جیلانی خان ایک ہنرمند صحافی تھے

معصوم مرادآبادی

 روزنامہ ’انقلاب‘ لکھنؤ کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر جیلانی خان(علیگ) نے آج صبح پٹنہ میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ان کے انتقال سے صحافتی برادری میں سوگ کی لہر ہے۔ ’انقلاب‘ اور ’راشٹریہ سہارا‘ کے ان تمام کارکنوں نے انھیں دلی خراج عقیدت پیش کیا ہے،جن کے ساتھ انھوں نے کام کیا۔سبھی نے ان کی صحافیانہ صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی موت کو اردو صحافت کا نقصان قرار دیا ہے۔جیلانی خان کی عمر ابھی 50/برس تھی اور ان کے سامنے پورا کیرئیرموجود تھا جسے وہ کامیابی سے مکمل کرتے۔ مگر خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔جیلانی خان پچھلے کچھ عرصے سے موت سے لوہا لے رہے تھے۔گردے اور شوگر سے جڑی بیماریوں نے انھیں نڈھال کر رکھا تھا۔اسپتال،دفتر اور گھر ان کے تین پڑاؤ تھے مگر ان کی قوت ارادی دیکھ کر مجھے یوں لگتا تھا کہ وہ دیرسویر اپنی بیماریوں پر قابو پالیں گے، مگر ایسا نہیں ہوسکا اور وہ جواں عمری ہی میں وہاں چلے گئے جہاں سے کوئی واپس آتا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

جیلانی خان ایک ہنرمند صحافی تھے
جیلانی خان ایک ہنرمند صحافی تھے

جیلانی خان کا تعلق بہار کے گیا شہرسے تھا۔ انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی تھی اور انھیں اپنے ’علیگ‘ہونے پر فخر تھا۔ اسی لیے وہ اپنے نام کے ساتھ’علیگ‘کا لاحقہ ضرور استعمال کرتے تھے۔ انھوں نے علم معاشیات میں ماسٹر کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے باوقار شعبہ تعلقات عامہ سے ماسٹر کیا تھا اور وہ بھی پروفیسر شافع قدوائی کی سرپرستی میں۔ اس شعبہ کا ذریعہ تعلیم انگریزی ہے اور یہاں سے فارغ ہونے والے طلبہ عموماً انگریزی صحافت کا رخ کرتے ہیں۔ انگریزی کے کئی نامی گرامی صحافی اسی شعبے سے فارغ ہیں، مگر جیلانی خان نے انگریزی صحافت کا رخ کرنے کی بجائے اردو صحافت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا۔عام طورپراردو صحافت سے وابستہ ہونے والے نوجوان ایسی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے مالک نہیں ہوتے جیساکہ جیلانی خان تھے۔ معاشیات میں ماسٹر کرنے کی وجہ سے معاشی امور پر بھی ان مضبوط گرفت تھی، جو اردو صحافت کا ایک تشنہ شعبہ ہے۔وہ معاشیات کی اچھی سمجھ رکھتے تھے اور اس کا عکس ان کی تحریروں میں بھی نظر آتا تھا۔

 جیلانی خان نے اردو صحافت میں اپنا سفر روزنامہ ’راشٹریہ سہارا‘ سے شروع کیا تھا۔ میری ان سے پہلی ملاقات اب سے کوئی پندرہ برس پہلے حیدرآبادکی عالمی اردو ایڈیٹرس کانفرنس میں ہوئی تھی جس میں ملک کے تمام بڑے اردو صحافیوں کے علاوہ پاکستان سے محمودشام اور سہیل وڑائچ بھی شریک تھے۔ اس کانفرنس کا اہتمام روزنامہ ’سیاست‘ نے کیا تھا۔ وہیں مجھے جیلانی خان بھی ملے۔ وہ اس وقت ’راشٹریہ سہارا‘ کے حیدرآباد ایڈیشن کے انچارج تھے۔ ایک نستعلیق اور باصلاحیت نوجوان سے مل کر مجھے خوشی ہوئی۔پھر ان سے ایک رشتہ قائم ہوا جو بدستور قائم رہا۔2016 میں انھوں نے ’راشٹریہ سہارا‘ چھوڑ کر روزنامہ ’انقلاب‘ سے وابستگی اختیار کی اور اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر اس کے لکھنؤ ایڈیشن کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر بنائے گئے۔یہاں بھی انھوں نے اپنی صلاحیتوں کے نقوش چھوڑے۔لیکن اس بیچ صحت کے مسائل نے انھیں آگھیرا۔ وہ جب بھی صحت مند ہوتے ’انقلاب‘ کے لیے اپنا کالم ضرور لکھتے تھے۔ ان کی تحریروں میں جاذبیت اور آگاہی کا ہنر تھا۔

میں جب بھی لکھنؤ جاتا تو کہیں نہ کہیں ان سے ملاقات ہوجاتی تھی۔بڑی محبت سے ملتے تھے۔پھر ان کی بیماریوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ بہت کمزور بھی ہوگئے تھے۔ بیماری کے دوران آپریشن بھی ہوااورکئی دشوار مراحل سے گزرے، لیکن مجھے اتنی جلدی ان کے رخصت ہونے کا یقین نہیں تھا۔ ان کی بیماری کے دوران’انقلاب‘کے ایڈیٹر برادرم ودود ساجد نے ان کا خاص خیال رکھا اور انھیں علاج کی سہولتیں بھی فراہم کیں۔اردو اداروں میں ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کسی کو لمبی بیماری کے دوران تنخواہ دی جائے مگر ’انقلاب‘ سے وابستگی کے دوران وہ جتنے دن بھی صاحب فراش رہے انھیں مسلسل تنخواہ ملتی رہی۔البتہ انھیں اس بات کا قلق تھا کہ صحت کے دنوں میں جو لوگ ان کے اردگردرہا کرتے تھے انھوں نے بیماری کے دوران ان سے منہ موڑ لیا تھا۔موت برحق ہے اور ہم سب کو اس کا مزہ چکھنا ہے۔لیکن جب کسی باصلاحیت اور باشعورنوجوان کی موت ہوتی ہے تو غم کچھ زیادہ ہی ہوجاتا ہے۔یہی کیفیت جیلانی خان کے انتقال کے بعد بھی ہے۔ایسی ہرموت پرمجھے غالب کا وہ مصرعہ یاد آتا ہے جو انھوں نے اپنے جواں سال بھتیجے عارف کی موت پر کہا تھا

اے فلک پیر عارف ابھی جوان تھا

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare