔
( تفصیل کے لئے میرا افسانہ ‘ نمک حرام ڈیوڑھی ‘ زبان و ادب پٹنہ اور ندائے گل لاہور کے سالنامہ 2018 میں ملاحظہ فرمائیں ۔ آپ یہ تاریخی افسانہ ‘ عالمی افسانہ فورم ‘ پر بھی پڑھ سکتے ہیں )
‘ شیرِ میسور ‘ سلطان فتح علی صاحب عرف ٹیپو سلطان وہ دوسرے بڑے حکمران تھے جنہوں نے برٹش کولونیئل خطرے کو بھانپ لیا تھا لیکن ان کے پاس بھی میر صادق موجود تھا جس کی غداری کے سبب ٹیپو سلطان کو 4 مئ 1799 ء کو میسور کی چوتھی اور آخری جنگ میں جامِ شہادت نوش کرنی پڑی ۔
علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا ہے
جعفر از بنگال و صدق از دکن
ننگِ آدم ،ننگِ دین، ننگِ وطن
آزادی کی پہلی جنگ جسے انگریزی سرکار نے غدر ( mutiny ) کا نام دیا 1857 ء میں لڑی گئی ۔ اس لڑائی کے مرکز میں سلطنتِ مغلیہ کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر اور ان کے علاوہ جھانسی کی رانی لکشمی بائی، تانتیا ٹوپے، منگل پانڈے ، نانا صاحب، بیگم حضرت محل وغیرہ تھے ۔
بہار میں 1857 ء کی بغاوت کا نمایاں چہرہ بابو ویر کنور سنگھ تھے جنہوں نے اسی سال کی عمر میں بھی انگریزوں سے لوہا لیا ۔ ان کے علاوہ بھی کئی اہم نام ہیں مثلا” پیر علی جو پٹنہ سٹی میں ایک کتب فروش تھے اور جنھوں نے 3 جولائی 1857 ء کو پٹنہ میں بغاوت کا بگل پھونکا تھا ۔
یہ محض چند نام ہیں جو تاریخ کے پنوں پر درج ہیں لیکن ہزاروں لاکھوں ایسے نام بھی ہیں جو وقت کے گرد و غبار تلے چھپے پڑے ہیں ۔ 11 جون 2025 ء کو جناب مشتاق احمد ندوی کی کتاب ‘ بھارتیہ سوتنترتا اتہاس کے دو شور ویر ‘ کی رونمائی کٹیہار میں ہوئی ۔ اس کتاب میں انھوں نے پہلی جنگِ آزادی / کرانتی کے دو متوالوں ابراہیم منڈل اور مولوی امیر الدین کی سوانح حیات، ان کے کارناموں اور ان پر انگریزی سرکار کے ذریعہ چلائے جانے والے مقدموں کی تفصیل پیش کی ہے ۔ ان دونوں حضرات کا تعلق مرشد آباد، مالدہ، راج محل اور ایک طور پر سیمانچل سے بھی تھا کیونکہ 1813 ء میں مالدہ ضلع کی تشکیل راج شاہی، دیناج پور اور پورنیہ ضلع کے حصص کو ملا کر ہی کی گئ تھی ۔
10 اپریل 1917 ء کو گنیش شنکر ودیارتھی کی فرمائش اور کسان راجکمار شکل کی دعوت پر مہاتما گاندھی نے چمپارن کا دورہ کیا اور نیل کی کھیتی کرنے والے کسانوں کے حق میں ستیہ گرہ کیا ۔ انگریز زبردستی کسانوں سے ان کی زمینوں پر نیل کی کاشت کرواتے تھے اور اس کا معاوضہ بھی نہیں دیتے تھے یا برائے نام دیتے تھے ۔ سیمانچل میں بھی انگریزوں کے ذریعہ کسانوں سے نیل کی کاشت کروائی جاتی تھی کیونکہ مانچسٹر اور انگلینڈ کے دیگر شہروں میں واقع کپڑے کے کارخانوں میں نیل کی بہت ڈیمانڈ تھی ۔ لیکن نیل کی مسلسل کاشت سے کھیتی کی زمین بنجر ہو جایا کرتی تھی ۔ ان باتوں کا ذکر میں نے اپنے افسانہ ‘ ایک خط ۔۔۔۔۔ ہزار داستان ‘ میں کیا ہے جو میرے افسانوی مجموعہ ‘ پیپرویٹ ‘ میں شامل ہے ۔
الغرض چمپارن ستیہ گرہ نے بہار کی سرزمین پر جنگِ آزادی اور مہاتما گاندھی کی قیادت میں اہنساتمک آندولن کی ایک ایسی تاریخی روپ ریکھا کھینچی جس میں اپنے لہو سے رنگ بھرنے کو ہزاروں لاکھوں نوجوان بیتاب ہو اٹھے ۔ اس آندولن میں سیمانچل بھی پیچھے نہیں رہا ۔ جیل گئے، ڈنڈے کھائے، گولیاں کھائیں لیکن آزادی حاصل کرکے رہے ۔
میں اپنا یہ مضمون آزادی کی للک رکھنے والے تمام سورماؤں کے نام معنون کرتا ہوں ۔
1 – بیدناتھ چودھری – آپ کی پیدائش کٹیہار ضلع کے پھلکا بلاک میں واقع بریٹا گاؤں میں ہوئی تھی ۔ 1942 ء کے آندولن کا وہ نمایاں چہرہ تھے ۔ آزادی کی لڑائی میں پورنیہ کے مجاہدین کے وہ لیڈر رہے ۔ جنگِ آزادی کے دوران مہاتما گاندھی کے وہ کافی قریب رہے ۔ گاندھی جی ان کے گاؤں بریٹا بھی تشریف لائے تھے ۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر راجندر پرشاد، جے پرکاش نارائن اور بھولا پاسوان شاستری وغیرہ کی بھی بریٹا آمد و رفت رہی ۔ گاندھی جی کے قتل کے بعد ان کی سمادھی کی راکھ لاکر انھوں نے کرسیلا میں گنگا ندی میں بہائی تھی ۔ اس زمانے میں انھیں ‘ بہار کا گاندھی ‘ لقب سے نوازا گیا تھا ۔
آزادی کے بعد انھوں نے وزارت قبول نہیں کی حالانکہ ڈاکٹر شری کرشن سنگھ وزیر اعلی’ کے زمانے میں انھیں ‘ کنگ میکر ‘ کہا جاتا تھا ۔ بعد ازاں ونوبا بھاوے کے زیر اثر وہ سروودئی ہو گئے اور ان کے ‘ بھو دان ‘ مہم میں شامل ہو گئے ۔ سروودے کی ترقی کی خاطر انھوں نے سروودے آشرم قائم کیا ۔ ان کے زمانے میں رانی پترا سروودے آشرم کی ملک گیر پہچان تھی جہاں بڑے بڑے رہنماؤں کی آمد و رفت رہی ۔
انھوں نے اپنی زندگی کی آخری سانسیں بنارس کے مرکزی سروودے آشرم میں لیں ۔
آزادی کی لڑائی میں تو انھوں نے جیل کی سزا کاٹی ہی لیکن جے پرکاش نارائن آندولن میں بھی جیل کی ہوا کھائی ۔
2 – نر نارائن سنگھ – بید ناتھ چودھری کے ہم عصر اور ان کے بعد دوسرے نمبر کے گاندھی وادی اور سروودے نیتا تھے ۔ ان کی پیدائش پورنیہ ضلع کے سرسی میں ہوئی تھی ۔ یہ جنگ آزادی کے دوران روپولی تھانہ کانڈ کے خاص ملزم گردانے گئے تھے ۔ بھارت چھوڑو آندولن کے دوران 25 اگست 1942 ء کو آزادی کے متوالوں نے روپولی تھانہ کو نذرآتش کر دیا تھا ۔ اس واقعہ میں کئی پولیس اہلکار اور کرانتی کار جاں بحق ہو گئے تھے ۔
3 – موہت لال پنڈت – آپ کا جنم پورنیہ کے گدھی گھاٹ میں ہوا تھا ۔ روپولی تھانہ کانڈ میں انھوں نے خاص کردار ادا کیا تھا ۔ اس واقعہ میں ان کے ساتھ روپولی کے میوا لال مہتا، بہدورا کے آنندی پرساد سنگھ اور جھلاری کے شرون سنگھ وغیرہ تھے ۔ ان کی پلاننگ تھی کہ مقتول داروغہ اور دیگر شہدا کی لاشوں کو راتوں رات غائب کر دیا جائے جس سے قتل کا مقدمہ نہ بن سکے ۔
4 – بھولا پاسوان شاستری – پورنیہ ضلع، کرتیانند نگر بلاک کے بیرگاچھی( سبوتر ) میں 21 ستمبر 1914 ء میں پیدا ہوئے ۔ کئ بار پورنیہ جیل میں رہے ۔ صوبہ بہار کے تین بار وزیر اعلی’ رہے ۔ نہایت سادگی اور ایمانداری کے ساتھ اپنی پوری زندگی گزاری ۔ پورنیہ میں زرعی کالج ان کے نام سے قائم کیا گیا ہے ۔
1984 ء میں پٹنہ میں وفات ہوئی ۔
5 – لکشمی نارائن سُدھانشو – کٹیہار ضلع کے پھلکا بلاک واقع چندوا گاؤں میں 15 دسمبر 1906 ء کو پیدا ہوئے تھے ۔ جنگ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا ۔ بہار ودھان سبھا کے اسپیکر رہے ۔ کئ کتابوں کے مصنف تھے ۔ ہندی ادب میں خاص مقام حاصل ہے ۔ 1948 ء میں پورنیہ کالج کے قیام اور جناردھن جھا دُوِج صاحب کے بطور پرنسپل بحالی میں ان کا اہم کردار تھا ۔
1974 ء میں فوت ہوئے ۔
6 – انوپ لال مہتا – 5 نومبر 1901 ء کو دھمداہا میں گورے لال مہتا اور گائتری دیوی کے گھر پیدا ہوئے ۔ بہت جوشیلے مجاہدِ آزادی تھے ۔ بن منکھی میں ریل گاڑی کی پٹری اکھاڑنے میں انھیں کا ہاتھ تھا ۔ اس کی پاداش میں انگریز ضلع جج نے انھیں پھانسی کا حکم سنایا تھا لیکن عوام کے غم و غصہ کو شانت کرنے کے لئے ہائی کورٹ نے انھیں بری کر دیا ۔
آزادی کے بعد پورنیہ کے پہلے ممبر آف پارلیامنٹ چنے گئے ۔ بنمنکھی میں انوپ لال مہتا ہائی اسکول اور گورے لال مہتا کالج کا قیام انھیں کی دین ہے ۔
25 مئ 1963 ء کو دارِ فانی کو الوداع کہا ۔
7 – گوکل کرشن رائے – ان کی پیدائش پورنیہ ایسٹ بلاک میں واقع گاؤں دیوان گنج میں 1895 ء میں ہوئی تھی ۔ وہ ایک زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ۔ انھوں نے کلکتہ سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی تھی ۔ یہ پورنیہ ضلع کے مجاہدین کے لیڈر تھے ۔ ان کا مکان پورنیہ ضلع اسکول کے قریب جنوبی سمت واقع تھا جو جنگِ آزادی کے مجاہدین کا مرکز تھا ۔ ان کی رہائش گاہ پر مہاتما گاندھی نے دو بار قیام کیا تھا ۔ 1927 ء کے نمک آندولن میں انھوں نے اور ان کی شریکِ حیات شریمتی ستیہ وتی نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا ۔ وہ 1928 ، 1930 اور 1934 ء میں تین دفعہ پورنیہ جیل گئے ۔ آخری دفعہ جیل میں بیمار ہونے کے بعد ڈائریا سے ان کی موت واقع ہو گئ ۔ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی ۔
پورنیہ میں کانگریس پارٹی کا دفتر انھیں کے نام یعنی ‘ گوکل کرشنا آشرم ‘ کے نام سے مشہور ہے ۔
8 – ستیہ وتی رائے – گوکل کرشن رائے کی اہلیہ اور پورنیہ میں انگریزوں کے بنائے ‘ نمک قانون ‘ کو توڑنے والی پہلی خاتون لیڈر تھیں ۔ جب 1930 ء میں گوکل کرشن رائے کو جیل بھیج دیا گیا تو ستیہ وتی رائے نے مورچہ سنبھالا ۔ نتیجتا” 1932 ء میں انھیں بھی جیل میں ڈال دیا گیا لیکن ان کے جیل جانے نے خواتین کے اندر آزادی کا جذبہ بیدار کر دیا اور خواتین نمک قانون کے خلاف سڑکوں پر اتر آئیں ۔
گوکل کرشن رائے کے انتقال کے بعد ڈاکٹر راجندر پرشاد شریمتی ستیہ وتی رائے سے ملنے پورنیہ ان کی رہائش گاہ پر تشریف لائے تھے ۔ کہتے ہیں ان سے مل کر راجندر بابو آبدیدہ ہو گئے تھے ۔
9 – پھنی گوپال سین – پھنی گوپال سین گپتا (پیدائش: 2 فروری 1905 ، وفات: 18 اگست 1991)
رہائش : بھٹہ بازار ، پورنیہ ۔
والد : للت موہن سین ۔ والدہ : شریمتی بؔگلا دیوی ۔
پورنیہ سٹی مڈل اسکول، ضلع اسکول پورنیہ، ٹی این جے کالج بھاگلپور اور بی این کالج پٹنہ سے تعلیم حاصل کی ۔ 1923 ء میں کانگریس پارٹی جوائن کیا ۔ دس سال پورنیہ اور بھاگلپور جیل میں گزارے ۔
جب ملک میں جمہوری نظام قائم کیا گیا تو 1951 ء میں 264 لوگوں کو ممبر آف پارلیامنٹ نامینیٹ کیا گیا تھا جس میں پورنیہ سے پھنی گوپال سین بھی تھے ۔ بعد ازاں پہلی سے چوتھی لوک سبھا انتخابات ( 1952 ، 1957 ، 1962 ، 1967 ) میں پھنی بابو نے جیت حاصل کی ۔ اس طرح وہ آزادی کے بعد لگاتار پانچ دفعہ ایم پی رہے لیکن ایمانداری کا یہ عالم تھا کہ اپنے لئے ایک گھر تک نہیں بنایا، گاڑی تک نہیں خریدی ۔ پندت جواہر لال نہرو بھی ان کی ایمانداری کے قائل تھے ۔ ان کے صاحبزادے دیوناتھ سین ایک معمولی جنرل اسٹور چلاتے ہیں ۔
نوٹ :- موجودہ وقت میں لوک سبھا سیٹوں کا جو نظام رائج ہے وہ آزادی کے فورا” بعد کچھ مختلف تھا ۔ اس کے چار حصے تھے ۔
1 – پورنیہ کی موجودہ سیٹ کا نام تھا ‘ پورنیہ سینٹرل ‘
2 – پورنیہ نارتھ ایسٹ
3 – پورنیہ – کم – سنتھال پرگنہ
4 – بھاگلپور – کم – پورنیہ
( یہ اس لئے لکھ دیا کہ اکثر اوقات غلط فہمی کا اندیشہ ہے )
10 – کمل دیو نارائن سنہا – ان کا جنم مظفر پور ضلع کے پروا پور میں 20 اکتوبر 1918 ء کو ہوا تھا ۔ ان کے والد کا نام اکشے کمار سنہا تھا ۔ انھوں نے جنگ آزادی میں شمولیت کی خاطر رینٹ ریڈکشن محکمہ کی ملازمت کو خیرباد کہا ۔ انھوں نے اپنی مجاہدانہ سرگرمیوں سے انگریزی حکومت کی ناک میں دم کر رکھا تھا لہذا انگریزی حکومت انھیں زندہ یا مردہ ہر حالت میں گرفتار کرنا چاہتی تھی ۔ 27 اگست کو پورنیہ کلکٹریٹ پر چڑھائی کر آزاد ہندوستان کا پرچم لہرانا تھا جس کی ذمہ داری لکشمی نارائن سدھانشو کی تھی ۔ کمل دیو نارائن سنہااپنی ٹیم کے ساتھ 24 اگست کو ہردا پل کو توڑنے نکل پڑے تھے لیکن کافی مشقت کے باوجود لوہے کا یہ پل نہیں ٹوٹ سکا ۔ 28 اگست 1942 ء کو وہ گرفتار کر لئے گئے اور پورنیہ جیل بھیج دیے گئے ۔ جیل میں قیدیوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے انھیں پھلواری شریف جیل منتقل کیا گیا ۔ بائیس ماہ بعد رہائی حاصل ہوئی ۔
کمل دیو بابو 1952 ء میں جیت درج کر پہلی بار ایم ایل اے بنے ۔ پچیس سال یعنی 1977 ء تک وہ لگاتار پورنیہ کے ایم ایل اے اور بہار سرکار میں کامیاب وزیر تعلیم رہے ۔ اس کے علاوہ وزارتِ معدنیات اور دیگر وزارت کا بھی قلمدان سنبھالا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہانی باقی ہے، سلسلہ جاری ہے