حضرت نظام الدین اولیاءؒ کی حیات اور افکار
شمس آغاز
برصغیر کی روحانی تاریخ میں کچھ ایسی عظیم المرتبت شخصیات گزری ہیں جنہوں نے اپنے کردار، اخلاق، اور تعلیمات کے ذریعے انسانیت کے دلوں میں محبت، رواداری، اور اخوت کے چراغ روشن کیے۔ ان میں سب سے نمایاں نام حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ کا ہے، جنہیں ’’محبوبِ الٰہی‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ نہ صرف چشتی سلسلہ کے ایک عظیم بزرگ تھے بلکہ برصغیر میں صوفیانہ فکر، اسلامی تعلیمات، انسانی مساوات، اور امن و محبت کے فروغ کے سب سے روشن میناروں میں سے ایک ہیں۔
حضرت نظام الدین اولیاءؒ کی تعلیمات محض مذہبی حدود تک محدود نہیں رہیں بلکہ انہوں نے معاشرتی، اخلاقی، اور انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کو اپنے دائرۂ فکر میں شامل کیا۔ ان کی خانقاہ میں کسی مذہب، ذات یا طبقہ کی تفریق نہیں تھی۔ ہر آنے والا انسان ایک جیسا سمجھا جاتا، اور ہر کسی کے لیے محبت و احترام کا پیغام دیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ آج سات سو سال گزر جانے کے باوجود دہلی میں واقع ان کا دربار آج بھی عقیدت، محبت اور روحانیت کا مرکز ہے۔

حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ کا تعارف اور خاندانی پس منظر
حضرت نظام الدین اولیاءؒ کا اصل نام محمد بن احمد بن علی بدایونی تھا۔ آپ 1238ء (635ھ) میں بدایوں (اتر پردیش) میں پیدا ہوئے۔ آپ کا خاندان علمی اور دینی حیثیت سے ممتاز تھا۔ آپ کے والد حضرت سید عبداللہ بن احمد الحسینی بدایونیؒ ایک نیک دل اور علم دوست شخصیت تھے، جنہوں نے اپنے بیٹے کی تعلیم و تربیت میں کوئی کمی نہ چھوڑی۔ آپ کی والدہ محترمہ بی بی زلیخا ایک عبادت گزار، متقی، اور صابر خاتون تھیں جنہوں نے آپ کی تربیت میں روحانی رنگ بھرا۔
بچپن ہی سے آپ کے اندر روحانی رجحان نمایاں تھا۔ دنیاوی لذتوں سے بے نیازی، عبادت سے شغف، اور دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہونے کی عادت آپ میں کم عمری سے ہی پائی جاتی تھی۔ جب آپ کے والد کا انتقال ہوا تو آپ کی والدہ نے بڑی صبر و استقامت سے آپ کی پرورش کی اور علم و معرفت کی راہ میں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا۔
تعلیم و تربیت
حضرت نظام الدین اولیاءؒ نے ابتدائی تعلیم بدایوں میں حاصل کی۔ قرآن مجید، فقہ، حدیث، اور تفسیر کے علاوہ آپ نے منطق و فلسفہ کی تعلیم بھی حاصل کی۔ بعد ازاں آپ دہلی تشریف لائے، جہاں آپ نے معروف علما سے اکتسابِ علم کیا۔ دہلی اس وقت علم و عرفان کا مرکز تھی، اور یہاں آنے سے آپ کے روحانی سفر نے نیا موڑ لیا۔اسی دوران آپ کی ملاقات حضرت بابا فرید الدین گنجِ شکرؒ سے ہوئی۔ آپ نے ان کے دستِ حق پر بیعت کی اور سلسلۂ چشتیہ میں شامل ہوئے۔ یہی وہ لمحہ تھا جس نے آپ کی زندگی کا رخ دنیا سے ہٹا کر تصوف و روحانیت کی راہ پر ڈال دیا۔
سلسلۂ چشتیہ اور آپ کا روحانی مقام
حضرت نظام الدین اولیاءؒ، سلسلۂ چشتیہ کے چوتھے بڑے پیشوا ہیں۔یہ سلسلہ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ (اجمیر شریف) سے شروع ہوا، پھر حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ، اس کے بعد حضرت فرید الدین گنج شکرؒ، اور پھر حضرت نظام الدین اولیاءؒ تک پہنچا۔چشتی سلسلہ کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں محبت، خدمتِ خلق، اور انسان دوستی کو بنیادی اہمیت دی جاتی تھی۔ اس کے بزرگوں نے ہمیشہ حکمرانوں سے دوری اختیار کی، تاکہ ان کی خانقاہیں خالص روحانی مراکز رہیں۔ حضرت نظام الدین اولیاءؒ نے بھی اسی روایت کو برقرار رکھا۔
حضرت نظام الدین اولیاءؒ کی تعلیمات کے بنیادی اصول
1۔محبت اور رواداری
حضرت نظام الدین اولیاءؒ کا سب سے نمایاں پیغام محبت تھا۔آپ فرمایا کرتے تھےکہ خدا کے نزدیک سب سے محبوب وہ شخص ہے جو خدا کی مخلوق سے محبت کرے۔آپ نے مذہب، ذات، یا رنگ کی بنیاد پر کسی انسان کو کمتر نہیں سمجھا۔ آپ کی خانقاہ میں ہندو، مسلمان، سکھ، غریب، امیر سب برابر سمجھے جاتے تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ محبت سب سے کرو، بغض کسی سے نہیں۔یہی تعلیمات آگے چل کر حضرت امیر خسروؒ کے کلام میں جھلکتی نظرآتی ہیں، جنہوں نے اپنے مرشد کی فکر کو شاعری کے قالب میں ڈھالا۔
2۔خدمتِ خلق
آپ کا قولِ مبارک ہےکہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا سب سے آسان راستہ اس کی مخلوق کی خدمت ہے۔آپ غریبوں، مسکینوں، یتیموں، اور بیواؤں کی مدد کو عبادت کا درجہ دیتے تھے۔ آپ کی خانقاہ میں روزانہ سینکڑوں لوگوں کو کھانا کھلایا جاتا تھا۔ مشہور ہے کہ آپ فرماتے تھےکہ اگر میرے پاس دو روٹیاں ہوں، تو ایک خود کھاؤں گا اور دوسری کسی بھوکے کو دوں گا۔یہی طرزِ عمل بعد ازاں چشتیہ سلسلہ کی پہچان بن گیا ۔خدمتِ خلق، سادگی، اور عاجزی۔
3۔دنیا سے بے رغبتی
حضرت نظام الدین اولیاءؒ دنیاوی جاہ و حشمت سے ہمیشہ دور رہے۔ آپ بادشاہوں کے دربار میں جانا پسند نہیں کرتے تھے۔ایک بار سلطان علاؤالدین خلجی نے آپ کو دعوت دی، مگر آپ نے جانے سے انکار کر دیا۔ فرمایاکہدو دروازے ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتے؛ اگر دل میں خدا کا در ہے تو دنیا کے در کے لیے جگہ نہیں۔یہی بے نیازی آپ کی روحانیت کا سب سے روشن پہلو تھا۔
4۔توکل علی اللہ اور صبر
آپ ہمیشہ توکل اور صبر کی تلقین فرماتے۔فرماتے تھےکہ جو شخص اللہ پر بھروسہ رکھتا ہے، وہ کبھی محروم نہیں ہوتا۔ آپ کی خانقاہ میں اکثر لوگ اپنی حاجتیں لے کر آتے، تو آپ اُنہیں دعا اور صبر کا مشورہ دیتے، اور اللہ پر یقین رکھنے کی تلقین فرماتےتھے۔
5۔علم و معرفت
آپ علم کو روحانیت کی بنیاد سمجھتے تھے۔فرماتے تھے کہ علم وہ ہے جو دل کو منور کرے، نہ کہ وہ جو تکبر پیدا کرے۔آپ کے نزدیک علم کا مقصد صرف معلومات حاصل کرنا نہیں بلکہ انسان کے باطن کو پاک کرنا اور اخلاق کو سنوارنا تھا۔
6۔عاجزی و انکساری
حضرت نظام الدین اولیاءؒ کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے تھے۔ کسی کو بڑا یا چھوٹا نہیں سمجھا جاتا تھا۔آپ فرمایا کرتے تھےکہ جس دل میں تکبر ہے، وہ خدا کے نور کو نہیں پا سکتا۔یہی وجہ ہے کہ آپ کی مجلس میں آنے والا ہر شخص اپنے اندر سکون اور قربِ الٰہی کا احساس پاتا۔
7۔ذکر و فکر اور عبادت
آپ کی راتیں عبادت، ذکر، اور مناجات میں گزرتی تھیں۔آپ فرمایا کرتے تھے کہ ذکرِ الٰہی انسان کے دل کو زنگ سے پاک کرتا ہے۔
حضرت امیر خسروؒ لکھتے ہیں کہ میرے مرشد اکثر رات بھر عبادت میں مصروف رہتے، اور صبح فجر سے پہلے قرآن کی تلاوت کرتے۔
حضرت نظام الدین اولیاءؒ اور حضرت امیر خسروؒ کا روحانی تعلق
حضرت امیر خسروؒ، حضرت نظام الدین اولیاءؒ کے سب سے محبوب مریدوں میں سے تھے۔ ان دونوں کے درمیان محبت، عقیدت اور روحانی وابستگی کی ایسی مثال ملتی ہے جو تاریخِ تصوف میں نایاب ہے۔اِن کی صحبت سے تصوف، شاعری، موسیقی اور روحانیت کا ایک ایسا حسین امتزاج پیدا ہوا جس نے برصغیر کی تہذیب، فن اور فکر پر گہرا اور دیرپا اثر ڈالا۔یہی پاکیزہ صحبت قوالی کی ابتدا کا سبب بنی، جو آج دنیا بھر میں روحانی فن کے ایک منفرد انداز کے طور پر جانی جاتی ہے۔امیر خسروؒ نے اپنے مرشد کی محبت میں نہ صرف شاعری کی نئی جہتیں متعارف کروائیں بلکہ ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کو بھی نئی روح بخش ی۔ان کے اشعار، جن میں عشقِ مرشد اور جذبِ الٰہی کی جھلک نمایاں ہے، آج بھی سننے والوں کے دلوں کو گرما دیتے ہیں۔حضرت نظام الدین اولیاءؒ کی خانقاہ میں جو روحانی ماحول تھا، اُس نے امیر خسروؒ کی شخصیت اور فن دونوں کو نکھار دیا۔
حضرت نظام الدین اولیاءؒ کا معاشرتی کردار
آپ نے ایک ایسے وقت میں محبت، امن اور مساوات کا پیغام دیا جب معاشرہ ذات پات، طبقاتی امتیاز اور مذہبی اختلافات میں بٹا ہوا تھا۔آپ کی خانقاہ میں آنے والے ہر شخص کو عزت و احترام دیا جاتا تھا، چاہے وہ کسی بھی مذہب، ذات یا طبقے سے تعلق رکھتا ہو۔آپ فرمایا کرتے تھے کہ انسان کی پہچان اُس کے کردار سے ہے، نہ کہ اُس کے مذہب یا نسب سے۔یہی تعلیم بعد میں ہندوستانی تہذیب کا حصہ بن گئی ۔ایک ایسی تہذیب جو محبت، رواداری اور باہمی احترام پر قائم ہے۔
حضرت نظام الدین اولیاءؒ اور سیاسی حکمران
اگرچہ آپ بادشاہوں کے دربار میں جانا پسند نہیں کرتے تھے، لیکن آپ کے روحانی اثر سے کوئی بادشاہ خالی نہ رہا۔سلطان علاؤالدین خلجی، قطب الدین مبارک شاہ اور غیاث الدین تغلق ،سب آپ کی عظمت اور روحانی مقام کے معترف تھے۔یہ حکمران بارہا آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کے خواہشمند رہے، مگر آپ نے دنیاوی جاہ و حشم سے ہمیشہ کنارہ کشی اختیار کیے رکھی۔آپ فرمایا کرتے تھےکہ فقیر کا مقام بادشاہوں کے دربار سے بلند ہے، کیونکہ وہ دلوں پر حکومت کرتا ہے۔آپ کی زندگی نے یہ ثابت کیا کہ حقیقی عظمت دنیاوی اقتدار میں نہیں، بلکہ دلوں پر حکمرانی میں ہے۔
حضرت نظام الدین اولیاءؒ کی خانقاہ اور سماجی نظام
آپ کی خانقاہ صرف عبادت کا مرکز نہیں تھی، بلکہ ایک مکمل سماجی اور روحانی نظام کا نمونہ تھی۔یہاں علم سکھایا جاتا، لنگر جاری رہتا، غریبوں کو کپڑے دیے جاتے اور محتاجوں کے علاج کا بندوبست بھی کیا جاتا۔آپ نے خانقاہ کو ایک روحانی یونیورسٹی کی صورت دی، جہاں محبت، اخلاق، خدمتِ خلق اور قربِ الٰہی کا درس دیا جاتا تھا۔یہاں نہ کوئی ذات دیکھی جاتی، نہ مذہب۔ہر شخص کو انسان ہونے کی بنیاد پر عزت ملتی۔آپ کی خانقاہ دراصل ایک ایسی سماجی پناہ گاہ تھی جہاں زخم خوردہ دلوں کو سکون، علم کے متلاشیوں کو رہنمائی، اور بھٹکے ہوؤں کو منزل ملا کرتی تھی۔
وفات اور مزارِ مبارک
حضرت نظام الدین اولیاءؒ نے 3 اپریل 1325ء (18 ربیع الثانی 725ھ) کو وصال فرمایا۔آپ کا مزار دہلی کے قلب میں واقع بستی نظام الدین میں ہے، جہاں ہر مذہب اور ملت سے تعلق رکھنے والے لوگ آج بھی عقیدت و احترام کے ساتھ حاضری دیتے ہیں۔یہ دربار صدیوں سے امن، محبت اور روحانیت کی خوشبو بکھیر رہا ہے، اور لاکھوں دلوں کے لیے ہدایت، سکون اور برکت کا مرکز بنا ہوا ہے۔آپ کی درگاہ صرف ایک مزار نہیں، بلکہ ایک زندہ روحانی روایت کا استعارہ ہے، جو انسان دوستی، رواداری اور الٰہی محبت کا پیغام دیتی ہے۔
حضرت نظام الدین اولیاءؒ کی تعلیمات برصغیر میں ایک ایسے عہد کی یاد دلاتی ہیں جب مذہب اور انسانیت ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔ان کی زندگی کا مقصد انسانوں کے درمیان محبت، بھائی چارہ، اور امن قائم کرنا تھا۔آج کے انتشار اور نفرت کے دور میں، اگر ہم حضرت نظام الدین اولیاءؒ کی تعلیمات کو اپنائیں تو معاشرہ امن، ہم آہنگی، اور روحانی سکون کا گہوارہ بن سکتا ہے۔