حسن ضیاء : شرافت،صحافت اور وکالت

معصوم مرادآبادی

حسن ضیاء کی پیدائش مصحفی کے شہر امروہہ میں ہوئی۔ سرسید کی قایم کی ہوئی دانش گاہ میں انھوں نے تعلیم پائی اور غالب کی دلی میں سرکاری ملازمت کرتے ہوئے عمر گنوائی۔ والدین ڈاکٹر یا بڑا افسر بنانا چاہتے تھے، لیکن ان کے دل میں کچھ اور ہی سمائی ہوئی تھی۔وہ صحافی بننا چاہتے تھے۔صحافی تو وہ بنے مگر سرکاری صحافی، جہاں سچ بولنے کی گنجائش آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے۔ ان کی خوش قسمتی یہ رہی کہ ادبی صحافت ان کے حصے میں آئی، جہاں سچ صرف مراسلات کے کالم میں شائع ہوتا ہے۔انھوں نے اسی کرسی پر بیٹھ کر اپنے عہد کے سب سے بڑے ادبی رسالے ماہنامہ ”آجکل“ کی ادارت کی جس پر کبھی جوش ملیح آبادی بیٹھاکرتے تھے۔ مسئلہ اس وقت کھڑا ہوا جب انھیں یہاں اداریہ لکھنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔اس سے پہلے انھوں نے ادارئیے پڑھے ضرور تھے، لیکن لکھنے کی نوبت نہیں آئی تھی۔ اسی لیے شروع میں ان پر گھبراہٹ طاری ہوئی، جس کا ذکر انھوں نے اپنی تازہ کتاب ”اردو صحافت اور ادب“ کے ابتدائیہ میں کچھ یوں کیا ہے:

حسن ضیاء : شرافت،صحافت اور وکالت
حسن ضیاء : شرافت،صحافت اور وکالت

ماہنامہ ”آج کل“ کی ادارت کا چارج جب مجھے ملا تو ایک مشکل یہ پیش آئی کہ اداریہ بھی لکھنا تھا۔ میں نے سوچا اداریہ لکھنا تو نجی اخباروں میں زیادہ موزوں ہے، سرکاری رسالہ تو سرکاری پالیسی کی حدبندیوں میں محدود ہے۔ یہاں کیا اداریہ لکھوں؟ اگر میں نے اپنی حدود سے تجاوز کیا تو بازپرس ہوگی۔ اپنی نوکری بھی عزیز تھی۔ زمینداری تو قصہ پارینہ تھی۔ نوکری کے علاوہ کچھ اور کام دھندہ نہیں تھا اور اگر سرکاری اداریہ لکھوں گا تو مشہور صحافی اور کالم نگار خشونت سنگھ کے یہ جملے یاد آجاتے تھے کہ ”میرے پاس جب بھی کوئی سرکاری رسالہ یا تشہیری مواد آتا ہے تو میں اسے کھولے بغیر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیتا ہوں۔“یعنی میں بھی ملک میں ردّی کی پیداوار بڑھاؤں گا۔“

حسن ضیاء کی خوش قسمتی یہ تھی کہ وہ جس ادبی رسالے کے ایڈیٹر بنے تھے، اسے ردی کی ٹوکری میں ڈالنے کی بجائے لوگ اپنی اسٹڈی میں سنبھال کررکھتے تھے اور جستہ جستہ اس کی قرات کرتے تھے۔حسن ضیاء کی ادارت کے دوران ماہنامہ ’آجکل‘کا قد اتنا بلند ہواکہ ان کی سبکدوشی کے بعد حکومت کو ’آجکل‘ کا سائز گھٹاکر آدھا کرناپڑا۔حسن ضیاء جب تک ’آجکل‘ کے ایڈیٹر رہے، اس کی شان سلامت رہی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کا اپنا پس منظر علمی و ادبی تھا۔

ماہنامہ”آج کل“ کے ایڈیٹر کے طورپر ان کی پرفارمنس ایسی تھی جیسی کہ اکثرناک دار ایڈیٹروں کی ہوتی ہے۔یعنی وہ اپنی ناک تو کیا قلم پر بھی مکھی نہیں بیٹھنے دیتے تھے۔ انھوں نے ’آجکل‘کے ایڈیٹر کی کرسی پر بیٹھ کر وہی کچھ ایڈٹ کیا جو ایڈیٹنگ کے قابل تھا، باقی سب وہاں رکھی ہوئی ڈسٹ پن کی نذر کردیا۔ ان کی ادارت کی زد میں آنے والے مضامین میں ہمارے بھی کئی مضامین شامل تھے۔ حالانکہ وہ ہمارے برسوں پرانے دوست ہیں، لیکن انھوں نے معیار سے کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیااور اپنے دور ادارت میں ’آج کل‘ کو خوب سے خوب تربنایا۔ جس زمانے میں وہ ’آج کل‘ کی ادارت کررہے تھے تو سرکار نے ان کے کام کرنے کی صلاحیت کو دیکھ کر ان پر ”روزگار سماچار‘‘کے ایڈیٹر کی اضافی ذمہ داری بھی ڈال رکھی تھی۔ اس طرح ان کا ایک پاؤں ’آج کل‘ کے دفتر میں تو دوسرا ’روزگار سماچار‘ کے دفتر میں ہوتا تھا۔ بے چاری نرگس ان کا باقی کام نپٹاتی تھی۔

حسن ضیاء کو پہلے پہل 90کی دہائی میں پی آئی بی کے اردو شعبہ میں دیکھا تھا، جہاں اکثر ہمارا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ہم نے دیکھا کہ ایک نوجوان کونے میں بیٹھا ہوا سرجھکائے اپنے کام میں مگن ہے۔ ہماری توجہ ان کی طرف اس لیے گئی کہ سرکاری دفتروں میں عام طورپر لوگ اتنے انہماک سے کام نہیں کرتے بلکہ بیشتر وقت گپ بازی یا چائے پینے میں گزارتے ہیں، لیکن حسن ضیاء کا معاملہ یہ تھا کہ وہ ہر وقت اپنے کام میں مصروف رہا کرتے تھے۔ جب ہم نے ان کے بارے میں معلوم کیا تو پتہ چلا کہ علی گڑھ سے بی ایس سی اور ایل ایل بی کرکے آئے ہیں۔ مگر ان کا کام ان کی ڈگریوں سے مختلف تھا۔ یہاں وہ اردو اخبارات کے لیے انگریزی سے ترجمہ کرکے خام مال تیار کرتے تھے اور اردو اخباروں کے اداریوں کو انگریزی میں ترجمہ کرکے سرکار کے اعلیٰ افسران کو بھیجا کرتے تھے۔ یہ ان کے طبعی میلان کا کام تھا، کیونکہ صحافت کا چسکا انھیں طالب علمی کے دوران ہی لگ گیا تھا۔ علی گڑھ میں دوران تعلیم ہی وہ ”علی گڑھ میگزین“ کے ایڈیٹر بن گئے تھے جو انگریزی میں شائع ہوتا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے کانپور کے روزنامہ ”سیاست جدید“ کے لیے نامہ نگاری کے فرائض انجام دئیے۔اس کے ساتھ ہی اپنی اردو اور انگریزی کو مزید درست کرنے کے لیے انھوں نے دونوں زبانوں میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ حالانکہ اردو اور انگریزی کی تعلیم انھیں گھر میں ملی تھی۔ ان کے والد سید حسن وفا نقوی امروہہ کے امام المدارس کالج کے لیکچرر تھے اور ان کی والدہ صفیہ سلطانہ رضوی آل احمد گرلز کالج کی پرنسپل تھیں۔ حسن ضیاء کی ابتدائی تعلیم ان ہی دونوں درس گاہوں میں ہوئی۔ نہایت مہذب والدین کی تربیت کا ان پر یہ اثر ہواکہ وہ شرافت اور شائستگی کا پیکر بن گئے۔مجھے ہمیشہ ان کی صحافت سے زیادہ شرافت نے متاثر کیا۔ حالانکہ شرافت کے بارے میں برسوں پہلے کسی شاعر نے کہا تھا۔

ہے عجب چیز یہ شرافت بھی

اس میں شر بھی ہے اور آفت بھی

حقیقت یہی ہے کہ حسن ضیاء ایک شریف النفس انسان ہیں۔ ان کی شرافت کا اندازہ آپ اس بات سے بھی لگاسکتے ہیں کہ وہ جب یوروپ کے سفر پر گئے تو اپنی اہلیہ کو بھی ساتھ لے گئے۔ حالانکہ اس قسم کے سفر لوگ ہمیشہ تنہا کرتے ہیں تاکہ قدرت کی بوقلمونیوں سے تنہا لطف اندوز ہوسکیں۔یہ حسن ضیاء کی تربیت کا اثر تھا۔ انھوں نے اپنی تعلیم وتربیت کے بارے میں لکھا ہے:

”میری پیدائش ایسے گھر میں ہوئی جہاں ہوش سنبھالا تو خود کو کتابوں، رسالوں اور اخبارات سے گھرا ہوا پایا کیونکہ کتابیں، ڈکشنریاں، اخبارورسائل پڑھنے اور جمع کرنے اور صحیح انگریزی لکھنے کی مہارت حاصل کرنے کی مسلسل جدوجہد اور اپنے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ کرنے کا والد صاحب کو جنون کی حدتک شوق تھا۔ علم ومعلومات کے اس ذخیرے میں سے ہم کتنا پڑھ پائے، کتنا سمجھ پائے، علمی ذخائر سے ہم کتنا استفادہ کرپائے اس بارے میں کوئی بڑا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا۔ اپنی قابلیت، علمیت، ژرف نگاہی، صلاحیت اور معلومات کے دائرے کے تعلق سے میں خود مشکوک رہا ہوں، لہٰذا دوسروں سے اس بارے میں کسی اعتراف کی امید کم ہی رکھی۔“

حسن ضیاء اپنی صلاحیتوں کے بارے میں مشکوک بھلے ہی ہوں مگرہم بالکل نہیں ہیں۔ یہ ان کی سادگی اور معصومیت ہی تو ہے کہ وہ سب کچھ ہونے کے باوجود نہ ہونے کا اعلان کررہے ہیں۔ میں جب کبھی حسن ضیاء سے ملتا ہوں تو مجھے گزرے زمانے کے وہ شریف لوگ یاد آتے ہیں، جن کے قصے یاتو ہم نے کتابوں میں پڑھے ہیں یا پھر بزرگوں کی زبانی سنے ہیں۔ وہ نہایت نستعلیق اور نپے تلے قسم کے انسان ہیں۔ خود کم بولتے ہیں اور سنتے زیادہ ہیں۔ حالانکہ وہ سنی مسلمان نہیں ہیں۔ ان کی پیدائش ایک باوقار شیعہ خانوادے میں ہوئی مگریہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کی والدہ سنی تھیں، اس لیے اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کہ حسن ضیاء شیعہ سنی اتحاد کاایک نادر نمونہ ہیں۔ ان کی طبیعت میں شیعوں اور سنیوں کے اعلیٰ خاندانوں کی بوباس ہے۔ سنجیدگی اور متانت ان کی اضافی خصوصیات ہیں۔ جب بھی ملتے ہیں بڑے تپاک سے ملتے ہیں۔ اپنے آپ سے زیادہ اپنے مخاطب کو اہمیت دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ ایک ایسی صفت ہے جو موجودہ زمانے میں سب سے زیادہ معدوم ہے۔ ہنسنے کی بجائے ہمیشہ مسکرانے کو ترجیح دیتے ہیں اور جب کوئی ان کی ذات کے بارے میں گفتگو کرتا ہے تو موضوع بدل دیتے ہیں۔ یہ بھی ان کا ایک ہنر ہے۔

حسن ضیاء نے 1986میں یوپی ایس سی کا امتحان پاس کیا اور سینٹرل انفارمیشن سروس کے لیے منتخب ہوکرپریس انفارمیشن بیوروسے اپنا کیریر شروع کیا، جہاں وہ 1998تک برسرکار رہے۔ بعدازاں ’سینک سماچار‘، ’روزگار سماچار‘،’ایمپلامنٹ نیوز‘اور ماہنامہ ’یوجنا‘ جیسے سرکاری جریدوں کی ادارت کی۔ ان کا اصل ہنر ماہنامہ ”آج کل‘‘ میں کھلا۔ اپنی34سالہ سرکاری خدمات کے بعد انھوں نے ریٹارمنٹ کی زندگی گزارنا گوارا نہیں کیا اور علی گڑھ سے حاصل کی ہوئی اپنی ایل ایل بی کی ڈگری جھاڑ پونچھ کر نکالی اور دہلی ہائی کورٹ میں وکالت شروع کردی۔ اب جو میں ان کا خاکہ لکھنے بیٹھا ہوں تو ڈر یہ ہے کہ کہیں وہ مجھ پر ہتک عزت کا مقدمہ قائم نہ کردیں۔ وکیلوں کے لیے یہ کام بہت آسان ہوتا ہے کیونکہ اس کے لیے انھیں کوئی فیس نہیں دینی پڑتی۔اس لیے اس خاکے کو یہیں تمام کرتا ہوں۔

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare